آسان اُردو— ہماری قومی مشکل

اردو صرف حکومتِ پاکستان یا اس کے اقتدار سے وابستہ لوگوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری قومی زبان ہے۔

اردو صرف حکومتِ پاکستان یا اس کے اقتدار سے وابستہ لوگوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ فوٹو: فائل

WASHINGTON:
سوال تو یہ پرانا ہے۔

ابھی سے نہیں، یعنی بہت دن سے یہ مسئلہ چل رہا ہے، اور لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے الجھن کا سبب بنتا رہا ہے، لیکن ہم اس کا کوئی حل نہیں نکال پارہے۔ ان دنوں ایک بار پھر یہ مسئلہ یک بہ یک نئے سرے سے تازہ ہوگیا ہے۔

ذرا دیکھیے تو کہ یہ تازہ بھی کہاں ہوا ہے؟ ہمارے نئے وزیرِاعظم کی حلف برداری کی تقریب میں۔ بھلا کیسے؟ ایسے کہ وزیرِاعظم صاحب بغیر کسی تیاری کے حلف اٹھانے کھڑے ہوگئے اور صدر صاحب کے حلفیہ کلمات پڑھنے کے باوجود اُن کو ادا کرتے ہوئے دو تین بار لڑکھڑا گئے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کی زبان اردو الفاظ سے چوںکہ پوری طرح مانوس نہیں ہے، اس لیے ان سے عبارت کو دہرانے میں لغزش ہوئی۔

یہ اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ گذشتہ پانچ برسوں کوئی دو چار بار نہیں، بلکہ درجنوں ہی دفعہ عوامی جلسوں میں انھیں اردو میں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا ہے۔ اور پھر یہ کہ وہ گلابی اردو بھی نہیں بولتے۔ اچھی خاصی، سیدھی اور صاف زبان میں بات کرتے ہیں۔ پھر حلف برداری کی تقریب میں بھلا ایسا کیوں ہوا؟

ظاہر ہے، اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔ چلیے اُس پر ذرا بعد میں بات کرتے ہیں۔ اب جہاں تک حلف برداری کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے ہماری رائے میں ہونا یہ چاہیے کہ وہ عبارت جو انھیں حلف اٹھاتے ہوئے پڑھنی ہے، کم سے کم ایک دن پہلے نومنتخب وزیرِاعظم کو ایک آدمی کے ساتھ لازمی طور سے بھجوا دی جائے۔

وہ آدمی دوچار بار ان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوادے، تاکہ وہ تقریب میں کسی الجھن کے بغیر اور پورے اعتماد کے ساتھ حلف اٹھا سکیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہی گئی ہے۔ بہت سے ممالک میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصب پر فائز ہونے والے لوگ ایسی کسی رسمی کارروائی میں شرکت کے لیے جاتے ہیں تو اُن کو اس کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ بعض مواقع پر انھیں ٹھیک سے ریہرسل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سو اس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور اس میں قطعاً کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ بہت اچھی اور قابلِ ستائش بات ہے کہ آدمی ضروری تیاری کے بعد رسمی یا عوامی کارروائی میں شریک ہو۔

خیر تو ہوا یہ کہ اس صورتِ حال پر میڈیا نے فوراً توجہ مرکوز کی، یعنی اللہ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہوا۔ بس پھر کیا تھا، اس تقریب کے بعد جو بات سب سے پہلے اور سب سے زیادہ الیکٹرونک میڈیا کے خبر پڑھنے والے کارکنوں، تبصرہ کرنے والے ماہرین اور پروگرام کی نظامت کرنے والے افراد نے موضوعِ گفتگو بنائی، وہ یہ تھی کہ حلف برداری کی عبارت مشکل تھی، اسی لیے وزیراعظم کو اس کے ادا کرنے میں دقت ہوئی، لہٰذا ضروری ہے کہ اسے آسان بنایا جائے۔ ویسے تو یہ بھی کہا گیا کہ حلف برداری کے نکات میں اضافہ کردیا گیا ہے، عبارت بڑھ گئی ہے وغیرہ، لیکن یہ دوسرا معاملہ ہے۔

اس لیے ہمیں اس سے کچھ ایسی بحث نہیں۔ اگر ایسا کیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ہوگی، ورنہ بھلا کیوں کیا جاتا۔ ویسے بھی اس نوع کے معاملات پر کسی بھی طرح کی رائے کے اظہار سے پہلے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کن لوگوں نے اور کس ضرورت کے تحت ایسا کیا ہے۔

بہرحال، جہاں تک معاملہ ہے اردو کی مشکل کا تو اُس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ صرف ایک شخص (یعنی وزیرِاعظم) کا نہیں ہے، بلکہ الیکٹرونک میڈیا نے جس طرح اس کو پیش کیا، اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سے دوچار ہے۔ لہٰذا اس مسئلے پر عوام کو، یعنی آپ کو اور ہمیں بھی اپنی رائے دینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

اس لیے کہ اردو صرف حکومتِ پاکستان یا اس کے اقتدار سے وابستہ لوگوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ اس لیے قوم کا ہر فرد اس معاملے میں اپنی رائے کے اظہار کا مجاز ہے۔ سچ پوچھیے تو ہم میں سے وہ سب افراد جو قومی امور سے کوئی سروکار یا ذرا سی بھی دل چسپی رکھتے ہیں، انھیں تو لازمی طور سے اس طرح کے معاملات اور مسائل پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ ان مسائل کے بارے میں اگر کسی بھی سطح پر ممکن ہو تو اپنی دو ٹوک رائے کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔

اس لیے کہ قومی زبان یا ایسا ہی کوئی بھی دوسرا معاملہ دراصل ہمارے اجتماعی، یعنی قومی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے، اور مثبت یا منفی کسی نہ کسی صورت میں ہمارے اجتماعی طرزِاحساس یا رویے پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ چناںچہ اس طرح کے معاملات میں ہم سب کو اپنی اپنی جگہ ذمے داری محسوس کرنی چاہیے اور یہ سوچ کر کہ یہ قومی فریضہ ہے، اس کے حوالے سے اپنا کردار کسی تأمل، تکلف، مصلحت یا خوف کے بغیر پورے خلوص سے ادا کرنا چاہیے۔

اب جہاں تک بات ہے حلف کی عبارت کی، سچ پوچھیے تو ہمیں اس میں ایسا کوئی مشکل لفظ نظر نہیں آیا کہ جس کو ادا کرنے سے وہ زبان قاصر ہو جو اردو سے پوری طرح مانوس ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے، اس عبارت کی زبان ویسی سادہ یا عوامی نہیں تھی کہ جیسی ہم اب روز اپنے اردگرد لوگوں کو بولتے ہوئے سنتے ہیں۔ تاہم ایسی بھی ہرگز نہیں تھی کہ اسے بہت ادق کہا جائے۔ ماجرا یہ بھی تو ہے کہ اب ہماری روزمرہ زبان اصل میں اُس زبان سے جسے کبھی شستہ اور شائستہ کہا جاتا تھا، کہیں کوسوں دور آپڑی ہے۔

خیر، فی الحال ہمیں سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بات چیت اور تحریر کی زبان میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ بات چیت میں زبان کے قواعد کا کچھ بہت زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور اس کے باوجود جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، اس کا ابلاغ ہوجاتا ہے۔ تحریر میں، لیکن ایسی کوئی چھوٹ نہیں لی جاسکتی۔ اس لیے کہ قواعد کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں مفہوم بدل سکتا ہے، یا کہنے اور سننے والے دونوں اُس کے بارے میں الگ الگ رائے کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔

اگر ایک شخص کسی سے کہے ''روکو مت جانے دو۔'' تو سننے والا اُس کی بات کو باآسانی سمجھ لے گا۔ اس لیے کہ اُس کی آواز کا اُتار چڑھاؤ، اطراف کی صورتِ حال اور کہنے والے کے تأثرات سب مل کر اس فقرے کے ابلاغ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اب اگر یہی فقرہ ایک صاحب دوسرے کو لکھ کر بھیجیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ آسانی سے یہ جان پائے کہ اُسے کیا کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے سامنے آواز، لہجہ یا صورتِ حال کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کو قواعد کی پابندی کرنے والی زبان یہ سمجھائے گی کہ اُسے کیا کرنا ہے، یعنی:

''روکو، مت جانے دو۔''

یا پھر


''روکو مت، جانے دو۔''

یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ تحریری زبان کسی قدر رسمی لہجہ بھی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر شادی کے دعوت نامے میں آپ کو یہ نہیں لکھ کر بھیجا جاتا کہ نکاح کے بعد آپ کھانا بھی کھائیے گا، بلکہ ''ماحضر تناول فرمانے'' کی درخواست کی جاتی ہے۔ یہ اصل میں بات چیت اور تحریر کی زبان کا فرق ہے، یعنی تحریر کا اسلوب ذرا رسمی یا رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے۔

یہ تحریر کے ادب آداب کا معاملہ ہے۔ تیسری بات یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ رسمی کارروائی جن معاملات میں ہوتی ہے، اُن میں بیانیہ بھی قدرے سنجیدہ اور رسمی نوعیت ہی کا ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ آپ ساری دنیا میں ایسا ہی دیکھیں گے۔

اب آئیے اس معاملے کے دوسرے رُخ پر۔ ہماری رائے یہ ہے کہ حقیقتاً بات ایسی نہیں تھی کہ اسے یوں اچھالا جاتا۔ تاہم مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ اور دوسرے بہت سے سماجی معاملات، قومی امور اور تہذیبی و اخلاقی مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی ذہنی تشکیل اور فیصلہ سازی کا کام خود الیکٹرونک میڈیا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ یہ سب کچھ پوری خود مختاری سے کررہا ہے۔

مثال کے طور پر آپ اسی معاملے کو دیکھ لیجیے۔ یہ میڈیا ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ حلف کی عبارت کی زبان مشکل تھی اور ہم، یعنی سارا معاشرہ میڈیا کی اس رائے کو فیصلے کے طور پر قبول کررہا ہے، بلکہ ہم لوگ اپنی گفتگو کے ذریعے اس رائے کو دوسروں تک پہنچا بھی رہے ہیں۔

الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ذمے دار افراد یا ایسے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے جو زبان و ادب کے حوالے سے کام کررہے ہیں اور ملک کے معروف اسکالرز، ادیبوں اور شاعروں میں سے کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ الیکٹرونک میڈیا کی اس رائے پر غور کرے اور اس سلسلے میں اگر اس کا مؤقف کچھ اور ہے تو اس کا اظہار کرے۔ لہٰذا اب اس خاموشی سے تو یہی تأثر ملتا ہے کہ میڈیا نے جو کہا ہے، وہ درست ہی کہا ہے۔

کیا واقعی ایسا ہے کہ میڈیا نے جو کچھ کہا اور کیا، وہ درست ہے؟ اس فیصلے کے لیے ہمیں ذرا چند ایک سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا نے قومی زبان میں حلف کی اُس مختصر سی عبارت کے بارے میں جس رائے کو پھیلایا ہے، کیا وہ اُس کو پھیلانے کا اختیار بھی رکھتا ہے یا نہیں؟

دوسرا سوال، یہ رائے قائم کرنے کے لیے کیا اُس کے پاس ایسے اہلِ زبان، اساتذہ یا ماہرینِ لسانیات ہیں کہ جن کی سند پر وہ عامۃ الناس میں اس رائے کو عام کرے؟ تیسرا سوال، کیا کسی ایک فرد (خواہ وہ وزیرِاعظم ہو یا کوئی اور شخص) کے سہوِ زبان کی وجہ سے فی الفور یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کسی سرکاری دستاویز کی کوئی عبارت (جب کہ وہ قومی زبان میں ہو) مشکل ہے؟ چوتھا سوال، کیا اس طرح کے تأثرات کو عام کرنا دراصل قومی زبان کے فروغ اور استحکام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف نہیں؟ پانچواں سوال، کیا اس قسم کے غیر محتاط اور بے جواز بیانات قومی زبان کی بے توقیری کے زمرے میں نہیں آتے؟

یہ سوالات ہم سے کسی بہت گہری اور فلسفیانہ قسم کی سوچ بچار کا تقاضا نہیں کرتے۔ محض سامنے کی باتیں ہیں، جن پر ہمیں آزادی سے سوچنا اور رائے دینا ہے۔ البتہ ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ ہم جو کچھ بھی رائے دیں، اپنی اجتماعی صورتِ حال اور قومی مفاد کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دیں۔ اس لیے کہ یہ میڈیا کا روزمرہ غل غپاڑہ نہیں ہے، بلکہ ایک اہم اور سنجیدہ قومی مسئلہ ہے، اور یہ انھی امور میں سے ہے افرادِ معاشرہ کی رائے اہمیت رکھتی ہے، یعنی جن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ:

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اب اگر ذرا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اس معاملے، بلکہ ایسے ہر معاملے کے پس منظر میں جو تصور اصل کردار ادا کرتا ہے، وہ میڈیا کی آزادی کا ہے۔ ہمارے یہاں اس آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی سمجھ لیا گیا ہے جو کہ ظاہر ہے، درست نہیں ہے، اور اصولِ حقیقت کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے کہ مطلق آزادی کوئی شے نہیں ہوتی، بلکہ ہر آزادی کے کچھ حدود اور کچھ ضوابط ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو آزادی پھر جنگل کا قانون بن جاتی ہے۔ آزادی کے حدود اور ضوابط ہی اسے اجتماعی اور تہذیبی قدر بناتے ہیں اور وہ معاشرے کے سب افراد کے لیے بلاتفریق سماجی مساوات اور انفرادی حقوق کی ضامن بنتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آزادیِ رائے کا معاملہ ایک ایسا مہلک ہتھیار بن چکا ہے کہ جسے سماجی ذمے داری، قومی شعور اور تہذیبی احساس کے بغیر مسلسل بے دریغ استعمال کرنے کو معمول بنالیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ ویسے تو دوسرے سماجی اداروں اور قومی ذرائع کے حوالے سے بھی سامنے آتا ہے، لیکن میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا پر تو صورتِ حال بہت ہی تشویش ناک ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی سوال اٹھاتا یا بات کرتا ہوا اوّل تو نظر ہی نہیں آتا، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے افراد میں لاتعلقی اور بے پروائی کا رویہ پھیلتا چلا رہا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اگر کوئی شخص بات بھی کرے تو لوگ اُس پر کان ہی نہیں دھرتے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اب سب ہی نے تسلیم کرلیا ہے کہ جو ہورہا ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس لیے کسی جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

اب ذرا الیکٹرونک میڈیا کو دیکھ لیجیے۔ اس نے ہمارے یہاں گزشتہ پندرہ برسوں میں فروغ پایا ہے اور اس کی بے محابا آزادی جنرل پرویز مشرف کے زمانے کی دین ہے۔ جی ہاں، یہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں میڈیا کو وہ آزادی دی جس کا اس سے پہلے ہمارے یہاں کوئی تصور نہیں تھا۔ اُن سے پہلے جتنے جنرل اقتدار میں آئے تھے، انھوں نے ذرائع ابلاغ کو پوری طرح قابو میں رکھا تھا۔ ایک تو خیر یہ کہ اس زمانے میں کوئی پرائیویٹ چینل ہی نہیں تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو دونوں سرکاری ادارے تھے، لیکن اخبارات تو نجی ملکیت میں تھے، مگر مارشل لا حکومت انھیں پوری طرح کنٹرول کرتی تھی۔ یہ عالم تھا کہ اخبارات کے پہلے صفحے پر لگی ہوئی خبریں نکال دی جاتی تھیں۔

اس صداقت کا اعتراف دیانت داری سے اور کھلے لفظوں میں کیا جانا چاہیے کہ گذشتہ مارشل لا ادوار میں ہماری صحافی برادری (جن کا تعلق نجی اخبارات و رسائل سے تھا) نے اپنے حقِ اظہار کی آزادی کے لیے سپاہیوں اور مجاہدوں کی طرح جنگ لڑی ہے۔ ہمارے یہاں ضمیر نیازی (صحافت پابندِ سلاسل) اور احفاظ الرحمن (سب سے بڑی جنگ) جیسے حوصلہ مند اور کمیٹڈ حضرات کی کتابیں خاص طور سے صحافیوں اور ان کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ کی گراں قدر دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story