پاکستان چیمپئنز ٹرافی کو شوکیس کی زینت بنانے کیلیے پُرعزم
پاکستان آخری چیمپئنز ٹرافی کو اولین فتح کے ذریعے یادگار بنا سکتا ہے۔
21جون 2009کا دن کوئی پاکستانی کرکٹ شائق فراموش نہیں کر سکتا،اب بھی اگر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی فتح کا تصور کیا جائے تو ذہن میں وہ منظر فلم کی طرح چلنے لگتا ہے جب ہدف عبور ہونے پر شاہد آفریدی نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے، ٹرافی تھام کر کپتان یونس خان کی مسکراہٹ بھی سب ہی کو یاد ہو گی۔
اسی انگلش سرزمین پر اگلے برس سلمان بٹ، محمد آصف اور عامر نے اسپاٹ فکسنگ کر کے قوم کے سر شرم سے جھکا دیے، ہم وہ منظر بھی نہیں بھول سکتے جب ہمارے تینوں کھلاڑیوں کو پولیس وین میں جیل بھیجا جا رہا تھا، یوں انگلینڈ سے پاکستان کی خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں ہی یادیں جڑی ہوئی ہیں، اب ہماری ٹیم چیمپئنز ٹرافی کو شوکیس کی زینت بنانے کا عزم لیے ایک بار پھروہاں ڈیرے ڈال چکی ہے، ان دنوں بھارت اور سری لنکا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا شکار ہیں، بنگلہ دیش میں بھی صورتحال مختلف نہیں مگر وہ اس ایونٹ میں شریک نہیں ہے، دنیا کی بیشتر ٹیموں کے پلیئرز آئی پی ایل میں حصہ لے کر انگلش سرزمین پر پہنچے ہیں،اس کا انھیں فائدہ ہو گا لیکن ساتھ کچھ تھکاوٹ بھی محسوس ہو سکتی ہے، پاکستانی پلیئرز گذشتہ کچھ عرصے سے فارغ تھے لہذا تازہ دم ہو کر چیمپئنز ٹرافی میں شریک ہوں گے۔
بورڈ نے شیڈول سے کافی پہلے ٹیم کو برطانیہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہو جائے، اسکاٹ لینڈ کیخلاف پہلے ون ڈے میں آسان فتح کے بعد گرین شرٹس کو آئرلینڈ نے ناکوں چنے چنوا دیے، پہلا میچ ٹائی ہونے کے بعد دوسرے میں بھی مہمان سائیڈ کو بمشکل2وکٹ سے فتح نصیب ہوئی، دونوں بار ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان ہار جائے گا اور ورلڈکپ 2007کی تاریخ دہرائی جائے گی مگرخوش قسمتی سے ایسا نہ ہوا، ان مقابلوں سے ٹیم کو خامیوں پر نظر ڈالنے کا موقع ملا،کمزور حریف کیسے حاوی ہوا تھنک ٹینک نے اس پر خاصا غور کیا اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کیخلاف وارم اپ میچ میں آسانی سے جیت ملی، اس سے میگا ایونٹ سے قبل حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔
بیٹنگ ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا مسئلہ رہی، حالیہ ٹور میں بھی اوپنرز ناصر جمشید اور عمران فرحت نے ایک ہی بار نصف سنچری شراکت بنائی ہے، ناصر کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دیتے ہیں اور دورے میں تاحال ان کا سب سے بڑا اسکور 20ہی رہا،اس کے باوجود کپتان مصباح الحق کو ان پر مکمل اعتماد اور یقین ہے کہ ٹورنامنٹ میں وہ بڑا اسکور کریں گے، عمران فرحت نے ایک ففٹی بنائی مگر ان کی بیٹنگ خاصی دفاعی رہی، وہ سیٹ ہونے میں خاصا وقت لیتے ہیں، انھیں سنگلز ڈبلز کے ذریعے اسکور بورڈ کو متحرک رکھنا چاہیے، کبھی بڑے اسکور کا تعاقب کرنا ہوا تو ان کے انداز بیٹنگ کی وجہ سے ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، محمد حفیظ اب تیسرے نمبر پر بیٹنگ میں زیادہ اطمینان محسوس کرنے لگے ہیں،انھوں نے آئرلینڈ کے خلاف سنچری اور جنوبی افریقہ سے میچ میں ففٹی بنا کر عمدہ فارم کا ثبوت پیش کیا۔
وہ بولنگ بھی اچھی کر رہے ہیں اور ایونٹ میں ٹیم کے اہم کھلاڑی ثابت ہوں گے، اسد شفیق کی بیٹنگ میں تسلسل دکھائی نہیں دیتا اور آئرش سائیڈ کیخلاف 84رنز کے سوا وہ کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے ہیں، انھیں یونس خان پر ترجیح دی گئی لہذا کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسد کو عظیم بیٹسمین کا خلا پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،مصباح الحق نے اسکاٹ لینڈ سے میچ میں83رنز بنائے، ٹیم کا زیادہ تر انحصار انہی پر ہو گا لہذا زیادہ اعتماد سے کھیلنا چاہیے، کمزور حریف کے خلاف بھی پاکستانی ٹاپ آرڈر بعض اوقات جدوجہد کرتے دکھائی دیا اور یہ تھنک ٹینک کیلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
آئرلینڈ کیخلاف کامران اکمل نے میچ وننگ اننگز کھیل کر حوصلہ بڑھایا لیکن ایسا ہر بار نہیں ہو سکتا، ٹاپ آرڈر کو ذمہ داری سے کھیلنا ہو گا، شاہد آفریدی انگلش وکٹوں پر کامیاب ہو سکتے تھے، انھوں نے2009کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا، سلیکٹرز نے انھیں اس بار موقع نہیں دیا، ایسے میں شعیب ملک پر اعتماد کرنا چاہیے، وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ سے ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، کپتان ان سے زیادہ بولنگ نہیں کراتے تاہم وہ موقع ملنے پر یقیناًاس شعبے میں بھی کامیاب ثابت ہوں گے، عمر امین نے اب تک اپنے آپ کو ایک اچھا آل رائونڈر ثابت نہیں کیا لہذا شعیب ہی مناسب آپشن لگتے ہیں۔
انگلش سرزمین پر پیسرز کامیاب ثابت ہوتے ہیں، حالیہ ٹور میں محمد عرفان کو2 میچز میں کھلایا گیا اور انھوں نے اتنی ہی وکٹیں لیں، البتہ وہ اپنے قدم کا فائدہ اٹھا کر حریف بیٹسمینوں کو پریشان کرنے کے اہل ہیں، جنید خان واحد ایسے پاکستانی کھلاڑی ثابت ہوئے جس نے اس دورے میں تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کیا ہے، پیسر نے اسکاٹ لینڈ سے میچ میں3،پھر آئرش سائیڈ سے دونوں ون ڈے اور جنوبی افریقہ کیخلاف2،2پلیئرز کو ٹھکانے لگایا، اس دوران ان کی رفتار اور سوئنگ نے سب ہی کو بیحد متاثر کیا، وہاب ریاض بھی اچھی فارم میں دکھائی دے رہے ہیں، پروٹیز سے میچ میں انھوں نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کیں، پیس اٹیک چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی اصل قوت ثابت ہو گا، اسپنر سعید اجمل کو ٹیم نے ترپ کا پتا بنا کر چھپا رکھا ہے، انھوں نے اسکاٹ لینڈ کیخلاف3کھلاڑیوںکو آئوٹ کیا مگر پھر آئرلینڈ سے میچ میں71رنز دینے کے باوجود وکٹ سے محروم رہے، یہ طویل عرصے بعد ان کی بدترین بولنگ کارکردگی تھی، اس کے بعد انھیں نہیں کھلایا گیا، اب پریکٹس اور آرام کے بعد وہ اصل رنگ میں نظر آ سکتے ہیں، عبدالرحمان نے آئرش ٹیم سے دوسرے ون ڈے میں چار پلیئرز کو ٹھکانے لگایا، موقع ملنے پر وہ بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا پہلا میچ جمعے کو ویسٹ انڈیز سے ہونا ہے،کرس گیل پر اگر جلد قابو پا لیا گیا تو فتح کا امکان بڑھ جائے گا،جنوبی افریقہ سے ون ڈے سیریز میں شکست کے بعد اب وارم اپ میچ کی جیت نے پلیئرز کو کچھ حوصلہ بخشا ہے، مگر انٹرنیشنل میچ میں پروٹیز نئے روپ میں دکھائی دے سکتے ہیں،انھیں تر نوالہ سمجھنا سنگین غلطی ہو گی۔ ایونٹ کا سب سے بہترین معرکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو گا، جس کیلیے شائقین کا جوش و خروش آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، فکسنگ تنازع میں پھنسی بھارتی ٹیم کو زیر کرنے کا اس سے اچھا موقع پاکستان کو مل ہی نہیں سکتا ، پلیئرز کو صرف حواس بحال رکھتے ہوئے اپنا اصل کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ایونٹ میں شریک پاکستانی ٹیم انتہائی مضبوط و متوازن نظر آتی ہے، مصباح الحق بھی بطور کپتان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے، ایسے میں اگر ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا تو پاکستان آخری چیمپئنز ٹرافی کو اولین فتح کے ذریعے یادگار بنا سکتا ہے۔
اسی انگلش سرزمین پر اگلے برس سلمان بٹ، محمد آصف اور عامر نے اسپاٹ فکسنگ کر کے قوم کے سر شرم سے جھکا دیے، ہم وہ منظر بھی نہیں بھول سکتے جب ہمارے تینوں کھلاڑیوں کو پولیس وین میں جیل بھیجا جا رہا تھا، یوں انگلینڈ سے پاکستان کی خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں ہی یادیں جڑی ہوئی ہیں، اب ہماری ٹیم چیمپئنز ٹرافی کو شوکیس کی زینت بنانے کا عزم لیے ایک بار پھروہاں ڈیرے ڈال چکی ہے، ان دنوں بھارت اور سری لنکا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا شکار ہیں، بنگلہ دیش میں بھی صورتحال مختلف نہیں مگر وہ اس ایونٹ میں شریک نہیں ہے، دنیا کی بیشتر ٹیموں کے پلیئرز آئی پی ایل میں حصہ لے کر انگلش سرزمین پر پہنچے ہیں،اس کا انھیں فائدہ ہو گا لیکن ساتھ کچھ تھکاوٹ بھی محسوس ہو سکتی ہے، پاکستانی پلیئرز گذشتہ کچھ عرصے سے فارغ تھے لہذا تازہ دم ہو کر چیمپئنز ٹرافی میں شریک ہوں گے۔
بورڈ نے شیڈول سے کافی پہلے ٹیم کو برطانیہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہو جائے، اسکاٹ لینڈ کیخلاف پہلے ون ڈے میں آسان فتح کے بعد گرین شرٹس کو آئرلینڈ نے ناکوں چنے چنوا دیے، پہلا میچ ٹائی ہونے کے بعد دوسرے میں بھی مہمان سائیڈ کو بمشکل2وکٹ سے فتح نصیب ہوئی، دونوں بار ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان ہار جائے گا اور ورلڈکپ 2007کی تاریخ دہرائی جائے گی مگرخوش قسمتی سے ایسا نہ ہوا، ان مقابلوں سے ٹیم کو خامیوں پر نظر ڈالنے کا موقع ملا،کمزور حریف کیسے حاوی ہوا تھنک ٹینک نے اس پر خاصا غور کیا اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کیخلاف وارم اپ میچ میں آسانی سے جیت ملی، اس سے میگا ایونٹ سے قبل حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔
بیٹنگ ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا مسئلہ رہی، حالیہ ٹور میں بھی اوپنرز ناصر جمشید اور عمران فرحت نے ایک ہی بار نصف سنچری شراکت بنائی ہے، ناصر کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دیتے ہیں اور دورے میں تاحال ان کا سب سے بڑا اسکور 20ہی رہا،اس کے باوجود کپتان مصباح الحق کو ان پر مکمل اعتماد اور یقین ہے کہ ٹورنامنٹ میں وہ بڑا اسکور کریں گے، عمران فرحت نے ایک ففٹی بنائی مگر ان کی بیٹنگ خاصی دفاعی رہی، وہ سیٹ ہونے میں خاصا وقت لیتے ہیں، انھیں سنگلز ڈبلز کے ذریعے اسکور بورڈ کو متحرک رکھنا چاہیے، کبھی بڑے اسکور کا تعاقب کرنا ہوا تو ان کے انداز بیٹنگ کی وجہ سے ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، محمد حفیظ اب تیسرے نمبر پر بیٹنگ میں زیادہ اطمینان محسوس کرنے لگے ہیں،انھوں نے آئرلینڈ کے خلاف سنچری اور جنوبی افریقہ سے میچ میں ففٹی بنا کر عمدہ فارم کا ثبوت پیش کیا۔
وہ بولنگ بھی اچھی کر رہے ہیں اور ایونٹ میں ٹیم کے اہم کھلاڑی ثابت ہوں گے، اسد شفیق کی بیٹنگ میں تسلسل دکھائی نہیں دیتا اور آئرش سائیڈ کیخلاف 84رنز کے سوا وہ کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے ہیں، انھیں یونس خان پر ترجیح دی گئی لہذا کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسد کو عظیم بیٹسمین کا خلا پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،مصباح الحق نے اسکاٹ لینڈ سے میچ میں83رنز بنائے، ٹیم کا زیادہ تر انحصار انہی پر ہو گا لہذا زیادہ اعتماد سے کھیلنا چاہیے، کمزور حریف کے خلاف بھی پاکستانی ٹاپ آرڈر بعض اوقات جدوجہد کرتے دکھائی دیا اور یہ تھنک ٹینک کیلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
آئرلینڈ کیخلاف کامران اکمل نے میچ وننگ اننگز کھیل کر حوصلہ بڑھایا لیکن ایسا ہر بار نہیں ہو سکتا، ٹاپ آرڈر کو ذمہ داری سے کھیلنا ہو گا، شاہد آفریدی انگلش وکٹوں پر کامیاب ہو سکتے تھے، انھوں نے2009کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا، سلیکٹرز نے انھیں اس بار موقع نہیں دیا، ایسے میں شعیب ملک پر اعتماد کرنا چاہیے، وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ سے ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، کپتان ان سے زیادہ بولنگ نہیں کراتے تاہم وہ موقع ملنے پر یقیناًاس شعبے میں بھی کامیاب ثابت ہوں گے، عمر امین نے اب تک اپنے آپ کو ایک اچھا آل رائونڈر ثابت نہیں کیا لہذا شعیب ہی مناسب آپشن لگتے ہیں۔
انگلش سرزمین پر پیسرز کامیاب ثابت ہوتے ہیں، حالیہ ٹور میں محمد عرفان کو2 میچز میں کھلایا گیا اور انھوں نے اتنی ہی وکٹیں لیں، البتہ وہ اپنے قدم کا فائدہ اٹھا کر حریف بیٹسمینوں کو پریشان کرنے کے اہل ہیں، جنید خان واحد ایسے پاکستانی کھلاڑی ثابت ہوئے جس نے اس دورے میں تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کیا ہے، پیسر نے اسکاٹ لینڈ سے میچ میں3،پھر آئرش سائیڈ سے دونوں ون ڈے اور جنوبی افریقہ کیخلاف2،2پلیئرز کو ٹھکانے لگایا، اس دوران ان کی رفتار اور سوئنگ نے سب ہی کو بیحد متاثر کیا، وہاب ریاض بھی اچھی فارم میں دکھائی دے رہے ہیں، پروٹیز سے میچ میں انھوں نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کیں، پیس اٹیک چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی اصل قوت ثابت ہو گا، اسپنر سعید اجمل کو ٹیم نے ترپ کا پتا بنا کر چھپا رکھا ہے، انھوں نے اسکاٹ لینڈ کیخلاف3کھلاڑیوںکو آئوٹ کیا مگر پھر آئرلینڈ سے میچ میں71رنز دینے کے باوجود وکٹ سے محروم رہے، یہ طویل عرصے بعد ان کی بدترین بولنگ کارکردگی تھی، اس کے بعد انھیں نہیں کھلایا گیا، اب پریکٹس اور آرام کے بعد وہ اصل رنگ میں نظر آ سکتے ہیں، عبدالرحمان نے آئرش ٹیم سے دوسرے ون ڈے میں چار پلیئرز کو ٹھکانے لگایا، موقع ملنے پر وہ بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا پہلا میچ جمعے کو ویسٹ انڈیز سے ہونا ہے،کرس گیل پر اگر جلد قابو پا لیا گیا تو فتح کا امکان بڑھ جائے گا،جنوبی افریقہ سے ون ڈے سیریز میں شکست کے بعد اب وارم اپ میچ کی جیت نے پلیئرز کو کچھ حوصلہ بخشا ہے، مگر انٹرنیشنل میچ میں پروٹیز نئے روپ میں دکھائی دے سکتے ہیں،انھیں تر نوالہ سمجھنا سنگین غلطی ہو گی۔ ایونٹ کا سب سے بہترین معرکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو گا، جس کیلیے شائقین کا جوش و خروش آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، فکسنگ تنازع میں پھنسی بھارتی ٹیم کو زیر کرنے کا اس سے اچھا موقع پاکستان کو مل ہی نہیں سکتا ، پلیئرز کو صرف حواس بحال رکھتے ہوئے اپنا اصل کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ایونٹ میں شریک پاکستانی ٹیم انتہائی مضبوط و متوازن نظر آتی ہے، مصباح الحق بھی بطور کپتان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے، ایسے میں اگر ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا تو پاکستان آخری چیمپئنز ٹرافی کو اولین فتح کے ذریعے یادگار بنا سکتا ہے۔