جمعۃ الوداع رمضان المبارک کی جُدائی

جمعۃ المبارک کے روز دعا کی قبولیت کے حوالے سے احادیث میں مزید دو اوقات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

مسلمان نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ فوٹو :ایکسپریس

MADRID:
اہل ایمان کس قدر خوش بخت ہیں کہ انہیں رمضان المبارک نصیب ہوا، انہوں نے اس کی ایمان افروز گھڑیوں سے خوب فیض حاصل کیا اور شب و روز عبادات کے ذریعے اپنی بخشش کا سامان کیا اور اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ ایمان والے دن بھر روزے سے رہے اور رات میں تراویح میں قرآن کی سماعت بھی کی اور شب بیداری کی سعادت سے بھی بہرہ مند ہوئے۔ مگر اب ایمان افروز ساعتوں کا اختتام ہورہا ہے۔ آج اس ماہ مقدس کا آخری جمعۃ المبارک ہے، یہ جمعہ چوں کہ ہمیں رمضان سے جدا کررہا ہے، اس لیے اسے ''جمعۃ الوداع'' کہا جاتا ہے۔ اس جمعے کے بعد ہمیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں اگلے سال تک نصیب نہیں ہوں گی۔ اہل ایمان اور اہل توحید اس دن کو بڑے بوجھل دل کے ساتھ رخصت کرتے ہیں، کیوں کہ اس کے ساتھ ہی رمضان کی رخصتی بھی عمل میں آجاتی ہے۔

ویسے تو تمام دن اور تمام راتیں اﷲ تعالیٰ ہی نے بنائی ہیں اور وہی ان دنوں اور راتوں کا مالک بھی ہے۔ مگر جمعے کا دن خاص فضیلت اور بڑی برکتوں والا دن ہے، اسی وجہ سے اسے ''سیّدالایّام'' یعنی تمام دنوں کا سردار کہا گیا ہے۔ اہل ایمان والتوحید کے لیے تو یہ دن گویا مثل عید ہے۔ احادیث شریف میں جمعۃ المبارک کے خصوصی فضائل آئے ہیں۔

ابولبابہ بن عبدالمنذر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جمعے کا دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے ایام سے بھی بڑھ کر فضیلت کا حامل ہے۔ اس دن کی کئی خصوصیات ہیں:
٭ اس دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمایا۔ اسی دن انہیں زمین پر اتارا اور اسی دن ان کی وفات ہوئی۔

٭جمعۃ المبارک کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جب رب العالمین کا فرماں بردار بندہ اپنے رب سے جو مانگتا ہے، اﷲ اسے عطا فرمادیتا ہے، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے، وہ یہ کہ وہ کوئی حرام چیز نہ مانگے۔
جمعے کے دن ہی قیامت بھی برپا ہوگی، اسی لیے ہر مقرب فرشتہ، زمین، آسمان، ہوا، پہاڑ اور دریا جمعے کے روز ڈرتے ہیں کہ کہیں قیامت نہ آجائے۔

جمعۃ المبارک کے اور بھی بے شمار فضائل ہیں جو احادیث کی مختلف کتابوں میں درج ہیں۔ ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن یعنی جمعے کے روز حضرت آدم و حوا ؑ جنت سے نکلنے کے بعد میدان عرفات میں ایک دوسرے سے ملے تھے، کیوں کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی تھی۔


اس دن کے لیے سرور عالم، رحمت للعالمینﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:''اس دن کثرت سے مجھ پر درود و سلام پڑھا کرو، جو ایک بار مجھ پر درود پڑھتا ہے، اس پر اﷲ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔''
مسلمانوں پر اﷲ تعالیٰ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ وہ پورے سال اس روح پرور اور مقدس دن کی برکتیں حاصل کرتے ہیں اور جمعہ بار بار لوٹ کر ان کے پاس آتا رہتا ہے اور رمضان المبارک میں تو یہ دن اور بھی زیادہ فضیلت والا ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں اس کی برکتوں کے کیا کہنے!

نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:''رمضان میں ہر روز افطار کے وقت دس لاکھ افراد کی بخشش ہوتی ہے اور ہفتے بھر کی مجموعی تعداد کے برابر بخشش جمعے کے روز ہوتی ہے۔''
گویا رمضان المبارک کا ہر جمعہ عام بخشش و رحمت کا دن ہے، اسی دن میں ایک ساعت ایسی بھی آتی ہے جس میں مومن کی جائز خواہش اور دعا قبول ہوتی ہے۔ علمائے کرام کے نزدیک وہ خطبۂ جمعہ کے درمیانی وقفے کی ساعت ہے جس میں ہاتھ اٹھائے بغیر اﷲ سے اپنے دل کی بات کہہ دینی چاہیے اور خاص دعا کرنی چاہیے۔

جمعۃ المبارک کے روز دعا کی قبولیت کے حوالے سے احادیث میں مزید دو اوقات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ کی روایت ہے کہ جب امام خطبے کے لیے منبر پر بیٹھتا ہے، اس وقت سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا وقت، دعا کی قبولیت کا وقت خاص ہے اور دعا قبول ہونے کی دوسری مخصوص ساعت عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہوتی ہے۔لہٰذا جمعۃ الوداع میں ان اوقات کی فضیلت رمضان المبارک کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور پھر یہ مبارک دن تو رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں آتا ہے جو جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے۔ اسی خاص عشرے میں لیلۃ القدر بھی ہوتی ہے جس میں خلوص نیت و خلوص دل سے کی جانے والی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہوتی ہے۔

یہی وہ افضل عشرہ ہے جس میں اﷲ کے فرماں بردار بندے اس کی رضا کے حصول کے لیے اعتکاف کرتے ہیں۔ وہ اپنی خطاؤں پر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگتے ہیں۔ اس عشرے میں اﷲ کی رحمت اپنے بندوں پر کس طرح نازل ہوتی ہے، اس کا اندازہ نبی رحمتﷺ کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے:''اﷲ رب العزت روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جو اپنی بداعمالیوں کے سبب جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں اور جب رمضان المبارک کا آخری دن ہوتا ہے تو اس دن اتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے جس قدر پہلے دن سے اب تک آزاد ہوچکے ہوتے ہیں۔''

ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اس ماہ مبارک میں اﷲ رب العالمین کی رضا حاصل کی یا رمضان کا مہینہ تو پایا، لیکن اپنی بخشش نہ کراسکے۔ کیا ہم نے روزے کا مقصد حاصل کرلیا؟ کیا ہم تقوے کے ہتھیار سے آراستہ ہوگئے؟ اگر ان سوالوں کے جواب ہاں میں ہیں تو ہمارے لیے کام یابی ہے ورنہ ہمیں اس گزرے وقت پر افسوس کرنا چاہیے جس نے ہمارے دامن میں ناکامی ڈال دی۔

جمعۃ الوداع یعنی رمضان المبارک کی رخصتی کا پیغام دینے والا یہ جمعہ ہم سے یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے اعمال اور کردار کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے اس ماہ مبارک میں کہاں کہاں، کس کس مقام پر کون کون سی غلطی کی اور کہاں کہاں ہم نے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کی، اپنا مکمل احتساب کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر یہ دعا کریں کہ وہ اس ماہ مبارک اور اس آخری جمعے کے صدقے میں ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کو قبول فرمائے اور آئندہ کی زندگی میں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
Load Next Story