پراکسی وار
امریکا کومعلوم ہونا چاہیے کہ اگروہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ سراسر اس کی خام خیالی ہے۔
جب تین جنگوں میں بھارت اپنے سے کہیں کم عسکری وسائل کے حامل پاکستان سے نہ جیت سکا، تو وہ چین سے کیا جیت پائے گا؟ یہ بات دراصل امریکا کے سوچنے کی ہے،کیونکہ وہ اس وقت بھارت کو ہر طرح کے جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس نے تو بھارت کو نئے ایٹم بم بنانے کی چھوٹ ہی نہیں دے دی ہے، بلکہ اس سلسلے میں جدید تکنیکی مدد اور جوہری مواد کی سپلائی کے لیے اپنے تمام دروازے کھول دیے ہیں۔
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع ٹرمپ کے حکم پر بھاگے ہوئے نئی دہلی پہنچے اور وہاں ٹو بائی ٹو کے فارمولے کے تحت بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے مذاکرات کیے ہیں۔ اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں پاکستان کو دھمکانے کے ساتھ ساتھ کہا گیا ہے کہ بھارت کی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے امریکا سے جو بھی بن پڑا وہ کرے گا۔ اس فوجی امداد کا مقصد صرف چین کو مرعوب کرنا ہے۔
امریکا ماضی میں بھی چین سے مقابلے کے لیے بھارت کو ایک ڈھال کے طور پر دیکھتا آیا ہے مگر پتہ نہیں وہ کیوں 1962ء میں چین کے ہاتھوں بھارت کی پٹائی کو نظراندازکرتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارت کی فوجی طاقت بالکل جواب دے گئی تھی اور لگتا تھا کہ وہ چین کے ہاتھوں تاریخی پسپائی کے بعد پھرکبھی چین سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کرے گا اور ہمیشہ اس کا ایک اچھا دوست اور ہمسایہ بن کر رہے گا مگر امریکی آشیر باد کے بعد وہ اب پھر سے چین کے خلاف دبی دبی آوازیں نکالنے لگا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہی ڈوکلام کے علاقے میں بھارت نے چین کو سڑک بنانے سے روکنا چاہا تھا۔ یہ بھارت کا انتہائی غلط اقدام تھا کیونکہ یہ سڑک چین اور بھوٹان کی سرحد کے قریب بن رہی ہے۔ اس کا بھارت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا مگر بھارت نے بھوٹان کا نام نہاد نگہبان بن کر اس کی اجازت کے بغیر سڑک کی تعمیر کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی تھی، تاہم چین نے بھارت کی کوئی پرواہ کیے بغیر سڑک کی تعمیر کا کام جاری رکھا۔ یہ سڑک اب بھی بن رہی ہے مگر اب مودی جی خاموش ہوگئے ہیں کیونکہ چین نے انھیں بلاوجہ مداخلت پر سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی بھارت بے تحاشا جدید فوجی استعداد رکھنے کے باوجود چین کے آگے بے بس ہے۔ وہ اب چین سے سڑک پر اعتراض کرنے کے بجائے اس سے معاشی اور تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے بے چین ہیں۔ جب سے مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے وہ چین کے چار دورے کر چکے ہیں اور ابھی مزید کئی دورے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم نے اس سے قبل چین کا ایک سے زیادہ دورہ نہیں کیا تھا ۔
مودی خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ چین کی حیرت انگیز ترقی سے بے حد متاثر ہیں اور اس کی ترقی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے پہلے دورہ چین میں وہاں چلنے والی بلٹ ٹرین دیکھ کر آئے تھے۔ انھوں نے بھارت میں ویسی ہی ٹرین چلانے کے لیے چین سے معاہدہ کیا اور اب یہ ٹرین دہلی سے احمد آباد تک چل رہی ہے۔
بھارت چین کی مصنوعات کی بہترین مارکیٹ بن چکا ہے۔ اگرچہ چینی مصنوعات نے بھارت کی کئی صنعتوں کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے باوجود بھارت نے چینی مصنوعات کی درآمد کو بند نہیں کیا ہے اس لیے کہ بھارتی عوام چینی مصنوعات کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں کیونکہ وہ مقامی اشیا کے مقابلے میں سستی اور معیاری ہیں۔
بھارت کی چین کے ساتھ مفاہمانہ پالیسی کا بڑا مقصد پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اگرچہ بھارت چین کی دل جوئی میں ضرور لگا رہتا ہے مگر چین اپنے اصولوں سے کسی طرح بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے شروع سے ہی دوستی نبھاتا چلا آرہا ہے۔اس کی خارجہ پالیسی ، پاکستانی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ ہے۔
پاکستان جس طرح امن عالم کے قیام اور محکوم قوموں کی آزادی کا علم بردار ہے، بالکل ویسی ہی چین کی بھی پالیسی ہے ۔ چین کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتا ہے اس نے کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں بعض ایسے ٹھوس اقدام کیے ہیں جن سے بھارت بہت برہم ہے مگر چین نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔ چین چونکہ کشمیریوں کو بھارت کا شہری تسلیم نہیں کرتا کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کسی طرح بھی بھارت کے جغرافیے کا حصہ نہیں ہے۔
اس لیے چین کشمیریوں کے چین کا دورہ کرنے کے لیے انھیں اپنا ویزہ بھارتی پاسپورٹ پر ثبت کرنے کے بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر ثبت کرتا ہے۔ چین کے اس بولڈ اقدام نے بھارت کے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے منصوبے کو خاک میں ملادیا ہے۔ بھارت اکثر پاکستان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگاتا رہتا ہے چین نے کبھی بھارتی الزامات کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ بھارتی حکمرانوں کی شاطرانہ چالوں سے خوب واقف ہے۔
چین اقوام متحدہ میں پیش کردہ کشمیریوں کی آزادی کے ایک خیرخواہ اظہر محمود کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کی بھارتی قرارداد کو کئی دفعہ ویٹو کرکے بھارتی سامراجی عزائم کو خاک میں ملا چکا ہے۔ بھارت سی پیک کے بھی سخت خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح یہ منصوبہ فلاپ ہوجائے۔ اسے سی پیک کے راستے کے آزاد کشمیر سے گزر کر چین تک جانے پر بھی سخت اعتراض ہے۔
چین سے اس کا مطالبہ ہے کہ وہ اس راستے کو نہ اپنائے مگر چین نے اسے مشورہ دیا ہے کہ اب کشمیریوں کو مزید محکوم بنانے کے بجائے ان کی تحریک آزادی کا احترام کرے اور انھیں ان کی خواہش کے مطابق پاکستان کا حصہ بننے دے ۔ چین بھارت کے جوہری سپلائرز گروپ کا ممبر بننے کے بھی حق میں نہیں ہے جب کہ وہ پاکستان کی اس سلسلے میں مکمل حمایت کرتا ہے ۔
بھارت چین کی دشمنی میں اس کے غریب ممالک کی کمزور معیشت کو مستحکم کرنے کے غریب پرور منصوبے روڈ اینڈ بیلٹ تک کی مخالفت سے باز نہیں آرہا ہے مگر اس کے چھوٹے پڑوسی ممالک چین کے اس منصوبے سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب وہ بھارت کی بالادستی سے نکل کر چین کے حلقہ دوستی کی جانب بڑھ رہے ہیں مالدیپ نیپال اور بنگلہ دیش اس کی واضح مثال ہیں۔
اس وقت مودی سرکار سخت معاشی بحران کا شکار ہے وہ 2019ء کے عام انتخابات کو جیتنے کے لیے پھر پاکستان کارڈ استعمال کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پاکستان سے حالیہ مذاکرات سے فرار بھی اسی تیاری کی کڑی ہے۔
امریکا کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ سراسر اس کی خام خیالی ہے، بھارت ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے چین سے کسی بھی صورت میں نہیں ٹکرائے گا وہ تو دراصل اپنے پڑوسیوں کو ڈرانے کے لیے خود کو امریکی جدید اسلحے سے لیس کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے نہ کہ چین سے امریکا کی پراکسی وار لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔