ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے

کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل علم و دانش کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔


شاہد سردار September 30, 2018

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ خشک سالی اور عام قحط میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں لیکن ''قحط الرجال'' میں قومی شعور، فکر و دانش کے چشمے خشک ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے عرصہ دراز سے قابل اور تجربہ کار افراد کو معاشرے میں مقام دینے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں اگر کوئی محقق، ریسرچر، دانشور قومی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے مصائب جھیل کر کسی مقام پر پہنچ بھی جائے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہر خاص و عام کو حیران کردے تو اس کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر عطا الرحمن کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم نے ہر دور میں معاشرے کے اہم ترین افراد کو نظرانداز ہی نہیں بلکہ بری طرح ضایع بھی کیا ہے ۔ نہ جانے یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں نہ قابلیت کام آتی ہے، نہ ایمان داری اور نہ ہی ڈگریاں؟

یہ بات اب طشت ازبام ہوچکی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کا چہرہ تو ایک ہے لیکن اس کے روپ دو ہیں۔ ایک وہ جس کا ہم دکھاوا کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہم اصل میں ہیں۔ ہم ایک ایسی قوم کا روپ دھار چکے ہیں جسے جمہوریت میں آمریت اور آمریت میں جمہوریت کی یاد بڑی شدت سے آتی ہے۔ ہم پاکستان کے سب سے بڑے منصب پر بیٹھنے کے لیے آنے والے پر ڈھول بجاتے ہیں، رقص کرتے ہیں اور اس کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے اور سستے طنزیہ اور ذومعنی جملے کستے ہیں۔ شاید ایسا ہم اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ہمارے بیشتر ارباب اختیار انسانوں کے اندر پورے پورے آدم خور قبیلے آباد ہیں۔

کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل علم و دانش کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر نظر رکھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو اسی قدر وہ قوم ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتی ہے لیکن جس قوم کا یہ طبقہ اپنے کردار سے غافل ہوجائے یا اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرے اسی قدر اس قوم کے زوال کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

افسوس قابلیت کو کسی قابل نہ سمجھنے کا افسوس ماتم اور ان آہوں کا تجزیہ کرنے کے لیے قوم میں جید، گنی یا ہشت پہلو لوگ بھی ختم ہوگئے ہیں اور اسی لیے ہم علم و ادب، فن و سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاست سبھی محاذوں یا شعبوں میں پسپا ہو رہے ہیں یا مار کھا رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پر ہی نہیں احساس کے مر جانے پر بھی پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے لیکن احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے، اسی صورتحال پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے

یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی

افسوس صد افسوس ہم اسی مردہ معاشرے میں اپنی سانسیں گننے میں مصروف ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں رہبر رہزن بن گئے اور انقلاب لانے والے خود تک کو نہ بدل سکے۔ آج ہمارے اطراف میں دیکھیے اقربا پروری، ذاتی پی آر نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عالم فاضل اور لیاقت سے لبریز لوگ دھکے کھا رہے ہیں یا پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کام کے منتظر ہیں لیکن انھیں کام دینے پر کوئی تیار نہیں۔

دوسری جانب سفارشی، کام و ہنر سے بے بہرہ لوگ مراسم کی وجہ سے نمایاں ہو رہے ہیں، انھیں پذیرائی بھی دی جا رہی ہے، انھیں ہائی لائٹ بھی کیا جا رہا ہے اور ان کے اعزاز میں تقریبات اور شامیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس حوالے کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ وقت سے پہلے بخشا ہوا مقام، مرتبہ یا اعزاز کسی کی صلاحیتوں کو بڑھاوا نہیں دیتا بلکہ اسے ٹھہرا دیتا ہے۔ آگے بڑھنے کے سفر میں شامیں سجانے یا منانے سے فیض حاصل نہیں ہوتا۔ خوشنودی کے مارے لوگوں کی جانب سے یہ طرز عمل زبردستی قد بڑا کرنے کی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے کام یا اعمال کٹھن، پیچیدہ اور دشوار گزار راستوں سے گزرنیوالے ہنر مندوں، فنکاروں، دانشوروں اور قلم کاروں سے ان کی منزل کا شعور چھین لیتے ہیں۔

ہمارے بڑے بڑے اداروں کی تباہی، بربادی یا ان کے پست معیار پر نگاہ کی جائے تو فوراً اس بات کا ادراک ہوجائے گا کہ اس کی کمانڈ اینڈ کنٹرولنگ پر معمور لوگ اس کام کے ماہر نہیں بلکہ اس کام یا ہنر سے یکسر نابلد ہیں۔ اگر آپ کسی سائیکل بنانے والے سے جہاز بنوانے کا کام لیں گے تو وہ جہاز کے ساتھ ساتھ اس پر سوار ہونے والوں کا کام بھی تمام کردے گا۔ فنون لطیفہ کی طرف ہم نظریں دوڑائیں تو یہاں بھی غیر مغز لوگوں کے ہاتھوں میں اس کی ڈور نظر آئے گی، یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر پہلو، ہر شعبے میں اور ہر سطح پر ہم تنزلی کی طرف ہی جا رہے ہیں۔

آفاقی سچائی یہی ہے کہ دانشور، شاعر، ادیب، فنکار کسی بھی قوم کا ضمیر ہوتے ہیں۔ وہ احساسات و جذبات جو لوگوں کے سینوں میں پرورش پا رہے ہوں نثر اور نظم کے ذریعے بیان کرتے ہیں اور یوں عوام کے ضمیر کو زبان دے دیتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ ''ضمیر'' کو صرف نوزائیدہ بچوں کے نام رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ضمیر کا مطلب، معنی و مفہوم کسی کو بھی نہیں معلوم۔ ضمیر اصل میں سڑک پر لگے ہوئے اس سائن بورڈ کی طرح ہوتا ہے جو راستہ اور سمت تو بتاتا ہے لیکن اس پر چلنے کے لیے مجبور نہیں کرتا۔ نہ جانے کون کب اور کس سمت سے نکلے گا اور جادوئی چھڑی گھمائے گا اور سب کا سب غلط صحیح یا درست ہوجائے گا، اقوام عالم میں ہماری واہ واہ کا سبب بنے گا اور وطن عزیز میں اس کے مجسمے، یادگاریں قائم کی جائیں گی اور وہ جہالت، تعصب، اور حق تلفی کا قلع قمع کرے گا اور ملک کا نجات دہندہ کہلائے گا؟ لیکن ایسا کچھ ہوتا دور دور تک نظر نہیں آرہا، ہر طرف وہی رفتار بے ڈھنگی ہے، آپا دھاپی ہے، دوڑا بھاگی ہے، افراتفری ہے کسی کوکوئی پوچھنے اور سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے اور ایسا کیوں نہ ہو۔

دراصل جہاں افتخار عارف سے زیادہ مہوش حیات مقبول ہو، جہاں مرد ایک بالٹی پانی سے نہانے کے بعد پاک اور عورت کو اپنی پاکیزگی ثابت کرتے کرتے عمر بیت جائے، جہاں منافقت، جھوٹ اور غیبت کا کاروبار مطمع نظر بن جائے، جہاں اہل علم و ہنر کوکوئی نہ پوچھے اور جہلا کو سلام ٹھونک کر انھیں سر سر کہا جائے۔ وہاں کسی کو کارآمد یا تعمیری بات سمجھانا کسی بے وقوفی سے کم نہیں مگر پھر بھی یہ بے وقوفی ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ شاید کسی عقل مند کو عقل آہی جائے۔ شاید تخلیق ہوتا ہرکردار اپنی قسمت اپنا مقدر خود اپنے ساتھ لکھوا کر لاتا ہے۔ انسان کی طرح کردار کی تقدیر بھی طے شدہ ہوتی ہے اورکبھی کبھی لکھاری صرف لکھنے کا فرض پورا کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں