کراچی سے ایک اور صدر مملکت
کراچی کی اب بڑی نمائندگی تحریک انصاف کے پاس ہے جس کے اب اپنے صدر مملکت اور گورنر سندھ ہیں۔
پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی کوکسی حد تک خوش قسمت کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے نئے منتخب ہونے والے صدر مملکت کا تعلق بھی کراچی سے ہے ، جب کہ اس سے قبل صدر ممنون حسین اور صدر آصف علی زرداری کی سیاست بھی کراچی سے شروع ہوئی تھی ۔
آصف زرداری ، لیاری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ممنون حسین بھی کراچی میں سیاست کرتے ہوئے ہی پہلے گورنر سندھ اور بعد میں صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کی اب رہائش کراچی ہی میں رہے گی۔ آصف علی زرداری کا آبائی علاقہ ضلع نوابشاہ تھا مگرکراچی میں ان کے کاروبار ، پھر بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد کراچی ہی سے ان کی سیاست شروع ہوئی تھی تو ان کی اپنے آبائی حلقے میں سیاسی پہچان ہوئی تھی ۔
فوج کے ذریعے اقتدار میں آ کر پہلے ملک کا چیف ایگزیکٹو اور بعد میں مسلط اور پھر منتخب ہونے والے پرویز مشرف کا تعلق بھی کراچی ہی سے ہے ، وہ فوج میں جانے کے باعث کراچی سے دور رہے مگر وہ کراچی کو فخریہ اون کرتے تھے اور انھوں نے اپنے اقتدار میں سٹی حکومت کراچی کے ذریعے شہرکی ترقی کے لیے قابل تعریف کام کیے اور ان کے دور میں کراچی کو ترقیاتی پیکیج کے ساتھ بھرپور مالی تعاون ملا جو بعد میں اس شہر سے تعلق رکھنے والے دو صدور نہ کرسکے۔
اگر صدر پرویز مشرف با اختیار صدر تھے توکمزور صدر آصف زرداری بھی نہیں تھے،کیونکہ وہ ملک میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت میں صدر منتخب ہوئے تھے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کا تقرر بھی آصف علی زرداری نے کیا تھا اور وہ ممنون حسین کی طرح کمزور صدر نہیں بلکہ با اختیار صدر مملکت تھے اور پانچ سال اس اہم عہدے پر فائز رہے ۔
ان کی تمام توجہ پی پی حکومت کی پانچ سالہ میعاد مکمل کرانے پر رہی جس میں وہ کامیاب رہے اور پیپلزپارٹی نے پہلی بار 5 سالہ مدت تو پوری کی مگر آصف زرداری اپنی زبان کا پاس نہ رکھ سکے اور متحدہ قومی موومنٹ سے تنگ آکر اس مسلم لیگ ق کو پی پی کی حکومت میں شامل کیا جسے وہ قاتل لیگ قرار دے چکے تھے۔ سابق صدر زرداری نے اپنے اقتدار میں صرف لیاری کو کراچی سمجھا اور لیاری کو خصوصی پیکیج دے کر وہاں ترقیاتی کام کرائے ۔ بے نظیر یونیورسٹی بھی بنوائی اور وہی لیاری جسے پیپلزپارٹی اپنا گڑھ قرار دیتی تھی اسی لیاری سے آصف زرداری کے صاحبزادے اور پی پی چیئرمین بلاول زرداری قومی اسمبلی کا الیکشن ہارگئے۔
آصف زرداری نے صدر ہوتے ہوئے اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔کراچی کو پی پی حکومت سے کوئی ترقیاتی پیکیج نہیں ملا ، نہ کراچی کے مسائل کے حل پر توجہ دی،البتہ پی پی حکومت نے کراچی کے مضافاتی علاقوں پر ضرور توجہ دی ، جہاں پی پی کا ووٹ بینک تھا مگر 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار اور پیپلزپارٹی کے ان حلقوں سے بھی کامیاب ہوئے جہاں ماضی میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوا کرتی تھی ۔
پی پی نے کراچی کے جن علاقوں کو اپنا سمجھ کر نوازا تھا وہاں پی پی کامیاب نہ ہوسکی اور شہر کے جن علاقوں سے پی پی نے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے دعوے کیے تھے ان تمام شہری علاقوں سے پیپلزپارٹی عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اس کا امیدوار ملیر سے بھی ہار گیا۔
یہ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کی کسی بھی حکومت نے کراچی کو اون نہیں بلکہ نظر انداز کیا اور مراد علی شاہ نے اپنی گزشتہ حکومت میں کراچی میں سڑکیں ضرور بنوائیں مگر بلدیاتی اداروں کو مفلوج رکھا اور خود بلدیاتی کام کرانے پر توجہ دی جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی تعمیراتی کاموں میں اپنوں کو ٹھیکے دینے اور کمیشن کے حصول کے لیے کیا گیا جو کراچی سے مخلص ہونا نہیں تھا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر ممنون حسین کبھی الیکشن نہیں لڑے مگر مسلم لیگ ن کی طرف سے انھیں پہلے سندھ کا گورنر اور بعد میں صدر مملکت بنوایا مگر اپنی دونوں سرکاری حیثیتوں میں انھوں نے کراچی کا شہری ہونے کا حق ادا نہیں کیا اور ان کی شہر سے صرف کاروباری اور سیاسی دلچسپی رہی ، جس کا انھوں نے اور ان کے خاندانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا مگر صدر ممنون نے کراچی کو اون کیا نہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کردار ادا کیا ۔ کراچی کے لیے وہ بے فیض ثابت ہوئے ان کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ اردو اسپیکنگ ممنون حسین اردو بولنے والوں کی اکثریت سے شہر کے لیے 5 سال میں کچھ نہ کرسکے بلکہ اپنی مسلم لیگ ن کو بھی وہ کراچی میں پذیرائی نہ دلاسکے۔
اب کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی کو صدر مملکت بننے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے جنھوں نے کہاہے کہ وہ ممنون حسین جیسے صدر مملکت ثابت نہیں ہوںگے اور ان سے جو بھی ہوسکا وہ نہ صرف کرکے دکھائیںگے بلکہ ایک متحرک صدر مملکت کا کردار ادا کر کے دکھائیںگے جس میں انھیں وفاقی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا مکمل اعتماد اور حمایت حاصل ہوگی۔
کراچی کی اب بڑی نمائندگی تحریک انصاف کے پاس ہے جس کے اب اپنے صدر مملکت اور گورنر سندھ ہیں۔ یہ دونوں عہدے اگرچہ آئینی ہیں مگر وہ کرنا چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کراچی کے مسائل وزیراعظم کے چند گھنٹوں کے دورے کے نہیں بلکہ کئی روزکے دورے سے حل ہونے کی طرف بڑھ سکتے ہیں ، اس لیے اب صدر مملکت اور وزیراعظم کو کراچی کی نمائندگی کا حق ، وعدوں سے نہیں بلکہ عملی طور پر ادا کرنا ہوگا ۔