عالمی سطح پر نئی صف بندیاں اور پاکستان

وسائل پر اختیار کی اس معاشی جنگ میں سب سے بڑا عنصر ’’تیل‘‘ ہے جب کہ دوسرا عنصر ’’پانی‘‘ ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق شمسی نظام کے تحت قائم اس کائنات کو بننے سے ارتقا ئی سفر کو اب تک تقریباً 4ارب سال ہوچکے ہیں اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آئندہ بھی شمسی توانائی کے ساڑھے تین ارب سال تک موجود رہنے کا اندازہ ہے ۔

ہماری دنیا یعنی دھرتی بھی دیگر سیاروں کے ساتھ اسی کائنات کا حصہ ہے ۔ گزشتہ 4ارب سال کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دھرتی کبھی لاوے کی لپیٹ میں رہی تو کبھی سمندر کی تہہ بن کر رہی ۔ پھر پتھر کے زمانے سے ہوتے ہوئے انسانی زندگی تک پہنچنے کے دوران کئی دیو ہیکل نما خشکی و آبی جانداروں کی جاگیر بھی رہی ہے ، جو سوائے اپنے کسی اور کو پنپنے کا موقع نہیں دیتے تھے ۔

یہی مدبھیڑ کی روش ان کے وجود کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا سبب بنی اور آج وہ مخلوقات فقط گمنام تاریخ کا ایک پہلو بن کر رہ گئے ہیں ۔ چونکہ انسان بھی سماجی جانوروں کی ایک منفرد قسم ہے، شاید اسی لیے انسان کی سماجی زندگی کی تاریخ بھی ایسے ہی ملوکیت و جاگیرداریت کے رویوں سے پُر نظر آتی ہے اور اس کی جبلت پر طاقت کا نشہ حاوی رہتا ہے۔

زمانہ ٔ قدیم میں شکار پر مالکی طاقتور کی ہوتی تھی جو بعد میں انسانوں پر اختیار رکھنے یعنی غلام رکھنے سے ہوتے ہوئے زمینی ملکیت تک پہنچی اور پھر یہ جبلت ملکوں اور قوموں پر اختیار کا روپ دھارنے کے بعد اب وسائل پر اختیار تک پھیل گئی ہے ۔

اسی تناظر میں عالمی سطح پر اس وقت نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ۔ ماضی کے دشمن دوست بن کر سامنے آرہے ہیں تو کئی حریف بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں، جس کی وجہ بھی وسائل پر قبضہ ہے ۔ ایک طرف امریکا کے کیوبا کے ساتھ تعلقات کشیدہ نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف وینز ویلا میں فوجی مداخلت کے خدشات نظر آرہے ہیں ۔ جب کہ دنیا میں اس وقت سپر پاور امریکا کا سب سے بڑا حریف چین بن کر سامنے آیا ہے۔

وسائل پر اختیار کی اس معاشی جنگ میں سب سے بڑا عنصر ''تیل'' ہے جب کہ دوسرا عنصر ''پانی'' ہے۔ یہ دونوں عنصر موجودہ دور کی زندگی کے لیے تو لازم ہیں ہی لیکن مستقبل میں خلاء میں بسنے والی زندگی کے لیے بھی ضروری ہوں گی ۔ شاید اسی لیے طاقتور ممالک ان دونوں چیزوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول رکھتا چاہتے ہیں ۔

جہاں تک پانی کی بات ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر کشیدگی میںاس قدر اضافہ نظر آتا ہے کہ اب کشمیر اشو بھی ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جب کہ دنیا کی آبادی میں20 فیصد حصہ رکھنے والا چین بھی اس وقت پانی کی شدید کمی سے بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتا ہے ۔

دوسری جانب سعودی قطر تضاد بھی پانی کی نہر کی وجہ سے نظر آتا ہے ۔ دوسرے عنصر تیل پر اختیار کی جنگ کے تانے بانے پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے امریکا ، برطانیہ و دیگر مغربی ملکوں کی جانب سے خلیجی خطے میں موجود تیل ذخائر پر اختیار حاصل کرنے کے لیے عربستان کے ٹکڑے کرکے موجودہ ممالک و ریاستوں کا ڈھانچہ ترتیب دینے سے ملتے ہیں۔

اس میں بڑا ہدف سعودی عرب کی تشکیل اور تعمیر رکھا گیا پھر آہستہ آہستہ دیگر خلیجی ممالک کے تیل ذخائر پر تیل کمپنیوں اورکنٹرول تنظیموں کی معرفت امریکا اثر انداز ہوتا چلا گیا ۔ ماضی میں سپر پاور کی حیثیت سے روس اس کے مقابل تھا لیکن ماضی قریب میں تو دنیا کے تمام فیصلوں میں صرف امریکا کی ہی منشا چلتی تھی ۔

2005ء میں میتھیو سائمنس نے سعودی عرب کے تیل ذخائر کے ختم ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں کیں جس کی وجہ سے خلیجی ممالک میں خاص طور پر جب کہ دنیا بھر میں عام طور پر نئی صف بندیاں نظر آئیں۔ حالانکہ حال ہی میں سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی اے آر ای سی او نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق یومیہ 8لاکھ بیرل تیل حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے اور فیلڈوں کی تعداد بڑھانے کا اعلان بھی کرچکا ہے۔

جب کہ گزشتہ برس گیس کی پیداوار میں قائم کردہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب گیس پیدا کرنے والے اہم ملک کی حیثیت حاصل کرچکا ہے اور مختلف آئل فیلڈوں سے 2026ء تک پیداوار میں مسلسل اضافے کی پلاننگ سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی تیل کے ذخائر آئندہ نصف صدی تک تو ختم نہیں ہوں گے ۔نہ صرف تیل بلکہ سیاسی و عسکری طاقت حاصل کرنے میں بھی سعودی عرب آگے آگے آرہا ہے۔

2010ء کی ایک امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک قرار پایا تھا ۔ اس نئی صورتحال نے دنیا کے ممالک کو ایک مرتبہ پھر خلیج سے متعلق نئی پالیسیاں مرتب کرنے پر مجبور کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں کثیر اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کا قیام عمل میں آیا اور اس کی سربراہی بھی سعودی عرب کی اہمیت کو ظاہر کررہی ہے ۔

سعودی عرب جس کے قیام میں امریکا نے بنیادی کردار ادا کیا تھا وہ آج امریکا کو درپیش معاشی معاملات میں اپنا قرض اتارتے ہوئے خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ اسی پس منظر میں اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ، عراق ، لبیا اور افغانستان پر حملوں سے لے کر ملک میں تیل کمپنیوں و فوجی سازو سامان کی پالیسیوں میں امریکا کے موقف کو اہمیت دیتا رہا ہے ۔


دوسری جانب وہ عقائد و نظریات کی بناء پر ایران سے کشیدگی اور یمن سے جنگ میں مشغول ہے تو پانی کے معاملے پر قطر سے تکرار جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس ساری صورتحال میں اسے امریکی پالیسی سازوں کی مہربانیاں حاصل ہیں جوکہ چین کی مخالفت میں دنیا میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے شدید بے چین نظر آرہے ہیں ۔ جس کے لیے وہ کسی بھی ملک اور کسی بھی ادارے یا تنظیم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے پھر چاہے وہ اوپیک ہو یا سی پیک، امریکا ہر پلیٹ فارم اور ہر محاذ پر موجود رہنا چاہتا ہے ۔

اوپیک پر تو وہ پس پردہ پہلے ہی سے اثراندازہے لیکن سی پیک پر اثر انداز ہونے کے لیے وہ ایک طرف دوعشروں سے افغانستان میں نیٹو کے نام پر موجود رہنے کے باوجود انخلاء کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی وہاں سے وہ افغان -ازبک و قزاقستان کے ملحقہ علاقوں سے افیون و دیگر منشیات کے کاروبار پر اپنا کنٹرول رکھے ہوئے ہے ۔جب کہ امریکی اسرائیل بلاک سعودی ارب اور انڈیا کی معرفت سی پیک منصوبے میں مداخلت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے ۔ جس کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو استعمال کیا جارہا ہے ۔

اسی کے تحت حالیہ پیشقدمی کرتے ہوئے امریکا نے اپنے قریبی الحاقی سعودی عرب کی ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) اکنامک روٹ اور اس کے اہم تجارتی و سرمایہ کاری کے منصوبے سی پیک میں شمولیت کی راہ ہموار کی اور پاکستان سے سعودی عرب کی شرکت کا اعلان بھی کروایا گیا ۔ جس کے بدلے میں پاکستان کو سعودی عرب سے امداد و قرضہ جات کی فراہمی امریکا سے کشیدگی کم کرنے اور امداد و رعایات حاصل کرنے میں مدد کے ساتھ ساتھ عالمی مانیٹرنگ فنڈ س(IMF) سے نئے قرضہ جات حاصل ہونے کی راہ ہموار ہوگی ۔

پاکستان کا معاملہ سندھی زبان کی اس کہاوت کی طرح ہے کہ اس سے ''نہ دوست کو کوئی آسرا ہے نہ دشمن کو کوئی ڈر'' ۔ چین ، روس ، امریکا ، برطانیہ اور ایران جیسے دوست بھی پاکستان پر اعتماد کرنے کے بجائے ہمیشہ بہتری کے مطالبے کرتے رہتے ہیں تو خطے میں واحد دشمن بھارت اس سے بلا خوف رہتے ہوئے ہمیشہ آنکھیں دکھاتا رہتا ہے ۔جس کی ذمے دار پاکستان کی وہ قوتیں ہیں جو 70سال میں بھی ایسی بالغ النظری اور معاملہ فہم ادراک حاصل نہیں کرسکی ہیںکہ جس کی بنیاد پر اندرونی مسائل حل ہوپاتے جب کہ وہ پاکستان کی مؤثر خارجہ پالیسی بھی نہیں بنا سکی ہیں ۔ کیونکہ اب تک دنیا بھر میں موجود ایک ہی دشمن کو نہ دوست بنایا جاسکا ہے اور نہ ہی اُسے زیر کرنے میں دیگر دوست ممالک کو ہم خیال بنایا جاسکا ہے۔

چین پاکستان تعلقات عرصہ دراز سے جاری و ساری ہیں لیکن ان تعلقات میں برابری نظر نہیں آتی ۔ یہ تعلقات بھی پاک امریکا تعلقات کی طرح نظر آتے ہیں۔کیونکہ امریکا کی طرح چین سی پیک کی سیکیورٹی کے معاملے میں ابھی سے ہم سے Do More کی Demandکرنے لگا ہے۔ جب کہ معاونت کاپول یوں کھل جاتا ہے کہ سی پیک جیسے بڑے تجارتی و سرمایہ کاری کے منصوبہ کی فعالیت کے مراحل میں ہونے اوراسکیموں کے تکمیل سے قبل ہی ان کے قرضوں پر پاکستان کو سود کی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے جس کے لیے پاکستان ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس نئے قرضہ جات کے لیے جھولی پھیلائے کھڑا ہے اور ایک مرتبہ پھر امریکا و عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے ۔

برصغیر، ایشیا میں جیو پولیٹیکل لحاظ سے اہم جغرافیائی مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے فری مارکیٹ کے نظام کو منظم میکنزم فراہم کرنے میں بڑی اہمیت کا حامل خطہ بن چکا ہے۔ اس میں بھارت کا بھی کردار اہم ہے جو محدود و مشروط کردار ادا کرنے پر ہمیشہ آلہ کاری کے لیے تیار دیکھا گیا ہے مگر خطے پر طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک کی صورتحال میں تو پاکستان عالمی قوتوں کاغیر مشروط مکمل آلہ ٔ کار بن کر رہ گیا ہے۔

ممکن ہے کہ آگے چل کر یمن و شام میں بھی قیام ِ امن کے عمل کے لیے پاکستان کی مذہبی و ایٹمی عسکری قوت کی حیثیت کو استعمال میں لایا جائے۔ جب کہ ایران سعودی فرقہ واریت پر مبنی تکرارکے حل میں بھی پاکستان کی مخلوط فرقہ حیثیت کارگر ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہ سب عالمی قوتوں چین ، روس اور امریکا و برطانیہ کے مفادات اور ان کے تحت بننے والے اتحادوں اور منصوبوں میںہونیوالی امکانی شراکت داری پر منحصر ہوگا۔ جب کہ پاکستان اپنی جیو پولیٹیکل جغرافیائی اہمیت کا دائمی فائدہ حاصل کرنے کے بجائے روایتی امدادی فوائد تک ہی محدود رہنے کی روش اپنائے ہوئے نظر آ رہا ہے۔

چین پاکستان کے علاوہ سی پیک کے تحت اس خطے میں چین بھارت کے درمیان بھی قرابتی تعلقات کے ساتھ ساتھ روس چین و پاک روس تعلقات اور افغانستان ایران کی شمولیت بھی عالمی صف بندیوں کا حصہ ہے ۔ اس معاشی جنگ میں اس وقت دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم نظر آتی ہے ۔

ایک طرف یورپی یونین ہے تو دوسری طرف امریکا، برطانیہ ، اسرائیل ، بھارت اور سعودی عرب ہیں تو تیسری جانب روس، چین بلاک ہے ۔ ان میں سے ہر فریق کی کوشش ہے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر وسیع سے وسیع مارکیٹ قائم کرسکے ۔ ان میں امریکا ، برطانیہ اور روس چین کی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی و فوجی اُمور اور طاقت کا عنصر بھی کارفرما رہا ہے لیکن یورپی یونین ایک ایسا بلاک ہے جو خالص تجارتی و معاشی سرگرمیوں کی بنیاد پر دنیا میں اُمور سرا نجام دے رہا ہے ۔

شایدیہ نئی صف بندیوں کا ہی حصہ ہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ جب کہ روس کمیونسٹ نظریات کے ساتھ ساتھ خطہ کی جغرافیائی و ڈیمو گرافی اور معدنی وسائل ومعاشی استحکام اور اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے چین کے ساتھ اتحاد اور اس کی توسط سے اپنے مفادات کے فروغ پر مبنی پالیسی اختیار کرکے ایک طرف دنیا میں دوبارہ فیصلہ کن کردار کی حیثیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے تو دوسری طرف ترکی اور پاکستان سے دوستی کے دوبارہ آغاز سے ایشیا کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی جانب پیش قدمی کرچکا ہے ۔

اس نئی صورتحال میں اسلامی ممالک مالی طور پر دنیا کے امیر ترین مگر سیاسی و عسکری طور پر کمزور ترین ممالک کی حیثیت سے مختلف اتحادوں میں صرف رکن یا آلہ کار بن کر رہ جاتے نظر آرہے ہیں ۔ جیسے ترکی اور ایران روس-چین بلاک کے رکن بن کر کام کررہے ہیں تو پاکستان اور سعودی عرب امریکا -برطانیہ بلاک کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن سب سے بری حالت پاکستان کی ہے جو چکی کے دو پاٹوں امریکا اور چین کے بیچ میں پس رہا ہے ۔

اس معاشی جنگ میں امریکا اور چین موجودہ دور کے دو بڑے حریف بن کر سامنے آئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف کھل کر اقدامات بھی کرنے لگے ہیں۔ یوں عالمی سیاست میں دن بہ دن انتشار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکا اور چین کے مابین اقتصادی جنگ کے معاملے کی وجہ سے دنیا کی دیگر چھوٹی چھوٹی معاشی طاقتیں متاثر ہورہی ہیں اور ایسی متزلزل پالیسیاں وجود میں آرہی ہیں جس کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہورہے ہیں جب کہ مستقبل میں اس کے نتائج دنیا بھر کو بھگتنا پڑیں گے ۔

عالمی معاشی و منصوبہ سازی کے ماہر تجزیہ کاروں کی جانب سے اس معاشی مفادات کی جنگ کے ایک روز سیاسی و نظریاتی تضادات کی انتہائی سطح پر پہنچ کر عالمی عسکری و ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔بہرحال جدید دور کے مستقبل کاسیاسی و اقتصادی منظر کسی ایک فکر و ایک بلاک کے فہم و طاقت سے کنٹرول میں رہنا مشکل نظر آرہا ہے ۔ اس لیے مختلف نظریات اور فلسفوں و عقائد کی مخلوط قیادتی سوچ ہی ورکنگ رلیشن ترتیب دیکر اس کے ذریعے انسانی ترقی کے معیارات و خوشحالی کے اسباب کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ جس کے لیے اس کائنات اور انسان کی بقا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کائنات کے دفاع اور تحفظ ِ نسل انسانی کے لیے انسانیت کے اصولوں کو Followکرنے کی مشترکہ پالیسی بنانا اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ نکتہ ہے جو تمام مذاہب و عقائد اور فلسفوں میں اُتم تصور کیا جاتا ہے اور یہی ترقی بنی نوعِ آدم ، اتحاد ِ عالم اور عالمی امن کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا ہے ۔

ورنہ کرہ ٔ ارض سے جس طرح دیگر مخلوقات اور موجودات کی زندگی کا خاتمہ ہوتا رہا ہے اسی طرح نسل ِ انسان بھی کہیں نایاب نہ ہوجائے ۔ جس کا سامان بھی ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کی صورت میں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اور جسے اپنے تئیں تحفظ کا سامان سمجھتے ہیں ۔۔!
Load Next Story