آزاد پاکستان
ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک ہماری تقدیر بدل دے گا۔
زندگی کا سب سے اہم مقصد اگرکوئی ہوسکتا ہے تو وہ حقیقت کا ادراک ہونا ہے۔ حقیقت وہ ہے جوکسی کی ہمجولی نہیں ہوتی ۔اس حقیقت کو دیکھنا، پرکھنا اور تسلیم کرنا ، دل گردے کا کام ہے، اس کو بڑی وسیع آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم حقیقتوں کو اپنے، اپنے زاویے سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
مفادات میں الجھ کر فسادیوں کے بیچ بیٹھ کر ہماری کوئی ٹریننگ نہیں ہوسکتی کہ ہم ان عام فہم چیزوں کو عام انداز میں کیسے دیکھیں ۔ پھرکیا ہوتا ہے ، ہم اپنے قبیلے اور ثقافتی قید وبند اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت کو دیکھتے ہیں جہاں ہمیں ہر چیز یرقان زدہ دکھائی دیتی ہے، جس طرح فیض صاحب لکھتے ہیں کہ
''کچھ بھی خبر نہیں کہ دن ڈھلے کدھرکو جانے کا رخ کیا تھا''
مداری ہے اور اس کی بندریا ہے، بچہ جمہورہ کی عیاری ہے ، ڈگڈگی ، ڈھول اور لاٹھی کے ڈر سے بندریا وہی کھیل دکھاتی ہے، جو اس کا مالک اسے کہتا ہے اور ہم اہل تماشا ہوکر دیکھتے ہیں، یہ بازیچہ اطفال پھر ہم ہی دیکھتے ہیں ۔ یہ جو ہماری جمہوریت ہے ، ہمارا عکس ہے۔ یہ خود نہیں بنتی ہم بناتے ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں ، جس طرح عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ اسی طرح ہمارا پاکستان بھی ہمارا ہی عکس ہے ، ہم اچھے تو یہ اچھا ، ہم برے تو یہ برا ۔ یہ جو ہماری مڈل کلاس ہے ان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جو میرٹ کی بنیاد پر اپنی معاشی حیثیت منواتے ہیں مگر ان کا معاملہ بیانیے کا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے میسولینی نے اٹلی کو نیشنلزم کے نام پر یرغمال بنایا تھا اور جس طرح ہٹلر نے جرمنی کو۔
لیڈر، لیڈر ہوتا ہے پاپولرسٹ بننے کے لیے وہ کئی تدبیروں اور گروں سے کھیلتا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کیا دے رہا ہے ؟ سوال یہ کہ آپ اس سے کیا لینا چاہ رہے ہیں۔ جو آپ لینا چاہتے ہیں لیڈر وہی دے گا ہاں ! مگر ایسے لیڈر بھی ہوتے ہیں جو بدلتے طوفانوں کے رخ کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہوجاتے ہیں لیکن شاید وہ آپ کے لیے بھی نہیں ہوتے، وہ اپنے آپ کو تاریخ میں رقم کروانا چاہتے ہیں ۔
چائنا میں آمریت ہے لیکن اس نے پوری دنیا کے لیے مثال قائم کی ہے یا یوں کہیے کہ چائنا نے لبرل ڈیموکریسی کو چیلنج کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایسا نہیں کہ مارکیٹ اکانومی یا معیشت صرف جمہوریت میں ہی پروان چڑھتی ہے اور ریاستیں ترقی کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت کوئی فرق نہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ادوارکے پیچھے ایک ہی اشرافیہ ہے جو پارلیمینٹرین آج ہیں کل بھی وہی تھے اور ایک ہی طبقہ پارلیمنٹ میں نظر آتا تھا اور نظر آرہا ہے ۔اس دفعہ جو مڈل کلاس پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ابھری ہے وہ بھی کراچی کی مڈل کلاس کی طرح ان ہی وڈیروںاور چوہدریوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے گی۔
جن ممالک کی اشرافیہ ہمارے جیسی تھی آج وہ بھی اسی دلدل میں پھنسے ہیں جس دلدل میں ہم ۔ اور وہ ممالک اس بھنور سے نکل چکے جن کی اشرافیہ ہماری جیسی نہیں تھی ۔اب وہ ابھرتی ہوئی معیشت کی category میں آتے ہیں۔
ہمارے شرفاء کو جو ملا ، وہ لیتے گئے۔ قرضے پر قرضہ چڑھتا گیا۔ ہم نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ہم اتنے قرضے لینے کی حیثیت رکھتے ہیں ؟کیا ان قرضوں کا استعمال صحیح جگہ ہورہا ہے ؟کیا ہماری آمدنی بڑھ رہی ہے اورکیا ہم لوگوں کی زندگیاں بہتر بناسکتے ہیں؟ کیا شرح نمو میں اضافہ ہورہا ہے؟ کیا یہ قرضے ہم اتار سکتے ہیں ؟ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں مگر کیا ان قرضوں کی ادائیگی یا دوسرے الفاظ میں balance of payment کا بحران ہماری ایٹمی طاقت ہونے کی صلاحیت کو بچا رہا ہے؟ہمارا ایٹمی طاقت ہونا اس خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن ہمیں یہ سمجھ نہ آئی کہ قرضوں کا بحران ہمیں کس بھنور میں پھنسا چکا ہے اور ہماری بین الاقوامی حیثیت کچھ اس طرح ہے کہ جیسے ہم نے اپنی ملکی سالمیت کو گروی رکھ دیا ہو ۔
ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک ہماری تقدیر بدل دے گا۔ ہمارے ساتھ چین کی پر خلوص نیت اپنی جگہ ، مگر جب ہم سی پیک کی رتھ بندی صحیح انداز میں نہ کر سکے تو ان کا کیا قصور؟ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اس وقت امریکا کا ہندوستان کی طرف جھکائو ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے اور اسی طرح ہمارا چین کے ساتھ فوجی اتحاد بھی وقت کی ضرورت ہے، جو اس خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھ سکتا ہے ۔
امریکا کے ہندوستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ، چائنا کے سپر طاقت بن کر ابھرنے کے تناظر میں ہیں لیکن ساتھ ہی چین کے بھی تجارتی تعلقات ہندوستان کے ساتھ بڑے وسیع ہیں ، اگر امن وامان کا دور دورہ ہو یا پھر ان دونوں ممالک کے درمیاں تبت و بھوٹان کا تنازعہ نہ ہو چین اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات مزید گہرے اور بہتر ہوسکتے ہیں اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے چین ہمارا انتظار نہیں کرے گا ۔
ہمیں سی پیک سے جو مل رہا ہے وہ چین سے امپورٹ کی گئی مشینری ہے وہ چاہے پاور پروجیکٹ ہوں یا میٹرو ریلوے کا نظام ہو یا بندرگاہوں کا انفراا سٹرکچر، اس کے لیے چین ہمیں قرضہ دے رہا ہے کہ ان پیسوں سے آپ چین سے ہی مشینری امپورٹ کریں ۔ اس سے چین کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت کے لیے اور انفرا سٹکچر کا جال بچھانے کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں جس سے وہاں کی شرح نمو میں ٹھرائو پیدا ہوا ہے ۔
امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے بعد ایک کساد بازاری کا مرحلہ recession آرہا ہے اب وہ اس سے تبھی نکل سکے گی یا یوں کہیے کہ چین کو پیداواری صلاحیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اس کی اندرون ملک اتنی کھپت نہیں۔ دوسری طرف ہمارا ماجرہ یہ ہے کہ ہماری معیشت میں اتنی تیزی سے انفراا سٹرکچرکو جذب کرنے کی طاقت نہیں رکھتی،کیونکہ یہ چائنیز بینکوں کے قرضے ہیں۔جو supplier's credit کی صورت میں ہیں اور اس کی ادائیگی ہمیں کرنی ہے ۔ اتنا بڑا انفرا سٹکچر ہم جذب نہیں کر پائیں گے اور ان پراجیکٹ کے لیے یہاں کے سرمایہ داروں نے چین کے سرمایہ داروں کے ساتھ جو debt equity کا تناسب بنایا ہے وہ زیادہ ترکاغذی ہے۔
یہ ہماری آج کی مڈل کلاس ان ہی آباؤ اجداد سے تعلق رکھتی ہے، جنھوں نے بھوک اور مفلسی میں اپنی اولادوں کو پڑھایا۔ اس دور میں افسر شاہی کا معیار بھی بہتر تھا،کرپشن و اقربا پروی کی انتہا نہ تھی نہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اجداد کے چھوڑے اثاثوں میں اضافہ کیا اور نہ ابا جی نے جاتی امرا کا محل بنایا ، مگر آج ایک نئے اور آزاد پاکستان کی سوچ کو لے کرآگے بڑھنا ہی بہتر ہوگا۔
مفادات میں الجھ کر فسادیوں کے بیچ بیٹھ کر ہماری کوئی ٹریننگ نہیں ہوسکتی کہ ہم ان عام فہم چیزوں کو عام انداز میں کیسے دیکھیں ۔ پھرکیا ہوتا ہے ، ہم اپنے قبیلے اور ثقافتی قید وبند اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت کو دیکھتے ہیں جہاں ہمیں ہر چیز یرقان زدہ دکھائی دیتی ہے، جس طرح فیض صاحب لکھتے ہیں کہ
''کچھ بھی خبر نہیں کہ دن ڈھلے کدھرکو جانے کا رخ کیا تھا''
مداری ہے اور اس کی بندریا ہے، بچہ جمہورہ کی عیاری ہے ، ڈگڈگی ، ڈھول اور لاٹھی کے ڈر سے بندریا وہی کھیل دکھاتی ہے، جو اس کا مالک اسے کہتا ہے اور ہم اہل تماشا ہوکر دیکھتے ہیں، یہ بازیچہ اطفال پھر ہم ہی دیکھتے ہیں ۔ یہ جو ہماری جمہوریت ہے ، ہمارا عکس ہے۔ یہ خود نہیں بنتی ہم بناتے ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں ، جس طرح عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ اسی طرح ہمارا پاکستان بھی ہمارا ہی عکس ہے ، ہم اچھے تو یہ اچھا ، ہم برے تو یہ برا ۔ یہ جو ہماری مڈل کلاس ہے ان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جو میرٹ کی بنیاد پر اپنی معاشی حیثیت منواتے ہیں مگر ان کا معاملہ بیانیے کا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے میسولینی نے اٹلی کو نیشنلزم کے نام پر یرغمال بنایا تھا اور جس طرح ہٹلر نے جرمنی کو۔
لیڈر، لیڈر ہوتا ہے پاپولرسٹ بننے کے لیے وہ کئی تدبیروں اور گروں سے کھیلتا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کیا دے رہا ہے ؟ سوال یہ کہ آپ اس سے کیا لینا چاہ رہے ہیں۔ جو آپ لینا چاہتے ہیں لیڈر وہی دے گا ہاں ! مگر ایسے لیڈر بھی ہوتے ہیں جو بدلتے طوفانوں کے رخ کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہوجاتے ہیں لیکن شاید وہ آپ کے لیے بھی نہیں ہوتے، وہ اپنے آپ کو تاریخ میں رقم کروانا چاہتے ہیں ۔
چائنا میں آمریت ہے لیکن اس نے پوری دنیا کے لیے مثال قائم کی ہے یا یوں کہیے کہ چائنا نے لبرل ڈیموکریسی کو چیلنج کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایسا نہیں کہ مارکیٹ اکانومی یا معیشت صرف جمہوریت میں ہی پروان چڑھتی ہے اور ریاستیں ترقی کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت کوئی فرق نہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ادوارکے پیچھے ایک ہی اشرافیہ ہے جو پارلیمینٹرین آج ہیں کل بھی وہی تھے اور ایک ہی طبقہ پارلیمنٹ میں نظر آتا تھا اور نظر آرہا ہے ۔اس دفعہ جو مڈل کلاس پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ابھری ہے وہ بھی کراچی کی مڈل کلاس کی طرح ان ہی وڈیروںاور چوہدریوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے گی۔
جن ممالک کی اشرافیہ ہمارے جیسی تھی آج وہ بھی اسی دلدل میں پھنسے ہیں جس دلدل میں ہم ۔ اور وہ ممالک اس بھنور سے نکل چکے جن کی اشرافیہ ہماری جیسی نہیں تھی ۔اب وہ ابھرتی ہوئی معیشت کی category میں آتے ہیں۔
ہمارے شرفاء کو جو ملا ، وہ لیتے گئے۔ قرضے پر قرضہ چڑھتا گیا۔ ہم نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ہم اتنے قرضے لینے کی حیثیت رکھتے ہیں ؟کیا ان قرضوں کا استعمال صحیح جگہ ہورہا ہے ؟کیا ہماری آمدنی بڑھ رہی ہے اورکیا ہم لوگوں کی زندگیاں بہتر بناسکتے ہیں؟ کیا شرح نمو میں اضافہ ہورہا ہے؟ کیا یہ قرضے ہم اتار سکتے ہیں ؟ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں مگر کیا ان قرضوں کی ادائیگی یا دوسرے الفاظ میں balance of payment کا بحران ہماری ایٹمی طاقت ہونے کی صلاحیت کو بچا رہا ہے؟ہمارا ایٹمی طاقت ہونا اس خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن ہمیں یہ سمجھ نہ آئی کہ قرضوں کا بحران ہمیں کس بھنور میں پھنسا چکا ہے اور ہماری بین الاقوامی حیثیت کچھ اس طرح ہے کہ جیسے ہم نے اپنی ملکی سالمیت کو گروی رکھ دیا ہو ۔
ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک ہماری تقدیر بدل دے گا۔ ہمارے ساتھ چین کی پر خلوص نیت اپنی جگہ ، مگر جب ہم سی پیک کی رتھ بندی صحیح انداز میں نہ کر سکے تو ان کا کیا قصور؟ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اس وقت امریکا کا ہندوستان کی طرف جھکائو ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے اور اسی طرح ہمارا چین کے ساتھ فوجی اتحاد بھی وقت کی ضرورت ہے، جو اس خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھ سکتا ہے ۔
امریکا کے ہندوستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ، چائنا کے سپر طاقت بن کر ابھرنے کے تناظر میں ہیں لیکن ساتھ ہی چین کے بھی تجارتی تعلقات ہندوستان کے ساتھ بڑے وسیع ہیں ، اگر امن وامان کا دور دورہ ہو یا پھر ان دونوں ممالک کے درمیاں تبت و بھوٹان کا تنازعہ نہ ہو چین اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات مزید گہرے اور بہتر ہوسکتے ہیں اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے چین ہمارا انتظار نہیں کرے گا ۔
ہمیں سی پیک سے جو مل رہا ہے وہ چین سے امپورٹ کی گئی مشینری ہے وہ چاہے پاور پروجیکٹ ہوں یا میٹرو ریلوے کا نظام ہو یا بندرگاہوں کا انفراا سٹرکچر، اس کے لیے چین ہمیں قرضہ دے رہا ہے کہ ان پیسوں سے آپ چین سے ہی مشینری امپورٹ کریں ۔ اس سے چین کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت کے لیے اور انفرا سٹکچر کا جال بچھانے کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں جس سے وہاں کی شرح نمو میں ٹھرائو پیدا ہوا ہے ۔
امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے بعد ایک کساد بازاری کا مرحلہ recession آرہا ہے اب وہ اس سے تبھی نکل سکے گی یا یوں کہیے کہ چین کو پیداواری صلاحیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اس کی اندرون ملک اتنی کھپت نہیں۔ دوسری طرف ہمارا ماجرہ یہ ہے کہ ہماری معیشت میں اتنی تیزی سے انفراا سٹرکچرکو جذب کرنے کی طاقت نہیں رکھتی،کیونکہ یہ چائنیز بینکوں کے قرضے ہیں۔جو supplier's credit کی صورت میں ہیں اور اس کی ادائیگی ہمیں کرنی ہے ۔ اتنا بڑا انفرا سٹکچر ہم جذب نہیں کر پائیں گے اور ان پراجیکٹ کے لیے یہاں کے سرمایہ داروں نے چین کے سرمایہ داروں کے ساتھ جو debt equity کا تناسب بنایا ہے وہ زیادہ ترکاغذی ہے۔
یہ ہماری آج کی مڈل کلاس ان ہی آباؤ اجداد سے تعلق رکھتی ہے، جنھوں نے بھوک اور مفلسی میں اپنی اولادوں کو پڑھایا۔ اس دور میں افسر شاہی کا معیار بھی بہتر تھا،کرپشن و اقربا پروی کی انتہا نہ تھی نہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اجداد کے چھوڑے اثاثوں میں اضافہ کیا اور نہ ابا جی نے جاتی امرا کا محل بنایا ، مگر آج ایک نئے اور آزاد پاکستان کی سوچ کو لے کرآگے بڑھنا ہی بہتر ہوگا۔