’’انگارے ‘‘ والی
ادب سے ان کی یہی محبت ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی ایک نہایت ہنگامہ خیزکتاب ’’انگارے ‘‘کی دوبارہ اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔
اسلم خواجہ سندھ کے ایک جانے پہچانے سیاسی کارکن ہیں ۔ انھوں نے سندھی سے اردو اور اردو سے سندھی میں ترجمے کا کام بہت دل جمعی سے کیا۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ، ترقی پسند تحریک اور پاک ہند دوستی کے لیے سرگرم رہے ہیں ، ادب سے ان کی یہی محبت ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی ایک نہایت ہنگامہ خیزکتاب ''انگارے ''کی دوبارہ اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور آج ہم اسی کتاب کی اشاعت نوکے سلسلے میں اکٹھے ہوئے ہیں ۔ اس مختصر سے افسانوی مجموعے میں دو افسانے رشید جہاں کے ہیں ۔ ان 2 افسانوں نے 30ء کی دہائی میں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان تہلکہ مچا دیا تھا۔
رشید جہاں 1905ء میں پیدا ہوئیں اور 1952ء میں رخت سفر باندھا ۔ صرف 47 برس کی عمر بھلا دنیا سے رخصت ہو جانے کی ہوتی ہے؟ لیکن انھیں ہر بات کی جلدی تھی ۔ وہ ایسے باپ اور ایسی ماں کی بیٹی تھیں جنھوں نے 1904ء کے علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی مخالفت کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم کا وہ چراغ روشن کیا ، جس سے چراغ جلتے گئے اور مسلمان لڑکیوں کی زندگی میں علم کا اجالا ہوگیا ۔
انھوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی ، جس کے بارے میں ایک مرتبہ انھوں نے اپنی نند حمیدہ سعید الظفر سے کہا تھا کہ ہم نے جب شعور سنبھالا تو عورتوں کی تعلیم کے بچھونے پر مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لحاف کو اوڑھ کر سوئے ۔ شیخ عبداللہ کے گھرکا اس سے دلآویز نقشہ کون کھینچ سکتا تھا جنھوں نے علی گڑھ میں مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کا نرم و نازک پودا لگایا ۔ اس ''جرم'' کی پاداش میں انھیں عمر بھر قتل کی دھمکیاں ملیں اور کفر و الحاد کے فتوے لگے ۔
1932ء میں نظامی پریس ، وکٹوریہ اسٹریٹ ، لکھنو میں جو انگارے دہکے تھے ، وہ 86 برس بعد بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ۔ وہ افسانوی مجموعہ جو سجاد ظہیر ، احمد علی ، رشید جہاں اور محمود الظفرکی دس مختصر کہانیوں پر مشتمل تھا ، اس پر 15مارچ 1935ء کو ہزمیجسٹی کی حکومت نے پابندی لگائی، اس کی ہرکاپی ضبط ہوئی اور برسوں بعد بھی لوگ اس کا نام زیر لب لیتے تھے اس کے باوجود وہ آج بھی زندہ ہے ۔ وہ افسانوی مجموعہ جس پرکئی شہروں کی مسجدوں سے دشنام واتہام کی سنگ باری ہوئی ۔لیتھو پر چھپی ہوئی 132صفحوں کی یہ کتاب ترقی پسند تحریک کا سرنامہ بنی اور آج تک محبت اور احترام سے یاد کی جاتی ہے۔
25اگست 1905ء کو علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شیخ عبداللہ اور آلابی کی بیٹی رشید جہاں کوگھٹی میں لڑکیوں کی تعلیم پلائی گئی اور پالنے میں آزادی ، انقلاب اور مساوات کی لوری سنائی گئی ۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر، ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی رکن، ترقی پسند مصنفین کی بنیاد گزاروں میں سے ایک ، 'انگارے' جیسے ہنگامہ خیز افسانوی مجموعے کی شریک مصنف، جس کے خلاف کفر و الحاد کے فتوے دیے گئے ۔ وہ ترقی پسند تحریک کی خاتون اول کہلائیں ۔ یہ عورت فاشزم اور امپریل ازم کے خلاف تھی ،اس دور میں فیمینزیم ، نیشنل ازم ، سوشلزم اورصنفی انصاف کی بات کرتی تھی، اس نے 1933ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت اس وقت اختیارکی جب بہت سے پڑھے لکھے اور سیاسی شعور رکھنے والے مردوں کو اس خیال سے ہی پسینہ آجاتا تھا ۔
رشید جہاں انگارے والی کے خلاف جس طرح مسلمانوں میں چرچے تھے اور جس طرح ان کو ناک کان کاٹنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں،کوئی عام عورت ہوتی تو خوف سے معافی مانگ لیتی اور گوشہ نشین ہو جاتی ۔ پر وہ تو رشید جہاں تھیں جو محض ستائیس سال کی عمر میں جرأت ، ہمت ، صبر واستقلال بے خوفی اور بے باکی کا پیکر بن کر ایک تجربہ کار اور نڈر عورت کی طرح اس طوفان کو ہنستے ہوئے جھیل گئیں۔ اس مسکراہٹ کے پس پردہ ان کے ذہن میں اس وقت کے سماج کی کمزوریاں، جہالت، توہم پرستی وغیرہ کام کر رہی تھیں ۔ وہ پورے اعتماد سے اپنے ساتھیوں سے کہتیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
رشید جہاں اپنے گھرکی سب سے بڑی بیٹی تھیں ۔ان کی دوسری بہن جن کا نام خورشید جہاں تھا اور جنھوں نے 40ء کی دہائی میں فلمی دنیا میں قدم رکھ کر وہ کام کیا تھا کہ جس کے بارے میں شریف مسلمان گھرانے سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ خورشید جہاں رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں آئیں اور اشوک کمارکے ساتھ کام کیا ۔ انھوںنے اپنی آپا بی کے بارے میں بہت محبت سے لکھا ہے۔ انھیں ان کی کسی کلاس فیلو نے اطلاع دی کہ ''انگارے'' کی وجہ سے کسی نے رشید جہاں کی ناک کاٹ دی ہے ۔ خورشید جہاں لکھتی ہیں کہ آپا بی کے بارے میں یہ پڑھ کر میں لرز گئی ۔ تحقیق پر معلوم ہو اکہ یہ محض افواہ تھی، تب کہیں میری جان میں جان آئی ۔
وہ ڈاکٹر تھیں ، ان کے پیشے نے انھیں ہندوستانی عورت کے دکھ درد کو سمجھنے، اس کے ساتھ ہونے والے غیرانسانی سلوک کے خلاف قلم اٹھانے پر اکسایا ۔کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہونے کے سبب انھوں نے جیل کاٹی، غریب بستیوں میں کام کرنے کو اپنا فرض جانا ، پارٹی کے اخبار 'چنگاری' کے لیے کمرکس کر لکھتی رہیں، جھونپڑ پٹی کے بچوں کو سمیٹ کر انھیں پڑھنا لکھنا سکھاتی رہیں ۔ بنگال میں قحط پڑا اورکمیونسٹ پارٹی کو روپوں کی ضرورت ہوئی تو اپنا زیور پارٹی فنڈ میں دے دیا ۔ اس کے بعد بھی پارٹی کو فنڈ درکار ہوا تو انھوں نے اپنے سسر سے اپنا حق مہر مانگا جو انھوں نے خاموشی سے رشید جہاں کو دے دیا ۔ ایسی بہو اور ایسا سسر شاید ہی کوئی اور ہوا ہو ۔
ان کی ایک قریبی دوست ہاجرہ بیگم ہمیں ان کے بارے میں بتاتی ہیں کہ '' دہرہ دون میں رشیدہ پورے طور پر سیاسی کارکن بن گئیں ۔ اپنے ڈاکٹری اصولوں کو ایک طرف رکھ کر وہ مہتروں کی بستیوں میں زمین پر بیٹھ کر بالغوں کو پڑھاتی تھیں ۔ آریہ سماج کے مندروں میں جاکر ہندو عورتوں کو عورتوں کی تنظیم میں لاتی تھیں۔ شہرکے مزدوروں کی تنظیم اور طلبا کی تنظیم میں حصہ لیتی تھیں ۔ پھر روپوش ساتھیوں کی رہائش اور خرچ کا انتظام ، بیماروں کا علاج ، پارٹی ، اسکول کا انتظام ، غرض کہ ڈاکٹر رشید جہاں سے وہ کامریڈ رشید بن گئی تھیں ۔ ان کی ادبی سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آئی ۔ بجائے افسانہ نگار کے وہ صحافی اور نامہ نگار بن گئیں ۔ دہرہ دون میں انھوں نے سیاسی ماہنامے ''چنگاری'' کا کام اپنے ذمہ لے لیا اور ضرورت کے مطابق صفحات پُرکرنے کے علاوہ سیاسی مضامین لکھنا ، ترجمہ کرنا ، کتابت صحیح کرنا اور پھرکاغذ اور چھپائی کے پیسے جمع کرنا یہ سب ان کے سر پڑ جاتا تھا ۔''
ان کا انتقال ہوا تو فیضؔ جیل میں تھے۔ رشید جہاں کی باتیں ان کا جہان بدل گئی تھیں۔ اگر ان کی ملاقات رشید جہاں سے نہ ہوتی تو شاید اردو ادب ایک انقلابی شاعرکے وجود سے محروم رہتا ۔ فیضؔ نے جیل سے ایلس کو لکھا ''ان کے جانے سے ہمارے برصغیر سے نیکی اور انسان دوستی کی بہت بڑی دولت چھن گئی اور ان کے دوستوں کی محرومی کا کیا کہیے جن کی زندگیاں ان کے ایثارومروت سے اس قدر آسودہ اور مزین ہوئیں۔''
انھوں نے صرف 47 برس کی عمر پائی لیکن ان کی انسان دوستی، ان کے خلوص اور ان کی باوقار شخصیت کے سامنے اس دورکے مشہور اور بڑے نام بھی سر جھکاتے تھے ۔ ان کے بارے میں آلِ احمد سرور نے لکھا ہے کہ'' میں نے جوشؔ کو رِندی میں رشید جہاں کے سامنے ہوشیار اور با ادب پایا اور جگرؔکی زبان سے بارہا ان کی تعریف سنی ہے۔ مذہب ، ملت اور ذات پات سے بلند اس پیکر مہرووفا کے لیے میں نے مذہب کے اماموں اور دہریت کے پرستاروں کو متفقہ طور پر ثناخواں پایا جو ان سے سخت اختلاف رکھتے تھے وہ ان کے احترام پر مجبور ہوتے تھے۔''
کینسر نے انھیں جیل میں شکارکیا۔ جہاں وہ دوسرے قیدیوں کے حقوق کے لیے لمبی لمبی بھوک ہڑتالیں کرتی تھیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے پاس مہلت زندگی کم ہے، اس کے باوجود جیل سے باہر آکربھی انھوں نے اپنی زندگی کی طرف کم ہی توجہ دی۔آخری سانسیں انھوں نے ماسکوکے ایک اسپتال میں لیں '' وہیں کے ایک قبرستان میں دفن ہوئیں،جہاں ان کے لوح مزار پر کندہ ہے۔ کمیونسٹ ' ڈاکٹر' لکھنے والی' ۔
ڈاکٹر رشید جہاں ،آج بھی رجعت پرست مسلمان حلقے میں جس طرح گردن زدنی ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ جب 2005ء میں کچھ لوگوں نے ان کی صدی منانے کی تجویز پیش کی تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر نے ان کی صدی تقریبات پر پابندی عائد کر دی ۔ انھیں خوف تھا کہ اس نڈر اور متنازعہ شخصیت کی یاد منانے پر ہنگامہ مچ جائے گا اور دائیں بازوکی طلبہ تنظیموں کی طرف سے احتجاج شروع ہو جائے گا ۔ اسلم خواجہ نے ''انگارے'' کی یاد مناکر انھیں خراج عقیدت ادا کیا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بالاقامت ثابت ہوئے ہیں ۔ اس کے لیے ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے۔
(کراچی آرٹس کونسل میں پڑھا گیا)
رشید جہاں 1905ء میں پیدا ہوئیں اور 1952ء میں رخت سفر باندھا ۔ صرف 47 برس کی عمر بھلا دنیا سے رخصت ہو جانے کی ہوتی ہے؟ لیکن انھیں ہر بات کی جلدی تھی ۔ وہ ایسے باپ اور ایسی ماں کی بیٹی تھیں جنھوں نے 1904ء کے علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی مخالفت کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم کا وہ چراغ روشن کیا ، جس سے چراغ جلتے گئے اور مسلمان لڑکیوں کی زندگی میں علم کا اجالا ہوگیا ۔
انھوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی ، جس کے بارے میں ایک مرتبہ انھوں نے اپنی نند حمیدہ سعید الظفر سے کہا تھا کہ ہم نے جب شعور سنبھالا تو عورتوں کی تعلیم کے بچھونے پر مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لحاف کو اوڑھ کر سوئے ۔ شیخ عبداللہ کے گھرکا اس سے دلآویز نقشہ کون کھینچ سکتا تھا جنھوں نے علی گڑھ میں مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کا نرم و نازک پودا لگایا ۔ اس ''جرم'' کی پاداش میں انھیں عمر بھر قتل کی دھمکیاں ملیں اور کفر و الحاد کے فتوے لگے ۔
1932ء میں نظامی پریس ، وکٹوریہ اسٹریٹ ، لکھنو میں جو انگارے دہکے تھے ، وہ 86 برس بعد بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ۔ وہ افسانوی مجموعہ جو سجاد ظہیر ، احمد علی ، رشید جہاں اور محمود الظفرکی دس مختصر کہانیوں پر مشتمل تھا ، اس پر 15مارچ 1935ء کو ہزمیجسٹی کی حکومت نے پابندی لگائی، اس کی ہرکاپی ضبط ہوئی اور برسوں بعد بھی لوگ اس کا نام زیر لب لیتے تھے اس کے باوجود وہ آج بھی زندہ ہے ۔ وہ افسانوی مجموعہ جس پرکئی شہروں کی مسجدوں سے دشنام واتہام کی سنگ باری ہوئی ۔لیتھو پر چھپی ہوئی 132صفحوں کی یہ کتاب ترقی پسند تحریک کا سرنامہ بنی اور آج تک محبت اور احترام سے یاد کی جاتی ہے۔
25اگست 1905ء کو علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شیخ عبداللہ اور آلابی کی بیٹی رشید جہاں کوگھٹی میں لڑکیوں کی تعلیم پلائی گئی اور پالنے میں آزادی ، انقلاب اور مساوات کی لوری سنائی گئی ۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر، ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی رکن، ترقی پسند مصنفین کی بنیاد گزاروں میں سے ایک ، 'انگارے' جیسے ہنگامہ خیز افسانوی مجموعے کی شریک مصنف، جس کے خلاف کفر و الحاد کے فتوے دیے گئے ۔ وہ ترقی پسند تحریک کی خاتون اول کہلائیں ۔ یہ عورت فاشزم اور امپریل ازم کے خلاف تھی ،اس دور میں فیمینزیم ، نیشنل ازم ، سوشلزم اورصنفی انصاف کی بات کرتی تھی، اس نے 1933ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت اس وقت اختیارکی جب بہت سے پڑھے لکھے اور سیاسی شعور رکھنے والے مردوں کو اس خیال سے ہی پسینہ آجاتا تھا ۔
رشید جہاں انگارے والی کے خلاف جس طرح مسلمانوں میں چرچے تھے اور جس طرح ان کو ناک کان کاٹنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں،کوئی عام عورت ہوتی تو خوف سے معافی مانگ لیتی اور گوشہ نشین ہو جاتی ۔ پر وہ تو رشید جہاں تھیں جو محض ستائیس سال کی عمر میں جرأت ، ہمت ، صبر واستقلال بے خوفی اور بے باکی کا پیکر بن کر ایک تجربہ کار اور نڈر عورت کی طرح اس طوفان کو ہنستے ہوئے جھیل گئیں۔ اس مسکراہٹ کے پس پردہ ان کے ذہن میں اس وقت کے سماج کی کمزوریاں، جہالت، توہم پرستی وغیرہ کام کر رہی تھیں ۔ وہ پورے اعتماد سے اپنے ساتھیوں سے کہتیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
رشید جہاں اپنے گھرکی سب سے بڑی بیٹی تھیں ۔ان کی دوسری بہن جن کا نام خورشید جہاں تھا اور جنھوں نے 40ء کی دہائی میں فلمی دنیا میں قدم رکھ کر وہ کام کیا تھا کہ جس کے بارے میں شریف مسلمان گھرانے سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ خورشید جہاں رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں آئیں اور اشوک کمارکے ساتھ کام کیا ۔ انھوںنے اپنی آپا بی کے بارے میں بہت محبت سے لکھا ہے۔ انھیں ان کی کسی کلاس فیلو نے اطلاع دی کہ ''انگارے'' کی وجہ سے کسی نے رشید جہاں کی ناک کاٹ دی ہے ۔ خورشید جہاں لکھتی ہیں کہ آپا بی کے بارے میں یہ پڑھ کر میں لرز گئی ۔ تحقیق پر معلوم ہو اکہ یہ محض افواہ تھی، تب کہیں میری جان میں جان آئی ۔
وہ ڈاکٹر تھیں ، ان کے پیشے نے انھیں ہندوستانی عورت کے دکھ درد کو سمجھنے، اس کے ساتھ ہونے والے غیرانسانی سلوک کے خلاف قلم اٹھانے پر اکسایا ۔کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہونے کے سبب انھوں نے جیل کاٹی، غریب بستیوں میں کام کرنے کو اپنا فرض جانا ، پارٹی کے اخبار 'چنگاری' کے لیے کمرکس کر لکھتی رہیں، جھونپڑ پٹی کے بچوں کو سمیٹ کر انھیں پڑھنا لکھنا سکھاتی رہیں ۔ بنگال میں قحط پڑا اورکمیونسٹ پارٹی کو روپوں کی ضرورت ہوئی تو اپنا زیور پارٹی فنڈ میں دے دیا ۔ اس کے بعد بھی پارٹی کو فنڈ درکار ہوا تو انھوں نے اپنے سسر سے اپنا حق مہر مانگا جو انھوں نے خاموشی سے رشید جہاں کو دے دیا ۔ ایسی بہو اور ایسا سسر شاید ہی کوئی اور ہوا ہو ۔
ان کی ایک قریبی دوست ہاجرہ بیگم ہمیں ان کے بارے میں بتاتی ہیں کہ '' دہرہ دون میں رشیدہ پورے طور پر سیاسی کارکن بن گئیں ۔ اپنے ڈاکٹری اصولوں کو ایک طرف رکھ کر وہ مہتروں کی بستیوں میں زمین پر بیٹھ کر بالغوں کو پڑھاتی تھیں ۔ آریہ سماج کے مندروں میں جاکر ہندو عورتوں کو عورتوں کی تنظیم میں لاتی تھیں۔ شہرکے مزدوروں کی تنظیم اور طلبا کی تنظیم میں حصہ لیتی تھیں ۔ پھر روپوش ساتھیوں کی رہائش اور خرچ کا انتظام ، بیماروں کا علاج ، پارٹی ، اسکول کا انتظام ، غرض کہ ڈاکٹر رشید جہاں سے وہ کامریڈ رشید بن گئی تھیں ۔ ان کی ادبی سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آئی ۔ بجائے افسانہ نگار کے وہ صحافی اور نامہ نگار بن گئیں ۔ دہرہ دون میں انھوں نے سیاسی ماہنامے ''چنگاری'' کا کام اپنے ذمہ لے لیا اور ضرورت کے مطابق صفحات پُرکرنے کے علاوہ سیاسی مضامین لکھنا ، ترجمہ کرنا ، کتابت صحیح کرنا اور پھرکاغذ اور چھپائی کے پیسے جمع کرنا یہ سب ان کے سر پڑ جاتا تھا ۔''
ان کا انتقال ہوا تو فیضؔ جیل میں تھے۔ رشید جہاں کی باتیں ان کا جہان بدل گئی تھیں۔ اگر ان کی ملاقات رشید جہاں سے نہ ہوتی تو شاید اردو ادب ایک انقلابی شاعرکے وجود سے محروم رہتا ۔ فیضؔ نے جیل سے ایلس کو لکھا ''ان کے جانے سے ہمارے برصغیر سے نیکی اور انسان دوستی کی بہت بڑی دولت چھن گئی اور ان کے دوستوں کی محرومی کا کیا کہیے جن کی زندگیاں ان کے ایثارومروت سے اس قدر آسودہ اور مزین ہوئیں۔''
انھوں نے صرف 47 برس کی عمر پائی لیکن ان کی انسان دوستی، ان کے خلوص اور ان کی باوقار شخصیت کے سامنے اس دورکے مشہور اور بڑے نام بھی سر جھکاتے تھے ۔ ان کے بارے میں آلِ احمد سرور نے لکھا ہے کہ'' میں نے جوشؔ کو رِندی میں رشید جہاں کے سامنے ہوشیار اور با ادب پایا اور جگرؔکی زبان سے بارہا ان کی تعریف سنی ہے۔ مذہب ، ملت اور ذات پات سے بلند اس پیکر مہرووفا کے لیے میں نے مذہب کے اماموں اور دہریت کے پرستاروں کو متفقہ طور پر ثناخواں پایا جو ان سے سخت اختلاف رکھتے تھے وہ ان کے احترام پر مجبور ہوتے تھے۔''
کینسر نے انھیں جیل میں شکارکیا۔ جہاں وہ دوسرے قیدیوں کے حقوق کے لیے لمبی لمبی بھوک ہڑتالیں کرتی تھیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے پاس مہلت زندگی کم ہے، اس کے باوجود جیل سے باہر آکربھی انھوں نے اپنی زندگی کی طرف کم ہی توجہ دی۔آخری سانسیں انھوں نے ماسکوکے ایک اسپتال میں لیں '' وہیں کے ایک قبرستان میں دفن ہوئیں،جہاں ان کے لوح مزار پر کندہ ہے۔ کمیونسٹ ' ڈاکٹر' لکھنے والی' ۔
ڈاکٹر رشید جہاں ،آج بھی رجعت پرست مسلمان حلقے میں جس طرح گردن زدنی ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ جب 2005ء میں کچھ لوگوں نے ان کی صدی منانے کی تجویز پیش کی تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر نے ان کی صدی تقریبات پر پابندی عائد کر دی ۔ انھیں خوف تھا کہ اس نڈر اور متنازعہ شخصیت کی یاد منانے پر ہنگامہ مچ جائے گا اور دائیں بازوکی طلبہ تنظیموں کی طرف سے احتجاج شروع ہو جائے گا ۔ اسلم خواجہ نے ''انگارے'' کی یاد مناکر انھیں خراج عقیدت ادا کیا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بالاقامت ثابت ہوئے ہیں ۔ اس کے لیے ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے۔
(کراچی آرٹس کونسل میں پڑھا گیا)