شہباز شریف ہی چیئرمین پی اے سی ہونگے ورنہ بائیکاٹ کرینگے اپوزیشن ڈٹ گئی
مطالبہ تسلیم نہ ہونے پرپارلیمانی احتساب کافورم معطل کرنے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی، اسپیکرکوفیصلے آگاہ کردیا
پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے معاملے پر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتیں متحد ہوگئی ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے چیئرمین پی اے سی کا عہدہ اپوزیشن کو نہ دیا تو تمام اپوزیشن جماعتیں اس کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گی۔
اپوزیشن کے ذرائع کے مطابق اس اصولی موقف سے ا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی آگاہ کیا جاچکا ہے اور واضح کردیا گیا ہے کہ اگر یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو اپوزیشن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مکمل بائیکاٹ کر دیگی اور اس صورتحال کی وجہ سے پارلیمانی احتساب کے فورم کو معطل کرنے کی تمام ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
اس معاملے پر پہلے اپوزیشن کو یقین دہانی کرانے والے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر حکومتی یوٹرن پر مشکل صورتحال کا شکار ہیں تاہم وہ بدستور اس کوشش میں ہیں کہ قومی اسمبلی کے امور اپوزیشن اور حکومت دونوں کے تعاون کیساتھ بطریق احسن چلا سکیں اور چیئرمین پی اے سی کی تعیناتی کا تنازع حل کرنے کی کوئی بہتر صورت نکال سکیں، جیسے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے امور حکومت اور اپوزیشن کی رضامندی کیساتھ طے کیے جا چکے ہیں اور اگلے ہفتے یہ عمل مکمل کر لیا جائیگا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ پہلے حکومت نے خود ہی اسپیکر کو قائمہ کمیٹیوں اور ان کی سربراہی کی تقسیم کا فیصلہ اپوزیشن اور حکومت کی مشاورت سے کرنیکا اختیار دیا مگر اب حکومت کی جانب سے واضح موقف اختیار کر لیا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو کسی صورت چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بننے نہیں دیا جائیگا۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق اس معاملے پر فیصلہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکا سے وطن واپسی پر ہوگا جو حکومت کی جانب سے اس معاملے پر اپوزیشن کیساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ غیر رسمی مذاکراتی کمیٹی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کی کمیٹی کے قیام کے اختلافی امور طے کرنے کیلیے متحرک ہوئی تھی۔
اس ساری صورتحال پر اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے ایکسپریس کے رابطے پربتایا کہ پیپلز پارٹی واضح کر چکی ہے کہ چیئرمین پی اے سی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ہی ہونا چاہیے اور اس ایشو پر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔
خورشید شاہ نے وفاقی وزیراطلاعات کے اس موقف کو مسترد کر دیا کہ ن لیگ کا احتساب شہباز شریف کریں گے۔ انھوں نے کہا وزیر اطلاعات کے علم میں ہی نہیں کہ پی اے سی کا طریقہ کار کیا ہے، اگر حکومت کا موقف مان لیا جائے تو جب ایک سال بعد خود حکومت وقت کی آڈٹ رپورٹس پی اے سی کے سامنے ہوںگی تو پھر حکومت سے تعلق رکھنے والے چیئرمین کی ساکھ اور جانبداری کہاں جائے گی۔
خورشید شاہ نے کہا وہ پانچ سال چیئرمین پی اے سی رہ چکے ہیں، پارلیمانی احتساب کے اس فورم میں چیئرمین اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، تمام ارکان کی رائے کیساتھ فیصلے ہوتے ہیں اور کمیٹی میں حکومتی ارکان کی تعداد ویسے بھی زیادہ ہی ہوگی، چیئرمین پی اے سی اپوزیشن لیڈر ہونا پارلیمنٹ کی مضبوطی کی علامت ہے اس لیے اس معاملے پر ہم کمپرومائز نہیں کریںگے۔
اپوزیشن کے ذرائع کے مطابق اس اصولی موقف سے ا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی آگاہ کیا جاچکا ہے اور واضح کردیا گیا ہے کہ اگر یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو اپوزیشن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مکمل بائیکاٹ کر دیگی اور اس صورتحال کی وجہ سے پارلیمانی احتساب کے فورم کو معطل کرنے کی تمام ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
اس معاملے پر پہلے اپوزیشن کو یقین دہانی کرانے والے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر حکومتی یوٹرن پر مشکل صورتحال کا شکار ہیں تاہم وہ بدستور اس کوشش میں ہیں کہ قومی اسمبلی کے امور اپوزیشن اور حکومت دونوں کے تعاون کیساتھ بطریق احسن چلا سکیں اور چیئرمین پی اے سی کی تعیناتی کا تنازع حل کرنے کی کوئی بہتر صورت نکال سکیں، جیسے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے امور حکومت اور اپوزیشن کی رضامندی کیساتھ طے کیے جا چکے ہیں اور اگلے ہفتے یہ عمل مکمل کر لیا جائیگا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ پہلے حکومت نے خود ہی اسپیکر کو قائمہ کمیٹیوں اور ان کی سربراہی کی تقسیم کا فیصلہ اپوزیشن اور حکومت کی مشاورت سے کرنیکا اختیار دیا مگر اب حکومت کی جانب سے واضح موقف اختیار کر لیا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو کسی صورت چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بننے نہیں دیا جائیگا۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق اس معاملے پر فیصلہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکا سے وطن واپسی پر ہوگا جو حکومت کی جانب سے اس معاملے پر اپوزیشن کیساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ غیر رسمی مذاکراتی کمیٹی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کی کمیٹی کے قیام کے اختلافی امور طے کرنے کیلیے متحرک ہوئی تھی۔
اس ساری صورتحال پر اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے ایکسپریس کے رابطے پربتایا کہ پیپلز پارٹی واضح کر چکی ہے کہ چیئرمین پی اے سی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ہی ہونا چاہیے اور اس ایشو پر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔
خورشید شاہ نے وفاقی وزیراطلاعات کے اس موقف کو مسترد کر دیا کہ ن لیگ کا احتساب شہباز شریف کریں گے۔ انھوں نے کہا وزیر اطلاعات کے علم میں ہی نہیں کہ پی اے سی کا طریقہ کار کیا ہے، اگر حکومت کا موقف مان لیا جائے تو جب ایک سال بعد خود حکومت وقت کی آڈٹ رپورٹس پی اے سی کے سامنے ہوںگی تو پھر حکومت سے تعلق رکھنے والے چیئرمین کی ساکھ اور جانبداری کہاں جائے گی۔
خورشید شاہ نے کہا وہ پانچ سال چیئرمین پی اے سی رہ چکے ہیں، پارلیمانی احتساب کے اس فورم میں چیئرمین اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، تمام ارکان کی رائے کیساتھ فیصلے ہوتے ہیں اور کمیٹی میں حکومتی ارکان کی تعداد ویسے بھی زیادہ ہی ہوگی، چیئرمین پی اے سی اپوزیشن لیڈر ہونا پارلیمنٹ کی مضبوطی کی علامت ہے اس لیے اس معاملے پر ہم کمپرومائز نہیں کریںگے۔