کرشماتی مائیکرو چِپ جو یادداشت کی بحالی میں مدد دے گی
سائنس دانوں کے مطابق یہ چپ دماغ میں چوٹ لگنے کے باعث نسیان کے مرض میں مبتلا ہونے والے افراد، اور اسٹروک اور الزائمر۔۔۔
لاہور:
امریکی محققین کی ایک ٹیم کو یقین ہے کہ اگلے دو برسوں میں انسانی دماغ میں تجرباتی طور پر وہ مائیکروچِپ داخل کی جاسکتی ہے جو متاثرہ یا تباہ شدہ دماغ میں یاد داشت کی بحالی میں مدد کرے گی۔
یونی ورسٹی آف ساؤدرن کیلی فورنیا، ویک فاریسٹ یونی ورسٹی اور دیگر جامعات سے وابستہ سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم ایک دہائی سے زائد عرصے سے دماغی اُبھاروں ( hippocampus) پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ دریافت کرچکے ہیں کہ یاداشتیں ہمارے دماغ میں کہاں اور کیسے محفوظ ہوتی ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق اس تحقیق نے ایک ایسی مائیکروچِپ کی تخلیق کی راہ ہموار کردی ہے جو دماغ میں چوٹ لگنے کے باعث نسیان کے مرض میں مبتلا ہونے والے افراد، اور اسٹروک اور الزائمر کے مریضوں کی یادداشت کی بحالی میں بے حد مفید ثابت ہوگی۔ ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں نے چوہوں اور بندروں کے دماغوں پر تجربات کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک سلیکون چِپ سے نکلنے والے برقی اشارات کی صورت میں دماغی پیغامات کی نقل تیار کی جاسکتی ہے۔
سائنس داں اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس قسم کی چِپ کی تیاری کے لیے الیکٹرونکس کے ضمن میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، تاہم انھیں یقین ہے کہ یہ مرحلہ بھی جلد طے کرلیا جائے گا۔ ان کی اس خوش اُمیدی کا سبب مرگی جیسے امراض کے علاج کے لیے انسانوں میں الیکٹروڈ امپلانٹس کا لگایا جانا اور جسم انسانی کا ان امپلانٹس کو قبول کرلینا ہے۔ حالیہ عرصے میں امپلانٹس کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل مصنوعی بازو بھی لگائے گئے ہیں جو دماغ کی لہروں کو محسوس کرتے ہوئے ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
سائنس داں اپنی دریافت پر بہت پُرجوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یادداشت کی بحالی کے لیے مریضوں کے دماغ میں نصب کی جانے والی ڈیوائس آئندہ پانچ سے دس برس میں تیار ہوسکتی ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے نیوروسائنٹسٹ اور بایومیڈیکل انجنیئر پروفیسر ٹیڈ برجر کہتے ہیں،''ہم فی الوقت یادداشتوں کو انفرادی طور پر واپس دماغ میں محفوظ کر رہے ہیں۔ یہ بات میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھی کہ میں اپنی زندگی میں اپنے اس تصور کو حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ میں اس مائیکروچپ سے فائدہ نہ اٹھاسکوں مگر میرے بچے ضرور اس سے مستفید ہوسکیں گے۔''
اس تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے دماغی اُبھاروں کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا جو دماغ کے اندرونی حصے میں ہوتے ہیں اور مختصرالمیعاد یادداشت سے حاصل ہونے والی معلومات کو طویل المیعاد یادداشت کی معلومات کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ مستبقل کا یہ برین امپلانٹ دماغ کے عصبی پیغامات کی برقی اشارات کی صورت میں نقل کرسکے گا۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ ڈیوائس ان مریضوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگی جن کی دماغی سرگرمی کسی چوٹ یا اسٹروک کی وجہ سے متاثر ہوئی ہو۔ اس تحقیق کا حتمی مقصد الزائمر سے متاثرہ لوگوں کا علاج کرنا ہے مگر اس کے لیے مزید تحقیق درکار ہوگی کیوں کہ یہ بیماری مریض کے دماغ کے کئی حصوں کو بہ یک وقت متاثر کرتی ہے۔
امریکی محققین کی ایک ٹیم کو یقین ہے کہ اگلے دو برسوں میں انسانی دماغ میں تجرباتی طور پر وہ مائیکروچِپ داخل کی جاسکتی ہے جو متاثرہ یا تباہ شدہ دماغ میں یاد داشت کی بحالی میں مدد کرے گی۔
یونی ورسٹی آف ساؤدرن کیلی فورنیا، ویک فاریسٹ یونی ورسٹی اور دیگر جامعات سے وابستہ سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم ایک دہائی سے زائد عرصے سے دماغی اُبھاروں ( hippocampus) پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ دریافت کرچکے ہیں کہ یاداشتیں ہمارے دماغ میں کہاں اور کیسے محفوظ ہوتی ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق اس تحقیق نے ایک ایسی مائیکروچِپ کی تخلیق کی راہ ہموار کردی ہے جو دماغ میں چوٹ لگنے کے باعث نسیان کے مرض میں مبتلا ہونے والے افراد، اور اسٹروک اور الزائمر کے مریضوں کی یادداشت کی بحالی میں بے حد مفید ثابت ہوگی۔ ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں نے چوہوں اور بندروں کے دماغوں پر تجربات کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک سلیکون چِپ سے نکلنے والے برقی اشارات کی صورت میں دماغی پیغامات کی نقل تیار کی جاسکتی ہے۔
سائنس داں اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس قسم کی چِپ کی تیاری کے لیے الیکٹرونکس کے ضمن میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، تاہم انھیں یقین ہے کہ یہ مرحلہ بھی جلد طے کرلیا جائے گا۔ ان کی اس خوش اُمیدی کا سبب مرگی جیسے امراض کے علاج کے لیے انسانوں میں الیکٹروڈ امپلانٹس کا لگایا جانا اور جسم انسانی کا ان امپلانٹس کو قبول کرلینا ہے۔ حالیہ عرصے میں امپلانٹس کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل مصنوعی بازو بھی لگائے گئے ہیں جو دماغ کی لہروں کو محسوس کرتے ہوئے ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
سائنس داں اپنی دریافت پر بہت پُرجوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یادداشت کی بحالی کے لیے مریضوں کے دماغ میں نصب کی جانے والی ڈیوائس آئندہ پانچ سے دس برس میں تیار ہوسکتی ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے نیوروسائنٹسٹ اور بایومیڈیکل انجنیئر پروفیسر ٹیڈ برجر کہتے ہیں،''ہم فی الوقت یادداشتوں کو انفرادی طور پر واپس دماغ میں محفوظ کر رہے ہیں۔ یہ بات میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھی کہ میں اپنی زندگی میں اپنے اس تصور کو حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ میں اس مائیکروچپ سے فائدہ نہ اٹھاسکوں مگر میرے بچے ضرور اس سے مستفید ہوسکیں گے۔''
اس تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے دماغی اُبھاروں کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا جو دماغ کے اندرونی حصے میں ہوتے ہیں اور مختصرالمیعاد یادداشت سے حاصل ہونے والی معلومات کو طویل المیعاد یادداشت کی معلومات کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ مستبقل کا یہ برین امپلانٹ دماغ کے عصبی پیغامات کی برقی اشارات کی صورت میں نقل کرسکے گا۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ ڈیوائس ان مریضوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگی جن کی دماغی سرگرمی کسی چوٹ یا اسٹروک کی وجہ سے متاثر ہوئی ہو۔ اس تحقیق کا حتمی مقصد الزائمر سے متاثرہ لوگوں کا علاج کرنا ہے مگر اس کے لیے مزید تحقیق درکار ہوگی کیوں کہ یہ بیماری مریض کے دماغ کے کئی حصوں کو بہ یک وقت متاثر کرتی ہے۔