بلدیاتی نظام کے نئے وعدے
حیرت کی بات یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ فوجی حکومت کے زمانے ہی میں ہوئے ہیں۔
ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کی 65 سالہ تاریخ میں عوام کو آمریت اور جمہوریت کے غلاموں کا رتبہ ہی ملتا رہا، سیاسی زندگی میں ان کی پیش رفت کے سارے دروازے بند کیے جاتے رہے، لے دے کر ایک راستہ ان کے لیے چھوڑ دیا گیا اور وہ ہے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ووٹ کا استعمال نسبتاً فائدہ مند اس لیے ہوتا ہے کہ ان ملکوں کے عوام اپنے حلقے کے امیدوار کی کارکردگی دیکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور امیدوار کی کارکردگی کا مشاہدہ ووٹر بلدیاتی خدمات سے کرتا ہے، ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں بھی بہت ساری خرابیاں موجود ہیں لیکن ان ملکوں میں وراثتی قیادت کا کلچر موجود نہیں۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ گراس روٹ سے آگے بڑھنے کا راستہ (بلدیاتی نظام) ہمارے جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکھتا رہا ہے۔ آج تک کسی جمہوری حکمران نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت نہیں کی، یہ مسئلہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی دانستہ سازش ہے کہ وہ نہ گراس روٹ سے سیاسی قیادت کو ابھرتا دیکھنا پسند کرتے ہیں نہ نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ فوجی حکومت کے زمانے ہی میں ہوئے ہیں، آخری انتخابات بھی مشرف دور ہی میں ہوئے ہیں۔
سابقہ پی پی حکومت کے دوران اگرچہ بلدیاتی انتخابات کا غلغلہ بلند ہوا لیکن بادشاہانہ ذہن رکھنے والی ہماری سیاسی اشرافیہ نے بلدیاتی نظام کو مسترد کرکے کمشنری نظام رائج کردیا، یہ نظام پنجاب کے علاوہ جہاں کی صنعتی اشرافیہ اس نظام کو اپنے اختیارات میں مداخلت سمجھتی ہے پختونخوا میں بھی بڑے زور وشور سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جہاں نہ صرف مڈل کلاس کی حکومت تھی بلکہ اس حکومت میں ایسے مڈل کلاس دانشور بھی تھے جو مارکسسٹ دانشور کہلاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ''سرمایہ دارانہ نظام کی برکات'' نے ہماری مڈل کلاس کو بھی اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ کھلی نظریاتی بددیانتی پر اتر آئی ہے۔
سندھ میں اگرچہ متحدہ کے اصرار پر بلدیاتی نظام کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی لیکن سیاسی رقابتوں کی وجہ سے یہ بیل یہاں بھی منڈھے نہ چڑھ سکی بلکہ یہاں کی مڈل کلاس سیاسی رقابتوں میں اس حد تک آگے نکل گئی کہ اس نے کمشنری نظام کے نفاذ کا دھوم دھڑکے کے ساتھ مطالبہ کیا، مظاہرے ہوئے، ہڑتالیں کی گئیں یوں سندھ میں بھی بلدیاتی نظام کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہ بڑی عجیب نفسیات ہے کہ محض کسی حریف جماعت کی ممکنہ بالادستی کے خوف سے بلدیاتی نظام ہی کو مسترد کرکے کمشنری نظام کا مطالبہ کیا جائے جب کہ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ بلدیاتی نظام پر کسی جماعت کی اجارہ داری سے خوفزدہ ہونے کے بجائے عوام میں اپنی حمایت پیدا کرکے بلدیاتی الیکشن جیتنے کا سیدھا اور منصفانہ راستہ اپنایا جائے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئے عنصر تحریک انصاف کے اضافے کے بعد سیاسی زندگی میں جو ہلچل پیدا ہوئی ہے، ہوسکتا ہے یہ ہلچل بعض سیاسی جماعتوں میں خوف کی شکل اختیار کرلے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں۔ حالیہ انتخابات میں اپنی ناقص کارکردگی اور سیاسی کھینچا تانیوں کے نتیجے میں جن پارٹیوں کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ دوبارہ عوام میں نئے منشور کے ساتھ جاکر عوام کی ناراضگی کو کم کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ اس حوالے سے بلدیاتی انتخابات کی مخالفت انتہائی غیر منطقی اور عوام دشمنی ہی کہلاسکتی ہے۔
ہمارا ملک پچھلے 65 برسوں سے فیوڈل جمہوریت کی صلیب پر جس طرح لٹکا ہوا ہے اس سے نکلنے کا بھی تدریجی طریقہ یہی ہے کہ یہاں بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ سابق صدر نے ناظمین کا جو نظام متعارف کرایا تھا وہ اپنی سرشت میں ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف علاقائی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ نظام ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جمہوریت کی نرسری کا کام بھی احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ ناظمین کے نظام میں اگر کوئی خامیاں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن علاقائی سطح پر یوسی سے لے کر ٹاؤن اور سٹی ناظم تک جو مربوط سلسلہ ہے اگر اسے خلوص نیت سے آزمایا جائے تو بلاشبہ نہ صرف یہ نظام عوام کے مقامی مسائل حل کرنے میں انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ترقیاتی کاموں میں بھی یہ نظام موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارا ملک دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے سماجی جرائم کا جس طرح گڑھ بن گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گلی گلی، محلہ محلہ تک پھیلے اس عفریت کا مقابلہ نہ محدود نفری پر مشتمل پولیس کرسکتی ہے نہ رینجرز، نہ ایف سی، اس کے لیے گلی گلی، محلہ محلہ ایسی تنظمیوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقوں میں چھپے مجرموں پر نظر رکھ سکیں، یہ کام کونسلر اور یوسی کی سطح کی بلدیاتی تنظیمیں بحسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں۔ بشرطیکہ ان تنظیموں سے یہ انتہائی اہم اور ذمے دارانہ کام لیا جائے اور ان کی ہر طرح حوصلہ افزائی کی جائے۔اور ان تنظیموں میں کالی بھیڑوں کو نہ گھسنے دیا جائے۔
ناظمین کے نظام کے حوالے سے دو شکایتیں بڑی عام اور قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ بالادست طبقات اپنے اثرورسوخ کو کام میں لاکر اپنے ناظمین منتخب کرالیتی ہیں اور ان کے ذریعے کرپشن اور انتظامی فوائد وغیرہ حاصل کرتی ہیں۔ یہ شکایت بے جا نہیں لیکن یہی بیماری ہماری سیاست کو لاحق ہے جس سے ابھی تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ ہمارا خاندانی جمہوریت اور خاندانی حکمرانی کا مکروہ نظام کوئی نیا نظام نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے، ماضی میں اسے شاہانہ اور بادشاہانہ نظام کہا جاتا تھا اب اس نظام کا نیا ماڈل وڈیرہ شاہی یا اشرافیائی جمہوریت کہلاتا ہے۔ لیکن اس نظام کو آخرکار عوام کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ چین میں ہزاروں سال تک یہ نظام مستحکم رہا لیکن جب عوام بیدار ہوئے اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو اسے اپنی ہار ماننی پڑی۔
چین کے شہنشاہ کوانگ سو نے عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر یہ تاریخی اعلان کیا تھا۔آج سلطنت کے تمام باشندوں کا رجحان جمہوریت کی طرف ہے۔ عوام کا مقصد واضح ہے۔ صرف ایک خاندان کی عظمت و شان برقرار رکھنے کے لیے کروڑوں انسانوں کی خواہشوں کو کب تک کچلا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ''چین پر خاندانی حکمرانی کا دور ختم ہونا چاہیے اور عوام کی مرضی کی حکومت بننی چاہیے''۔ اگر پاکستان کے عوام اٹھ کھڑے ہوں تو خاندانی حکمرانیوں کا دور ختم ہوسکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے بلدیاتی نظام بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ گراس روٹ سے آگے بڑھنے کا راستہ (بلدیاتی نظام) ہمارے جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکھتا رہا ہے۔ آج تک کسی جمہوری حکمران نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت نہیں کی، یہ مسئلہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی دانستہ سازش ہے کہ وہ نہ گراس روٹ سے سیاسی قیادت کو ابھرتا دیکھنا پسند کرتے ہیں نہ نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ فوجی حکومت کے زمانے ہی میں ہوئے ہیں، آخری انتخابات بھی مشرف دور ہی میں ہوئے ہیں۔
سابقہ پی پی حکومت کے دوران اگرچہ بلدیاتی انتخابات کا غلغلہ بلند ہوا لیکن بادشاہانہ ذہن رکھنے والی ہماری سیاسی اشرافیہ نے بلدیاتی نظام کو مسترد کرکے کمشنری نظام رائج کردیا، یہ نظام پنجاب کے علاوہ جہاں کی صنعتی اشرافیہ اس نظام کو اپنے اختیارات میں مداخلت سمجھتی ہے پختونخوا میں بھی بڑے زور وشور سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جہاں نہ صرف مڈل کلاس کی حکومت تھی بلکہ اس حکومت میں ایسے مڈل کلاس دانشور بھی تھے جو مارکسسٹ دانشور کہلاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ''سرمایہ دارانہ نظام کی برکات'' نے ہماری مڈل کلاس کو بھی اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ کھلی نظریاتی بددیانتی پر اتر آئی ہے۔
سندھ میں اگرچہ متحدہ کے اصرار پر بلدیاتی نظام کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی لیکن سیاسی رقابتوں کی وجہ سے یہ بیل یہاں بھی منڈھے نہ چڑھ سکی بلکہ یہاں کی مڈل کلاس سیاسی رقابتوں میں اس حد تک آگے نکل گئی کہ اس نے کمشنری نظام کے نفاذ کا دھوم دھڑکے کے ساتھ مطالبہ کیا، مظاہرے ہوئے، ہڑتالیں کی گئیں یوں سندھ میں بھی بلدیاتی نظام کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہ بڑی عجیب نفسیات ہے کہ محض کسی حریف جماعت کی ممکنہ بالادستی کے خوف سے بلدیاتی نظام ہی کو مسترد کرکے کمشنری نظام کا مطالبہ کیا جائے جب کہ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ بلدیاتی نظام پر کسی جماعت کی اجارہ داری سے خوفزدہ ہونے کے بجائے عوام میں اپنی حمایت پیدا کرکے بلدیاتی الیکشن جیتنے کا سیدھا اور منصفانہ راستہ اپنایا جائے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئے عنصر تحریک انصاف کے اضافے کے بعد سیاسی زندگی میں جو ہلچل پیدا ہوئی ہے، ہوسکتا ہے یہ ہلچل بعض سیاسی جماعتوں میں خوف کی شکل اختیار کرلے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں۔ حالیہ انتخابات میں اپنی ناقص کارکردگی اور سیاسی کھینچا تانیوں کے نتیجے میں جن پارٹیوں کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ دوبارہ عوام میں نئے منشور کے ساتھ جاکر عوام کی ناراضگی کو کم کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ اس حوالے سے بلدیاتی انتخابات کی مخالفت انتہائی غیر منطقی اور عوام دشمنی ہی کہلاسکتی ہے۔
ہمارا ملک پچھلے 65 برسوں سے فیوڈل جمہوریت کی صلیب پر جس طرح لٹکا ہوا ہے اس سے نکلنے کا بھی تدریجی طریقہ یہی ہے کہ یہاں بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ سابق صدر نے ناظمین کا جو نظام متعارف کرایا تھا وہ اپنی سرشت میں ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف علاقائی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ نظام ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جمہوریت کی نرسری کا کام بھی احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ ناظمین کے نظام میں اگر کوئی خامیاں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن علاقائی سطح پر یوسی سے لے کر ٹاؤن اور سٹی ناظم تک جو مربوط سلسلہ ہے اگر اسے خلوص نیت سے آزمایا جائے تو بلاشبہ نہ صرف یہ نظام عوام کے مقامی مسائل حل کرنے میں انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ترقیاتی کاموں میں بھی یہ نظام موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارا ملک دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے سماجی جرائم کا جس طرح گڑھ بن گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گلی گلی، محلہ محلہ تک پھیلے اس عفریت کا مقابلہ نہ محدود نفری پر مشتمل پولیس کرسکتی ہے نہ رینجرز، نہ ایف سی، اس کے لیے گلی گلی، محلہ محلہ ایسی تنظمیوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقوں میں چھپے مجرموں پر نظر رکھ سکیں، یہ کام کونسلر اور یوسی کی سطح کی بلدیاتی تنظیمیں بحسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں۔ بشرطیکہ ان تنظیموں سے یہ انتہائی اہم اور ذمے دارانہ کام لیا جائے اور ان کی ہر طرح حوصلہ افزائی کی جائے۔اور ان تنظیموں میں کالی بھیڑوں کو نہ گھسنے دیا جائے۔
ناظمین کے نظام کے حوالے سے دو شکایتیں بڑی عام اور قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ بالادست طبقات اپنے اثرورسوخ کو کام میں لاکر اپنے ناظمین منتخب کرالیتی ہیں اور ان کے ذریعے کرپشن اور انتظامی فوائد وغیرہ حاصل کرتی ہیں۔ یہ شکایت بے جا نہیں لیکن یہی بیماری ہماری سیاست کو لاحق ہے جس سے ابھی تک پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا۔ ہمارا خاندانی جمہوریت اور خاندانی حکمرانی کا مکروہ نظام کوئی نیا نظام نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے، ماضی میں اسے شاہانہ اور بادشاہانہ نظام کہا جاتا تھا اب اس نظام کا نیا ماڈل وڈیرہ شاہی یا اشرافیائی جمہوریت کہلاتا ہے۔ لیکن اس نظام کو آخرکار عوام کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ چین میں ہزاروں سال تک یہ نظام مستحکم رہا لیکن جب عوام بیدار ہوئے اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو اسے اپنی ہار ماننی پڑی۔
چین کے شہنشاہ کوانگ سو نے عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر یہ تاریخی اعلان کیا تھا۔آج سلطنت کے تمام باشندوں کا رجحان جمہوریت کی طرف ہے۔ عوام کا مقصد واضح ہے۔ صرف ایک خاندان کی عظمت و شان برقرار رکھنے کے لیے کروڑوں انسانوں کی خواہشوں کو کب تک کچلا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ''چین پر خاندانی حکمرانی کا دور ختم ہونا چاہیے اور عوام کی مرضی کی حکومت بننی چاہیے''۔ اگر پاکستان کے عوام اٹھ کھڑے ہوں تو خاندانی حکمرانیوں کا دور ختم ہوسکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے بلدیاتی نظام بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔