ناقابل اختتام امن مذاکرات… 1

باقی ملاقاتوں سے پہلے یا بعد میں ذرایع ابلاغ سے گفتگو میں کچھ نہ کچھ ضرور بتا دیا جاتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری مشرق وسطیٰ کے مسلسل دورے کر رہے ہیں۔ 26 مئی کو شمعون پیریز اور اردن کے شاہ عبداﷲ کی موجودگی میں کیری نے اردن کے علاقے بحیرہ مردار میں ورلڈ اکنامک فورم برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ سے خطاب کیا۔ ہمیشہ کی طرح انھوں نے صہیونی دہشت گرد تنظیم ہگانہ سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی مدح سرائی یا چاپلوسی کی۔ محمود عباس جو تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچے، انھیں جان کیری نے امن کے لیے اپنا اور صہیونیوں کا شراکت دار قرار دیا۔ اس سے قبل وہ 21 مئی کو اس خطے کے دورے پر آئے جو 24 مئی کو اختتا م پذیر ہوا۔ اومان کے دارالحکومت مسقط کے بعد وہ اردن کے دارالحکومت عمان گئے جہاں شام کے خلاف ایک بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کی۔

جان کیری نے یروشلم میں صہیونی صدر اور وزیر اعظم سے اور رام اللہ میں فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملاقاتیں کیں۔ یہ اعزاز صرف محمود عباس کو حاصل ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی ان سے ملاقاتوں کی تفصیلات امریکا کے سرکاری ذرایع سے نشر نہیں کی جاتیں۔ باقی ملاقاتوں سے پہلے یا بعد میں ذرایع ابلاغ سے گفتگو میں کچھ نہ کچھ ضرور بتا دیا جاتا ہے۔ اس دورے سے پہلے مئی ہی کے مہینے میں امریکی حکومت کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں کم از کم دو اہم سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ 8 اور 9 مئی کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں بالترتیب زیپی لیونی اور ناصر جودہ سے جان کیری کی ملاقاتیں ہوئیں۔ زیپی لیونی صہیونی وزیر اور اعلیٰ ترین مذاکرات کار جب کہ ناصر جودہ اردن کے وزیر خارجہ ہیں۔ زیپی لیونی سے ملاقات کے دوران امن عمل میں صہیونی مذاکرات کار و نمایندہ خصوصی اسحاق مولکو بھی موجود تھے۔ جان کیری نے بتایا کہ یہ ملاقات حال ہی میں واشنگٹن میں ہونے والی گفتگو کا تسلسل ہے اور پچھلے ہفتے فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔

8 مئی کو ہی فون پر قطری وزیر اعظم حماد بن جاسم سے بھی بات چیت کی۔ لیونی نے عرب لیگ کے ساتھ کیری کے کامیاب اجلاس پر مبارکباد دی اور عرب لیگ کی جانب سے قطری وزیر اعظم کے بیان کو اچھی خبر قرار دیا۔ کیری نے ناصر جودہ کو دیرینہ اور اچھا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردن کے بادشاہ اور وزیر خارجہ نے امن عمل اور امریکا کے ساتھ تعلقات کے لیے ناقابل یقین معاونت فراہم کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے عرب لیگ کو نئے سرے سے امن عمل میں شریک کروانے اور امن کی فرنٹ لائن پر ہونے پر اردن کا شکریہ ادا کیا۔ 16 مئی کو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان، نائب صدر اور وزیر خارجہ صدر اوباما کے مہمان بنے جب کہ نائب صدر جوزف بائیڈن اور جان کیری نے بھی ترک وفد کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ بارک اوباما نے ذرایع ابلاغ کو صرف تین ایشوز کے بارے میں بتایا جو اردگان سے ملاقات میں زیر بحث آئے اور انھوں نے فلسطین کا نام نہیں لیا۔ البتہ اردگان نے بتایا کہ خطے کے دیگر ایشوز بشمول فلسطین پر بھی گفتگو ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت سے فریڈم فلوٹیلا (ماوی مارمرا) پر اسرائیلی فوجی حملے میں شہید ہونیوالے ترک نژاد امریکی اور دیگر ترک مقتولین کے معاوضے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس بارے میں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ شہدائے فریڈم فلوٹیلا کے ورثا نے معاوضہ لینے سے انکار کر دیا ہے اور حملہ آور صہیونی اسرائیلی کمانڈوز اور اسرائیلی حکومت پر مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ آزادی صحافت کے بزعم خود چیمپیئن ملک امریکا کے کسی صحافی کو جرأت نہ ہوئی کہ ترک وزیر اعظم سے اس بارے میںکوئی سوال ہی کر لیتے اور فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے خلاف احتجاجاً اسرائیل سے تعلقات ختم کرنیوالے اردگان بھی خاموش رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردگان کا دورہ امریکا کی سامراجی، اسلحہ ساز اور فری مارکیٹ معیشت کے مفاد میں تھا۔


امریکی حکومت اپریل کے مہینے میں بھی اس خطے میں سرگرم عمل رہی۔ 4 اپریل کو ترک وزیر خارجہ احمد دائود اوگلو سے ملاقات کے بعد 8 اپریل کو یروشلم میں صہیونی صدر شمعون پیریز اور 9 اپریل کو صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے ملاقاتیں کرنیوالے جان کیری نے ترکی میں ترک وزیر خارجہ سے پھر ملاقات کی۔ وہاں بھی انھوں نے اصل ایجنڈا یعنی فلسطینیوں کے مزاحمتی گروہوں کے اتحادی ملک شام کے خلاف نئی سازشوں پر غور کیا اور بشار الاسد کی حکومت سے برسرپیکار نام نہاد اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کیے۔ کیا تو انھوں نے اردن میں بھی یہی کچھ لیکن دونوں ملکوں میں انھیں منہ کی کھانی پڑی کیونکہ اردن اور ترکی کے عوام نے عظیم الشان مظاہرے کر کے شام میں اردن اور ترک حکومتوں کی امریکا نواز پالیسی کی شدید مخالفت کی۔ رام اللہ میں فلسطینیوں نے کیری کے دورے کے خلاف مظاہرے کیے۔

24 اپریل کو جان کیری نے بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقاتیں کیں اور اس سے قبل مارچ کے آخری ہفتے میں جنرل کیانی نے کیری کی موجودگی میں اردن کا دورہ کیا اور ان سے بھی ملاقات کی۔ 29 اپریل کو '' عرب امن شروعات'' فالو اپ کمیٹی کے وفد نے قطری وزیر اعظم کی سربراہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور عرب ممالک کی جانب سے تجویز کردہ امن عمل کی شروعات پر بات چیت کی۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی، بحرین سمیت کئی ممالک کے وزرائے خارجہ اور سفیر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ عرب وفد نے بھی صدر اوباما کے 19 مئی 2011ء کو بیان کیے گئے نکتہ نظر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ صدر اوباما نے کہا تھا کہ 4 جون 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل جس میں باہمی طور پر قابل قبول کچھ تبدیلیاں بھی ہوں گی، اس کے تحت مسئلہ حل کیا جائے۔

اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کہ 1967ء کے بعد تعمیر کی جانے والی نسل پرست یہودی بستیوں کو فلسطینی انتظامیہ سے تسلیم کروا لیا جائے۔ اسرائیل سمیت مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکا کی اس پالیسی کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کے اعلیٰ دماغ رچرڈ ہاس نے بھی اسے امریکی حکمت عملی کی ستم ظریفی قرار دیا۔ تفصیلات کے لیے ان کا وہ مقالہ پڑھا جا سکتا ہے جو اسی عنوان کے تحت دو ماہی جریدے فارن افیئرز (مئی، جون کی اشاعت) میں شایع ہوا ہے۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارتکاری کو ناہموار قرار دیا ہے۔ انھوں نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن کے فروغ کی کوششیں اس وقت اختتام کو پہنچیں جب اسرائیل نے یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف صدر اوباما کا دبائو مسترد کر دیا۔

اس کے باوجود امریکی حکومت نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام اور دیگر ایشوز پر فلسطینیوں کی مخالفت جاری رکھی۔اردن میں شام مخالف اجلاس کے بعد برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ بھی فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور صہیونی وزیر اعظم سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ ان کی یاد دہانی کے لیے برطانوی خبر رساں ادارے کی وہ خبر پیش خدمت ہے جس میں امن مذاکرات کے تعطل کا سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ سبب کوئی دوسرا نہیں بلکہ صاف لکھا ہے کہ یہودی نسل پرست بستیوں کی تعمیر کی وجہ سے سال2010ء سے امن مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے 24 مئی کو بن گوریان ایئرپورٹ پر ذرایع ابلاغ سے گفتگو میں فریقین کو اعتماد بحال کرنے اور اشتعال انگیز بیان بازی سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن وہ بہت اہم حقیقت فراموش کر گئے یا پھر حقیقت بیان کرنا ان کے لیے نقصان کا سودا ہے۔ ان کے لیے مفت مشورہ یہ ہے کہ یروشلم کی ڈیٹ لائن سے جاری برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کا مطالعہ کر لیں جس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کیری چوتھی مرتبہ دورہ کر رہے ہیں لیکن کسی پیش رفت کی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی۔ (جاری ہے)
Load Next Story