تعلیمی زبوں حالی

مذہب کا نام لو تو اس سے اختلاف کو دانشور اپنا فر ض خیال کرنے لگتے ہیں۔

bintefarman@hotmail.com

تعلیم کسی بھی قوم کی معاشرتی، معاشی، نفسیاتی اور اخلاقی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قوموں کا مستقبل بنانے میں کلیدی کردار تعلیم کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں، وہ تعلیمی منصوبہ بندی کو قومی دفاع سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور تعلیم کو ترقی کی شاہ کلید سمجھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں شرح تعلیم نوے فیصد سے زیادہ ہے۔ تعلیم محض کتابوں کو رٹنے کا نام نہیں، بلکہ خود کو پہچاننے، اپنی شخصیت سے، اپنے مقاصد سے آگاہی کا نام ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں جہاں دیگر شعبوں کی حالت دگرگوں اور زوال پذیر ہے وہاں تعلیم کی حالت بھی مختلف نہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ جتنا زبوں حالی کا شکار تعلیمی شعبہ ہے شاید کوئی دوسرا نہیں۔ اسے المیہ نہیں تو کیا کہا جائے کہ تعلیم کی اہمیت سے واقف ہونے کے باوجود ہمارے ہاں آج تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ ہمارا نظام تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟ ہمارا نصاب کیسا ہو؟ ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہمارے مقاصد کیا ہیں وغیرہ۔

اس وقت ہمارے ہاں اسکول، کالج و جامعات میں صرف نظام ہی نہیں، نصاب بھی مختلف ہیں۔ جو نہ سیکولر ہیں نہ اسلامی۔ یہی وجہ ہے کہ جو طلبا ان اداروں سے نکل رہے ہیں انھیں نہ منز ل کا پتہ ہے نہ مقاصد کا علم۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو تعلیم کو با مقصد بنانا ہو گا اور نئی نسل کو اچھی، واضح اور بامقصد تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا۔

دنیا کے تمام ہی ترقی یافتہ ممالک میں اپنے معاشرتی تہذیب، مذہبی تعلیمات اور عزائم و مقاصد کے حوالے سے نصاب تعلیم متعین کرتے، اور اسے عالمی معیار سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں طبقوں کی تعلیم کے حوالے سے نصاب و نظام طے کیا جاتا ہے۔ مڈل و لوئر مڈل کلاس، اپر کلاس اور مدارس کا نظام الگ۔ دلچسپ بات یہ کہ ہمارا نصاب جدید ہے نہ متوازن۔ دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں لوئر مڈل و مڈل کلاس کے معاشی مسائل اتنے ہیں کہ یا تو وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے نہیں یا چند جماعتیں پڑھا کر انھیں کام پر لگا کر تعلیمی فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ مدارس میں ایک الگ ہی نظام رائج ہے جہاں بچے چٹائیوں پر بیٹھ کر استاد کے خوف سے محدود و مخصوص تعلیم حاصل کر تے ہیں، جس کی وجہ سے نہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صحیح صلاحیت پیدا ہو پاتی ہے نہ ہی ان کے سماج کا کارآمد فرد بن کر سامنے آنے کا امکان ہوتا ہے۔


اپر کلاس والے مغربی طرز تعلیم کے دلدادہ ہیں جہاں کے فارغ التحصیل افراد میں سے کم از کم ہمارے ملک و قوم کے مفاد میں کوئی شخصیت سامنے نہیں آئی۔ بلکہ ان اداروں میں پڑھنے والے کی پہلی ترجیح پاکستان سے باہر جا کر مزید تعلیم حاصل کرنا اور پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ جب کہ امریکا ہو برطانیہ یا کوئی اور دوسرا ملک ہر جگہ ابتدا ہی سے وطن کی محبت اور قربانی کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ ان کو اول دن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ اپنے وطن اور عوام کی خدمت کرنا اور اپنی صلاحیتیں اپنی قوم کے لیے وقف کرنا ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں اور وہاں کے طلبا سے سوال کریں کہ کیوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اکثریت کا جوا ب ملے گا serve to nation۔ وہ ایک کمٹمنٹ، ایک ذمے داری کے احساس کے ساتھ تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں قومی تشخص کی تعلیم کو باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔

مذہب کا نام لو تو اس سے اختلاف کو دانشور اپنا فر ض خیال کرنے لگتے ہیں، یہی وجوہات ہیں جنھوں نے ہمارے پورے سماجی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ہم ہر قسم کی کمٹمنٹ سے محروم ہیں نہ ہم تعلیم قوم کے لیے حاصل کر رہے ہیں نہ مذہب کے لیے۔ نتیجتاً ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو مذہب بیزار، اپنی تاریخ پر شرمسار اور مغرب سے مرعوبیت کا شکار ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھر کے اسکولوں و کالجز میں یکساں نظام اور متوازن نصاب رائج کیا جائے۔ یہ کام ایک فرد نہیں بلکہ قوم کے باصلاحیت، ذہین، مخلص اور غیر متعصب لوگ انجام دے سکتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریز ی فر فر بولنا آ گئی تو مقصد حاصل ہو گیا جو یقیناً مغرب سے مرعوبیت کا شاخسانہ اور انگریزوں کی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کا نتیجہ ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے کمپلیکسز سے خود کو آزاد کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی زبان، وطن اور مذہب کی محبت پر مشتمل نصاب کی تدوین کی جائے۔ انسان کی اخلاقی و سماجی نشوونما پر توجہ دی جائے، تا کہ وہ ایک ذمے دار فرد بن کر نئی نسل تک اپنے تجربات و تحقیقات منتقل کرے۔

اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ غور کرو، جستجو کرو، آسمان کی بلندیوں اور زمین کی تہوں سے رب کائنات کے پوشیدہ خزانوں کو ڈھونڈ نکالو۔ جو کام ہمارے کرنے کا تھا وہ مغرب میں بخوبی کیا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ علمی ورثہ ہمارا تھا جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے انھیں منتقل کر دیا۔ انھوں نے اپنے لوگوں کو معاشی فکروں سے آزاد کر کے تعلیم و تحقیق پر لگا دیا اور ہمیں ان فکروں میں مبتلا کر کے کمزور کر دیا کہ جس کے پاس علم نہیں، سوچ نہیں، خیالات نہیں وہ قلاش ہے۔ ہمیں اپنے ذہین افراد کو تحقیق و جستجو کے کام پر لگانا چاہیے اور مغرب کی محیر العقول ایجادات کی طرف توجہ دلا کر انھیں بھی ایسی نت نئی ایجادات کی دریافت کی ترغیب دینا چاہیے۔ جس کے لیے باقاعدہ نظام و نصاب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹیکنیکل تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے تا کہ جو لوگ معاشی مشکلات کا شکار ہیں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی کفالت بھی کر سکیں۔ اسلام کی تعلیم ابتدا ہی سے دی جائے اور واضح کر دیا جائے کہ اسلام مسلکوں اور فرقوں کا نام نہیں بلکہ اسلام ایک نظام کا نام ہے۔

موجودہ مروجہ نظام میں چند سورتیں و آیتیں حفظ کرانے اور چند واقعات پڑھا دینے کو اسلام کا نام دے دیا گیا ہے، اسلام پڑھنے نہیں برتنے کا نا م ہے۔ ابتدا میں چند سورتیں و آیتیں پڑھانے کے سلسلے کو مرحلہ وار بڑھا یا جائے۔ جس میں اسوۂ حسنہ ﷺ، سیرت صحابہ و تابعین اور ایسے واقعات پڑھائے جائیں جس سے معتدل، متوازن اور ایک دوسرے کا احترام و خدمت کرنے کا جذبہ پرورش پائے۔ اس کے ساتھ ہی فقہی مسائل کی بھی تعلیم ہو۔ اگر ایسا کوئی نظام تشکیل ہو تو امید کی جا سکتی ہے کہ گریجویشن تک آتے آتے یقیناً ایسے افراد ملنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو مساجد کی امامت کر سکیں اور ایسے مولویوں سے بھی نجات مل جائے گی جو فروعی اختلافات میں الجھا کر اصل مقصد کی طرف سے دھیان ہٹا دیتے ہیں۔

اگر ہمیں واقعی ترقی کرنا ہے تو ہمیں سنجیدگی کے ساتھ تعلیم کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا اور اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کی تشکیل ان خطوط پر کرنا ہو گی جو ہمارے قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ و ثقافت سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارا مقصد آنے والی نسلوں کے کردار کی تشکیل کرنا ان کے اندر دیانت داری، بے لوث قومی خدمت اور احساس ذمے داری پیدا کرنا ہو۔ تقلید معاشرے کی ذہنی صلاحیتوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جو تقلید کرتے ہیں وہ تہذیبی و فکری جنگ ہار جاتے اور اپنی انفرادیت کھو بیٹھتے ہیں، اس لیے ہمیں تقلید کے بجائے محنت، لگن تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story