جید علما کا جہاد
تاریخ بھری پڑی ہے ہردور میں علما کی مسلمانوں اوراسلام کی خدمات و شہادت پر افسوس اس بات کا ہے غدار ہم میں سے پیدا ہوئے۔
ہر دور میں مسلم علما نے خدمات انجام دی ہیں، ان کی شب و روزکاوشوں نے اسلام کو فروغ ، مسلمانوں کو مضبوط بنایا نامساعد حالات و مشکلات کو آسان کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اسلام کی آبیاری میں سرکردہ رہے۔
پوری دنیا میں جدوجہد جاری رکھی وہ آج بھی اسلامی تعلیم میں کوشاں ہیں ، مدارس قائم ہیں جہاں سیکڑوں ، ہزاروں طلبا کو دینی تعلیم دی جاتی ہے ان مدارس سے فارغ التحصیل پکے اور سچے مسلمان کی حیثیت سے علم کی شمع روشن کرنے میں نمایاں ہیں ۔
اس وقت میرے ذہن میں دو مشہور عالموں کا خیال آرہا ہے جن کے قدموں کے نشانات پر برصغیر میں بہت لوگ مسلمان ہوئے۔ شاہ ولی اللہؓ دہلوی اور سید احمدؒ بریلوی اپنے دور کے جید علما تھے ان کی خدمات تاریخ میں نمایاں ہیں آج بھی ان کو اسی انداز سے یاد کیا جاتا ہے جس انداز سے انھوں نے مسلمانوں کو راہ مستقیم سے بھٹکنے نہ دیا عمر ساری اسلامی خدمات میں گزار دی یہی وجہ ہے ہم ان کو نہ بھولے آج یاد کرتے ہیں اور کل بھی یاد کرتے رہیں گے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک طرف مسلم اقتدار کا سورج غروب ہوا تو دوسری جانب اسلامی احیا کی سحر پھوٹ پڑی ۔ مسلمانوں کی مذہبی، علمی اور اخلاقی نشاۃ ثانیہ کی یہ تحریک شاہ ولی اللہؒ کی عظیم شخصیت کی رہین منت ہے۔ جب آپ نے حج کا فریضہ ادا کیا پھر 14 ماہ تک حجاز میں مقیم رہے اسی دوران آپ نے حرمین کے مشہور اساتذہ سے استعارہ کیا اور حدیث کی سند لی ۔ 1722ء میں شاہ صاحب دہلی واپس آئے، تدریس کے علاوہ آپ کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں صرف ہونے لگا۔ یہاں تک اپنی وفات 1762ء تک آپ نے تمام اسلامی علوم پر گراں قدر کتب تحریر کیں۔
1737ء سے 1738ء میں قرآن پاک کا سلیس فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام تھا کیونکہ اس وقت اکثر علما قرآن مجید کا ترجمہ جائز نہیں سمجھتے تھے ۔ لہٰذا اس ترجمے پر ایک تہلکہ مچ گیا ، آپ پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ اس دور میں فارسی دفتری زبان تھی اور اسے عام طور پر سمجھا و تحریرکیا جاتا تھا۔ اس ترجمے سے برصغیرکے مسلمانوں میں قرآن فہمی عام ہوئی جوکہ آج بھی اس ملک کا طرہ امتیاز ہے۔
جنوبی ایشیا کے دینی مدارس میں زیادہ تر فقہ ، منطق اور صرف ونحو پر زور دیا جاتا تھا لیکن فقہ کے اصل ماخذ قرآن وحدیث پر توجہ کم تھی۔ شاہ صاحب نے جہاں قرآن پاک کا ترجمہ کرکے قرآن فہمی کا ذوق عام کیا وہاں حدیث کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ شاہ صاحب نے کم و بیش تمام شرعی علوم اور اپنے دور کے متنازعہ امور پر قلم اٹھایا۔ آپ نے مخاطبین کی سمجھ اور استعداد کے مطابق کلام کرنے کی سعی کی۔
آپ نے تمام اخلاقی مسائل میں اپنے نظریات کی بنیاد اصول وعدل پر رکھی جنوبی ایشیا کی مسلم حکومتوں میں ہندوؤں سے ہمیشہ فراخ دلانہ سلوک ہوتا رہا۔ اس دور میں ہندو تمام اہم حکومتی عہدوں پر چھائے ہوئے تھے، ان کے ہاں مال و زرکی ریل پیل تھی ، جب کہ مسلمان دن بہ دن تنزلی کا شکار تھے۔ شاہ صاحب نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد کا جذبہ دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے علمی خدمات سے قوم میں نئی روح پھونک دی۔ سید احمد بریلویؒ کی زبردست تحریک اس کا شاخسانہ تھی۔
سید احمد بریلویؒ نے کچھ عرصے کے لیے نواب امیر خان (والئی ٹونک) کے تحت فوجی ملازمت اختیار کر لی۔ 1816 میں اسے ترک کرکے دہلی چلے آئے تاکہ شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز سے اکتساب فیض کرسکیں۔ اسی دوران آپ نے روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کیے، رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کردیا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالعزیز کے داماد مولوی عبدالحئی نے بھی آپ کی بیعت کر لی۔
اس وقت برصغیر کے مسلمان جہالت کی تاریکی میں جارہے تھے، بے شمار غیر اسلامی رسومات و بدعات رائج تھیں۔ ہندو مت اور بت پرستی کے اثرات مسلم معاشرے میں نفوذ کرگئے تھے۔ آپ نے دہلی کے نواحی شہروں چھوٹے بڑے علاقوں کے دورے کیے، ان کے الفاظ میں بلا کا اثر تھا، ہر بات دل میں اتر جاتی۔ سید احمد بریلوی کے خلاف شاہ اسمٰعیل شہید اور مولوی عبدالحئی نے آپ کے اقوال جمع کرکے ایک کتاب مرتب کی جس کا نام ''صراط مستقیم'' ہے۔ حج سے واپسی پر سید احمد بریلوی نے جہاد کی تیاری شروع کردی ترغیب جہاد کے لیے دورے کیے۔
1825میں آپ پانچ یا سات ہزار ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ سفر جہاد پر روانہ ہوئے ماہر کوئلہ، بہاولپور، حیدرآباد سندھ، درہ بولان، اور قندھار سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے وہاں سے براستہ خیبر پشاور پھر نوشہرہ آئے۔ شریعت کے قواعد کے مطابق آپ نے دو بار لاہور خط لکھا اس پر رنجیت سنگھ نے اپنے سالار بدھ سنگھ کو فوج دے کر روانہ کیا۔ 1826 کے آخر میں اکوڑہ کے مقام پر پہلا معرکہ ہوا جس میں میدان مجاہدین کے ہاتھ رہا۔ ان کامیابیوں کے بعد 1827 کے آغاز میں اس علاقے کے علما و رؤسا نے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی آپ کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد معرکہ سیدو پیش آیا معرکہ سے ایک روز قبل غدار سرداروں نے آپ کو زہر دے دیا۔
آپ کی جان تو بچ گئی مگر جنگ میں مجاہدین کو شکست ہوئی اور وہ سوات بنیر کی طرف چلے گئے۔ مجاہدین کو افلاس اور بے سروسامانی کے ہاتھوں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود شاہ اسمٰعیل شہید کے تحت مجاہد دستے شب و خون مارتے رہے۔ سکھوں کو اس قدر پریشان کیا کہ رنجیت سنگھ خود پشاور آیا اور سردار یار محمد خان سے ساز باز کرکے اسے اپنی طرف سے پشاورکا حاکم مقرر کیا۔
یہ شخص اب تک سید صاحب کے ساتھ تھا مگر اب ان کا سب سے بڑا مخالف بن گیا۔ اس طرح مجاہدین کو سکھوں کے علاوہ مسلمان مخالفین سے بھی لڑنا پڑا۔ آخر یار محمد خان مارا گیا اور پشاور سید صاحب کے دائرہ اختیار میں گیا۔ یار محمد خان کے بھائی سلطان محمد نے معافی مانگی، اس پر آپ نے اسے پشاور کا حاکم مقرر کیا۔ مگر سلطان محمد اور دیگر سرداران نے غداری کی ایک منفرد دن کو مختلف دیہات اور علاقوں میں متعین عمال اور مجاہدین کا قتل عام کیا۔
جب سید احمد بریلوی نے خود مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے مقاصد کا یہ انجام دیکھا تو دل برداشتہ ہوئے۔ اب آپ کاغان روانہ ہوئے تاکہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے لیکن شیر سنگھ کی کمان میں سکھ فوج آپ کے تعاقب میں پہنچی۔ بالاکوٹ کے مقام پر مجاہدین اپنے کسی ساتھی کی غداری کی بنا پر چاروں طرف سے گھر گئے نتیجہ یہ ہوا کہ 4 مئی 1831 کو بالا کوٹ کے تاریخی معرکے میں مجاہدین کو شکست ہوئی سید احمد بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہید نے شہادت پائی۔
تاریخ بھری پڑی ہے ہر دور میں علما کی مسلمانوں اور اسلام کی خدمات و شہادت پر افسوس اس بات کا ہے غدار ہم میں سے پیدا ہوئے۔ دیکھا نہ سمجھا اسلام پھیلانے جو مسلمان اپنا گھر بار، بیوی بچے، خاندان چھوڑ کر بغیر کسی طمع و لالچ کے آئے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو تہہ تیغ نہ کیا جائے۔ مسلمان جب مسلمان کو قتل کرتا ہے تو دیگر غیر مسلم ہنستے بلکہ تمسخر اڑاتے ہیں خوش ہوتے ہیں۔ وہ یہ ضرور کہتے ہیں جو کام ہم سے نہ ہوسکا خود ان کی قوم کر رہی ہے یہ اپنے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور غدار پیدا ہو رہے ہیں۔
پوری دنیا میں جدوجہد جاری رکھی وہ آج بھی اسلامی تعلیم میں کوشاں ہیں ، مدارس قائم ہیں جہاں سیکڑوں ، ہزاروں طلبا کو دینی تعلیم دی جاتی ہے ان مدارس سے فارغ التحصیل پکے اور سچے مسلمان کی حیثیت سے علم کی شمع روشن کرنے میں نمایاں ہیں ۔
اس وقت میرے ذہن میں دو مشہور عالموں کا خیال آرہا ہے جن کے قدموں کے نشانات پر برصغیر میں بہت لوگ مسلمان ہوئے۔ شاہ ولی اللہؓ دہلوی اور سید احمدؒ بریلوی اپنے دور کے جید علما تھے ان کی خدمات تاریخ میں نمایاں ہیں آج بھی ان کو اسی انداز سے یاد کیا جاتا ہے جس انداز سے انھوں نے مسلمانوں کو راہ مستقیم سے بھٹکنے نہ دیا عمر ساری اسلامی خدمات میں گزار دی یہی وجہ ہے ہم ان کو نہ بھولے آج یاد کرتے ہیں اور کل بھی یاد کرتے رہیں گے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک طرف مسلم اقتدار کا سورج غروب ہوا تو دوسری جانب اسلامی احیا کی سحر پھوٹ پڑی ۔ مسلمانوں کی مذہبی، علمی اور اخلاقی نشاۃ ثانیہ کی یہ تحریک شاہ ولی اللہؒ کی عظیم شخصیت کی رہین منت ہے۔ جب آپ نے حج کا فریضہ ادا کیا پھر 14 ماہ تک حجاز میں مقیم رہے اسی دوران آپ نے حرمین کے مشہور اساتذہ سے استعارہ کیا اور حدیث کی سند لی ۔ 1722ء میں شاہ صاحب دہلی واپس آئے، تدریس کے علاوہ آپ کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں صرف ہونے لگا۔ یہاں تک اپنی وفات 1762ء تک آپ نے تمام اسلامی علوم پر گراں قدر کتب تحریر کیں۔
1737ء سے 1738ء میں قرآن پاک کا سلیس فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام تھا کیونکہ اس وقت اکثر علما قرآن مجید کا ترجمہ جائز نہیں سمجھتے تھے ۔ لہٰذا اس ترجمے پر ایک تہلکہ مچ گیا ، آپ پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ اس دور میں فارسی دفتری زبان تھی اور اسے عام طور پر سمجھا و تحریرکیا جاتا تھا۔ اس ترجمے سے برصغیرکے مسلمانوں میں قرآن فہمی عام ہوئی جوکہ آج بھی اس ملک کا طرہ امتیاز ہے۔
جنوبی ایشیا کے دینی مدارس میں زیادہ تر فقہ ، منطق اور صرف ونحو پر زور دیا جاتا تھا لیکن فقہ کے اصل ماخذ قرآن وحدیث پر توجہ کم تھی۔ شاہ صاحب نے جہاں قرآن پاک کا ترجمہ کرکے قرآن فہمی کا ذوق عام کیا وہاں حدیث کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ شاہ صاحب نے کم و بیش تمام شرعی علوم اور اپنے دور کے متنازعہ امور پر قلم اٹھایا۔ آپ نے مخاطبین کی سمجھ اور استعداد کے مطابق کلام کرنے کی سعی کی۔
آپ نے تمام اخلاقی مسائل میں اپنے نظریات کی بنیاد اصول وعدل پر رکھی جنوبی ایشیا کی مسلم حکومتوں میں ہندوؤں سے ہمیشہ فراخ دلانہ سلوک ہوتا رہا۔ اس دور میں ہندو تمام اہم حکومتی عہدوں پر چھائے ہوئے تھے، ان کے ہاں مال و زرکی ریل پیل تھی ، جب کہ مسلمان دن بہ دن تنزلی کا شکار تھے۔ شاہ صاحب نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد کا جذبہ دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے علمی خدمات سے قوم میں نئی روح پھونک دی۔ سید احمد بریلویؒ کی زبردست تحریک اس کا شاخسانہ تھی۔
سید احمد بریلویؒ نے کچھ عرصے کے لیے نواب امیر خان (والئی ٹونک) کے تحت فوجی ملازمت اختیار کر لی۔ 1816 میں اسے ترک کرکے دہلی چلے آئے تاکہ شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز سے اکتساب فیض کرسکیں۔ اسی دوران آپ نے روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کیے، رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کردیا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالعزیز کے داماد مولوی عبدالحئی نے بھی آپ کی بیعت کر لی۔
اس وقت برصغیر کے مسلمان جہالت کی تاریکی میں جارہے تھے، بے شمار غیر اسلامی رسومات و بدعات رائج تھیں۔ ہندو مت اور بت پرستی کے اثرات مسلم معاشرے میں نفوذ کرگئے تھے۔ آپ نے دہلی کے نواحی شہروں چھوٹے بڑے علاقوں کے دورے کیے، ان کے الفاظ میں بلا کا اثر تھا، ہر بات دل میں اتر جاتی۔ سید احمد بریلوی کے خلاف شاہ اسمٰعیل شہید اور مولوی عبدالحئی نے آپ کے اقوال جمع کرکے ایک کتاب مرتب کی جس کا نام ''صراط مستقیم'' ہے۔ حج سے واپسی پر سید احمد بریلوی نے جہاد کی تیاری شروع کردی ترغیب جہاد کے لیے دورے کیے۔
1825میں آپ پانچ یا سات ہزار ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ سفر جہاد پر روانہ ہوئے ماہر کوئلہ، بہاولپور، حیدرآباد سندھ، درہ بولان، اور قندھار سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے وہاں سے براستہ خیبر پشاور پھر نوشہرہ آئے۔ شریعت کے قواعد کے مطابق آپ نے دو بار لاہور خط لکھا اس پر رنجیت سنگھ نے اپنے سالار بدھ سنگھ کو فوج دے کر روانہ کیا۔ 1826 کے آخر میں اکوڑہ کے مقام پر پہلا معرکہ ہوا جس میں میدان مجاہدین کے ہاتھ رہا۔ ان کامیابیوں کے بعد 1827 کے آغاز میں اس علاقے کے علما و رؤسا نے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی آپ کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد معرکہ سیدو پیش آیا معرکہ سے ایک روز قبل غدار سرداروں نے آپ کو زہر دے دیا۔
آپ کی جان تو بچ گئی مگر جنگ میں مجاہدین کو شکست ہوئی اور وہ سوات بنیر کی طرف چلے گئے۔ مجاہدین کو افلاس اور بے سروسامانی کے ہاتھوں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود شاہ اسمٰعیل شہید کے تحت مجاہد دستے شب و خون مارتے رہے۔ سکھوں کو اس قدر پریشان کیا کہ رنجیت سنگھ خود پشاور آیا اور سردار یار محمد خان سے ساز باز کرکے اسے اپنی طرف سے پشاورکا حاکم مقرر کیا۔
یہ شخص اب تک سید صاحب کے ساتھ تھا مگر اب ان کا سب سے بڑا مخالف بن گیا۔ اس طرح مجاہدین کو سکھوں کے علاوہ مسلمان مخالفین سے بھی لڑنا پڑا۔ آخر یار محمد خان مارا گیا اور پشاور سید صاحب کے دائرہ اختیار میں گیا۔ یار محمد خان کے بھائی سلطان محمد نے معافی مانگی، اس پر آپ نے اسے پشاور کا حاکم مقرر کیا۔ مگر سلطان محمد اور دیگر سرداران نے غداری کی ایک منفرد دن کو مختلف دیہات اور علاقوں میں متعین عمال اور مجاہدین کا قتل عام کیا۔
جب سید احمد بریلوی نے خود مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے مقاصد کا یہ انجام دیکھا تو دل برداشتہ ہوئے۔ اب آپ کاغان روانہ ہوئے تاکہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے لیکن شیر سنگھ کی کمان میں سکھ فوج آپ کے تعاقب میں پہنچی۔ بالاکوٹ کے مقام پر مجاہدین اپنے کسی ساتھی کی غداری کی بنا پر چاروں طرف سے گھر گئے نتیجہ یہ ہوا کہ 4 مئی 1831 کو بالا کوٹ کے تاریخی معرکے میں مجاہدین کو شکست ہوئی سید احمد بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہید نے شہادت پائی۔
تاریخ بھری پڑی ہے ہر دور میں علما کی مسلمانوں اور اسلام کی خدمات و شہادت پر افسوس اس بات کا ہے غدار ہم میں سے پیدا ہوئے۔ دیکھا نہ سمجھا اسلام پھیلانے جو مسلمان اپنا گھر بار، بیوی بچے، خاندان چھوڑ کر بغیر کسی طمع و لالچ کے آئے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو تہہ تیغ نہ کیا جائے۔ مسلمان جب مسلمان کو قتل کرتا ہے تو دیگر غیر مسلم ہنستے بلکہ تمسخر اڑاتے ہیں خوش ہوتے ہیں۔ وہ یہ ضرور کہتے ہیں جو کام ہم سے نہ ہوسکا خود ان کی قوم کر رہی ہے یہ اپنے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور غدار پیدا ہو رہے ہیں۔