ناانصافیوں کے بھوت

ریاست ہرگز کوئی ایسی طاقت نہیں جو سوسائٹی پر اوپر سے تھوپی جائے بلکہ وہ سوسائٹی ہی کی پیداوار ہے۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

اصولوں، ضابطوں، قانون اور انصاف کے بغیر ریاست تو چھوڑو، گھر نہیں چلا کرتے لیکن ہم نے بغیر قانون ، اصولوں ، ضابطوں اور انصاف کے ستر سالوں سے ملک چلاکر وہ کارنامہ سرانجام دے دیا ہے جو ہم سے پہلے کوئی بھی دوسرا یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ہے۔

ریاست ہرگز کوئی ایسی طاقت نہیں جو سوسائٹی پر اوپر سے تھوپی جائے بلکہ وہ سوسائٹی ہی کی پیداوار ہے جو معاشرتی ارتقا کی ایک خاص منزل پر نمودار ہوتی ہے۔ ابتدائی ریاستیں شہری ریاستیں تھیں جو سب سے پہلے دھات کے زمانے میں دریائوں کے کنارے آباد ہوئیں وہ تمام کی تمام تھیوکریسی یعنی مذہبی ریاستیں تھیں، خدائی قوانین کے نزول کا طریقہ بھی ان میں قریب قریب یکساں تھا ، عالم بالا تک رسائی ممکن نہ تھی، لہذا پہاڑ کی بلندی عالم بالا کی علامت ٹھہری اور بادشاہوں کو احکام خداوندی پہاڑ کی چوٹیوں پر عطا ہونے لگے۔

بابل کے شہنشاہ حمو رابی کے آئین کی جوکندہ شدہ لاٹ پیرس کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، اس کے بالائی منظر میں خداوند شمس پہاڑ کی چوٹی پرکھڑا حمو رابی کو آئین کا خریطہ عطا کر رہا ہے، حمو رابی کا آئین دنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ہے۔

روایت کے مطابق جزیرہ کریٹ کے بادشاہ مینوس کو بھی خداوند زیوس نے قانون کی لوحیں کوہ دکتا پر عطا کی تھیں ۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ قانون کے دیوتا دایونائی سس نے قانون کو پتھرکی دو تختیوں پر کندہ کروا کر زمین پر اتارا ، اورایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ زرتشت بنی نے پہاڑ پر جاکر خداوند اہورمزدا سے التجا کی ۔ تب بجلی کی چمکی آسمان گرجا اور اہور مزدا نے پہاڑ پر اترکر ''کتاب قوانین '' زرتشت کے حوالے کی ، حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی یہ ہی واقعہ گزرا ''خداوند کوہ سینا کی چوٹی پر اترا اور خداوند نے حضرت موسیٰ کو پہاڑ کی چوٹی پر بلوایا اور کہا میں تجھے پتھر کی لوحیں اور شریعت اور احکام جو میں نے لکھے ہیں دوںگا تاکہ تو ان کو سکھائے (کتاب خروج 12:24)'' چارلس ڈکنزکے ناول Great Expectations میں پپ کہتا ہے'' کوئی بھی چیز اتنی باریکی سے نہیں دیکھی اور محسوس کی جاتی جتنی کہ نا انصافی '' ناانصافی کا جنم ہمیشہ قانون کی عدم حکمرانی سے ہوتا ہے یہ واضح ناانصافیاں ہی تھیں جس کی وجہ سے پیرس کے باشندوں نے باسٹیل پر دھاو ا بولا ،گاندھی نے اس سلطنت کو للکارا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔


مارٹن لوتھرکنگ نے آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادر لوگوں کے دیس میں سفید فام غالب قوت کے خلاف جنگ کی رومی شہنشاہ فرڈیننڈ اول نے سولہویں صدی میں دعویٰ کیا '' انصاف ہوناچاہیے چاہے دنیا تباہ کیوں نہ ہوجائے '' قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہی پاکستانی عوام کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ اسی کی عدم موجودگی سے ملک میں ناانصافیوں نے جنم لیا ہے اور تما م مسائل نے نا انصافیوں سے جنم لیا ہے ۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ پاکستان کے عوام ایک ساتھ مختلف عذابوں سے دوچار ہیں مسلسل اور لگا تار عذابوں کی وجہ سے پورا ملک جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوگیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ملک کے امرا ، با اختیار ،طاقتور بھی ذہنی مریض ہوچکے ہیں، ناانصافیاں سہنے والے اور ناانصافیوں کو جنم دینے والے دونوں ہی ذہنی امراض میں مبتلا ہیں ۔

آپ اورکچھ نہ کریں دونوں اطراف کے لوگوں کا گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کرکے دیکھ لیں ۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دیکھ لیں ان کے رویوں ، طرزعمل ، طرز زندگی کا بغور معائنہ کرکے دیکھ لیں ، اگر آپ کو ایک بھی نارمل انسان مل جائے تو جو چورکی سزا وہ ہماری سزا ۔ دوسری طرف آپ عسکر ی اداروں کو چھوڑ کر جہاں قانون کی مکمل حکمرانی ہے باقی تمام اداروں کا اچھی طرح جائزہ لے لیں تو آپ ان اداروں کی مکمل تباہی، ان میں کرپشن ، لوٹ مار ، بد نظمی ، بدانتظامی ، رویوں کی بربادی کے پیچھے باآسانی قانون کی عدم حکمرانی کو ہنستا ہوا پائیں گے۔

آئیں ! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام دانشور اس بات پر کیوں متفق ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہی سب سے بہتر ہے ۔ اصل میں تمام مغربی ممالک میں یہ ہی تصور مکمل طور پر تسلیم شدہ ہے اس کو سب سے پہلے ڈیکلریشن آف ڈیموکریٹک ویلیوز میں شامل کیا جسے دنیا کی سات بڑی صنعتی جمہوریتوں کے سربراہوں کی طرف سے جاری کیاگیا ۔ یہ اعلامیہ کہتا ہے '' ہم قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں جو کسی خوف یا لالچ کے بغیر ہر شہری کے حقوق اور آزادیوں کا نہ صرف احترام کرتی ہے بلکہ ان کا تحفظ بھی کرتی ہے اور وہ ماحول مہیا کرتی ہے جس میں انسانی روح ، آزادی اور تنو ع کے ساتھ بالیدگی حاصل کرتی ہے۔ ''

یاد رکھیں ! جب تک ہم انسانی عظمت و وقار کے ناقابل بحث مطالبے '' قانون کی حکمرانی '' کے لیے نہ ڈٹ جائینگے اس وقت تک ہم تمام ناانصافیوں سے جان نہیں چھڑا پائینگے اور جب تک ہم نا انصافیوں سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم ایک پرمسرت زندگی نہیں گذار سکیں گے۔ یہ ہی بات ارسطو نے اس طرح کہی ہے '' جہاں قانون کسی اور اتھارٹی کے ماتحت ہوتا ہے اور بذات خود کوئی طاقت نہیں رکھتا وہاں میری نظر میں ریاست کا انہدام زیادہ دور نہیں رہتا لیکن اگر قانون حکومت کاآقا ہو اور حکومت اس کی غلام ہوتو پھر صورت حال خوش آیند ہوتی ہے اور لوگ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے ریاست کو عطا ہوتی ہیں۔''
Load Next Story