پنجاب کا آئندہ بجٹ ۔ مخدوم ہاشم جوان بخت سے مکالمہ
پنجاب کے نو منتخب وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت ایک نوجوان آدمی ہے۔ سیاست میں آنے سے پہلے سٹی بینک کے بنکر تھے۔
وفاقی حکومت نے ایک منی بجٹ پیش کیا ہے۔ جس کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ۔ مہنگائی بھی ہو رہی ہے۔ نان فائلرز کو مراعات نے بھی سوالات کو جنم دیا ہے۔ مرکزی منی بجٹ کے بعد اب صوبوں نے بھی بجٹ پیش کرنے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ن لیگ کی مرکزی حکومت نے جاتے جاتے پورے ایک سال کا بجٹ پیش کیا تھا جب کہ ن لیگ کی ہی پنجاب حکومت نے جاتے جاتے صرف چار ماہ کا عبوری بجٹ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ باقی آٹھ ماہ کا بجٹ نئی آنے والی حکومت خود پیش کرے گی۔
پنجاب کے نو منتخب وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت ایک نوجوان آدمی ہے۔ سیاست میں آنے سے پہلے سٹی بینک کے بنکر تھے۔ شوکت عزیز بھی سٹی بینک کے بنکر ہی تھے۔ ان کی معاشی پالیسیوں نے پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیا ۔ مخدوم ہاشم بخت جوان اور شوکت عزیز میں ایک فرق ہے کہ یہ پاکستان میں رہے ہیں جب کہ شوکت عزیز باہر ہی رہے تھے بلکہ امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھے۔ مخدوم ہاشم جوان بخت گزشتہ دور حکومت میں ن لیگ سے رکن پنجاب اسمبلی تھے۔ لیکن اب وہ تحریک انصاف سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ اس لیے کہیں اور تبدیلی آئی کہ نہیں ان میں تبدیلی آچکی ہے۔
مخدوم ہاشم جوان بخت سے میں نے پہلی ہی ملاقات میں پوچھا کہ یہ ن لیگ کی حکومت جاتے جاتے صرف چارماہ کا بجٹ ہی کیوں دے کر گئی تھی ۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے دینے کے لیے تھا ہی کچھ نہیں۔ کیا بجٹ دے کر جاتے۔ جھوٹے اعداد و شمار پر مبنی آخری بجٹ تو نہیں دیا جا سکتا تھا۔ پول کھل جاتا۔ ان کے مطابق ن لیگ کی گزشتہ دس سال کی مالی پالیسیوں نے پنجاب کی مالی حالت خراب کر دی ہے۔ ن لیگ کو پنجاب ایک سر پلس بجٹ کا صوبہ ملا تھا جو اب بہت زیادہ مقروض ہو چکا ہے۔ مقروض پنجاب کی معیشت خراب ہو گئی ہے۔
مخدوم ہاشم جوان بخت کے مطابق گزشتہ ادوار میں بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کو ایک مرکزی حیثیت حا صل رہی ہے۔ایک کامیاب بجٹ کا واحد معیار یہی سمجھا جاتا تھا کہ ترقیاتی بجٹ کا حجم کتنا بڑا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے حجم کو بڑھانے کے عمل نے ہماری معیشت کا سائز چھوٹا کر دیا ہے۔ قرض پر قرض ۔ کہیں نہ کہیں تو اس سلسلہ کو روکنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو ترقیاتی بجٹ کے اعداد و شمارکو حقیقی بنانا ہوگا۔ قرض پر بنائے گئے میگا منصوبے کس قدر افادیت کے حامل ہیں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔اس لیے پنجاب کے بجٹ کا فوکس بدلنا ہوگا۔ ترقیاتی بجٹ کے حجم کے چکر سے نکلنا ہوگا۔ صحت، زراعت، تعلیم ہمارے فوکس ہونگے۔
میں نے کہا سب سے پہلے کیا ہوگا۔ انھوں نے کہا صحت کو پہلی ترجیح حاصل ہوگی۔ میں نے کہا صحت میں نئے اسپتال بنائیں گے۔ آپ تو پہلے جو بن رہے ہیں انھیں ہی رکوا رہے ہیں۔ وہ بولے آپ کس کی بات کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا PKLI کی بات کر رہا ہوں۔ وہ مسکرائے کہنے لگے اسے مکمل کریں گے۔ اس پراتنا پیسہ لگ چکا ہے ہم اس کو ضایع کیسے ہونے دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کم ترقی یافتہ علاقوں میں صحت کی سہولیات بہتر کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سب کو صحت کی یکساں سہولیات میسر ہو سکیں۔ اسی طرح ہیلتھ انشورنس کے نظام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کا ہیلتھ انشورنس کارڈ بہت کامیاب رہاہے۔
میں نے کہا پنجاب نے بھی ہیلتھ انشورنس کارڈ دیے تھے۔ انھوں نے کہ پنجاب میں صرف بیس لاکھ لوگوں کو ہیلتھ انشورنس دی گئی تھی جس میں صرف چالیس ہزار نے اس کارڈ کو استعمال کیا۔ اس طرح اس کی افادیت بہت کم رہی ہے۔ میں نے کہا کم استعمال ہونے کی کوئی وجہ۔ انھوں نے کہا کہ صحیح اسپتال کا چنائو نہیں کیا گیا اور بھی کافی وجوہات ہیں۔ اس لیے ہیلتھ انشورنس کے دائرہ کار اورافادیت کو بڑھانے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔
پنجاب کے وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ زراعت اریگیشن اور لائیو اسٹاک کو بہت نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہم ہر سال بینکوں سے قرضہ لے کر گندم خریدتے ہیں پھر اس کو برآمد کرنے کے لیے سبسڈی دیتے ہیں۔ گندم کی خریداری کا قرضہ 280ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہ نجی بینکوں کا قرضہ ہے۔ فصلوں کو کاشت کرنے کے حوالہ سے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ گندم کی کاشت بڑھتی جا رہی ہے کپاس کی فصل کم ہورہی ہے جس سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح پنجاب کو crop management کی اشد ضرورت ہے۔
میں نے کہا یہ بتائیں کہ اورنج لائن اور دانش اسکول کا کیا کر رہے ہیں۔ کہنے لگے کچھ نہیں کر رہے۔ اورنج لائن پر تحفظات ہیں ہم اس کو درست سمجھتے ہیں ۔ لیکن اب اس پر بہت پیسہ لگ گیا ہے اس لیے بادل نخواستہ مکمل کر رہے ہیں، پاکستان اور پنجاب کی معیشت ایسے منصوبوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا کہ دنیا میں سب جگہ ایسے منصوبے موجود ہیں، ان کے بغیر بڑے بڑے شہروں کا تصور نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر۔ یہ منصوبہ کتنا مہنگا ہے۔ یہ کون دیکھے گا۔لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ان میٹروز اور اورنج لائن میں کوئی امیر آدمی سفر نہیں کرے گا۔ یہ غریب لوگوں کے لیے ہیں۔ انھوں نے کہا یہ بھی تو دیکھنا پڑے گا کہ اردو کا سفر انگریزی کا sufferنہ بن جائے۔
آپ دیکھیں گے پنجاب نے ساٹھ ارب سے دو بڑی سڑکیں بنائی ہیں۔ یہ سڑکیں بنانا وفاقی حکومت کے ادارے این ایچ اے کی ذمے داری تھی۔ وہ ان سڑکوں سے ٹول اکٹھا کرتا ہے۔ اب پنجاب نے اپنے وسائل سے یہ سڑکیں بنا تو دی ہیں لیکن ٹول این ایچ اے ہی اکٹھا کر رہا ہے۔ کم از کم ان سے ٹول لینے کا اختیار ہی لے لیتے۔ اس طرح پیسہ پنجاب کا لگ گیا ٹول وفاق اکٹھا کر رہا ہے۔
دانش اسکول کے حوالہ سے مخدوم ہاشم جوان بخت کا موقف تھا کہ یہ درست ہے کہ دانش اسکول بہت پسماندہ علاقوں میں بنے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دانش اسکول میں ایک بچے پر اٹھارہ ہزار روپے مہینہ خرچ ہو رہا ہے۔ کیا یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس خرچ کو کم کیسے کیا جائے۔ وہاں شام کی کلاسز بھی شروع کی جا سکتی ہیں۔ اور بھی تجاویز زیر غور ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ہم نے اسکولوں میں سہولیات پوری کرنے کے چکر میں اربوں روپے خرچ کیے ہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ آخر جو پیسے خرچ ہو رہے ہیں ان کا کوئی فائدہ بھی تو سامنے آنا چاہیے۔
پنجاب کے وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ پنجاب پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت بہت کام کے مواقع ہیں۔ تمام شعبوں میں کام کی گنجائش ہے۔ اس کے لیے ایک مربوط پالیسی اور ہوم ورک کی ضرورت ہے۔ صرف پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے ہی حقیقی تبدیلی ممکن ہے۔ اس پر فوکس کرنا ہوگا۔