تبدیلی کے لیے
اب دنیا میں انقلاب بپا ہونے کے نہ حالات ہیں اور نہ ایسی کوئی جماعت ہے، جو انقلاب کی راہ ہموار کرسکے۔
ہمارے یہاں انقلاب ، تبدیلی اورکرپشن کا خاتمہ جیسی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، مگر استعمال کرنے والوں کی اکثریت یا تو ان اصطلاحات کے معنی و مطالب سے ناآشنا ہے یا پھر دانستہ عام آدمی کو سحر زدہ کیا جا رہا ہے۔ انقلاب کے زمانے لدھ گئے ۔ اب دنیا میں انقلاب بپا ہونے کے نہ حالات ہیں اور نہ ایسی کوئی جماعت ہے، جو انقلاب کی راہ ہموار کرسکے۔ یہ ایک طویل بحث ہے، جسے چند الفاظ میں سمیٹنا ممکن نہیں،اس لیے اس موضوع کوکسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔
سب سے پہلے تبدیلی کے تصور پر گفتگو کرتے ہیں، مگر پہلے کرپشن کے خاتمے کے دعوئوں پرگفتگو ضروری ہے۔ کرپشن خود کوئی مجرد برائی نہیں بلکہ یہ گورننس کی کمزوری یا خرابی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے ۔ جمہوری معاشروں میں اچھی حکمرانی(Good Governance)کے چند اصول وضوابط طے کیے گئے ہیں، جن میں اولین اصول اقتدار میں عوام کی شراکت ہے ۔ یہ شراکت اسی وقت ممکن ہے جب اختیارات ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح (Grassroot) پر منتقل ہوجائیں ۔
دوسرا اہم اصول احساس ذمے داری (Responsiveness) ہے ۔ اچھی حکمرانی اسی وقت قائم ہوتی ہے، جب ریاستی منتظمہ (بشمول تمام ادارے) میں احساس ذمے داری ہو، جب احساس ذمے داری ہو گا تو فیصلوں میں شفافیت، میرٹ کی پابندی اوربلا امتیاز احتساب کی راہ کھلتی ہے ۔
قانون کی حاکمیت تیسرا اصول ہے ۔ اس اصول پر عمل درآمد کے لیے حکمرانوں میں سیاسی عزم و بصیرت اور انتظامی استعداد کا ہونا ضروری ہے۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب جمہوری ادارے مضبوط ہوں۔ جمہوری اداروںکو سیاسی جماعتیں تشکیل دے کر مضبوط بناتی ہیں ۔ جن میں اولین ادارہ پارلیمان ہے، جس کی قانون ساز حیثیت کا تسلیم کیا جانا اور تمام ریاستی فیصلوں کی اس سے منظوری لینے کویقینی بنانے سے ہی یہ ادارہ assertive بنتا ہے۔ یہی ادارہ ایک آزاد، بااختیاراور غیر جانبدار عدلیہ، الیکشن کمیشن اوراحتساب ادارے کے قیام کاذمے دار ہوتا ہے، لیکن شرط یہی ہے کہ پارلیمان کی حیثیت کو حتمی مان لیا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ پاکستان کا قیام برٹش انڈیا میں جنم لینے والے سنگین کمیونل مسئلے کا صائب حل تھا، لیکن قیام پاکستان کے بعد اسی تہذیبی نرگسیت کے سحر میں گرفتار ہونے کے باعث نہ متوازن آئین سازی ہوسکی اور نہ ریاست کو درست منطقی جواز مل سکا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مذہبیت (religiosity) پر اصرار نے ملک میںمذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت کا راستہ کھول کر جمہوری اداروں کوکمزور بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اگر قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کا سیاسیات و عمرانیات کے اصولوں کی بنیاد پر جائزہ لے لیا جاتا ، تو شاید ملک اس حال کو نہ پہنچتا، جہاں آج پہنچ چکا ہے۔
ایک ایسا ملک جو قدرتی اورانسانی وسائل میں خود کفیل ہو۔جہاں ہنر مند افرادی قوت کی بہتات ہو ۔اس ملک کے بارے میں جب عالمی اداروں کی یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ یہ بھاری قرضوں کی زنجیروںمیں جکڑا ہوا ہے۔ اس میں خط افلاس سے نیچے بسنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان معاشی وسماجی فرق مسلسل بڑھ رہا ہے۔ متوسط طبقہ جو قوت خرید(Purchasing power) رکھتا ہے، تیزی کے ساتھ سکڑتا جا رہا ہے۔ تو اس سے زیادہ حیرت کی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔کیونکہ دنیا میں ایسے ان گنت ممالک ہیں، جوقدرتی اور انسانی وسائل میں شدید قلت کے باوجود اپنی منصوبہ بندی کے بل بوتے پر روز افزوں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
اس سلسلے میں یہاں دو مثالیں دے کر اس پہلو کو اجاگر کرناچاہئیںگے ۔ پہلی مثال جنوبی کوریا کی ہے۔ کوریا اونچے نیچے پہاڑوں اور برفانی موسموں کا ملک ہے۔ صرف 22 فیصد زمین زراعت کے لیے موزوں تھی ، جو بڑھتی ہوئی اربنائزیشن کے سبب اس وقت17 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ چاول کے علاوہ کوئی اور خاطر خواہ فصل نہیں ہوتی۔ معدنیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، مگراس نے صنعتی ترقی کو اپنی منزل بنانے کے لیے کسی اور نہیں پاکستان کے ابتدائی برسوں کے معاشی ماڈل کو اپنایا اور اسی کی بنیاد پر آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، جب کہ پاکستان اپنے ہی تیارکردہ ماڈل پر عمل نہ کر کے وہیں کھڑا ہے جہاں سے سفر شروع کیا تھا ، بلکہ مزید پیچھے جا چکا ہے۔
کوریائی معاشی ماہرین کی ٹیم نے 1960ء میں پاکستان کا دورہ کیا ۔پاکستان کے معاشی ماڈل کے مطالعے اور مشاہدے کے ساتھ پلاننگ کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں۔ اس نے پاکستان میں ابتدائی دس برسوں کے دوران بنائے گئے پنج سالہ منصوبوںکا مطالعہ کیا اور انھیں اپنے ملک کے لیے ماڈل کے طور پر استعمال کیا۔
ساتھ ہی PIDC (پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن)کے طرز پر سیول میں انڈسٹریل ڈیولپمنٹ سنیٹر قائم کیا۔ ہماری PIDC وہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی، جن کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں اور منصوبہ سازوں میں سیاسی بصیرت اور عزم کی کمی رہی ہے، جب کہ سیول کے انڈسٹریل ڈیولپمنٹ سینٹر نے اسی کلیے کی بنیاد پر صنعتکاری کے عمل کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے بھاری، درمیانہ درجہ اور چھوٹی صنعتوں میں تیزی کے ساتھ ترقی کی ۔ نتیجتاًوہ نہ صرف1995ء میں عالمی مالیاتی اداروں کے قرض کے چنگل سے نکل گیا، بلکہ ترقی پذیر ممالک کو قرض اور امداد دینے والے ممالک کے کلب کا رکن بن گیا، جب کہ پاکستان آج بھی عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔
دوسری مثال ملائیشیا کی ہے۔ ملائیشیا 1970ء کے عشرے تک جنوب مشرقی ایشیا کا ایک غریب ملک تھا۔جس کی آمدنی کا ذریعہ پام آئل اور نباتاتی ربڑ (Rabber plants) تھی۔Synthetic ربڑکے متعارف ہو جانے کے بعد اس کی اہمیت ختم ہو گئی تھی ۔ ملائیشیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کو درست سمت دینے کا تھا۔ اس نے اصل ترقی1981ء میں اس وقت شروع کی جب مہاتیر بن محمد اس کے وزیر اعظم بنے۔ مہاتیر نے مخالفتوںکی پرواہ کیے بغیر صنعتی انفرا اسٹرکچر کی تیاری پر خطیر سرمایہ لگایا اور وہ صنعتیں جو جاپان چھوڑ کرآگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، اس سے وہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی۔
اس نے سب سے پہلے ٹرانسسٹر کے Chips بنانے اور ٹرانسسٹر اسمبل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس کے بعد کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں قدم رکھا اور ہارڈ ڈسک (Harddisk) کی تیاری کی صنعت میں سب سے آگے نکل گیا ۔اس دوران اس نے تین اہم کام کیے۔اول، پام اور ربڑ کے باغات کو ختم کرکے ان کی جگہ صنعتیں لگانا شروع کردیں۔ دوئم،امور سلطنت میں بادشاہوں کی سیاسی مداخلت کو کم سے کم کر دیا ۔ سوئم، 1993ء کے ایشیائی معاشی بحران سے نکلنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے منصوبوں کے بجائے اپنے مقامی منصوبوں پر عمل کیا۔ یوں 1990ء میں فی کس آمدنی2,255ا امریکی ڈالر تھی، 1995ء میں بڑھاکر 3,908 امریکی ڈالر تک پہنچا دیا ۔ یہ کام ان دنوں میں کیا جب ملائیشیا شدید معاشی دبائو میں تھا۔
ان دو مثالوں سے سبق کیا ملتا ہے؟ اول، ترقی کے لیے اپنے قدرتی اور مقامی وسائل کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ دوئم، صنعتکاری پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ تجارتی عدم توازن سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکے۔ سوئم، عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکلنے کی سبیل کی جائے ۔ چہارم، اپنے قومی سطح کے اخراجات کوکم سے کم کیا جائے اور وسائل سے حاصل سرمایے کو زیادہ سے زیادہ صنعتکاری اور اس سے متعلقہ انفرا اسٹرکچر کو جدید بنانے پر لگایا جائے۔ چنانچہ اصل تبدیلی اسی وقت ممکن ہے، جب معیشت مستحکم اور معاشرہ خوشحال ہوگا ۔