عرب شہزادوں کیلیے اجازت سے 500 کسٹم فری گاڑیاں پاکستان آئیں
متحدہ عرب امارات کے17، قطر کے11 اور بحرین کے2 شہزادوں کو اجازت ملی، سب سے زیادہ گاڑیاں یو اے ای سے منگوائی گئیں۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران اربوں روپے مالیت کی 500 سے زائد لگژری گاڑیاں پاکستان میں لائی گئیں۔
ماضی کے حکمرانوں نے متحدہ عرب امارات کے 17، قطر کے 11 اور بحرین کے 2 شہزادوں کو شکار اور پاکستان میں ان کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے کسٹم ڈیوٹی فری گھریلو اشیاء اور گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی تھی، یہ اجازت 18 برس کیلیے دی گئی ہے اور اس حوالے سے ایف بی آر نے SRO 9905 جاری کیا تھا جس میں شہزادوں کے نام بھی درج ہیں جبکہ اس ایس آر او میں واضح کیا گیا تھا کہ ہر سفارتخانہ 6 ماہ بعد اپنی گاڑیوں کی اپ ٹو ڈیٹ فہرست حکومت پاکستان کو فراہم کرے گا۔
ان گاڑیوں کو صرف شاہی خاندان پاکستان میں موجودگی کے دوران استعمال کر سکیں گے جبکہ ان گاڑیوں کی دیکھ بھال کیلیے شاہی افراد اپنے ملک کا کوئی نمائندہ مقرر کریں گے کسی پاکستانی کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جائیگی۔
ایس آر او میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ان گاڑیوں کو کوئی بھی پاکستانی کسی بھی صورت اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا اگر ایسی کوئی شکایت سامنے آئی تو پاکستانی وزارت خارجہ متعلقہ سفارتخانے کو تحریری اطلاع دے گی جس کے بعد کوئی ایجنسی یا ادارہ کارروائی کرے گا۔
ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ گاڑیاں متحدہ عرب امارات سے منگوائی گئی ہیں جو سب سے زیادہ لگژری بھی ہیں اور ان میں سے درجنوں گاڑیاں با اثر سیاسی شخصیات کے زیر استعمال بھی ہیں جبکہ پاکستان میں متحدہ عرب امارات کی نمائندہ پاکستانی شخصیت بھی انہی لگژری گاڑیوں کا استعمال کر رہی ہے اور یہ گاڑیاں لاہور، اسلام آباد، رحیم یار خان، بہاولپور اور کراچی میں زیر استعمال ہیں۔
ذرائع کے مطابق صرف قطری گاڑیوں کے خلاف کارروائی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور اس کارروائی کو بعض حلقے متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان جاری سفارتی تنازع کے پس منظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل قطر نے 3 ہزار پاکستانیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ہزاروں پاکستانیوں کو قطر میں ملازمت دینے کا بھی اعلان ہو چکا ہے ذرائع کے مطابق ایسے میں کسٹم انٹیلی جنس کی یکطرفہ کارروائی سے تاثر ابھرا ہے کہ بعض حلقے پاکستان اور قطر کے تعلقات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس کے جس ڈائریکٹر کو قطری گاڑیوں کی انکوائری پر مامور کیا گیا ہے وہ خود بھی متنازعہ ہیں اور ان کے خلاف نیب میں انکوائریز چل رہی ہیں۔ ایف بی آر پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ اگر ایسی گاڑیوں کیخلاف کارروائی کرنا ہے تو پھر سب ملکوں کی لائی گئی ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو خلاف قانون زیر استعمال ہیں۔
ماضی کے حکمرانوں نے متحدہ عرب امارات کے 17، قطر کے 11 اور بحرین کے 2 شہزادوں کو شکار اور پاکستان میں ان کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے کسٹم ڈیوٹی فری گھریلو اشیاء اور گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی تھی، یہ اجازت 18 برس کیلیے دی گئی ہے اور اس حوالے سے ایف بی آر نے SRO 9905 جاری کیا تھا جس میں شہزادوں کے نام بھی درج ہیں جبکہ اس ایس آر او میں واضح کیا گیا تھا کہ ہر سفارتخانہ 6 ماہ بعد اپنی گاڑیوں کی اپ ٹو ڈیٹ فہرست حکومت پاکستان کو فراہم کرے گا۔
ان گاڑیوں کو صرف شاہی خاندان پاکستان میں موجودگی کے دوران استعمال کر سکیں گے جبکہ ان گاڑیوں کی دیکھ بھال کیلیے شاہی افراد اپنے ملک کا کوئی نمائندہ مقرر کریں گے کسی پاکستانی کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جائیگی۔
ایس آر او میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ان گاڑیوں کو کوئی بھی پاکستانی کسی بھی صورت اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا اگر ایسی کوئی شکایت سامنے آئی تو پاکستانی وزارت خارجہ متعلقہ سفارتخانے کو تحریری اطلاع دے گی جس کے بعد کوئی ایجنسی یا ادارہ کارروائی کرے گا۔
ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ گاڑیاں متحدہ عرب امارات سے منگوائی گئی ہیں جو سب سے زیادہ لگژری بھی ہیں اور ان میں سے درجنوں گاڑیاں با اثر سیاسی شخصیات کے زیر استعمال بھی ہیں جبکہ پاکستان میں متحدہ عرب امارات کی نمائندہ پاکستانی شخصیت بھی انہی لگژری گاڑیوں کا استعمال کر رہی ہے اور یہ گاڑیاں لاہور، اسلام آباد، رحیم یار خان، بہاولپور اور کراچی میں زیر استعمال ہیں۔
ذرائع کے مطابق صرف قطری گاڑیوں کے خلاف کارروائی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور اس کارروائی کو بعض حلقے متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان جاری سفارتی تنازع کے پس منظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل قطر نے 3 ہزار پاکستانیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ہزاروں پاکستانیوں کو قطر میں ملازمت دینے کا بھی اعلان ہو چکا ہے ذرائع کے مطابق ایسے میں کسٹم انٹیلی جنس کی یکطرفہ کارروائی سے تاثر ابھرا ہے کہ بعض حلقے پاکستان اور قطر کے تعلقات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس کے جس ڈائریکٹر کو قطری گاڑیوں کی انکوائری پر مامور کیا گیا ہے وہ خود بھی متنازعہ ہیں اور ان کے خلاف نیب میں انکوائریز چل رہی ہیں۔ ایف بی آر پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ اگر ایسی گاڑیوں کیخلاف کارروائی کرنا ہے تو پھر سب ملکوں کی لائی گئی ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو خلاف قانون زیر استعمال ہیں۔