سوشل میڈیا کے باعث گھریلو خواتین کا کاروبار کرنا آسان ہوگیا

ہزاروں خواتین فیس بک کے ذریعے ملبوسات، جیولری اوردیگر مصنوعات ملک اور بیرون ملک فروخت کر رہی ہیں


Kashif Hussain October 01, 2018
ویب سائٹ sheops کے رجسٹرڈ خریدارڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہیں،لاکھ سے زائد مصنوعات فروخت کے لیے موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت نے گھریلو خواتین کی مشکلات کو آسان کردیا ہے اور اب باصلاحیت خواتین گھر بیٹھے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے روزگار کمارہی ہیں اور اپنے خاندان کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ مالی طور پر بھی کفالت میں اپنا کردار اداکررہی ہیں۔

انٹرنیٹ کی سہولت گھر بیٹھی خواتین کو گھروں سے نکلے بغیرہی روزگار کمانے کا ذریعہ فراہم کررہی ہے جس سے مڈ ل کلاس طبقہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھارہا ہے ان خواتین کی تیار مصنوعات کی زیادہ تر خریدار بھی خواتین ہیں، پاکستان میں ہنرمند گھریلو خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردارادا کرنے والی ویب سائٹ sheopsکی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے، ہنرمند خواتین اور خواتین خریداروں کو باہم منسلک کرنے والا فیس بک کا پیج اب ایک کمپنی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان میں خواتین کیلیے مخصوص یہ ویب سائٹ گھر بیٹھی ہنرمند خواتین کے فیس بک پیج کی اندرون اور بیرون ملک مارکیٹنگ کرتا ہے،فیشن، بیوٹی، لائف اسٹائل، کھانے پینے کی اشیا، جیولری، کاسمیٹکس، ملبوسات اور دستکاریاں بنانے میں ماہر خواتین اپنے فیس بک پیج کا لنک اس ویب سائٹ پر درج کراتی ہیںاس ویب سائٹ کے رجسٹرڈ خریداروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے جبکہ ایک لاکھ سے زائد مصنوعات فروخت کیلیے موجود ہیں۔

ویب سائٹ 2000 کے لگ بھگ گھریلو خواتین کو گھر بیٹھے ان کی تیار مصنوعات فروخت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، گھر بیٹھے مصنوعات تیار کرنیو الی خواتین کو بس ویب سائٹ سے ملنے والا آرڈر تیار رکھنا ہوتا ہے اور کوریئر کا نمائندہ گھر آکر آرڈر پک کرتا ہے ویب سائٹ آرڈر ڈیلیور ہونے کے بعد فروخت کی رقم بھی گھر بیٹھے ارسال کرتی ہے۔

اس ویب سائٹ سے خریداری کیلیے بھی خواتین کا فیس بک پروفائل ہونا ضروری ہے تاکہ گھروں میں بیٹھ کر مصنوعات بنانے والی خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے، ویب سائٹ سے استفادہ کرنیوالوں میں امریکا، برطانیہ ، کینیڈا ، خلیجی ریاستوں اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی کمیونٹی بھی شامل ہے جوان ممالک کی معروف مصنوعات اپنے پاکستانی رشتے داروں کے ذریعے فروخت کرتی ہیں۔

اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانی خواتین پاکستان سے ملبوسات، جیولری اور دیگر مصنوعات اسی ویب سائٹ کے ذریعے خریدتی ہیں جو کوریئر کمپنیوں کے زریعے بھجوائی جاتی ہیں، ویب سائٹ کے ذریعے گھر بیٹھے کاروبار شروع کرنے والی ایک سو سے زائد خواتین منظم کاروبار چلار ہیں ہیں۔

بلوچی کڑھائی اور شیشے کا کام د نیا بھر میں مشہور ہے

بلوچستان کی ایک آن لائن کمپنی ڈوچ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بلوچستان کی ہاتھ سے کی گئی دیدہ زیب بلوچی کڑھائی سے مزین مصنوعات فروخت کر رہی ہے، ڈوچ کمپنی نے بلوچستان میں گھروں میں دستکاریاں بنانے والی خواتین کے لیے گھر بیٹھے روزگار کمانا آسان بنادیا ہے، یہ کمپنی دیدار مینگل نامی خاتوں کی کاوشوں سے وجود میں آئی اور بلوچستان کی غریب اور خوددار خواتین کی زندگیاں بہتر بنانے میں مدد فراہم کررہی ہے۔

ڈوچ بلوچستان کے ہنرمندوں کی تیار کردہ خواتین کے استعمال کی اشیاہینڈ بیگز، کلچرز، شرٹس ، ویسٹ کوٹ، جیولری وغیرہ فروخت کرتی ہے، پاکستان میں ثقافت کو محور و مرکز بنانے والے انٹرنیٹ پر مبنی کاروبار میں ڈوچ ایک منفرد مثال ہے جو بلوچستان کے کاریگروں بالخصوص خواتین ہنرمندوں کے فن کی ترویج کا ذریعہ بن رہا ہے، دیدارمینگل کے مطابق بلوچستان کی کڑھائی اور شیشے کا کام د نیا بھر میں مشہور ہے۔

ڈوچ نے بلوچی کڑھائی کو فیشن ڈیزائننگ کے جدید تصورات سے ہم آہنگ کرکے مصنوعات تیار کی ہیں جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی ہیں، کمپنی کڑھائی کے نمونے خام شکل میں منگواکر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مصنوعات کی تیاری کیلیے استعمال کرتی ہے، ہاتھ سے کی گئی کڑھائی کو جدید رخ دیے جانے سے اس فن میں مزید نکھار آجاتا ہے اور امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔

کمپنی بلوچ خواتین ہنرمندوں کی تربیت اور رہنمائی کیلیے خصوصی ورکشاپس منعقد کرتی ہے،کمپنی کی بلوچی کڑھائی کیلیے مشہور علاقوں کوئٹہ، مستونگ، قلات، خضدار، وادھو، کوہلو، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، نوشکی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوںمیں زیادہ سرگرم ہے، ڈوچ کے ساتھ بلوچی دستکاریوں کے ہنرمندوں کے علاوہ چھوٹے کاروبار بھی منسلک ہیں۔

کمپنی کی مصنوعات، کراچی لاہور اور اسلام آباد میں زیادہ خریدی جاتی ہیں 2016 میںقائم ہونے والی کمپنی اب تک 3ہزار سے زائد کسٹمرز کو بلوچی کڑھائی سے مزین مصنوعات فروخت کرچکی ہے جن کی فروخت سے حاصل آمدن بلوچستان میں کم آمدن والے طبقہ کا معیار زندگی بلند کرنے میں معاون ہورہی ہے اور ساتھ ہی بلوچ ثقافت کو بھی فروغ مل رہا ہے, کمپنی بلوچی کڑھائی سے مصنوعات تیار کرنے کے لیے 120کے لگ بھگ بلوچ ہنرمند خواتین ڈوچ سے منسلک ہیں جن کو ماہانہ 15000روپے تک کی آمدن ہوتی ہے۔

8 ہزار کی اشیا قسطوں پر فروخت کرتی ہوں، شبانہ جمشید

پاکستان کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ایسے گھرانوں کے لیے روز مرہ استعمال کی اشیا کی خریداری ایک بڑا مسئلہ ہے، یومیہ اجرت کمانے والے اس طبقے کے پاس اضافی آمدن نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی ضروریات سے جڑی اشیا کا حصول بھی دشوار کام ہے۔

لاہور کی ہی ایک غریب آبادی میں رہنے والی باہمت لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والی ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر کم آمدن والے طبقے کے لیے قسطوں پر سامان کی فراہمی کا کاروبار شروع کیا جو ایک سال میں عروج پر پہنچ چکا ہے، فائن ٹریڈرز کے نام سے منفرد کاروبار شروع کرنے والی باہمت خاتون پاکستان کی دیگر خواتین کے لیے بھی مثال ہیں۔

شبانہ جمشید کے مطابق ان کے والد سرکاری محکمے میں ڈرائیور تھے اور 8بہنوں کی کفالت مشکل تھی اس دوران شادی کے لیے جہیز جمع کرنا سب سے مشکل کام تھا کمیٹیاں ڈا ل کر چھوٹی چھوٹی اشیا جمع کرتے رہے ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے شبانہ نے ایک سال قبل لاہور شہر کی غریب آبادی میں چنگ چی رکشا میں ڈنر سیٹ، پنکھے، پانی کے کولر، بیڈ شیٹس ، رضائیاں اور جہیز کا دیگر سامان قسطوں پر گھر گھر جا کر فروخت کرنا شروع کیا اب یہ کام ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے اور 2300 سے زائد کسٹمرز اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

شبانہ جمشید کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 7سے 8ہزار روپے مالیت کی اشیا قسطوں پر فروخت کرتی ہیں جن کی قیمت 6 ماہ میں وصول کی جاتی ہے کم آمدن والے طبقے کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے یومیہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر اقساط وصول کی جاتی ہیں اب تک اشیا خریدنے والے 99 فیصد خریداروں نے وقت پر اقساط جمع کرائی ہیں۔

شبانہ نے کاروبار 5لاکھ روپے سے شروع کیا جو ایک سال کے عرصے میں ایک کروڑ روپے مالیت کی اشیا فروخت کرچکاہے، اس کامیاب کاروباری ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کی ایک کمپنی اسٹرام ہاربر نے سرمایہ کاری کی پیش کش کی جو شرائط غیرموزوں ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی تاہم اب پاکستان میں انٹرپرنیورشپ کو فروغ دینے والے ادارے کار انداز کی معاونت سے مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے جس کے تحت دو مراحل میں سرمایہ کاری کی جائے گی اور اس سہولت کا دائرہ لاہور کے نواحی قصبوں اور پنجاب کے دیگر چھوٹے شہروں تک وسیع کیا جائے گا۔

شبانہ جمشید کے مطابق سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی خواتین اس طرز کے کاروبار شروع کرکے نہ صرف اپنے حالات بہتر کرسکتی ہیں بلکہ ملک سے غربت کے خاتمے میں بھی اہم کردار اداکرسکتی ہیں۔

کراچی کی ہنرمند خواتین لاکھوں روپے ماہانہ کما رہی ہیں

خواتین کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کو آسان اور محفوظ بنانے والی انٹرپرنیورر نادیہ پٹیل کے مطابق کراچی کی بہت سی ایسی خواتین جن کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا یا ان کے شوہر بے روزگاری کا شکار تھے گھر بیٹھے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے لاکھوں روپے ماہانہ کی اشیا فروخت کررہی ہیں اور بعض خواتین جنھوں نے فیس بک پیج کے ذریعے کام کا محدود پیمانے پر آغاز کیا تھا اب منظم طور پر چھوٹے کارخانے اور فیکٹریاں چلارہی ہیں جس کے ذریعے دیگر خواتین کو بھی روزگار مل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے خواتین کے لیے مخصوص اور محفوظ آن لائن مارکیٹ پلیٹ فارم متعارف کرانے کا خیال اس وقت آیا جب میرا موبائل فون گم ہوگیا اور ان کلاسیفائڈ ویب سائٹ کے ذریعے موبائل فون تلاش کرنا پڑا اس کے بعد ان کے نمبر پر غیرمتعلقہ کالز آنا شروع ہوگئیں اور عام خواتین کی طرح انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس واقعے نے انھیں سوچنے پر مجبور کیا خواتین کو کس طرح ایک محفوظ اور آسان مارکیٹ پلیس فراہم کی جائے جہاں سے وہ کسی خدشہ کے بغیر خرید و فروخت کر سکیں اس خیال کے تحت پہلے واٹس ایپ گروپ بنایا لیکن اراکین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے بعد میں فیس بک پر پیج بنایا گیا اور فیس بک پر خواتین کے بھرپور رسپانس کو دیکھتے ہوئے شی اوپس کے نام سے مارکیٹ پلیس قائم کی۔

انھوں نے کہا کہ گھر بیٹھی خواتین کو کاروبار کیلیے سب سے زیادہ کوریئر کی سہولت کے بارے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ سرمائے کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے، انھوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کو روزگار فراہم کرنے میں ملکی سطح پر بھی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جبکہ فیس بک بھی پاکستانی خواتین کو با اختیار بنانے میں معاون کردار ادا کررہا ہے انھوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی گھریلو خواتین کو ان کی مصنوعات کا معیار بہتر بنانے، جدید پیکنگ اور مارکیٹنگ کے بارے میں مشاورت اور رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں