نرگس حمید اللہ
ایشین گیمز کے کراٹے مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی پہلی پاکستانی ایتھلیٹ
انیس سالہ نرگس پاکستان کی پہلی کھلاڑی ہیں، جنھوں نے ایشین گیمز کے کراٹے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
نرگس کا تعلق ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ سے ہے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے بڑی ہیں۔ انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں پچھلے دنوں منعقد ہونے والے اٹھارہوھں ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیت کر نرگس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی خواتین کھلاڑی بھی دنیا کی دیگر خواتین کھلاڑیوں سے کم نہیں ہیں۔
نرگس کے چھوٹے بھائی الیاس جن کی عمر سترہ برس ہے، وہ بھی مارشل آرٹ میں مہارت رکھتے ہیں۔ والد کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے بچے تعلیم کے ساتھ کھیلوں میں بھی بھرپور دلچسپی لیں۔ نرگس نے چھ برس کی عمر میں مکسڈ مارشل آرٹ Mixed Martial Art سے آغاز کیا۔ لیکن پھر 2010 میں شوٹوکان کراٹے کی جانب اپنی توجہ مبذول کرلی۔ نرگس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔
حالات کے پیش نظر وہ بہ مشکل ہزارہ ٹاؤن سے باہر جاتی ہیں۔ لہٰذا وہاں موجود واحد اسپورٹس کلب ہی اس جگہ کے نوجوانوں اور بچوں کے لیے تربیت کا واحد ذریعہ ہے جہاں مارشل آرٹ اور کراٹے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کے شوقین یا تو اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ یا پھر دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن اس مخصوص کھیل کی تربیت کا ہزارہ ٹاؤن میں کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ حالات کی وجہ سے ہر صبح جب نرگس گھر سے کالج کے لیے نکلتیں تو ان کے والدین فکرمند رہتے اور سارا دن وہ اپنی بیٹی کے منتظر رہتے، حتیٰ کہ جب وہ واپس گھر لوٹتیں تو ان کی جان میں جان آتی۔
نرگس کو پڑھنے کا بہت شوق ہے، معاشیات، حساب اور شماریات ان کے پسندیدہ مضامین ہیں۔ اسپورٹس بورڈ ٹریننگ کیمپس میں بھی وہ اپنی کتابیں ساتھ لے جاتی تھیں۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے انٹر کا امتحان اے ون گریڈ سے پاس کیا ہے۔
سترہ برس کی عمر میں نرگس نے اسلامی یکجہتی کے کھیلوں کے مقابلوں Islamic Solidarity Games میں پاکستانی کراٹے کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ یہ 2016 میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوئے تھے۔ لیکن نرگس وہاں کوئی تمغہ نہ جیت سکیں جس کا ان کو بے حد ملال تھا، مگر ان کے کوچ خالد نور نے ان کو دلاسا دیتے ہوئے کہا تھا:''کبھی ہمت نہ ہارو، کیوںکہ تم محنتی ہو اور تم نے پورے خلوص سے محنت کی، البتہ اپنی شکست کو یاد رکھو، اور اس سے زیادہ محنت کرکے آگے کامیابی حاصل کرو۔'' انہوں نے اپنے کوچ کی یہ نصیحت پلو سے باندھ لی اور شاید اسی لیے وہ ایشین گیمز میں کامیابی حاصل کرسکیں جس پر وہ بے حد مسرور ہیں۔ اس سے قبل بھی نرگس قومی سطح پر کئی چیمپئن شپس جیت چکی ہیں البتہ بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کا نام روشن کرنے کے لیے انہوں نے سخت محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کے کرم سے یہ فتح نصیب ہوئی۔
ایشین گیمز کے تربیتی کیمپ کا اسلام آباد میں عید الفطر کے بعد آغاز ہوا تھا۔ ابتدا میں تیس لڑکے اور لڑکیاں اس میں شامل تھیں، لیکن پھر فنڈز کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے آخر میں صرف تین لڑکے اور تین لڑکیاں منتخب ہوسکے جنھوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
نرگس کراٹے کے شوٹوکان اسٹائل میں بلیک بیلٹ حاصل کرچکی ہیں۔ اس کے باوجود جب سیمی فائنل میں وہ چین کی کھلاڑی سے ہار گئیں تو تمغہ جیتنے کے لیے نیپال کی کھلاڑی سے مقابلے سے قبل بے حد دباؤ کا شکار تھیں۔ ان کے کوچ شاہ نے ان کی اس کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے ان کے سر کو گیلے تولیے سے ڈھک کر سمجھایا تھا کہ تمام افکار کو دماغ سے نکال کر کھیل پر توجہ مبذول کرو۔ بعد میں مقابلہ جیتنے پر وہ خوشی سے رو پڑیں اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھر والے لاعلم تھے۔ لہٰذا نرگس کے مطلع کرنے پر ان کی والدہ جو ایک نرس ہیں، خوشی سے اشک بار ہوگئیں۔ ان کے والد ایک پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے براہ راست یہ دیکھا اور اپنی بیٹی کی فتح کی کامیابی کی خوشی میں گاہک کو بڑا گل دستہ مفت دے دیا۔
نرگس کی خواہش ہے کہ لاہور میں واقع پاکستان کراٹے فیڈریشن ان کو یونیورسٹی اسکالرشپ فراہم کرے۔ ان کا خواب ہے کہ وہ جلد ازجلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں اور اپنے والدین کا سہارا بنیں تاکہ ان کے والدین کو اتنی سخت محنت نہ کرنی پڑے۔
نرگس کا تعلق ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ سے ہے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے بڑی ہیں۔ انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں پچھلے دنوں منعقد ہونے والے اٹھارہوھں ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیت کر نرگس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی خواتین کھلاڑی بھی دنیا کی دیگر خواتین کھلاڑیوں سے کم نہیں ہیں۔
نرگس کے چھوٹے بھائی الیاس جن کی عمر سترہ برس ہے، وہ بھی مارشل آرٹ میں مہارت رکھتے ہیں۔ والد کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے بچے تعلیم کے ساتھ کھیلوں میں بھی بھرپور دلچسپی لیں۔ نرگس نے چھ برس کی عمر میں مکسڈ مارشل آرٹ Mixed Martial Art سے آغاز کیا۔ لیکن پھر 2010 میں شوٹوکان کراٹے کی جانب اپنی توجہ مبذول کرلی۔ نرگس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔
حالات کے پیش نظر وہ بہ مشکل ہزارہ ٹاؤن سے باہر جاتی ہیں۔ لہٰذا وہاں موجود واحد اسپورٹس کلب ہی اس جگہ کے نوجوانوں اور بچوں کے لیے تربیت کا واحد ذریعہ ہے جہاں مارشل آرٹ اور کراٹے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کے شوقین یا تو اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ یا پھر دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن اس مخصوص کھیل کی تربیت کا ہزارہ ٹاؤن میں کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ حالات کی وجہ سے ہر صبح جب نرگس گھر سے کالج کے لیے نکلتیں تو ان کے والدین فکرمند رہتے اور سارا دن وہ اپنی بیٹی کے منتظر رہتے، حتیٰ کہ جب وہ واپس گھر لوٹتیں تو ان کی جان میں جان آتی۔
نرگس کو پڑھنے کا بہت شوق ہے، معاشیات، حساب اور شماریات ان کے پسندیدہ مضامین ہیں۔ اسپورٹس بورڈ ٹریننگ کیمپس میں بھی وہ اپنی کتابیں ساتھ لے جاتی تھیں۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے انٹر کا امتحان اے ون گریڈ سے پاس کیا ہے۔
سترہ برس کی عمر میں نرگس نے اسلامی یکجہتی کے کھیلوں کے مقابلوں Islamic Solidarity Games میں پاکستانی کراٹے کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ یہ 2016 میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوئے تھے۔ لیکن نرگس وہاں کوئی تمغہ نہ جیت سکیں جس کا ان کو بے حد ملال تھا، مگر ان کے کوچ خالد نور نے ان کو دلاسا دیتے ہوئے کہا تھا:''کبھی ہمت نہ ہارو، کیوںکہ تم محنتی ہو اور تم نے پورے خلوص سے محنت کی، البتہ اپنی شکست کو یاد رکھو، اور اس سے زیادہ محنت کرکے آگے کامیابی حاصل کرو۔'' انہوں نے اپنے کوچ کی یہ نصیحت پلو سے باندھ لی اور شاید اسی لیے وہ ایشین گیمز میں کامیابی حاصل کرسکیں جس پر وہ بے حد مسرور ہیں۔ اس سے قبل بھی نرگس قومی سطح پر کئی چیمپئن شپس جیت چکی ہیں البتہ بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کا نام روشن کرنے کے لیے انہوں نے سخت محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کے کرم سے یہ فتح نصیب ہوئی۔
ایشین گیمز کے تربیتی کیمپ کا اسلام آباد میں عید الفطر کے بعد آغاز ہوا تھا۔ ابتدا میں تیس لڑکے اور لڑکیاں اس میں شامل تھیں، لیکن پھر فنڈز کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے آخر میں صرف تین لڑکے اور تین لڑکیاں منتخب ہوسکے جنھوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
نرگس کراٹے کے شوٹوکان اسٹائل میں بلیک بیلٹ حاصل کرچکی ہیں۔ اس کے باوجود جب سیمی فائنل میں وہ چین کی کھلاڑی سے ہار گئیں تو تمغہ جیتنے کے لیے نیپال کی کھلاڑی سے مقابلے سے قبل بے حد دباؤ کا شکار تھیں۔ ان کے کوچ شاہ نے ان کی اس کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے ان کے سر کو گیلے تولیے سے ڈھک کر سمجھایا تھا کہ تمام افکار کو دماغ سے نکال کر کھیل پر توجہ مبذول کرو۔ بعد میں مقابلہ جیتنے پر وہ خوشی سے رو پڑیں اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھر والے لاعلم تھے۔ لہٰذا نرگس کے مطلع کرنے پر ان کی والدہ جو ایک نرس ہیں، خوشی سے اشک بار ہوگئیں۔ ان کے والد ایک پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے براہ راست یہ دیکھا اور اپنی بیٹی کی فتح کی کامیابی کی خوشی میں گاہک کو بڑا گل دستہ مفت دے دیا۔
نرگس کی خواہش ہے کہ لاہور میں واقع پاکستان کراٹے فیڈریشن ان کو یونیورسٹی اسکالرشپ فراہم کرے۔ ان کا خواب ہے کہ وہ جلد ازجلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں اور اپنے والدین کا سہارا بنیں تاکہ ان کے والدین کو اتنی سخت محنت نہ کرنی پڑے۔