پاکستان کو سفارتی محاذ پر درپیش چیلنجز اور ان کا حل

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں اظہار خیال


ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں سفارتی تعلقات ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اس میں کسی بھی ملک کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینا ایک مشکل مرحلہ ہے۔

امریکا ایک سپر پاور ہے جبکہ چین ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر امریکا کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے لہٰذا ان دونوں بڑی طاقتوں کی اس کشیدگی کے باعث دنیا میں نئے الائنس بن رہے ہیں جس میں اس خطے کے ممالک کا کردار انتہائی اہم رہے گا۔

پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت خصوصاََ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے دنیا کی نظریں یہاں لگی ہیں جبکہ پاکستان اور چین کے مخالف ممالک اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے '' پاکستان کو سفارتی محاذ پر درپیش چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم '' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ )

پاکستان کو درپیش بیرونی مسائل پر بات کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی شخصیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران کہا کہ میں نے گزشتہ 2 برسوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے، کسی اور نے نہیں کی۔ اس پر وہاں موجود دنیا بھر کے سربراہان و نمائندے ہنس پڑے جس سے ہمیں ٹرمپ کی پوزیشن کا معلوم ہوگیا کہ دنیا اسے کتنا سنجیدہ سمجھتی ہے۔ "Fear" کے نام سے آنے والی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں کہ کس طرح ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ فائلیں چھپا رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی پالیسیوں اور غیر سنجیدگی سے خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ایران پر پابندیوں کی بات کی جبکہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں چین پر مداخلت کا الزام بھی لگایا۔ نریندر مودی کی بات کریں تو اس کی سوچ انتہا پسندانہ ہے اور اس کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شیو سینا بن چکی ہے کیونکہ شیو سینا کی مرضی کے بغیر ہمارے کھلاڑی، فنکار و غیرہ بھارت نہیں جاسکتے۔ میرے نزدیک پاک بھارت معاملات بہتر نہ ہونے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی رکاوٹ ہے جبکہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے اس خطے میں امریکا کا پارٹنر اب بھارت ہے، ہم چاہے جتنی بھی کوشش کر لیںامریکا ہمارا دوست نہیں بن سکتا بلکہ وہ افغانستان میں اپنی شکست کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور ہم سے سخت مطالبات بھی کرتا ہے۔ عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ بھارت، امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک طرف جبکہ پاکستان،چین، روس، ایران اور ترکی دوسری طرف نظر آرہے ہیں لہٰذا اب معاملات اسی تناظر میں آگے بڑھیں گے۔ کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ روس افغانستان میں ثالثی کردار ادا کرے گا ؟ حالانکہ یہ سارا معاملہ تو اس کے لیے ہی بنایا گیا تھا اور وہاں موجود طالبان اس کے خلاف استعمال ہوئے۔ اسی طرح چین کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ افغانستان میں امن کیلئے طالبان سے بات کرے گا۔ آگے بڑھیں تو ایران، ترکی اور روس نے شام کے حوالے سے سربراہی اجلاس بلایا، جس میں یہ نظر آیا کہ شام کے حوالے سے ترکی اور ایران کی مشترکہ پالیسی آگے چلے گی۔ ترکی اور ایران سے ہمیں بھی اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستان، ترکی اور ایران نے مشترکہ طور ECO کی بنیاد رکھی جس میں بعد ازاں افغانستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان و دیگر ممالک شامل ہوئے۔ اب بھی ان تینوں ممالک کو آپس میں بہتر تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ چین اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ہورہے ہیں جو آنے والے وقت میں مزید گہرے ہوجائیں گے۔ اس وقت پاکستان کے لیے بہترین آپشن چین اور ایران کے ساتھ تعلقات کا فروغ ہے کیونکہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ سعودی عرب، امریکا کی مرضی کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتا اور سی پیک میں اس کی شمولیت سے یہاں امریکی اثر و رسوخ بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ متحدہ عرب امارات ''اوور پلے'' کررہا ہے۔ وہ یمن ، ترکی، قطر اور ایران کے ساتھ چھیڑ خانی کررہا ہے جبکہ پاکستان کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ ترکی کے ساتھ اس کی سرد جنگ چل رہی ہے، قطر کا راستہ اس نے روکا ہوا ہے، ایران کے ساتھ معاملات کشیدہ ہیں، پاکستان سے اس کو گوادر کی وجہ سے مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک متحدہ عرب امارات کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اسے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ بھارت کشمیر میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، اس نے ظلم کی انتہا کردی مگر کشمیریوں کے جذبے کے سامنے وہ بے بس ہوچکا ہے، اب اپنی خفت مٹانے کیلئے وہ دنیا کے سامنے یہ الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ سیاچن اور سرکریک کا معاملہ حل کرنے کے حوالے سے تمام کاغذات تیار ہیں، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور منموہن سنگھ رضامند بھی تھے مگر بھارتی فوج ایسا ہونے نہیں دیتی کیونکہ اگر یہ معاملات حل ہوجائیں تو ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ معاملات میں کہیں نو منتخب حکومت کی ناتجربہ کاری بھی شامل ہے مگر بھارت کا پہلے ملاقات کے لیے رضامند ہونا اور پھر انکار کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ خطے میں کس طرح کے معاملات رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو ٹرمپ اور مودی جیسے ناقابل اعتبار سربراہان کا سامنا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں امریکا سے اب کوئی بڑی امید نہیں لگانی چاہیے۔اس وقت دنیا میں نئے الائنس بن رہے ہیں لہٰذا پاکستان کو اپنے اندرونی و بیرونی حالات کو دیکھتے ہوئے بہتر فیصلہ کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک چین اور ایران کے ساتھ پاکستان کا فطری اتحاد بنتا ہے لہٰذا ہمیں اس طرف بڑھنا چاہیے اور سعودی عرب کے معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے۔

جاوید حسین (سابق سفارتکار)

گزشتہ برسوں سے عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ امریکا سپر پاور ہے جبکہ چین اس کے مقابلے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جو امریکا کو قبول نہیںلہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور 21 ویں صدی میں یہ معاملہ اہم رہے گا۔ امریکا، چین کشیدگی کا اثر اس خطے پر پڑے گا کیونکہ امریکا یہاں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنا اور اسے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں امریکا، بھارت تعلقات مضبوط ہوئے جو اب سٹرٹیجک پارٹنرشپ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ امریکا اس کی ہر ممکن مدد کررہا ہے جبکہ بھارت، امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت اس خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرے جو چین کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔ بھارت کی مضبوطی سے نہ صرف سی پیک منصوبہ بلکہ پاکستان کو بھی خطرہ ہے کیونکہ آج تک اس نے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔آزادی سے اب تک پاک، بھارت جنگیں ہوئی، مسئلہ کشمیر، پانی، سیاچن و دیگر معاملات کشیدہ ہیں اور بھارت ہمارے لیے مسلسل خطرہ ہے خاص طور پر جب وہ مودی کی ہندوآتہ سوچ کے زیر سایہ ہے لہٰذا ہمیں اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ چین اور پاکستان کی دوستی بہت پرانی اور مضبوط ہے۔ دونوں ممالک شروع دن سے ہی ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں جبکہ اب بھی انہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں چین کے ساتھ سٹرٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ سی پیک منصوبہ پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے، یہ منصوبہ صرف معاشی نہیں بلکہ سٹرٹیجک نوعیت کا ہے لہٰذا ہمیں چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں پاکستان میں 19 بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری ہوئی جس سے 70 ہزار لوگوں کو روزگار ملا۔ اگر حالات سازگار رہے تو آئندہ برسوں میں اس میں بے حد اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہماری جی ڈی پی کی شرح میں گزشتہ برسوں میں2 فیصد اضافے کی وجہ بھی چینی سرمایہ کاری ہے لہٰذا ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ سی پیک منصوبے کے تحت 2020ء سے 30ء تک پاکستان میں 62 بلین ڈالر سرمایہ کاری ہوگی جس سے معیشت کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ گوادر پورٹ اور سی پیک روٹ بننے سے پاکستان اقتصادی مرکز بن جائے گا۔ اس کے ذریعے دنیا ہمارے ساتھ منسلک ہوجائے گی کیونکہ یہ تجارتی روٹ بیشتر ممالک کو سستا پڑے گا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی لیبر سستی ہے لہٰذا سی پیک منصوبے میں پیشرفت سے مختلف چینی کمپنیاں بھی یہاں منتقل ہوجائیں گی۔ سی پیک ایک اہم اور ضروری منصوبہ ہے لہٰذا ہمیں اس کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پوری کرنی چاہیے اور معاہدے پر عمل کرنا چاہیے۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے، جس پر چین کو بھی تشویش ہوئی۔ میرے نزدیک سٹرٹیجک اہمیت کے ایسے منصوبوں پر بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر حکومت کو کوئی تحفظات ہیں تو چین کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کرکے انہیں دور کیا جائے اور تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے کیونکہ یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور مودی جیسی قیادت اور سوچ کے ہوتے ہوئے معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے ہم اس کے اتحادی تھے مگر اب بھارت اس کا اتحادی ہے لہٰذا ہمیں اس سے کوئی بڑی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان اور بھارت کے بعد ان کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ امریکا کس سمت میں چل رہا ہے اور اس کی ڈیمانڈ کیا ہے لہٰذا ہمیں اس کے ساتھ تعلقات میں حقیقت پسندی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کو درپیش بیرونی مسائل سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے اندرونی مسائل کا خاتمہ کریں۔ ملک میں سیاسی استحکام، معیشت اور دفاع مضبوط ہونے سے تمام چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو بیرونی چیلنجز سے نمٹنے مشکل ہوجائے گا۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی قیادت بات چیت سے مسائل کا حل ڈھونڈھنے کی کوشش کرے ۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

کوئی بھی ملک اپنے مفادات کے بغیر کسی دوسرے ملک سے تعلقات استوار نہیں کرتا لہٰذا ہمیں بھی بین الاقوامی تعلقات میں حقیقت پسندی کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ چین ہو یا امریکا، پاکستان کو اپنے مفادات پر بات کرنی چاہیے اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے بہتر تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ چین نے ہماری بہت مدد کی مگر ہم نے بھی ہمیشہ اسے فائدہ دیا۔ ہم نے گوادر کیلئے لڑائی میں آدھی زندگی گزار دی مگر چین کو بغیر لڑائی کے دے دیااور اس کی قیمت بھی بہت کم لی۔ یہ معاملات حکومت نے طے کرنا تھے جو چین کے ساتھ کر لیے گئے۔ میرے نزدیک پاکستان کو خوف کے عالم میں اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے اور نہ ہی کسی ایک کی ناراضی کے ڈر سے کسی دوسرے سے پیچھے ہٹنا چاہیے بلکہ اپنے معروضی حالات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں سے ہی اچھے تعلقات قائم ہوسکتے ہیں کیونکہ جو فائدہ ہمیں سعودی عرب دے سکتا ہے وہی ایران سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں امن ہمارے مفاد میں ہے جس کے لیے بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ابدی مسئلہ ہے جو حل نہیں ہوسکتا تاہم امن کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے جو پاکستان ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔ ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ امریکا، افغانستان میں القاعدہ کے خلاف نہیں آیا بلکہ وہاں موجود رہنے کے لیے آیا تھا اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس میں اس کی مدد کرے۔ وہ وہاں رہ کر چین کے کردار کو روکنا چاہتا ہے۔ دنیا اس خطے میں پاکستان کی اہمیت کو سمجھتی ہے اور انہیں معلوم ہے کہ جو اس خطے میں مضبوط کردار کے طور پر رہے گا وہی مستقبل میں دنیا پر راج کرے گا۔بھارت کے علاوہ افغانستان کے گرد موجود ممالک جن میں ایران، روس، تاجکستان و دیگر شامل ہیں،سے امریکا کے تعلقات اچھے نہیں ہیں جو امریکا کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ وہاں امریکا کی موجودگی نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ روس اور چین ان ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ سے امریکا کا کردار ختم کرنا چاہتے ہیں۔ روس اور چین امن کیلئے ثالثی کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ تمام ممالک امریکا کا کردار ختم کرنے اور افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر امریکا کیلئے انتہائی مشکل صورتحال ہوگی اور پاکستان و سی پیک کو نقصان پہنچانا آسان نہیں ہوگا۔ اس سارے عمل میں بھارت بھی پریشانی کا شکار ہے، اسے تکلیف پہنچ رہی ہے کیونکہ اس نے افغانستان میں بہت زیادہ انوسٹمنٹ کی ہے، وہ امریکا کا پارٹنر رہتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے لیکن اگر افغانستان میں معاملات بہتر ہوگئے تو اس کی انوسٹمنٹ ضائع ہوجائے گی۔ چین کا معاشی ویژن بہت وسیع ہے۔ بھارت کے ساتھ 100 بلین ڈالر کی تجارت ہے جبکہ امریکا کے ساتھ ایک طرف دشمنی ہے اور دوسری طرف وہاں تجارت بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح چین کے ویژن میں سی پیک منصوبے میں بھارت اور ایران بھی شامل ہیں۔ وہ اس منصوبے میں بھارت کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ بنگلہ دیش، برما و دیگر ممالک سے لنک ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو چین اس خطے میں مزید مضبوط ہوجائے گا۔ ایران کے ساتھ چین نے ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیںا ور افغانستان کے ذریعے ایران میں تجارت بھی ہوچکی ہے۔پاکستان بہتر ویژن کے تحت چلے تو اس سارے پلان میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے ہماری حکومت کنفیوژ ہے کہ صرف حرمین شریفین کی حفاظت کرے گی یا پورے سعودی عرب کی، میرے نزدیک ہمیں سعودی عرب کے اندرونی مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سعودی عرب کو بہتر آپشنز پر قائل کیا جاسکتا ہے۔ ہم سعودی عرب اور ایران کو گوادر پر اکٹھا کر سکتے ہیں کہ گیس ایران سے لے لیں اور آئل سٹی سعودی عرب کو بنانے دیں، اس طرح کے اقدامات سے ایک توازن قائم ہوسکتا ہے اور دوست ممالک سے تعلقات بہتر کرکے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں سعودی عرب اور ایران سے بات کرکے یمن کشیدگی کا خاتمہ کروانا چاہیے۔ یہ امن نہ صرف سعودی عرب بلکہ یمن اور متحدہ عرب امارات کے فائدے میں بھی ہے کیونکہ ایران کا الزام ہے کہ ان کی فوجی پریڈ پر حملہ کرنے والوں کی ٹریننگ متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ وسیع منظر نامے میں دیکھیں تو سعودیہ یمن کشیدگی کے خاتمے کا فائدہ ایران اور پاکستان کو بھی ہوگا۔ پاکستان کو درپیش تمام چیلنجز کا حل موجود ہے مگر ہمیں بہتر حکمت عملی کے ساتھ تمام معاملات کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اقتصادی ترقی سے سکیورٹی صورتحال میں بہتری ممکن ہے لہٰذا سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر معاشی مسائل کے حل کیلئے سوچنا ہوگا اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر بہت ساری باتیں ہورہی ہیں۔ حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اگر موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ اس منصوبے میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں یا اس کے بعض منصوبے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں تو اسے چین کی حکومت سے ان پر بات کرنی چاہیے اور معاملات کو بہتر کرنا چاہیے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ اسے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں تشکیل دیا جائے۔

ڈاکٹر امجد مگسی (سیاسی تجزیہ نگار)

بھارت کے حوالے سے معاملہ حساس ہے اور اس کا براہ راست تعلق بھارت کی اندرونی صورتحال سے ہے۔ نریندر مودی کی توجہ آئندہ انتخابات پر ہے اور وہ اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں جس میں مزید حرکت آسکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ ''مس ایڈوانچر'' کی کوشش بھی کرسکتے ہیںلہٰذا ہمیں ساری صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ان کی ہر سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی آفر ہماری اخلاقی برتری ہے مگر بھارت نے کشیدگی کو ہوا دی اور معاملہ خراب کرنے کی کوشش کی۔ ہماری حکومت اور فوج نے اسے موثر جواب دیا مگر وزیر اعظم کے ٹویٹ سے کنفیوژن پیدا ہوئی، بہتر ہوتا کہ دفتر خارجہ کی سطح پر ہی جواب دیا جاتا اور وزیرخارجہ اس معاملے کو ہینڈل کرتے۔ اس وقت ہمیں ملک میں سیاسی ہم آہنگی و استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا مقابلہ کیا جاسکے۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد سے چین کے ساتھ تعلقات میں بے یقینی نظر آرہی ہے جو ہمارے مفاد میں نہیں۔ سی پیک ایک انتہائی اہم منصوبہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ امریکا اور بھارت اسے سبوتاژ کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ امریکا، چین کا جبکہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور دونوں کو ہی سی پیک منصوبے سے تکلیف پہنچ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان کے ذریعے یہاں تخریب کاری کروارہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی حالات خراب کرنے سازشیں کی گئیں، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اعترافی بیان سب کے سامنے ہیں۔ سی پیک منصوبے سے امریکا، چین معاشی جنگ میں شدت آگئی اور ہمارے لیے چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے چین کے لیے صورتحال مشکل ہوتی جارہی ہے جبکہ اس کی پالیسیوں سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے۔ میرے نزدیک سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس سے ایک طرف تو ایران کے ساتھ معاملات خراب ہوسکتے ہیں جبکہ دوسری طرف خطے میں امریکی اثرو رسوخ بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا، سعودی عرب کو سی پیک میں لاکر چین اور ایران کو ٹف ٹائم دینا چاہتا ہے لہٰذا ہمیں اس صورتحال کو سمجھنا چاہیے۔ اس وقت ہماری پوزیشن حساس ہے لہٰذا ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہماری صرف مذہبی وابستگی نہیں ہے بلکہ اب یہ معاملہ سٹرٹیجک نوعیت کا ہے۔وزیراعظم نے یمن کے حوالے سے سعودی عرب کی مدد کرنے کی بات کی حالانکہ ماضی میں یہ خود اس کے مخالف رہے ہیں، ہمیں سعودی عرب کی لڑائی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر ہم شارٹ ٹرم مفاد کیلئے سعودی عرب کے ذریعے امریکا کے ساتھ تعلقات استوار کر لیتے ہیںتو ہمیں شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ پاک چین دوستی کا تعلق حکومت بدلنے سے نہیں بلکہ ریاست سے ریاست اور عوام سے عوام تک کا ہے، تمام سیاسی جماعتیں چین کے ساتھ تعلقات پر بالکل واضح ہیں لہٰذا ہمیں کوئی ایڈوانچر نہیں کرنا چاہیے۔ ایک بات واضح ہے کہ امریکا ہمیں ہر ممکن طریقے سے چین سے دور کرنے کی کوشش کرے گا، اگر ہم اس کی چال میں آگئے اور چین سے دور ہوگئے تو ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ اس خطے میں اس کا اصل پارٹنر بھارت ہی ہے۔ میرے نزدیک چین کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی طور دراڑ نہیں آنی چاہیے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے سے مضبوط ہونے چاہئیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ نیو یارک میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چینی ہم منصب کے درمیان ملاقات میں خدشات کو دور کرنے کی بات ہوئی جبکہ چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چینی صدر سے ملاقات میں بھی یہی بات کی۔ چین کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے لہٰذا پاکستان کو نئی لائنز بنانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں