سیاست میں اخلاقی بحران

سیاسی لوٹوں کو پارٹیوں میں قبول کرنا، سیاسی قائدین کی مجبوری بھی بن چکی ہے۔


Muhammad Saeed Arain October 02, 2018

سینئر وکیل اور پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے سابق خاتون اول بیگم کلثوم نوازکی وفات کے بعد اپنے ان بیانات پر معذرت کر لی ہے جو انھوں نے بیگم صاحبہ کی زندگی میں ان کے بستر مرگ پر ہوتے ہوئے دیے تھے۔ جن کی وجہ سے شریف فیملی کو گہرا صدمہ ہوا تھا۔ کیونکہ انھیں اعتزاز احسن سے ایسے دکھ دینے والے بیانات کی توقع نہیں تھی۔

اعتزاز احسن کے میاں نواز شریف سے اچھے تعلقات تھے اور وہ نواز شریف کے وکیل بھی رہے تھے۔ دونوں نے عدلیہ بحالی کی تحریک بھی چلائی تھی جس پر پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن اپنے اصولی موقف سے ہٹتے گئے وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش بھی ہوئے اور بعد میں زرداری کو خوش کرنے نوڈیرو بھی گئے جہاں سابق صدر نے انھیں اپنے بعد خطاب کا موقع بھی دیا اور اعتزاز احسن بعد میں نواز شریف اور سابق چیف جسٹس کی مخالفت کرتے کرتے نواز شریف کی مخالفت میں انتہا پر پہنچ گئے جس کے صلے میں انھیں پیپلزپارٹی نے سینیٹر بھی بنایا اور پاناما کیس کے بعد شریف فیملی سے ان کی مخالفت دشمنی کا رنگ اختیار کر گئی جس پر ان لوگوں کو بھی حیرت اور دکھ ہوا جو انھیں اصولی انسان سمجھتے تھے۔

مگر انھوں نے سیاست میں اخلاقیات کو بھی فراموش کر دیا۔ وہ نواز شریف کی مخالفت میں عمران خان، پرویزالٰہی اور شیخ رشید سے بھی بازی لے گئے مگر بعد میں سال رواں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں آصف زرداری نے انھیں سینیٹر بنانا بھی گوارا نہ کیا اور ان کے مقابلے میں کہیں جونیئر اسلام آباد کے سابق مسلم لیگی رہنما کے صاحبزادے مصطفی نواز کھوکھر کو سینیٹر بنوا دیا گیا۔

بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے شرکت کی مگر نواز شریف کے ایک سابق انتہائی قریبی ساتھی شیخ رشید احمد نے شرکت نہیں کی۔ شاید وہ بھی نواز شریف کے خلاف حد سے بڑھ جانے والی بیان بازی کے باعث چوہدری اعتزاز احسن کی طرح شرمسار ہوں مگر وہ بھی اپنے سابق قائد کے غم میں شریک نہیں ہوئے جب کہ ان ہی کی ڈگر پر چل کر ہر چیز کا ذمے دار نواز شریف کو قرار دینے والے چوہدری پرویز الٰہی ہی کی شیخ رشید پیروی کر لیتے جو شدید مخالفت کے باوجود چوہدری شجاعت کے ہمراہ اپنی وضع داری نبھاتے ہوئے نماز جنازہ میں شریک ہوئے، کیونکہ باہمی مخالفت کے باوجود نواز شریف بھی چوہدری شجاعت کی والدہ کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے تھے۔

آصف علی زرداری نے بھی اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور سوئم پر نواز شریف سے تعزیت کرنے کے لیے گئے اور اپنے اچھے اخلاق کا ثبوت دیا کیونکہ زندگی موت ہر ایک کے ساتھ ہے ۔ سیاست میں باہمی مخالفت کا موقع نہیں ہوتا بلکہ رسم دنیا کے ساتھ مسلمان ہونے کے ناتے مذہبی ذمے داری بھی نبھانا ہوتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا اور نواز شریف سے رسمی طور پر میڈیا کے ذریعے ہی تعزیت کرنا ضروری نہیں سمجھا جب کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کو ملک کے لیے سیکیورٹی رسک نہیں سمجھتے۔ پرویز مشرف اپنے اقتدار میں ولی خان کی تعزیت کے لیے ولی باغ گئے تھے مگر انھوں نے ملک کے دو نامور سیاستدانوں نوابزادہ نصر اﷲ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات پر تعزیت کے لیے جانے کی زحمت نہیں کی تھی اور یہی حرکت انھوں نے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے کی کیونکہ نواز شریف ان کے سیاسی مخالف ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے حکومتی نمایندگی کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اور گورنر پنجاب پر مشتمل دو رکنی وفد جنازہ نماز میں شرکت کے لیے بھیجا۔ صدر مملکت، وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف کے علاوہ بھارتی وزیراعظم اور ترک صدر نے بھی نواز شریف سے اظہار تعزیت کیا اور بیگم کلثوم نواز کی خدمات کو سراہا مگر عمران خان بھی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے جن کے اسٹیج سے 2013ء میں گرنے پر نواز شریف ان کی عیادت کے لیے اسپتال گئے تھے۔

ملک میں واحد سیاست دان پیر پگاڑا ہیں جو گدی نشین ہوتے ہوئے بھی ،کبھی کسی کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے۔ چوہدری سرور کو نواز شریف نے ملک واپس لا کر پنجاب کا گورنر بنایا تھا جنھوں نے کسی وجہ سے مستعفی ہو کر نواز شریف سے دوری ضرور اختیار کر لی تھی مگر اپنی سیاسی مخالفت کو شیخ رشید، پرویز الٰہی اور چوہدری اعتزاز کی طرح سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں کیا تھا، جو اچھی بات تھی ۔

سیاست میں اخلاقیات کا لحاظ ختم ہوتا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح درست نہیں۔ کسی پارٹی میں کسی پارٹی سربراہ کی قیادت میں اگر کوئی سیاسی کارکن بعد میں کسی وجہ سے اہمیت اختیار کر جاتا ہے تو اس پر اس کی پارٹی اور قائد کا کسی حد تک احسان ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اس پارٹی میں نہ ہوتا تو اسے اہمیت نہ ملتی۔ آج کل سیاست میں نظریاتی لوگ کم اور مفاد پرست اور موقع پرست زیادہ ہیں جو اب لوٹا مافیا کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور سیاسی لوٹوں کو پارٹیوں میں قبول کرنا، سیاسی قائدین کی مجبوری بھی بن چکی ہے۔

نظریاتی اختلاف اور اصولی بات پر اپنی پارٹی چھوڑنا غلط نہیں مگر ٹکٹ یا وزارت نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جاکر نمبر بڑھانا اور اپنے سابق قائد پر غیر اخلاقی الزامات کا نتیجہ شیخ رشید جیسے سیاست دانوں کی شکل میں نکلتا ہے جو بعد میں اپنے سابق قائد کے دکھ میں شریک ہونے سے کترانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے سیاسی تنقید میں احتیاط بھی لازم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں