عمران خان عوام کو ساتھ لے کر چلیں
یہ قوم 70 سال سے جبر‘ استحصال‘ ناانصافی‘ ظلم‘ بربریت‘ دہشت گردی‘ مہنگائی بیروزگاری اور حق تلفیاں برداشت کر رہی ہے۔
نادر شاہ درانی نے دلی میں بد ترین قتل عام کے بعد، جب دلی فتح کر لی تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے شاہی محل میں فاتح بادشاہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔فاتح بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ محمد شاہ رنگیلا اپنی بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے پڑھوا دے تا کہ دونوں ''بھائیوں'' کے درمیان یہ رشتہ مزید مضبوط ہو جائے۔ چونکہ مفتوح کے پاس فاتح کی بات ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا لہٰذا نکاح کی تقریب کے لیے پنڈال سجا دیا گیا۔ محمد شاہ رنگیلا بہرحال ایک خاندانی بادشاہ تھا۔
اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہی تھی ، جب کہ نادر شاہ درانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا، ( ایک روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا) جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی۔
محمد شاہ کے کسی ہمدرد نے اس کے کان میں یہ ''جڑ'' دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی سہی ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لہٰذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔
اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر وہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار سونت کر بولا '' لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔''یہ تھا طاقت کا وہ شجرہ جسے نہ تو کل کوئی چیلنج کر سکا تھا اور نہ ہی آج اس چیلنج کا کوئی جواب سامنے آ سکا ہے۔ طاقت کا جواب صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ بات طاقت کی ہو تو ہمارے ہاں جمہوری ادوار میں جب نئی نویلی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ بھی نادر شاہ کی طرح طاقتورہوتی ہے۔
نوازشریف کاپہلا دورِاقتدار 1990-93رہا،آتے ہی نواز حکومت نے دس گرام سونے کی قیمت 3850 روپے اور امریکی ڈالر کی قیمت 25 سے 30 روپے کردی۔ اِن کے بعد پھر بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ 1993-96 تک وزیر اعظم رہیں، ان کے اس دور میں امریکی ڈالر40.36 روپے ہوا اور دس گرام سونے کی قیمت 4450 روپے سے بڑھ کر6300 روپے تک پہنچ گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد دوسری مرتبہ پھر نواز شریف 1997 ء سے اکتوبر 1999 ء تک وزیر اعظم بنے تو امریکی ڈالرکی قیمت 53 روپے کر دی گئی۔ پھر 2008 ء سے 2015-16 تک کا دورکرپشن، چوری، ڈکیتی، امن وامان اور بیرونی جارحیت کے خطرات کے لحاظ سے ملک کی تاریخ کا سب سے نازک اور نقصان دہ دور ثابت ہوا، اسی زمانے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی نہ صرف رک گئی بلکہ اس کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب جانے لگا۔
ہر دور کے آغاز میں مہنگائی کی عادت تو تھی ہی مگر موجودہ حکومت دیگر حکومتوں کی نسبت تیزی سے ''ڈاؤن فال'' کی جانب جانے لگی۔ اب جب کہ جنرل الیکشن کے بعد ضمنی الیکشن آنے والے ہیں تو قوم کا مورال نسبتاََ ڈاؤن ہو گیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے کام کرے۔ طاقت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، عوام کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے کام کیے جائیں۔
حقیقت میں ہو یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف نے قوم کو ''اُمیدوں''میں اس قدر آگے بھیج دیا تھا کہ عوام وہاں سے واپس آنا ہی نہیں چاہتے حتیٰ کے عوام دریا کے دوسرے پار پہنچ چکے ہیں جب کہ حکومت دوسرے کنارے کھڑی ہموار راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عجائب و غرائب تو پاکستان میں ہمیشہ سے ظہور میں آتے رہے ہیں کھربوں کی کرپشن کرنے والے لوگوں نے پانچ پانچ سال قوم کو لوٹا تو پیچھے کیا بچا، کچھ نہیں بقول شاعر
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
یہ قوم 70 سال سے جبر' استحصال' ناانصافی' ظلم' بربریت' دہشت گردی' مہنگائی بیروزگاری اور حق تلفیاں برداشت کر رہی ہے۔ اس قوم کو کبھی کوئی بڑا لیڈر نہیں ملا جو قوم کی کشتی بھنور سے نکالتا۔ جب بھی ملے لوٹ مار کرنے والے اور نااہل بدعنوان لوگوں سے پالا پڑا۔اور اب جب ان سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر نئی حکومت آئی تو اسے وقت دینا لازم و ملزوم ہے، اور اُس سے پہلے کسی کی کارکردگی کا جائزہ لینا زیادتی کے مترادف ہوگا۔ فکر مجھے یہ نہیں کہ اگر قوم کا مورال ڈاؤن ہوا تو چوروں لٹیروں کو سر دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع ملے گا، بلکہ فکر یہ ہے کہ بہادر اور قابل حکمران کے تو ویسے بھی ہزار دشمن ہوتے ہیں اس لیے عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اقتدار مسلسل امتحان ہے۔ اس جنگ میں غازی بن کر نکلنا ہے اور اپنی دکھی مظلوم مایوس قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔
بہرکیف ان موقع پرستوں سے بچنے کے لیے عمران خان کو بیک وقت عوام کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اگر وہ ہر کام عوام کو اعتماد میں لے کر کریں گے تو اُس کی شہرت ہوگی۔ اقتدار کے مزوں سے زیادہ عمران خان کو اندرونی و بیرونی مخالفین اور سازشوں سے مسلسل نبردآزما ہونا ہو گا۔ عمران خان کی کامیابی تب ممکن ہے جب وہ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں گے۔
اور چونکہ تحریک انصاف واضع اکثریت حاصل کرکے اقتدار تک نہیں پہنچی اس لیے یہ مت سوچیں کہ چند امیچور فیصلوں سے حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ حکومتی جماعت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اُن کے مقابلے میں جو سیاستدان ہیں وہ منجھے ہوئے ہیں جن کا سوشل میڈیا پرقبضہ ہے۔ اس لیے انھیں مہنگائی طریقے سے کرنی چاہیے تھی اگر یہ ناگزیر تھی تو ضمنی الیکشن کے بعد کرنی چاہیے تھی ، بھینسوں جیسے ایشوز کو پبلک نہیں کرنا چاہیے تھا، بجلی پہلے بھی مہنگی ہوتی تھی مگر اب زیادہ ایشو کیوں بن رہا ہے۔
کیا پی ٹی آئی کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اس کے سپورٹرز شدید تنقید کی زد میں ہیں ، ان کے پاس جواب دینے کے لیے کوئی دلائل نہیں ہیں، لہٰذا ضمنی الیکشن اگر جیتنا ہے تو اس سے پہلے کوئی بہتر اقدام کرنا چاہیے۔ عوام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ، کیوں کہ وہ انھی آزمائے ہوؤں کے پاس نہیں جانا چاہتے جن سے جان چھڑانے کے لیے ''تبدیلی '' آئی ہے۔
اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہی تھی ، جب کہ نادر شاہ درانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا، ( ایک روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا) جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی۔
محمد شاہ کے کسی ہمدرد نے اس کے کان میں یہ ''جڑ'' دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی سہی ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لہٰذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔
اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر وہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار سونت کر بولا '' لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔''یہ تھا طاقت کا وہ شجرہ جسے نہ تو کل کوئی چیلنج کر سکا تھا اور نہ ہی آج اس چیلنج کا کوئی جواب سامنے آ سکا ہے۔ طاقت کا جواب صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ بات طاقت کی ہو تو ہمارے ہاں جمہوری ادوار میں جب نئی نویلی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ بھی نادر شاہ کی طرح طاقتورہوتی ہے۔
نوازشریف کاپہلا دورِاقتدار 1990-93رہا،آتے ہی نواز حکومت نے دس گرام سونے کی قیمت 3850 روپے اور امریکی ڈالر کی قیمت 25 سے 30 روپے کردی۔ اِن کے بعد پھر بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ 1993-96 تک وزیر اعظم رہیں، ان کے اس دور میں امریکی ڈالر40.36 روپے ہوا اور دس گرام سونے کی قیمت 4450 روپے سے بڑھ کر6300 روپے تک پہنچ گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد دوسری مرتبہ پھر نواز شریف 1997 ء سے اکتوبر 1999 ء تک وزیر اعظم بنے تو امریکی ڈالرکی قیمت 53 روپے کر دی گئی۔ پھر 2008 ء سے 2015-16 تک کا دورکرپشن، چوری، ڈکیتی، امن وامان اور بیرونی جارحیت کے خطرات کے لحاظ سے ملک کی تاریخ کا سب سے نازک اور نقصان دہ دور ثابت ہوا، اسی زمانے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی نہ صرف رک گئی بلکہ اس کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب جانے لگا۔
ہر دور کے آغاز میں مہنگائی کی عادت تو تھی ہی مگر موجودہ حکومت دیگر حکومتوں کی نسبت تیزی سے ''ڈاؤن فال'' کی جانب جانے لگی۔ اب جب کہ جنرل الیکشن کے بعد ضمنی الیکشن آنے والے ہیں تو قوم کا مورال نسبتاََ ڈاؤن ہو گیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے کام کرے۔ طاقت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، عوام کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے کام کیے جائیں۔
حقیقت میں ہو یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف نے قوم کو ''اُمیدوں''میں اس قدر آگے بھیج دیا تھا کہ عوام وہاں سے واپس آنا ہی نہیں چاہتے حتیٰ کے عوام دریا کے دوسرے پار پہنچ چکے ہیں جب کہ حکومت دوسرے کنارے کھڑی ہموار راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عجائب و غرائب تو پاکستان میں ہمیشہ سے ظہور میں آتے رہے ہیں کھربوں کی کرپشن کرنے والے لوگوں نے پانچ پانچ سال قوم کو لوٹا تو پیچھے کیا بچا، کچھ نہیں بقول شاعر
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
یہ قوم 70 سال سے جبر' استحصال' ناانصافی' ظلم' بربریت' دہشت گردی' مہنگائی بیروزگاری اور حق تلفیاں برداشت کر رہی ہے۔ اس قوم کو کبھی کوئی بڑا لیڈر نہیں ملا جو قوم کی کشتی بھنور سے نکالتا۔ جب بھی ملے لوٹ مار کرنے والے اور نااہل بدعنوان لوگوں سے پالا پڑا۔اور اب جب ان سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر نئی حکومت آئی تو اسے وقت دینا لازم و ملزوم ہے، اور اُس سے پہلے کسی کی کارکردگی کا جائزہ لینا زیادتی کے مترادف ہوگا۔ فکر مجھے یہ نہیں کہ اگر قوم کا مورال ڈاؤن ہوا تو چوروں لٹیروں کو سر دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع ملے گا، بلکہ فکر یہ ہے کہ بہادر اور قابل حکمران کے تو ویسے بھی ہزار دشمن ہوتے ہیں اس لیے عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اقتدار مسلسل امتحان ہے۔ اس جنگ میں غازی بن کر نکلنا ہے اور اپنی دکھی مظلوم مایوس قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔
بہرکیف ان موقع پرستوں سے بچنے کے لیے عمران خان کو بیک وقت عوام کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اگر وہ ہر کام عوام کو اعتماد میں لے کر کریں گے تو اُس کی شہرت ہوگی۔ اقتدار کے مزوں سے زیادہ عمران خان کو اندرونی و بیرونی مخالفین اور سازشوں سے مسلسل نبردآزما ہونا ہو گا۔ عمران خان کی کامیابی تب ممکن ہے جب وہ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں گے۔
اور چونکہ تحریک انصاف واضع اکثریت حاصل کرکے اقتدار تک نہیں پہنچی اس لیے یہ مت سوچیں کہ چند امیچور فیصلوں سے حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ حکومتی جماعت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اُن کے مقابلے میں جو سیاستدان ہیں وہ منجھے ہوئے ہیں جن کا سوشل میڈیا پرقبضہ ہے۔ اس لیے انھیں مہنگائی طریقے سے کرنی چاہیے تھی اگر یہ ناگزیر تھی تو ضمنی الیکشن کے بعد کرنی چاہیے تھی ، بھینسوں جیسے ایشوز کو پبلک نہیں کرنا چاہیے تھا، بجلی پہلے بھی مہنگی ہوتی تھی مگر اب زیادہ ایشو کیوں بن رہا ہے۔
کیا پی ٹی آئی کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اس کے سپورٹرز شدید تنقید کی زد میں ہیں ، ان کے پاس جواب دینے کے لیے کوئی دلائل نہیں ہیں، لہٰذا ضمنی الیکشن اگر جیتنا ہے تو اس سے پہلے کوئی بہتر اقدام کرنا چاہیے۔ عوام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ، کیوں کہ وہ انھی آزمائے ہوؤں کے پاس نہیں جانا چاہتے جن سے جان چھڑانے کے لیے ''تبدیلی '' آئی ہے۔