یوں بھی ہو سکتا ہے

آج اس ملک کے لیے ہم سے جان کی قربانی نہیں بلکہ صرف کچھ رقم مانگی جارہی ہے بھلا یہ بھی کوئی قربانی ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

آج پھر یہ قوم ایک لیڈر کی پکار پر اٹھ کھڑی ہوئی ہے، لیڈر تو ہمیشہ ہی کہتے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے لیکن ان لیڈروں کی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی لوٹ کھسوٹ نے آج ملک کو واقعی خطرے میں ڈال دیا ہے اور کوئی پاکستانی ایسا نہیں رہا جس کو اس حقیقی خطرے کا احساس نہ ہو لیکن اس دفعہ قوم کا پالا ایک منفرد قسم کے لیڈر سے پڑا ہے جس کو اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں چاہیے، اس کا جو کچھ ہے اس قوم کے سامنے ہے اور اس کی مثال اس فقیر جیسی ہے کہ جب اقتدار سے اتارا گیا تو کپڑے جھاڑ کر اور اپنی گدڑی اٹھا کر چل دیا۔

میں نے پہلی دفعہ ملک کے دور افتادہ حصوں کے قطعاً اَن پڑھ دیہاتیوں کو بھی یہ کہتے سنا کہ ایک دفعہ عمران کو ووٹ دینا ہے سنا ہے کہ وہ ایماندار اور خدا ترس انسان ہے ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے حالات بہتر ہو جائیں اور ملک بچ جائے۔ یعنی ایک طرف مایوسی ہے تو دوسری طرف امید کی ایک کرن بھی دکھائی دے رہی ہے اور اسی مایوسی کو امید میں بدلنے کے لیے قوم نے اپنی دانست میں ایک بہتر لیڈر پر اس قدر اعتماد کیا کہ یہ لیڈر بھی اس بے پناہ اور بے حساب اعتماد سے گھبرا گیا، ہوش و حواس بحال ہونے پر اس لیڈر نے ملک کے لیے از حد ضروری ڈیم کی تعمیر کے لیے قوم سے مالی قربانی کی درخواست کی ہے اور اس درخواست کے جواب میں ہم صبح شام سن رہے ہیں کہ دنیا بھر اور پاکستان سے مخیر حضرات اپنا حصہ اس فنڈ میں ڈال رہے ہیں۔

بینکوں میں جائیں تو پاکستانیوں کے ہاتھوں میں نوٹ ہیں اور ان کی زبانوں پر دعائیں ہیں ۔ قوم نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر رہی ہے اوراندازہ ہے کہ پاکستان کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا اور ملک کی کشتی کو اقتصادی اور آبی بحران کے بھنور سے نکال لیا جائے گا ۔

لاہور کے ایک بینک میں ایک بزرگ ہاتھوں میں نوٹ پکڑے کھڑے تھے ان کی آنکھوں میں اطمینان کی روشنی تھی میں خود جو کہ مشکل سے بینک کے امور سر انجام دیتا ہوں ان سے کہا کہ ان کی باری دیر سے آئے گی اگر وہ اجازت دیں تو میں ان کو جلد فارغ کرا سکتا ہوں لیکن انھوں نے شکریہ کے ساتھ فرمایا کہ میں جتنی دیر کھڑا رہوں گا میرے لطف میں اتنا ہی اضافہ ہو گا ۔ کہنے لگے ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا ہے کئی جانیں دی ہیں عصمتیں لٹائی ہیں گھر بار چھوڑے ہیں اور بزرگوں کی قبروں کو بے چراغ کر دیا ہے ۔

آج اس ملک کے لیے ہم سے جان کی قربانی نہیں بلکہ صرف کچھ رقم مانگی جارہی ہے بھلا یہ بھی کوئی قربانی ہے اور جب بھرائی ہوئی آواز میں بزرگ یہ فرما رہے تھے تو بینک میں ان کے ارد گرد موجود ان سے بہت کم عمر پاکستانی بے تاب ہوگئے اس سے پہلے کہ وہ رو دیتے، میں وہاں سے چلا آیا دل میں ایک نیا عزم اور ایمان لے کر۔


میں نے یاد کیا کہ اس قوم نے کبھی اپنے لیڈروں کو مایوس نہیں کیا جب بھی ملک پر کوئی مشکل وقت آیا تو یہ قوم سب کچھ بھول کر اپنے وطن عزیز پر نثار ہونے کے لیے صف بستہ ہو گئی ۔ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کسی قربانی کو بچا کر نہیں رکھا ۔جوان بیٹے قربان کیے اور جوان بہوؤں کی دلجوئی میں زندگی لگا دی۔ گزشتہ ستر برسوں میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جب اس قوم کے دل وطن کی محبت سے خالی ہوئے ہوں۔ پاکستانیوں کے اندر محبت کا یہ شعلہ ہمیشہ فروزاں رہا اور اسی لازوال اور غیر مشروط محبت کے سہارے انھوں نے ہر مشکل کو برداشت کیا اور ہر مصیبت سہہ گئے ۔

دشمن کے خلاف جنگ کا موقع آیا یا لیڈروں کے حکم پر جلسے جلوس کا اس قوم نے کبھی اپنے ملک اور سیاسی رہنماؤں کو مایوس نہیں کیا بلکہ ہر تحریک میں ایک بات کہی گئی کہ اب قوم آگے اور لیڈراس کے پیچھے ہیں لیکن ہر بار یہ ہوا کہ لیڈر قوم کو دھوکا دے گئے کبھی غیر ملک میں مذاکرات کی میز پر جنگ ہار دی اور کبھی دارالحکومت میں کسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات میں عوام کی قربانیوں کا سودا کر لیا ۔

گزشتہ آدھی صدی سے زائدکی صحافتی زندگی میں ان گناہگار آنکھوں نے ایسے کئی دردناک منظر دیکھے ہیں، میں نے دیکھا کہ لاہور کا ایک نوجوان جو پی این اے کی تحریک میں شہید ہو گیا تھا اس کے باپ کا چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا وہ تعزیت کرنے والوں سے کہتا تھا کہ مجھے مبارکباد دو ماتم نہ کرو کہ میرا جوان بیٹا اسلامی نظام حکومت کے قیام کی جدوجہد میں قربان ہوا ہے لیکن اس تحریک کے لیڈروں نے جب ضیاء الحق کی حکومت میں وزارتیں لے لیں تو یہ باپ دھاڑیں مار مار کر رو دیا اور کہا آج میرا بیٹا مر گیا ہے ۔ ان لیڈروں کی غداریوں کی لاتعدا مثالیں بیان کر سکتا ہوں، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم نے کبھی مایوس نہیں کیا یہ بدبختی لیڈروںکے حصے میں ہی آتی رہی ہے ۔

لہذا اب جو کچھ کرنا ہے وہ عمران خان کو کرنا ہے کہ انھوں نے قوم کے جذبات کو ایک بار پھر بیدار کر دیا ہے اور شائد قوم آخری بار بیدار ہوئی ہے کہ اس قوم میں مزید دھوکے کھانے کی سکت نہیں رہی ۔ اب صرف جذبات سے کام نہیں چل سکتا اس کے لیے انتہائی ٹھوس دانش مندانہ پالیسیاں بنانا ہوں گی ۔ قوم کو مسلسل بتاتے رہنا ہوگا کہ ان کی حکومت کیا کر رہی ہے ۔ عمران خان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ سوائے قوم کے ان کا کوئی دوست نہیں ہے سب دشمن ہیں، کچھ سامنے ہیں اور کچھ چھپے ہوئے ہیں، ان کی آمد کے ساتھ ہی عالمی طاقتوں کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھ رہے ہیں وہ اتفاقاً نہیں ہیں ایک گہری سازش ہے جس میں ہمارے دشمن ملوث ہیں اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے ۔

عمران خان کو قوم کو ملک کے خلاف ان سازشوں سے مسلسل آگاہ رکھنا ہو گا تا کہ ان کے مقابلے کی کامیاب کوشش کی جا سکے کیونکہ عمران خان کے دوست اس ملک کے عوام ہی ہیں اور کوئی نہیں ہے ۔ عمران خان کو ایک طرف تو قوم کے ساتھ مکمل وفاداری کا ثبوت دینا ہو گا تا کہ وہ جذبات ایک ٹھوس حقیقت بن جائیں جو ان دنوں ہر پاکستانی کے دل میں برپا ہیں ۔دوسری طرف قوم کو ایک دانش مندانہ حکومت دینا ہو گی جو اس برباد ملک کو نئی زندگی دے سکے اور قوم یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کا ملک بچ گیا ہے۔

اگر عمران خان نے کوئی سستی کی تو یہ جذبات کوئی دوسرا رنگ بھی اختیار کر سکتے ہیں، یہ انقلاب جسے عمران خان سونامی کہتے ہیں چیختا چلاتا اور دھاڑتا ہو انقلاب بھی بن سکتا ہے ۔ بے پناہ محبت بے پناہ نفرت میں بھی بدل جاتی ہے اور یہ بے مثال اعتماد بے مثال بد اعتمادی میں بدل سکتا ہے۔
Load Next Story