پر کام کروں گا بڑے بڑے

بات بے بات کیڑے نکالنے والوں کو کم ازکم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ابھی ہمارے وزیرِ اطلاعات کی عمر ہی کیا ہے۔


Wasat Ullah Khan October 02, 2018

مورخہ ستائیس ستمبر۔مقام قومی اسمبلی ہال۔ وزیرِاطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے چور ، ڈاکو اور قومی دولت مجرے کی طرح لٹانے والے ریمارکس کے ردِعمل میں حزبِ اختلاف واک آؤٹ کر چکی ہے۔مگر فواد میاں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اسپیکر اسد قیصر انھیں بار بار بتا رہے ہیں کہ وہ (اپوزیشن) تو نہیں ہے آپ کی بات میڈیا کے علاوہ اس وقت کون سن رہا ہے۔ کارروائی کا ایجنڈہ آگے لے کے چلتے ہیں تشریف رکھئیے۔

فواد چوہدری!سر میری بات تو مکمل ہونے دیں۔ میرے لیے پاکستان کے عوام اور میڈیا اہم ہیں۔ ان لوگوں ( اپوزیشن ) کی کیا اہمیت ہے۔یہ تو سارے ایسے ہی یہاں بیٹھے ہیں۔

اسپیکر! اچھا چوہدری صاحب بسم اللہ !

فواد چوہدری! سر آپ یہ دیکھیں کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو چلانے کے لیے اس وقت ہمیں سوا پانچ ارب روپے چاہئیں۔حکومت چار ارب روپے پہلے ہی دے رہی ہے۔اسوقت سوا ارب روپے کا خسارہ ہے۔ خسارے کی سالانہ شرح یہی رہی تو اگلے پانچ سال میں ریڈیو مکمل بند ہو جائے گا۔ہمارے پاس اسے بچانے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھوں نے (پیپلز پارٹی ) کیا کیا۔ایک ٹیکسی ڈرائیور کو نیویارک سے بلایا اور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو بنا دیا۔ساڑھے چار لاکھ روپے تنخواہ پر۔پھر کہتے ہیں کہ نوکریاں دینا ہمارا فرض ہے۔ بات نوکریاں دینا کی نہیں ہے شرم کی کمی کی ہے۔پھر بھی اگر میں ڈاکو کو ڈاکو ، چور کو چور اور لٹیرے کو لٹیرا نہ کہوں تو سر پھر آپ کی مرضی۔

اسپیکر ! چوہدری صاحب ایک بات یاد رکھئے۔اسمبلی کی تقریر اور ہوتی ہے اور جلسے کی تقریر اور۔

فواد چوہدری ! سر آپ ٹھیک کر رہے ہیں لیکن ان کے کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔

اسپیکر ! اس کے لیے پھر آپ قانون بنائیں۔

فواد چوہدری ! سر قانون تو موجود ہے مگر اگر اس پر عمل ہو رہا ہوتا تو آج یہ واک آؤٹ نہ کر رہے ہوتے۔ ان میں سے آدھے لوگ جیلوں میں ہوتے۔

اس ملک میں پہلے وزیرِ اطلاعات فضل الرحمان سے لے کر خواجہ شہاب الدین ، نوابزادہ شیر علی خان ، مولانا کوثر نیازی ، محمود اعظم فاروقی ، راجہ ظفر الحق ، قاضی عبدالمجید عابد ، جاوید جبار ، خالد کھرل ، مشاہد حسین ، قمر زمان کائرہ اور پرویز رشید سمیت کئی لوگوں نے وزارتِ اطلاعات چلائی۔ مگر اس وزارت کو جیسا پاپولر پرویز مشرف کے وزیرِ اطلاعات شیخ رشید احمد نے اپنی بذلہ سنجی سے بنایا یا سابق وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب نے اسے جیسے مسلم لیگ ن کی جاگیر کے طور پر چلایا یا پھر اب فواد چوہدری۔یہ سب دیکھنا ، محسوس کرنا اور لطف لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

میری پسند پوچھی جائے تو میں بطور وزیرِ اطلاعات شیخ رشید اور فواد چوہدری کا پرستار ہوں۔بلکہ سچ پوچھیں تو جواں سال فواد چوہدری کو میں اول نمبر پر رکھوں گا۔انھوں نے اکتالیس دن میں ہی سلوک کی وہ منزلیں جا لی ہیں جنھیں پانے کے لیے شیخ رشید کو کئی سال تپسیا کرنا پڑی۔شائد اسی لیے ان دنوں شیخ صاحب صرف ریلوے چلا رہے ہیں اور فواد چوہدری لیفٹ رائٹ سینٹر چھائے پڑے ہیں۔

فواد چوہدری جب ڈیڑھ ماہ قبل وزیرِ اطلاعات بنے اور انھوں نے اقتصادی مشاورتی کونسل میں عاطف میاں کی شمولیت کا جس منطقی انداز میں دفاع کیا۔اس سے مجھ جیسے نام نہاد روشن خیالوں اور لبرل فاشسٹوں کو امید پیدا ہو چلی کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت میرٹ اور عقیدے کو الگ الگ رکھنے میں شائد سابقین سے زیادہ سنجیدہ ہے۔چنانچہ یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اتنی تیز رفتاری کے سبب فواد چوہدری اور ان کے دبنگ لیڈر کو کئی سنگین خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

پھر اچانک کرنا خدا کا یوں ہوا کہ نئی حکومت نے زمینی حقائق سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور فواد چوہدری نے اسی شد و مد سے اس یوٹرن کا دفاع کیا۔تب جا کے اندازہ ہوا کہ یہ ٹیلنٹڈ نوجوان نہ صرف معاملات کی تہہ تک فوری پہنچنے کی صلاحیت سے مالامال ہے بلکہ لیڈر کی ابروئے جنبش پر بھی عبور رکھتا ہے۔

حاسد کہتے ہیں کہ فواد چوہدری نے حال ہی میں ماضیِ قریب کی دو سویلین حکومتوں کو چوروں لٹیروں ڈاکوؤں کی بادشاہی قرار دے کر زیادتی کی ہے۔چوہدری صاحب کو سیاسی مخالفین کے نام لے لے کر الزامات نہیں لگانے چاہیے تھے اور پارلیمنٹ میں ساتھ بیٹھنے والوں کے لیے اتنا جارحانہ و غیر پارلیمانی لہجہ ٹھیک نہیں۔ نتیجے میں نئی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا پہلا اجتماعی واک آؤٹ سامنے آیا اور ایوانِ بالا میں بھی اس کی کشیدہ بازگشت سنائی دی۔

مگر میرا خیال ہے کہ فواد چوہدری نے اپنی سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بالکل ٹھیک کیا۔انھوں نے کوئی ہوائی نہیں چھوڑی۔ان کا سیاسی تجربہ بھی دیکھیں۔وہ مسلم لیگ ق میں رہے ، پرویز مشرف کی پارٹی کے عہدیدار رہے۔پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم (یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف) کے ابلاغی و سیاسی مشیر رہے۔دو ہزار دو سے اب تک قومی و صوبائی انتخابات بطور آزاد امیدوار اور مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر لڑ کے شکست کی بھٹی سے کندن بن کے نکلے اور پھر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بالاخر قومی و صوبائی نشست پر تائیدِ آسمانی سے کامیاب ہوئے۔لہذا ان سے بہتر بھلا کون سلطانی گواہ جانتا ہے کہ کس نے اپنے اپنے دور میں کیا گل کھلائے اور گلچھرے اڑوائے۔

رہی حزبِ اختلاف تو پچیس جولائی کے بعد وہ تو ویسے بھی چلے ہوئے کارتوسوں کا غول ہے۔فواد چوہدری آخر کیوں سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید نہ کہیں۔فواد چوہدری تو یہ تک جانتے ہیں کہ جس جوائنٹ سیکریٹری نے کویتی وفد کے سربراہ کا بٹوہ چرا کے قوم کو شرمندہ کیا اس جیسے نوکر شاہوں کی اخلاقی تربیت سابق حکومتوں کے دور میں ہی ہوئی (یہاں حکومتوں سے مراد صرف سویلین حکومتیں ہیں )۔

حال ہی میں میرے جواں سال ہیرو نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی وی کو تین ارب روپے سالانہ دے رہی ہے مگر پی ٹی وی صرف ڈھائی ارب روپے سالانہ کما رہا ہے۔اسی طرح ریڈیو پاکستان بھی قومی خزانے پر سفید ہاتھی بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس بوجھ کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔

جو لوگ نئے دور کے نئے تقاضوں سے ناواقف مگر بال کی کھال نکالنے کے ماہر ہیں ان کا کہنا ہے کہ کچھ قومی ادارے ایسے ہیں جنھیں صرف نفع نقصان کی آنکھ سے دیکھنا درست نہیں۔خصوصاً وہ ادارے جو پبلک سروس کے لیے قائم کیے گئے۔

جیسے بہتر برس کی پاکستانی تاریخ میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی نے اس قوم کو سرکاری پروپیگنڈے سے ہٹ کر جو معیاری لکھاری ، نغمہ نگار ، پروڈیوسر ، دانشور ، مذہبی اسکالرز اور نیا ٹیلنٹ دیا۔جس طرح ابلاغ کے لیے معیاری زبان پر زور دیا۔اسی کی بنیاد پر آج نجی شعبے کا میڈیا کھڑا ہے۔ان قومی اداروں نے آزمائش کی ہر گھڑی اور قدرتی و انسانی آفت و بحران میں قوم کا حوصلہ بڑھایا۔معاشرے کے ہر طبقے کے لیے پروگرام سازی کی۔بیرونی دنیا میں ہوا کے دوش پر پاکستان کے بہتر نقوش ابھارے۔ان انمول خدمات کو روپے پیسے اور خسارے اور مالی فائدے کے ترازو میں تولنا ظلم ہے۔

اگر مالی فائدہ اور خسارہ ہی پبلک سروس کے اداروں کی کارکردگی ناپنے کا معیار ہے تو پھر غریبوں کے لیے غیر منافع بخش سرکاری اسپتالوں کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ عدلیہ کا معیار بہتر بنانے پر قومی خزانے سے پیسہ کیوں دیا جائے کیونکہ کوئی بھی عدالت انصاف ہی تو کرتی ہے کما کے تو نہیں دیتی۔معمولی فیسوں والے سرکاری اسکولوں اور اعلی تعلیمی اداروں کی بھی کیا ضرورت ہے اگر یہ تعلیمی ادارے کسی فیکٹری کی طرح کما کے خود پر لگایا پیسہ واپس نہیں کر سکتے۔ فوج پر یہ قوم کیوں تن من دھن قربان کرے۔ وہ بس ہماری حفاظت ہی تو کرتی ہے۔کیا کسی سے کبھی سنا کہ ہم اگر فوج پر سو روپے خرچ کر رہے ہیں تو اسے کم ازکم ایک سو دس روپے تو کما کے دینے چاہئیں ورنہ ہم فوج کا خرچہ کیوں اٹھائیں ؟

لیکن ایسی نکتہ چینی کرنے اور بات بے بات کیڑے نکالنے والوں کو کم ازکم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ابھی ہمارے وزیرِ اطلاعات کی عمر ہی کیا ہے۔اور نہ سہی کم از کم ہمیں ان کے جذبے کی تو داد دینی چاہیے۔کیا ناقدینِ فواد چوہدری صاحبِ اولاد نہیں؟ کیا وہ یہ گیت بھی بھول گئے ''میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے '' ؟۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں