یہ کیسی تبدیلی ہے
چمڑی ادھیڑ دی گئی کھال کھینچ لی گئی ڈھانچہ رہ گیا تو اب اسے سرمہ بنا یا جارہا ہے۔
سیاست کی بساط پر مہروں کی جو چالیں نظر آتی ہیں درحقیقت وہ سیاسی حکمت عملی پر مشتمل نظر بندی کا کمال ہوتا ہے ۔ اس آزمودہ کنفیوژن فارمولے کی عمر 70برس ہے جس کے ذریعے تماشائیوں کو مشغول رکھ کر مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔
ایسے مناظر ہمارے ارد گرد اکثر نظر آتے ہیں جہاں مداری لوگو ں کی توجہ اپنی جانب مبذول کررہا ہوتا ہے تو ایسے میں ان کا خفیہ ساتھی تماشائیوں کی جیب تراشنے میں مصروف ہوتا ہے ۔ پھر ایک آواز سنائی دیتی ہے کھیل ختم پیسہ ہضم ، ہمارے یہاں یہ تماشا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جس پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ حکمرانی کا حق دعویٰ کرنے والی قوتیں مل بیٹھ کر بذریعہ ڈیل کسی ایسے معاہدے پرمہر ثبت کردیں جس کے تحت مفلس بد حال (اشرافیہ کے نزدیک قابل رحم) عوام حقیقی ، پائیدار غربت میں کسی تبدیلی کے سحر میں مبتلا نہ ہوسکیں ۔ وہ اطمینان حاصل کرسکیں کہ آیندہ چار فریقین کے مابین چیئر پلے میں ملک ٹوٹنے، جہوریت بچانے اور عوام کی تقدیر بدل دینے جیسے نعروں کی گونج میں انھیں ملوث نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اپنی جانیں آپ لینے والی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ روشن خیالی، جمہوریت بچاؤ مہم اور تبدیلی کا نظریہ ان کی حالت زار بدلنے والا ہے ۔
قوم گزشتہ 70برسوں سے جن مشاہدات اور تجربات سے گزررہی ہے ان کی روشنی میں یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشنزکے درمیان رسہ کشی اور ڈیل و ڈھیل کی باتیں اسی کھیل تماشے کا حصہ رہی ہیں ، جس میں لوگوں کی جیب تراشنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ کھیل ختم ، پیسہ ہضم ۔ پھر ایک نیا کھیل رچایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے ۔ اس کھیل کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کی ضرورت ہے ،ان حالات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اس کھیل تماشے کا محرک بنتے ہیں، ملکی اور عالمی حالات کا تجزیہ کیجیے تو مستقبل قریب کا نقشہ مرتب ہوتا ہوا نظر آئے گا ۔
انتخابات سے قبل اس کے نتائج پڑھنے کو پہلے ملتے ہیں تب یہ کہنا بجا ہے کہ کیا جمہور اورکیا جمہوریہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ یہ نقشہ نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے نقشے پیش کیے جاتے رہے ہیں اور نئی فہرستیں مرتب کی جاتی رہی ہیں مخصوص مفادات کے تحت نام نہاد سیاسی نظریاتی نعرے کل بھی بلند ہوتے رہے ہیں آج بھی بلند کیے جارہے ہیں ۔
پہلے بھی تجدید عہد وفا کا دور چلا ہے آج بھی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں ۔ ہر طرف شور ہے کہ تبدیلی آگئی ہے ، میں روشن خیال ہوں ، میں نظریاتی ہوں ، میں جمہوریت پسند ہوں ، مجھے بھی حکمرانی کی بس میں سوارکرلو، ہم خیال ہیں،ساتھ ساتھ سفرکریں گے۔ بس چل پڑی ہے، ڈرائیور موڈ میں ہے، مسافر سوار ہیں، ڈرائیور اپنی سمت تبدیل کرچکا ہے، جانا کہاں ہے ؟ معلوم نہیں،اس نئے سفر کی منزل کو بھی ایک مدت درکار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کمیٹیوں کی سربراہی کا معاملہ چل رہا ہے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، سب متحد ہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔کیا ان باتوں سے ملک ٹوٹ رہا ہے؟کیا جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا ہے؟
کسی کو اپنی سزا کی پڑی ہے توکسی کو اپنی دولت کی فکرکھائے جارہا ہے اور کوئی تبدیلی لانے میں مصروف ہے ، ایک عوام ہی ہے جو اپنے مسائل کے انبار میں دبی ہوئی ہے، جسے اپنے مسائل کا حل کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے، سب کے سب اپنی اپنی طوطی بول رہے ہیں،کوئی بھی عوامی مسائل حل کرنے کی بات نہیں کررہا ہے، تف ہے ایسی باتوں پر جو عوام میں نفرت کی بیج بو دے ۔
یہی وجہ ہے کہ عوام کی سیاسی سرگرمیوں اور عام انتخابات سے آہستہ آستہ دوری دن بہ دن واضح ہوتا جارہا ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ موثر سیاسی قوتیں کسی ایسے معاہدے پر متفق ہوجائیں جس سے وہ باہم خوش وخرم ہوجائیں اور ایک دوسرے کی باری کا بے چینی سے انتظار کرنے کی زحمت سے بچ سکیں کیونکہ یہی سیاسی قوتیں باری باری عوام پر حکمرانی کرتی آرہی ہیں اور کررہی ہیں اگر صرف دو خاندان محروم کردیے گئے ہیں تو یہ روشن خیالی نہیں ہے بلکہ تنگ نظری ہے۔
اس معاملے میں ڈیل کرنا ہی مناسب ہوگا ۔ عوام کی حیثیت تسلیم کرنے کی باتیں ، ان کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانیاں کل کی طرح آج بھی سیاسی روزمرہ کی باتیں ہیں ، اگر ان باتوں میں سچائی ہوتی تو عوام الناس کی حالت قابل فخر ہوتی ۔ مانا حکومت کے پاس جادوکی چھڑی نہیں ہے،اس سے پیشتر حکومتیں بھی یہی کہتی رہی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے،کیوں؟ جب کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرچکی تھی، اگر یہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چلتی رہی جواس کے پیش رو چلتی رہی ہیں تو عوام کو معاف کرنا جو ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھا گئی ہے۔
خدارا ! غربت کے مسئلے کو کشمیر کا مسئلہ نہ بنائیں، غربت کے آئی سی یومیں رہنے والے انسانوں کے خوابوں کی تعبیر آنے والے 20،25 سال تک بتانے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے فوری طور پر طبی امداد کا بندوبست کیا جائے تاکہ غربت کی بیماری سے تنگ آئے ہوئے انسان اپنی اور اپنی اولاد کی جانیں نہ لیںسکیں۔ مگر غریبوں کی حالت زار کی کسے کیا پروا؟ سیاست کی بساط پر ان کا نام لے لے کر چال چل دینا اور جیت کے پیسوں میں سے ان کا حصہ نہ دینا ہی سیاست کا کھیل تماشاہے۔
پاکستانی قوم کو وہ دن بھی یاد ہیں جب خزانوں کے ڈالروں سے بھرنے کی باتیں کی جاتی تھی مگر تب بھی مہنگائی و بیروزگاری بڑھتی رہی تھی آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ جانے والوں نے خزانہ خالی کردیا ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
ہر آنے والے نے خالی خزانے کا رونا رویا ہے سو تم بھی یہی کہہ رہے ہوکہ خزانہ خالی ہے، آخر خزانے کو لوٹنے والے کب گرفت میں آئیں گے؟ ملک میں مل کارخانے بند ہوتے ہو رہے ہیں، سرمایہ کار چھانٹیاں کرتے رہے ہیں، حکومتیں سرکاری اداروں کی نج کاری کرتی رہی ہیں، حکومتیں سرکاری اداروں میں ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ کرکے غربت بڑھاؤ مہم چلاتی رہی ہیں اور مفلس بد حال غریب انسان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کی دل سوز زندگیاں ختم کرکے معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے معاونت کرتے رہے ہیں، سماج دشمن عناصر استحصالی معاشی نظام سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو منفی سرگرمیوں کے دلدل میں جھونکتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
تاریخ کا مطالعہ ، مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ہر غیر سیاسی ، غریب مسکین،لاچار لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہر دور میں غریبوں کی غربت دورکرنے کے لیے حکومتیں گرائی جاتی اور بنائی جاتی رہی ہیں،کانوں میں رس گھولنے والے نعرے سیاسی جلسے جلسوں میں بلند کیے جاتے رہے ہیں ۔
غریبوں کے حالت بدلنے کے لیے سب سے پہلے انھیں سرکس کے میدان میں جمع کیا جاتا رہا ہے ۔ اچھا یا برا تماشا دکھانے پر ان سے تالیاں بجوائی جاتی رہی ہیں ، پھر موقع ملتے ہی پہلے ٹوپی، پگڑی، مہنگائی اور بے روزگاری کی معرفت سروں سے اتروائی گئیں ۔جانے والوں نے الزامات لگائے ،آنے والوں نے دعوے کیے۔ اس کھیل میں ایک ایک کرکے غریبوں کے تن سے تمام چھوٹے بڑے کپڑے مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے اتروا یے گئے ۔ اس پر بس نہ ہوا ، غریبوں کا خون نچوڑنا شروع کردیا گیا ۔
چمڑی ادھیڑ دی گئی کھال کھینچ لی گئی ڈھانچہ رہ گیا تو اب اسے سرمہ بنا یا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز ہے ۔ معیار تو غیر معیاری کی بہتری کے لیے بنایا جاتا ہے یہاں تو زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جارہا ہے۔ جو لیڈران آج مہنگائی اور بے روزگاری کو ایشو بناکر بیان بازی کررہے ہیں غریب عوام انھیں بھی آزما چکے ہیں لہذا وہ بھی اپنے گریبان میں جھانکیں ۔
مقصد یہ کہ تبدیلی کا خواب بھی محض خواب ہی لگ رہا ہے اب تک کی اقدامات اسی طرف اشارہ کررہے ہیں لہٰذا عوام الناس کو معاشی ترقی اور دیگر سماجی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کسی عالم دین سے رجوع کریںاور ان سے وظیفہ معلوم کرکے ورد کیا کریں ، ملک سیاسی روحانیت کے دور میں داخل ہوگیا ہے، انشاء اللہ !انھیں افاقہ حاصل ہوگا۔
ایسے مناظر ہمارے ارد گرد اکثر نظر آتے ہیں جہاں مداری لوگو ں کی توجہ اپنی جانب مبذول کررہا ہوتا ہے تو ایسے میں ان کا خفیہ ساتھی تماشائیوں کی جیب تراشنے میں مصروف ہوتا ہے ۔ پھر ایک آواز سنائی دیتی ہے کھیل ختم پیسہ ہضم ، ہمارے یہاں یہ تماشا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جس پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ حکمرانی کا حق دعویٰ کرنے والی قوتیں مل بیٹھ کر بذریعہ ڈیل کسی ایسے معاہدے پرمہر ثبت کردیں جس کے تحت مفلس بد حال (اشرافیہ کے نزدیک قابل رحم) عوام حقیقی ، پائیدار غربت میں کسی تبدیلی کے سحر میں مبتلا نہ ہوسکیں ۔ وہ اطمینان حاصل کرسکیں کہ آیندہ چار فریقین کے مابین چیئر پلے میں ملک ٹوٹنے، جہوریت بچانے اور عوام کی تقدیر بدل دینے جیسے نعروں کی گونج میں انھیں ملوث نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اپنی جانیں آپ لینے والی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ روشن خیالی، جمہوریت بچاؤ مہم اور تبدیلی کا نظریہ ان کی حالت زار بدلنے والا ہے ۔
قوم گزشتہ 70برسوں سے جن مشاہدات اور تجربات سے گزررہی ہے ان کی روشنی میں یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشنزکے درمیان رسہ کشی اور ڈیل و ڈھیل کی باتیں اسی کھیل تماشے کا حصہ رہی ہیں ، جس میں لوگوں کی جیب تراشنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ کھیل ختم ، پیسہ ہضم ۔ پھر ایک نیا کھیل رچایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے ۔ اس کھیل کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کی ضرورت ہے ،ان حالات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اس کھیل تماشے کا محرک بنتے ہیں، ملکی اور عالمی حالات کا تجزیہ کیجیے تو مستقبل قریب کا نقشہ مرتب ہوتا ہوا نظر آئے گا ۔
انتخابات سے قبل اس کے نتائج پڑھنے کو پہلے ملتے ہیں تب یہ کہنا بجا ہے کہ کیا جمہور اورکیا جمہوریہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ یہ نقشہ نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے نقشے پیش کیے جاتے رہے ہیں اور نئی فہرستیں مرتب کی جاتی رہی ہیں مخصوص مفادات کے تحت نام نہاد سیاسی نظریاتی نعرے کل بھی بلند ہوتے رہے ہیں آج بھی بلند کیے جارہے ہیں ۔
پہلے بھی تجدید عہد وفا کا دور چلا ہے آج بھی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں ۔ ہر طرف شور ہے کہ تبدیلی آگئی ہے ، میں روشن خیال ہوں ، میں نظریاتی ہوں ، میں جمہوریت پسند ہوں ، مجھے بھی حکمرانی کی بس میں سوارکرلو، ہم خیال ہیں،ساتھ ساتھ سفرکریں گے۔ بس چل پڑی ہے، ڈرائیور موڈ میں ہے، مسافر سوار ہیں، ڈرائیور اپنی سمت تبدیل کرچکا ہے، جانا کہاں ہے ؟ معلوم نہیں،اس نئے سفر کی منزل کو بھی ایک مدت درکار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کمیٹیوں کی سربراہی کا معاملہ چل رہا ہے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، سب متحد ہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔کیا ان باتوں سے ملک ٹوٹ رہا ہے؟کیا جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا ہے؟
کسی کو اپنی سزا کی پڑی ہے توکسی کو اپنی دولت کی فکرکھائے جارہا ہے اور کوئی تبدیلی لانے میں مصروف ہے ، ایک عوام ہی ہے جو اپنے مسائل کے انبار میں دبی ہوئی ہے، جسے اپنے مسائل کا حل کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے، سب کے سب اپنی اپنی طوطی بول رہے ہیں،کوئی بھی عوامی مسائل حل کرنے کی بات نہیں کررہا ہے، تف ہے ایسی باتوں پر جو عوام میں نفرت کی بیج بو دے ۔
یہی وجہ ہے کہ عوام کی سیاسی سرگرمیوں اور عام انتخابات سے آہستہ آستہ دوری دن بہ دن واضح ہوتا جارہا ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ موثر سیاسی قوتیں کسی ایسے معاہدے پر متفق ہوجائیں جس سے وہ باہم خوش وخرم ہوجائیں اور ایک دوسرے کی باری کا بے چینی سے انتظار کرنے کی زحمت سے بچ سکیں کیونکہ یہی سیاسی قوتیں باری باری عوام پر حکمرانی کرتی آرہی ہیں اور کررہی ہیں اگر صرف دو خاندان محروم کردیے گئے ہیں تو یہ روشن خیالی نہیں ہے بلکہ تنگ نظری ہے۔
اس معاملے میں ڈیل کرنا ہی مناسب ہوگا ۔ عوام کی حیثیت تسلیم کرنے کی باتیں ، ان کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانیاں کل کی طرح آج بھی سیاسی روزمرہ کی باتیں ہیں ، اگر ان باتوں میں سچائی ہوتی تو عوام الناس کی حالت قابل فخر ہوتی ۔ مانا حکومت کے پاس جادوکی چھڑی نہیں ہے،اس سے پیشتر حکومتیں بھی یہی کہتی رہی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے،کیوں؟ جب کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرچکی تھی، اگر یہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چلتی رہی جواس کے پیش رو چلتی رہی ہیں تو عوام کو معاف کرنا جو ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھا گئی ہے۔
خدارا ! غربت کے مسئلے کو کشمیر کا مسئلہ نہ بنائیں، غربت کے آئی سی یومیں رہنے والے انسانوں کے خوابوں کی تعبیر آنے والے 20،25 سال تک بتانے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے فوری طور پر طبی امداد کا بندوبست کیا جائے تاکہ غربت کی بیماری سے تنگ آئے ہوئے انسان اپنی اور اپنی اولاد کی جانیں نہ لیںسکیں۔ مگر غریبوں کی حالت زار کی کسے کیا پروا؟ سیاست کی بساط پر ان کا نام لے لے کر چال چل دینا اور جیت کے پیسوں میں سے ان کا حصہ نہ دینا ہی سیاست کا کھیل تماشاہے۔
پاکستانی قوم کو وہ دن بھی یاد ہیں جب خزانوں کے ڈالروں سے بھرنے کی باتیں کی جاتی تھی مگر تب بھی مہنگائی و بیروزگاری بڑھتی رہی تھی آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ جانے والوں نے خزانہ خالی کردیا ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
ہر آنے والے نے خالی خزانے کا رونا رویا ہے سو تم بھی یہی کہہ رہے ہوکہ خزانہ خالی ہے، آخر خزانے کو لوٹنے والے کب گرفت میں آئیں گے؟ ملک میں مل کارخانے بند ہوتے ہو رہے ہیں، سرمایہ کار چھانٹیاں کرتے رہے ہیں، حکومتیں سرکاری اداروں کی نج کاری کرتی رہی ہیں، حکومتیں سرکاری اداروں میں ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ کرکے غربت بڑھاؤ مہم چلاتی رہی ہیں اور مفلس بد حال غریب انسان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کی دل سوز زندگیاں ختم کرکے معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے معاونت کرتے رہے ہیں، سماج دشمن عناصر استحصالی معاشی نظام سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو منفی سرگرمیوں کے دلدل میں جھونکتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
تاریخ کا مطالعہ ، مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ہر غیر سیاسی ، غریب مسکین،لاچار لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہر دور میں غریبوں کی غربت دورکرنے کے لیے حکومتیں گرائی جاتی اور بنائی جاتی رہی ہیں،کانوں میں رس گھولنے والے نعرے سیاسی جلسے جلسوں میں بلند کیے جاتے رہے ہیں ۔
غریبوں کے حالت بدلنے کے لیے سب سے پہلے انھیں سرکس کے میدان میں جمع کیا جاتا رہا ہے ۔ اچھا یا برا تماشا دکھانے پر ان سے تالیاں بجوائی جاتی رہی ہیں ، پھر موقع ملتے ہی پہلے ٹوپی، پگڑی، مہنگائی اور بے روزگاری کی معرفت سروں سے اتروائی گئیں ۔جانے والوں نے الزامات لگائے ،آنے والوں نے دعوے کیے۔ اس کھیل میں ایک ایک کرکے غریبوں کے تن سے تمام چھوٹے بڑے کپڑے مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے اتروا یے گئے ۔ اس پر بس نہ ہوا ، غریبوں کا خون نچوڑنا شروع کردیا گیا ۔
چمڑی ادھیڑ دی گئی کھال کھینچ لی گئی ڈھانچہ رہ گیا تو اب اسے سرمہ بنا یا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز ہے ۔ معیار تو غیر معیاری کی بہتری کے لیے بنایا جاتا ہے یہاں تو زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جارہا ہے۔ جو لیڈران آج مہنگائی اور بے روزگاری کو ایشو بناکر بیان بازی کررہے ہیں غریب عوام انھیں بھی آزما چکے ہیں لہذا وہ بھی اپنے گریبان میں جھانکیں ۔
مقصد یہ کہ تبدیلی کا خواب بھی محض خواب ہی لگ رہا ہے اب تک کی اقدامات اسی طرف اشارہ کررہے ہیں لہٰذا عوام الناس کو معاشی ترقی اور دیگر سماجی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کسی عالم دین سے رجوع کریںاور ان سے وظیفہ معلوم کرکے ورد کیا کریں ، ملک سیاسی روحانیت کے دور میں داخل ہوگیا ہے، انشاء اللہ !انھیں افاقہ حاصل ہوگا۔