اچھی زندگی کے لیے خوشگوار رشتوں کا ہونا ضروری ہے صابر چوہدری

دوسروں کو اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینا غیر صحت مندانہ رویہ ہے۔

دوسروں کو اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینا غیر صحت مندانہ رویہ ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات صابر چوہدری دبئی میں پریکٹس کرتے ہیں، وہ دو بیسٹ سیلرز کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

دبئی جیسے ملک میں پریکٹس کرنے کی وجہ سے انہیں دنیا کے کئی ممالک کے لوگوں سے ملنے، ان کے مسائل سمجھنے اور ان کی رہنمائی کرنے کا موقع ملا ہے۔ انہیں بچپن سے ہی لوگوں سے ملنا اور ان کے خیالات جاننا اچھا لگتا تھا۔

اس لیے بنیادی تعلیم کے بعد اپنے لیے نفسیات کے شعبے کا انتخاب کیا۔ ایف سی کالج سے نفسیات کے مضمون کے ساتھ گریجویشن کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے نفسیات میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ والد کا ریسٹورنٹ تھا اور وہ انہیں بھی اس کاروبار کی طرف لانا چاہتے تھے، لیکن صابر چوہدری نے اپنے مزاج کے مطابق ماہر نفسیات بننے کا فیصلہ کیا۔

کہتے ہیں، ''اس وقت میرے پاس "passion" کا لفظ نہیں تھا، ورنہ میں اپنے والد کو بہتر طریقے سے سمجھا سکتا کہ نفسیات میرا "passion" ہے، اس لیے میں اس شعبے کو اختیار کرنا چاہتا ہوں۔'' گنگا رام ہسپتال میں انٹرن شپ کرنے کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ لاہور میں پریکٹس کی، پھر مزید سیکھنے کی لگن میں دبئی کے ایک ہسپتال سے جڑ گئے اور وہیں پریکٹس کرنے لگے۔

صابر چوہدری سمجھتے ہیں کہ اچھی اور خوشگوار زندگی کے لیے خوشگوار رشتوں کا ہونا بہت ضروری ہے، اور اس کا آغاز خود سے کرنا چاہیے، یعنی سب سے پہلے اپنی ذات سے تعلق خوشگوار بنانا چاہیے۔ ان کے بقول، ''اگر آپ اپنے آپ سے ہی مطمئن اور خوش نہیں، تو جو بھی تعلق ہو گا یا نیا تعلق بنائیں گے اس میں بھی وہ بے چینی اور ناخوشی پائی جائے گی جو آپ کے اندر ہے۔

کسی تعلق کو خوشگوار بنانے کے لیے شعوری کوشش کرنا پڑتی ہے، کوئی بھی تعلق خود بخود اچھا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں شرح طلاق بڑھ رہی ہے، اور اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے ازدواجی تعلقات بہتر بنانے کے لیے شعوری طور پر کام نہیں کیا۔

لوگوں نے اپنے پروفیشن کے مطابق ڈاکٹری، انجینئرنگ اور فنانس کا علم تو حاصل کر لیا ہے، لیکن وہ بدقسمتی سے سماجی علم کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جس سے براہ راست ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔'' نفسیاتی مسائل کو دو طرح سے حل کیا جاتا ہے، دوائیوں کے ذریعے یا نفسیاتی طریقہ علاج کی مدد سے۔ صابر چوہدری کے مطابق، ''جو شخص خود چل کے آتا ہے اور اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے اسے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، جبکہ جسے دوسرے لوگ یا رشتہ دار لے کر آتے ہیں، اسے عام طور پر سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو دوائیوں کی مدد سے علاج کرتے ہیں۔ تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ کسی کو سائیکالوجسٹ کی ضرورت ہے یا سائیکاٹرسٹ کی، یہ آسان سا لٹمس ٹیسٹ ہے۔''

ایک اچھے ماہر نفسیات کی خصوصیات بناتے ہوئے صابر چوہدری کا کہنا تھا، ''ایک اچھے ماہر نفسیات میں سننے کی طاقت ہوتی ہے، وہ واعظ نہیں ہوتا۔ وہ دوسرے کی بات پوری توجہ سے سن کر مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور کرتا ہے اور پھر مناسب مشورہ دیتا ہے۔ ماہر نفسیات مشورہ دینے سے پہلے پوری ہسٹری لیتا ہے، کئی سیشن کرنا پڑتے ہیں، ایک سیشن 45 منٹ کا ہوتا ہے۔

جب مجھے کوئی کہتا ہے کہ دو منٹ میں اس کی بات سن کے مشورہ دیا جائے تو میں بتاتا ہوں کہ ایسا ممکن نہیں۔ اور ایک اچھا ماہر نفسیات سب سے پہلے اپنے اوپر کام کرتا ہے اور اپنے تناظر کو بہتر کرتا ہے۔ صرف کلینک میں بند ہو کر اچھا ماہر نفسیات نہیں بنا جا سکتا۔ اس کے لیے لوگوں سے ملنا اور معاشرے کو جاننا ضروری ہے۔ عام تاثر ہے کہ ماہر نفسیات امیروں کے لیے ہوتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے کلینک تک محدود ہوتے ہیں۔ میں نے اس کا فون سیشن سے حل نکالا ہے۔

اب آدھے گھنٹے کے فون سیشن پر کسی دور دراز شہر یا دیہات میں رہنے والا شخص بھی مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے اور مشورہ لے سکتا ہے۔'' نفسیاتی طریقہ علاج کے مختلف ماڈل ہیں، جن میں سے کسی شخص کے مسئلے کے مطابق بہترین طریقے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک بہت کارآمد طریقہ Awareness model ہے، جس میں آخری نتیجے کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں میں شعور پیدا کیا جاتا ہے۔صابر چوہدری کے بقول، ''مثال کے طور پر دو افراد یا خاندانوں کے درمیان برسوں سے لڑائی چل رہی ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں آخر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس لڑائی کا مقصد کیا ہے، کیا تعلق بہتر بنانا ہے یا بگاڑنا ہے؟ اگر بہتر بنانا ہے تو پھر جو تعلق بگاڑنے والی باتیں ہیں، ان سے دور رہنا ہو گا۔ تو اس طرح آگاہی کے ذریعے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔''

پاکستان اور دبئی میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے باہمی تعلقات میں مسائل اور پریشانیاں ہیں، جبکہ دبئی میں ورک سٹریس زیادہ ہے، وہاں انٹرنیشنل مارکیٹ ہے، پسہ تو ملتا ہے لیکن لوگ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہیں۔ وہاں دوسرا بڑا نفسیاتی مسئلہ ہوم سکنس ہے، کیونکہ لوگ بہتر ملازمت کے لیے اپنے گھر چھوڑ کر وہاں آتے ہیں، لیکن اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔

صابر چوہدری سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں نفسیاتی مسائل کے متعلق آگاہی بڑھی ہے، لوگ اب نفسیاتی مسائل کو سمجھنے لگے ہیں اور ان کے حل کے لیے پورے اعتماد کے ساتھ ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا شعور دینے میں ان کے نزدیک سب سے اہم کردار میڈیا کا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ''جہاں ڈرامے، فلم، اخبارات اور کتابیں آگاہی کا ذریعہ ہیں، وہاں بعض اوقات یہ نفسیاتی مسائل کو بڑھانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے کہ کون سی چیز ان کے فائدے کی ہے اور کس سے نقصان ہو سکتا ہے۔ ہر چیز ہر بندے کے لیے نہیں ہوتی، اس لیے انتخاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کوشش کی جائے کہ بہترین چیز کا انتخاب کیا جائے، جس سے انہیں فائدہ اور خوشی ملے۔''

صابر چوہدری چاہتے ہیں کہ نفسیات میں دلچسپی رکھنے والے طالب علم اس شعبے میں آئیں، خوب محنت کریں اور اپنی قابلیت اور مہارت سے ملک کا نام روشن کریں۔ اس وقت اس شعبے میں ہزاروں افراد کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، ''اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں دنیا کی سب سے بڑی بیماری ڈپریشن ہو گی، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی کے ہمارے ملک میں ماہر نفسیات بہت کم ہیں۔


ان میں سے بھی زیادہ تر پریکٹس نہیں کر رہے بس ڈگری لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، جو لوگ پریکٹس کر رہے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ کچھ لوگ اس لیے بھی اپنا کلینک نہیں بناتے کیونکہ انہیں اپنے علم اور نفسیاتی طریقہ علاج پر اعتماد نہیں ہوتا۔ وہ محض سرکاری ہسپتال میں ملازمت لینے کے لیے نفسیات پڑھتے ہیں، یہ غلط سوچ ہے، اپنے کام پر یقین ہونا ضروری ہے۔'' مستقبل میں وہ پاکستان میں ایک جذباتی سنٹر قائم کرنا چاہتے ہیں، جہاں وہ لوگوں کی مدد کرسکیں۔ وہ کہتے ہیں، ''جذباتی سنٹر قائم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں غلط طور پر نفسیاتی مسائل کے ساتھ ایک منفی تاثر منسلک ہو گیا ہے، دراصل لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ نفسیاتی مسائل میں جذباتی مسائل بھی ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر غصہ آنا، اب یہ نفسیاتی مسئلہ ہے، لیکن عام بندہ اس stigma کی وجہ سے یہ مانے گا نہیں۔ تو اس منفی تاثر کو کو ختم کرنے کے لیے ہم ان کو جذباتی مسائل کہہ دیتے ہیں۔ میں اس 'ایموشنل ہیلپ سنٹر' کے ذریعے اپنے معاشرے کو کچھ لوٹانا چاہتا ہوں اور نوجوانوں کی تربیت کر کے اچھے ماہر نفسیات بنانا چاہتا ہوں۔ دوسرے میں چاہتا ہوں کہ میں مستقبل میں بھی لکھتا رہوں، میری کتابیں شائع ہوتی رہیں تاکہ پڑھنے والوں سے میرا تعلق نہ صرف قائم رہے بلکہ اور مضبوط ہو۔''

صابر چوہدری کہتے ہیں کہ عام طور پر لوگ اپنے تمام مسائل کا سبب دوسروں کو قرار دیتے ہیں، جو کہ غیر صحت مندانہ رویہ ہے۔ انہیں اپنے اوپر اعتماد کرنے اور اپنے حصے کی ذمہ داری اٹھانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ان کے بقول، ''ذمہ داری اٹھانا یہ ہے کہ آپ دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے، جو آپ کر سکتے ہیں وہ کریں۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں اٹھانے سے زندگی میں بڑی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔''

شک اور ذہنی دوری

تعلقات میں بگاڑ کا پہلا سبب شک ہے۔ اب شوہر کو بیوی پر اعتماد نہیں اور بیوی شوہر کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے موبائل کو لاک لگا کر رکھتے ہیں، تو اس سے آپس میں لڑائی نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔ لوگوں کو کسی پر اعتبار نہیں رہا، جس سے وہ اپنا راز یا دل کی بات شیئر کر سکیں۔ انہیں خوف ہے کہ کہیں دوسرا شخص کسی وقت یہ بات ان کے اپنے خلاف استعمال نہ کر لے۔

ویسے تو لوگ بظاہر آپس میں بہت ملتے جلتے ہیں، لیکن ایک شخص دوسرے کا راز نہیں رکھ سکتا۔ مثال کے طور پرپچھلے دنوں میرے پاس ایک لڑکا آیا اور بتانے لگا کہ اس کے بہت سے دوست ہیں اور ہر وقت اس کا ڈیرہ بھرا رہتا ہے، بڑی دوستیاں ہیں، وہ اکھٹے مل کے دعوتیں کھاتے ہیں اور سیر کرنے باہر جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ جب تمھاری بہن نے خودکشی کی تھی، یہ خبر تم نے کس سے شیئر کی؟

کہنے لگا، کسی سے نہیں، بس باتھ روم میں جا کے رویا تھا۔ میں نے کہا حقیقت میں تمھارا دوست باتھ روم ہے، وہ لڑکوں کی gathering نہیں، جن کے ساتھ تم اپنا راز بھی شیئر نہیں کر سکتے۔ اصولی طور پر کسی نے آپ سے راز شیئر کیا ہے تو اسے دوسرے کو کسی بھی قیمت پر نہ بتائیں۔ اب اخلاقیات نہیں رہیں، جب ہم کوئی تعلق توڑتے ہیں تو پھر پیچھے کچھ نہیں چھوڑتے، حالانکہ پرانے لوگ تعلق ٹوٹنے کے باوجود بہت کچھ سنبھال کر رکھتے تھے۔

تعلقات میں خرابی کی دوسری وجہ ذہنی دوری ہے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم میاں بیوی، بھائیوں یا دوسرے رشتوں میں عمر کا بہت فرق ہے، جس کی وجہ سے ہمارے باہمی تعلقات میں مسائل ہیں۔

میں ان کو بتاتا ہوں کہ عمر کا فرق کچھ نہیں ہوتا، اصل مسئلہ ذہنی دوری ہے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ ذہنی دوری ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس کو اچھی طرح سمجھا جائے، اس کو زیادہ سے زیادہ سنیں تاکہ آپ اس کی شخصیت کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اور پھر اسے بتائیں کہ کسی معاملے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے، یا آپ کیسے سوچتے ہیں، اسے Awareness model کہتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھ کر ذہنی دوری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

تصانیف

ابنارمل کی ڈائری: یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ٹوٹا، بکھرا، برباد ہوا اور پھر سے بنا۔ اور ایسے بنا کہ پھر وہ دوسرے لوگوں کی مدد کرنے لگا اور ان کی زندگیاں بنانے لگا۔ میں نے کلائنٹ کا اصل نام خفیہ رکھا ہے، اسے یونیورسٹی میں ایک لڑکی سے محبت ہوئی، ان دنوں بدقسمتی سے پاکستان میں بم بلاسٹ ہو رہے تھے، وہ لڑکی بھی ایک بم بلاسٹ میں مر جاتی ہے۔ تو اس کے ردعمل میں میرا وہ کلائنٹ ابنارمیلیٹی کی حد تک چلا جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ان بم دھماکوں کا ذمہ دار امریکا ہے، بدلہ لینے کے لیے وہ چاہتا ہے کہ خود امریکا جا کے وائٹ ہاؤس میں گھسے اور وہاں خودکش دھماکہ کردے۔

جب وہاں لوگ مریں گے تواس کو تسکین ملے گی اور امریکا کو بھی سبق ملے گا۔ ماہر نفسیات کے طور پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے پاس متبادل راستہ نہیں ہوتا، وہ حقیقت میں برے نہیں ہوتے، دراصل انہوں نے اچھائی کا طریقہ نہیں سیکھا ہوتا۔ تو میں نے اسے بتایا کہ بدلہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو معاف کریں اور پھر جو خیر اور بھلائی کا راستہ ہے وہ اختیار کریں۔ میں نے اسے بتایا کہ درد کو دور کرنے کا فارمولا یہ ہے کہ دوسرے دکھی لوگوں کی مدد کی جائے۔ وہ لڑکا میری سائیکو تھراپی سے ٹھیک ہوا، پھر اس نے این جی او بنائی اور اب پورے پاکستان کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔

ماہر نفسیات کی ڈائری: یہ ایک ماہر نفسیات کی سوچوں کا سفر ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے کلینک میں صرف مریض آتا ہے، عام لوگوں کو اس کے طریقہ کار کا پتا نہیں ہوتا۔ ایک ماہر نفسیات کی پہلی ترجیح پردہ پوشی ہوتی ہے۔ تو میں نے پہلی بار لوگوں کو کلینک کے اندر جھانکنے کا موقع دیا ہے اور اس کے ساتھ اپنے کلائنٹس کی پرائیویسی بھی متاثر نہیں ہونے دی۔ اس طرح لوگوں میں نفسیاتی مسائل اور ان کے حل کے متعلق جانکاری پیدا ہوئی ہے اور وہ اب ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔

زخموںکی ڈائری: یہ میری نئی کتاب ہے، جو ابھی اشاعت کے مراحل میں ہے۔ اس میں میں نے یہ ماڈل پیش کیا ہے کہ جتنے بھی انعام یافتہ لوگ ہیں، وہ زخم یافتہ بھی ہیں، آپ کسی بھی مشہور شخص کی زندگی دیکھ لیں، ہم کہتے ہیں کہ اس پر اللہ نے بڑا انعام کیا ہے، لیکن جب اس کی زندگی کو اندر سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اسے کئی زخم لگے ہیں۔ یا آپ ساری زندگی ان زخموں، دکھوں میں رہ کر گزار لیں، یا ان سے روشنی حاصل کریں، یہی زخم آپ کو نروان دیں اور آپ آگے بڑھ جائیں۔ تو میں نے لوگوں کو مشکل حالات میں آگے بڑھنے کے لیے یہ ماڈل دیا ہے۔
Load Next Story