فوزیہ قصوری عمران خان کی آمرانہ طرزسیاست کانشانہ بنیں

عمران سیاسی سوچ پرنظرثانی کریں اورذمے داری قبول کریں کہ پارٹی کلین سویپ نہیں کرسکتی تھی


مظہر عباس June 07, 2013
عمران سیاسی سوچ پرنظرثانی کریں اورذمے داری قبول کریں کہ پارٹی کلین سویپ نہیں کرسکتی تھی فوٹو: وسیم نیاز

تحریک انصاف کی سینئر رہنما فوزیہ قصوری عمران خان کی آمرانہ طرز سیاست کا نشانہ بنی ہیں اورعمران خان کواب اپنی سیاسی سوچ کاجائزہ لینا ہوگااوریہ ذمے داری قبول کرناہوگی کہ پارٹی انتخاب میں کلین سویپ نہیں کرسکتی تھی جیساکہ کپتان کے سواکسی نے پیشگوئی نہیں کی تھی۔

اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کو ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغرخان کی تحریک استقلال کے عروج اور زوال سے بھی سبق سیکھنا ہوگا کہ پارٹی بہت سے سینئرسیاستدانوں کی قیادت میںجانے کے باوجود ایک تانگہ پارٹی بن کررہ گئی۔تحریک انصاف ووٹوںکے لحاظ سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جبکہ نشستوں کے لحاظ سے اس کا دوسرانمبرہے۔پارٹی کی کارکردگی متاثرکن رہی لیکن کیا یہ ایک سال پہلے پارٹی میں شامل ہونے والے شاہ محمود قریشی ، جاوید ہاشمی جہانگیر ترین ایسے رہنمائوں کی وجہ سے ہے یا یہ فوزیہ قصوری یا نوجوان فیصل جاوید کی وجہ سے ہے؟ عمران کو اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگاکہ ماضی میں لوگ انھیں کیوں چھوڑ گئے؟

فوزیہ قصوری کا پارٹی کاچھوڑنا یقیناً عمران خان کیلیے ایک بڑا دھچکہ ہے جو ابھی محسوس نہیں ہوگا کیونکہ تحریک انصاف اونچی پروان بھر رہی ہے جوخیبرپختونخوا میں کابینہ تشکیل دینے میں مصروف ہے اور اس کے تمام بڑے رہنماء قومی اسمبلی کے ارکان ہیں تاہم پارٹی کو آگے جاکرمحسوس ہوگا کہ فوزیہ مشکل اوقات میں کتنی اہم تھی۔عمران خان نے پارٹی کیلیے فوزیہ قصوری کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی ایک شخص کیلیے اصول تبدیل نہیں کرسکتے۔ پتہ نہیں عمران کن اصولوںکی بات کررہے ہیں؟ کیاعمران نے اس وقت اپنی اصولی سیاست پرغور نہیں کیاتھا جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماء تحریک انصاف میں شامل ہوئے؟انھیں اپنے اصولوںکااس وقت خیال نہ آیا جب انھوں نے ریکارڈ وفاداریاں تبدیل کرنیوالے پرویز خٹک کو خیبرپختونخواکا وزیراعلیٰ نامزدکردیا؟

لیکن فوزیہ قصوری کیلیے پارٹی چھوڑنے کیلیے ٹھوس وجہ ہوسکتی ہے جسے نظراندازکیاگیااور اصولوں کی سیاست پر سمجھوتہ کیاگیا تاہم انکا مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کافیصلہ ایک ایسے وقت پراچھا ثابت نہیں ہوگا جبکہ وہ اقتدارمیں ہے اور فوزیہ کے اس سے اصولوں پر سنگین اختلافات بھی ہیں۔ماضی میں عمران کو اس کے بعض بااعتمادساتھی غیرجمہوری رویوں کی وجہ سے پارٹی چھوڑگئے ان میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل معراج محمدخان جیسے بزرگ سیاستدان بھی شامل ہیں۔جی ہاں، تحریک انصاف نے پارٹی انتخابات کراکرایک تاریخ قائم کی تاہم پارٹی کے کئی سینئر اور جونیئر پارٹی رہنماء پوچھ رہے ہیں کہ عام انتخابات میں ٹکٹ دینے کیلیے کیا طریقہ کار مقرر کیا گیا اور اب ضمنی انتخابات میں کیاطریقہ کار ہوگا،عمران خان کو میں 90ء کی دہائی میں سیاست میں آنے کے وقت سے ذاتی طورپرجانتا ہوں۔ وہ سیاست میں کم حیثیت والاشخص تھا او لوگ اسے کرکٹ ہیرو کے طور پر جانتے تھے۔



ایک مرتبہ میں نے عمران سے یوم مزدور پر ان کے پیغام سے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیاکہ یوم مئی کیا ہے۔میں نے معراج محمد خان کی جانب دیکھا جو عمران کی مدد کیلیے آئے۔دوسال پہلے جب میں نے ایک ٹی وی انٹرویومیں ان سے پوچھا کہ انھوں نے اپنے پارٹی منشورکوپڑھا یا نہیں توعمران کا جواب نہ میں تھا۔ میں نے پوچھا آخری مرتبہ کب پڑھا تو عمران نے کہا کبھی نہیں پڑھا۔تاہم کئی سالوں سے عمران نے فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی حمایت کے دنوں سے بہت کچھ سیکھا۔وہ کرشماتی اورانتہائی صلاحیت کا حامل ہے تاہم عمران میں بعض آمرانہ عادتیں ہیں جو پارٹی کیلیے بہت خطرناک ہیں۔ انتخابات سے کچھ روز پہلے عمران پارٹی کے سپریم ادارے کو اعتماد میں لیے بغیر شیخ رشید احمدکے جلسہ عام میں چلے گئے بعد میں پارٹی نے تحفظات کے بعد اس کے فیصلے کی توثیق کردی۔عمران نے پارٹی انتخابات کرانے کا شاندار فیصلہ کیا تاہم اگر اس نے پارٹی کو اپنی ڈگر پرچلانے کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی طرز سیاست کا جائزہ نہ لیا تو اس سے اسے خود کچھ نہیں ہوگا لیکن پارٹی متاثرہوگی۔

اس لیے عمران کو تحریک استقلال کے عروج اور زوال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اصغر خان بھی ایسی ہی عادتوں کے مالک تھے جس نے پاکستان کے طاقتورترین سیاستدان اور اور سابق وزیراعظم ذوالقفار علی بھٹو کیخلاف تحریک چلائی ۔اگرتحریک انصاف ایک جمہوری پارٹی ہے تو اس کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کااجلاس بلانا چاہیے تاکہ پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے اور اگر پارٹی سربراہ کااستعفیٰ نہیں آتاتو بعض وضاحتیں مانگی جانی چاہئیں ۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں 32اورخیبرپختونخوا میں 55نشستیں حاصل کی ہیں اور صوبائی حکومت بنائی ہے جبکہ پنجاب اور کراچی میں بھی کارکردگی دکھائی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ عمران نے ٹی وی پروگراموں میں بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی، یہ ایسی چیز ہے جوخاص طور پر ایک پارٹی سربراہ کو زیب نہیں دیتی۔

کیا یہ عمران خان، جاوید ہاشمی اور شاہ محمودقریشی کی اخلاقی ذمے داری نہیں کہ جو کچھ پنجاب میں ہوا وہ پارٹی کے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں۔ تحریک انصاف کے سوا دوسری تمام جماعتوں جماعت اسلامی، پاکستان پیپلزپارٹی، جمیعت علمائے اسلام(ف)، مسلم لیگ (ق) اورحتی کہ مسلم لیگ(ن) نے بھاری کامیابی کے باوجوداپنی کارکردگی کیلیے پارٹی ایگزیکٹو کمیٹیوںکے اجلاس بلائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظوروٹواورسینئر نائب صدر یوسف رضاگیلانی سمیت بعض پارٹی رہنمائوں نے پارٹی عہدہ چھوڑدیایا استعفیٰ دیا۔

ایم کیوایم نے جس نے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں اپنی نشستیں برقراررکھیں، تواترسے اجلاس بلائے، جنرل باڈی کااجلاس ہوا اور رابطہ کمیٹی اور کراچی کمیٹی معطل کردی۔جمہوری جماعت تحریک انصاف کے سوا ہر بڑی جماعت نے اپنی کارکردگی کا جائزہ لیاہے۔تحریک انصاف کیلیے یہ وقت ہے کہ وہ فوزیہ قصوری جیسے مزیدلوگوں کوکھونے سے پہلے خاص طور پرپنجاب میں اپنی کارکردگی کاکھلے دل سے جائزہ لے لیکن ہرکوئی عمران کی مکمل صحتیابی کیلیے دعا گوہے تاکہ وہ قومی اسمبلی میں اہم کرداراداکرسکے کیونکہ وہ پاکستان کے ایک اہم سیاسی رہنما کے طور پر ابھرا ہے جس کی عالمی شناخت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔