عمران حکومت کے پہلے پچاس دن
ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک وفاقی وزیرکہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس عوام سے چندہ مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
عمران خان حکومت کو پچاس دن ہو چکے ہیں اور پہلے پچاس دن کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں تو آ چکی ہے، اور بلند بانگ دعوے بھی کر رہی ہے؛ لیکن عوام کو فوری ریلیف دینے کا کوئی واضح پلان اس کے پاس نہیں ہے۔
ثبوت اس کا یہ ہے کہ اب خود وزیراعظم عمران خان سو دن سے آگے بڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کے آثار نظر آنے میں کم ازکم بھی دو سال لگیں گے۔ان کے ''ارسطو'' وزیرخزانہ اسد عمر اور فواد چوہدری کے بیانات بھی یہی ہیں کہ فوری طور پر کچھ نہیں ہو سکتا۔اور جیسا کہ ہر آنے والی حکومت کہتی ہے کہ جانے والی حکومت حالات اتنے خراب کر گئی ہے کہ ان کو ٹھیک کرنے میں کچھ وقت لگے گا، تحریک انصاف بھی یہی پرانا اور روایتی راگ الاپ رہی ہے اور یہ بھول چکی ہے کہ اس نے عوام کو کیسے کیسے سہانے خواب دکھائے تھے۔
مثلاً،حکومت میں آنے سے پہلے یہی اسد عمر تھے، جن کا دعویٰ تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں بجلی اور پٹرول پر نامنصفانہ ٹیکس لگا کر ان کو جان بوجھ کر مہنگا کرتی رہی ہیں۔اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ نامنصفانہ ٹیکس فوری طور پر ختم کر دے گی۔ نتیجتاً یہ مصنوعات آپ سے آپ سستی ہو جائیں گی۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ کو وہ سرے سے غیر منطقی قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ پوری دنیا میںاس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، لہذا پاکستان میں بھی اضافہ کی کوئی تُک نہیں۔ لیکن وزیر خزانہ بننے کے بعد اسد عمر نے سب سے پہلے گیس کی قیمتوں میں ہی اضافے کا عندیہ دیا۔ اس کے بعد بجلی کی باری آئی تو یہاں بھی وہی ہوا، جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ یعنی مختلف حیلوں بہانوں سے بجلی کی قیمت بھی بڑھانے کا ''مژدہ'' سنایا گیا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی ''نوید'' بھی سنا دی گئی ہے۔
ڈالر کی قیمت نیچے آنے کا بھی فی الحال امکان نظر نہیں آ رہا، بلکہ اب تو لگتا ہے کہ موصوف اس کو موجودہ سطح پر ہی برقرار رکھ سکیں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہو گی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی مشکوک نظر آ رہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے آثار بھی ہویدا ہیں۔سعودی عرب سے ادھار پر تیل مانگنے کی درخواست بھی آ گئی ہے۔
بعینہ انتخابی مہم کے دوران عمران خان کا دعویٰ تھا اور حقیقتاً یہ دعویٰ ہی تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی اور ان کے منزل وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا کہ جن حکمرانوں اور سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے قوم کا بال بال قرضے میں جکڑا گیا ہے، ان کو جیلوں میں ڈالا جائے گا۔ ان کے اربوں ڈالر جو بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہیں، انھیں واپس لا کر قوم کے قرضے بھی چکائے جائیں گے اور اس کی کمر سے مہنگائی کا ناروا بوجھ بھی اتارا جائے گا۔ لیکن اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کی یہ کمائی واپس لا کر قوم کے قرضے چکانا تو دور کی بات، الٹا قوم سے نئی حکومت کی مالی مدد کی اپیل کی جا رہی ہے۔
ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک وفاقی وزیرکہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس عوام سے چندہ مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی حکومت کو کنگال کر گئے ہیں۔ حکومت کی مالی بے بسی کا یہ حال ہے کہ بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے لیے بھی اس کو قوم سے مالی مدد مانگنا پڑ رہی ہے۔ ''قرض اتارو، ملک سنوارو'' اسکیم کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
قوم اپنی استطاعت کے مطابق حکومت کی مدد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، لیکن اس طرح کے میگا پراجیکٹ کے لیے حکومت کی سطح پر جو مالی منصوبہ بندی ہوتی ہے، وہ بھی تو کوئی چیز ہے، لیکن افسوس کہ یہ منصوبہ بندی دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔
وفاق اور پنجاب کابینہ کی تشکیل میں بھی سنجیدہ منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کرنا بلاشبہ تحریک انصاف کی مجبوری تھی؛ لیکن وفاقی اور صوبائی کابینہ تو بحری جہازوں کا نمونہ پیش کر رہی ہیں، جن پر ایک جم غفیر سفر کر رہا ہوتا ہے۔پھر اس پر مشیروں کی ایک فوج ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماسوا چند ایک وزرا کے، باقی سب بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے ہیں۔کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ بس ٹیپ کا یہ مصرعہ دہرائے جا رہے ہیں کہ ''ہم عمران خان کے سپاہی ہیں۔''
یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں یہ سب وزراء اپنے سیکریٹریوں کے رحم وکرم پر ہوں گے۔یہ وزراء اسمبلیوں کے اندر اور باہر آئے روز حکومت کے لیے جگ ہنسائی کا کوئی نہ کوئی سامان بھی پیدا کردیتے ہیں۔ چینلوں پر تحریک انصاف کی ترجمانی کرنے والا قریب قریب ہر چہرہ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں کسی نہ کسی حیثیت میں نمایندگی حاصل کر چکا ہے۔
جو لوٹے الیکشن سے عین پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے، ان سب کی تو گویا لاٹری نکل آئی اورکوئی بھی محروم تمنا نہیں رہا۔ ایسی دلچسپ ہستیاں بھی ہیں کہ بطور وزیر، شریف برادران اور چوہدری برادران کے بعد اب عمران خان کو بھی اپنے تجربات سے فیض یاب کر رہی ہیں۔
ادھر پنجاب جہاں تحریک انصاف کی حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے، یہاں عمران خان نے کسی مضبوط شخصیت کو کیپٹن مقرر نہیں کیا، اور جو سیٹ اپ قائم کیا ہے، اس میں وزیراعلی کی حیثیت محور کی نہیں، بلکہ وزیراعظم اور صوبائی وزراء کے درمیان محض ایک رابطہ کار کی رہ گئی ہے۔ یہ اگر عمران خان کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تو بھی آخر کار ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
پنجاب میں جب بھی کوئی بحران پیداہوا اور یہ بحران جلد یا دیر پیدا ہوگا، تو یہ حکمت عملی ان کو بیک فائر کرے گی۔ یہ وہی تجربہ ہے جو 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف نے کیا تھا اور ناکام رہا تھا۔ جیسے ہی پنجاب اسمبلی میں ہلچل پیدا ہوئی۔ غلام حیدر وائیں پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے۔ اس پر وزیراعظم نواز شریف نے چوہدری پرویز الٰہی کو مدد کے لیے پکارا تھا اور وہ مدد کے لیے پہنچے بھی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ عمران خان جس انداز میں آئے روز وزیراعلیٰ پنجاب کو تھپکی دیتے ہیں، اور اپنے انتخاب کی داد دیتے ہیں، یہ بھی اس امر کی غماز ہے کہ اندر سے وہ خود بھی اپنے اس فیصلہ پر مضطرب ہیں ۔
حقیقتاً پہلے پچاس دن میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایک چیز پر زور نظر آ رہا ہے،کفایت شعاری اور اس کی تشہیری مہم۔ یہ مہم سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا تک چھائی ہوئی ہے۔ وزیراعظم ہاوس کی شان وشوکت کو ایکسپوز کیا جا رہا ہے ، اس کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام ہو رہی ہیں۔گورنر ہاوسز کھول دیے گئے ہیں۔ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے سامنے چائے بسکٹ رکھ کر ان کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔
کیمرہ شیروانی کے نیچے وزیراعظم کے سینڈل دکھا رہا ہے جو سراسر ان کا نجی مسئلہ ہے۔ یہ اعلان بھی زور شور سے کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا۔ اس طرح کا اعلان2008 ء میں شہباز شریف نے بھی کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاوس کو یونیورسٹی بنائیں گے۔ وہ یونیورسٹی تو نہیں بنی، لیکن عمران خان اگر وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنا دیتے ہیں تو ہائی ریڈ زون ایریا کی سیکیورٹی کا مسئلہ بنے گا۔
اس ایریا کو نئی صورت میں فول پروف بنانے کے لیے کتنے اخراجات ہوں گے اور کل کلاں کوئی دوسری حکومت آ جاتی ہے اور دوبارہ سے وزیراعظم ہاوس کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو نئے وزیراعظم ہاوس پر جو اخراجات ہوں گے، اس کا ذمے دار کون ہو گا۔ پھر ہر بلڈنگ کا اس کے مقصد اور مصرف کو سامنے رکھ کراس کا اندرونی نقشہ بنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی کی شکل دینے کے لیے اس کے اندرونی ڈھانچہ میں جو تبدیلیاں کرنا پڑیں گی، اس پر جو رقم خرچ آئے گی، وہ بھی قوم کی جیب سے ہی ادا ہوگی۔
اسی طرح کی گورنر ہاؤسز کو میوزیمز بنانے کے اعلانات ہیں۔ میوزیمز تو پہلے بھی موجود ہیں۔ پتا نہیں گورنر ہاؤسز کو میوزیمز بنا کر تحریک انصاف اس میں قوم کو کیا دکھانا چاہتی ہے۔امکان یہی ہے کہ اگر تحریک انصاف یہ سب کچھ کر گزری تو اگلی حکومت اس ''انقلابی اقدام'' کو تحریک انصاف کا ملبہ قرار دے کر کسی نہ کسی بہانے کالعدم کر دے گی۔ تب بھی قوم کے سامنے کفایت شعاری کا عذر پیش کیا جائے گا۔ کیونکہ حکومت میں کفایت شعاری بھی ایک relevant term ہوتی ہے۔
ایک وقت میں جو چیز ''اصراف'' قرار دے کر ترک کر دی جاتی ہے، وہی چیز دوسرے وقت میں ناگزیر ''ضرورت'' قرار دے کر پھر سے اختیار کر لی جاتی ہے۔ بھٹو دور میں نیشنلائزیشن قومی ضرورت تھی۔ ضیاالحق دور میں ڈی نیشنلائزیشن قومی ضرورت بن گئی۔ لہٰذا تحریک انصاف کی یہ ''کفایت شعاری'' قوم کو بہت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔
پہلے پچاس دن میں یہ چیز بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آ چکی ہے،مگر وزیراعظم سمیت حکومت کا مائنڈ سیٹ ابھی تک اپوزیشن والا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور ٹی وی چینلوں پر تحریک انصاف کے عہدے دار اسی طرح چیخ و پکار کر رہے ہیں، جس طرح اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرتے تھے۔ جب بھی ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کی جائے گی، جھٹ سے کہیں گے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بھی یہ کرتی رہی ہیں۔
یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کہ عوام نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے تحریک انصاف کو زمام حکومت دی ہے۔قصہ کوتاہ یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پچاس دن بہت مایوس کن ہیں اور ماضی کی حکومتوں کی طرح اس کی ابتدائی دلچسپی بھی آرایشی، نمایشی اور تشہیری کاموں میں ہے۔شاعر نے کہا تھا ،
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم
ثبوت اس کا یہ ہے کہ اب خود وزیراعظم عمران خان سو دن سے آگے بڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کے آثار نظر آنے میں کم ازکم بھی دو سال لگیں گے۔ان کے ''ارسطو'' وزیرخزانہ اسد عمر اور فواد چوہدری کے بیانات بھی یہی ہیں کہ فوری طور پر کچھ نہیں ہو سکتا۔اور جیسا کہ ہر آنے والی حکومت کہتی ہے کہ جانے والی حکومت حالات اتنے خراب کر گئی ہے کہ ان کو ٹھیک کرنے میں کچھ وقت لگے گا، تحریک انصاف بھی یہی پرانا اور روایتی راگ الاپ رہی ہے اور یہ بھول چکی ہے کہ اس نے عوام کو کیسے کیسے سہانے خواب دکھائے تھے۔
مثلاً،حکومت میں آنے سے پہلے یہی اسد عمر تھے، جن کا دعویٰ تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں بجلی اور پٹرول پر نامنصفانہ ٹیکس لگا کر ان کو جان بوجھ کر مہنگا کرتی رہی ہیں۔اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ نامنصفانہ ٹیکس فوری طور پر ختم کر دے گی۔ نتیجتاً یہ مصنوعات آپ سے آپ سستی ہو جائیں گی۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ کو وہ سرے سے غیر منطقی قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ پوری دنیا میںاس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، لہذا پاکستان میں بھی اضافہ کی کوئی تُک نہیں۔ لیکن وزیر خزانہ بننے کے بعد اسد عمر نے سب سے پہلے گیس کی قیمتوں میں ہی اضافے کا عندیہ دیا۔ اس کے بعد بجلی کی باری آئی تو یہاں بھی وہی ہوا، جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ یعنی مختلف حیلوں بہانوں سے بجلی کی قیمت بھی بڑھانے کا ''مژدہ'' سنایا گیا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی ''نوید'' بھی سنا دی گئی ہے۔
ڈالر کی قیمت نیچے آنے کا بھی فی الحال امکان نظر نہیں آ رہا، بلکہ اب تو لگتا ہے کہ موصوف اس کو موجودہ سطح پر ہی برقرار رکھ سکیں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہو گی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی مشکوک نظر آ رہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے آثار بھی ہویدا ہیں۔سعودی عرب سے ادھار پر تیل مانگنے کی درخواست بھی آ گئی ہے۔
بعینہ انتخابی مہم کے دوران عمران خان کا دعویٰ تھا اور حقیقتاً یہ دعویٰ ہی تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی اور ان کے منزل وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا کہ جن حکمرانوں اور سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے قوم کا بال بال قرضے میں جکڑا گیا ہے، ان کو جیلوں میں ڈالا جائے گا۔ ان کے اربوں ڈالر جو بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہیں، انھیں واپس لا کر قوم کے قرضے بھی چکائے جائیں گے اور اس کی کمر سے مہنگائی کا ناروا بوجھ بھی اتارا جائے گا۔ لیکن اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کی یہ کمائی واپس لا کر قوم کے قرضے چکانا تو دور کی بات، الٹا قوم سے نئی حکومت کی مالی مدد کی اپیل کی جا رہی ہے۔
ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک وفاقی وزیرکہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس عوام سے چندہ مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی حکومت کو کنگال کر گئے ہیں۔ حکومت کی مالی بے بسی کا یہ حال ہے کہ بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے لیے بھی اس کو قوم سے مالی مدد مانگنا پڑ رہی ہے۔ ''قرض اتارو، ملک سنوارو'' اسکیم کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
قوم اپنی استطاعت کے مطابق حکومت کی مدد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، لیکن اس طرح کے میگا پراجیکٹ کے لیے حکومت کی سطح پر جو مالی منصوبہ بندی ہوتی ہے، وہ بھی تو کوئی چیز ہے، لیکن افسوس کہ یہ منصوبہ بندی دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔
وفاق اور پنجاب کابینہ کی تشکیل میں بھی سنجیدہ منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کرنا بلاشبہ تحریک انصاف کی مجبوری تھی؛ لیکن وفاقی اور صوبائی کابینہ تو بحری جہازوں کا نمونہ پیش کر رہی ہیں، جن پر ایک جم غفیر سفر کر رہا ہوتا ہے۔پھر اس پر مشیروں کی ایک فوج ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماسوا چند ایک وزرا کے، باقی سب بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے ہیں۔کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ بس ٹیپ کا یہ مصرعہ دہرائے جا رہے ہیں کہ ''ہم عمران خان کے سپاہی ہیں۔''
یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں یہ سب وزراء اپنے سیکریٹریوں کے رحم وکرم پر ہوں گے۔یہ وزراء اسمبلیوں کے اندر اور باہر آئے روز حکومت کے لیے جگ ہنسائی کا کوئی نہ کوئی سامان بھی پیدا کردیتے ہیں۔ چینلوں پر تحریک انصاف کی ترجمانی کرنے والا قریب قریب ہر چہرہ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں کسی نہ کسی حیثیت میں نمایندگی حاصل کر چکا ہے۔
جو لوٹے الیکشن سے عین پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے، ان سب کی تو گویا لاٹری نکل آئی اورکوئی بھی محروم تمنا نہیں رہا۔ ایسی دلچسپ ہستیاں بھی ہیں کہ بطور وزیر، شریف برادران اور چوہدری برادران کے بعد اب عمران خان کو بھی اپنے تجربات سے فیض یاب کر رہی ہیں۔
ادھر پنجاب جہاں تحریک انصاف کی حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے، یہاں عمران خان نے کسی مضبوط شخصیت کو کیپٹن مقرر نہیں کیا، اور جو سیٹ اپ قائم کیا ہے، اس میں وزیراعلی کی حیثیت محور کی نہیں، بلکہ وزیراعظم اور صوبائی وزراء کے درمیان محض ایک رابطہ کار کی رہ گئی ہے۔ یہ اگر عمران خان کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تو بھی آخر کار ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
پنجاب میں جب بھی کوئی بحران پیداہوا اور یہ بحران جلد یا دیر پیدا ہوگا، تو یہ حکمت عملی ان کو بیک فائر کرے گی۔ یہ وہی تجربہ ہے جو 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف نے کیا تھا اور ناکام رہا تھا۔ جیسے ہی پنجاب اسمبلی میں ہلچل پیدا ہوئی۔ غلام حیدر وائیں پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے۔ اس پر وزیراعظم نواز شریف نے چوہدری پرویز الٰہی کو مدد کے لیے پکارا تھا اور وہ مدد کے لیے پہنچے بھی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ عمران خان جس انداز میں آئے روز وزیراعلیٰ پنجاب کو تھپکی دیتے ہیں، اور اپنے انتخاب کی داد دیتے ہیں، یہ بھی اس امر کی غماز ہے کہ اندر سے وہ خود بھی اپنے اس فیصلہ پر مضطرب ہیں ۔
حقیقتاً پہلے پچاس دن میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایک چیز پر زور نظر آ رہا ہے،کفایت شعاری اور اس کی تشہیری مہم۔ یہ مہم سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا تک چھائی ہوئی ہے۔ وزیراعظم ہاوس کی شان وشوکت کو ایکسپوز کیا جا رہا ہے ، اس کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام ہو رہی ہیں۔گورنر ہاوسز کھول دیے گئے ہیں۔ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے سامنے چائے بسکٹ رکھ کر ان کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔
کیمرہ شیروانی کے نیچے وزیراعظم کے سینڈل دکھا رہا ہے جو سراسر ان کا نجی مسئلہ ہے۔ یہ اعلان بھی زور شور سے کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا۔ اس طرح کا اعلان2008 ء میں شہباز شریف نے بھی کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاوس کو یونیورسٹی بنائیں گے۔ وہ یونیورسٹی تو نہیں بنی، لیکن عمران خان اگر وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنا دیتے ہیں تو ہائی ریڈ زون ایریا کی سیکیورٹی کا مسئلہ بنے گا۔
اس ایریا کو نئی صورت میں فول پروف بنانے کے لیے کتنے اخراجات ہوں گے اور کل کلاں کوئی دوسری حکومت آ جاتی ہے اور دوبارہ سے وزیراعظم ہاوس کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو نئے وزیراعظم ہاوس پر جو اخراجات ہوں گے، اس کا ذمے دار کون ہو گا۔ پھر ہر بلڈنگ کا اس کے مقصد اور مصرف کو سامنے رکھ کراس کا اندرونی نقشہ بنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی کی شکل دینے کے لیے اس کے اندرونی ڈھانچہ میں جو تبدیلیاں کرنا پڑیں گی، اس پر جو رقم خرچ آئے گی، وہ بھی قوم کی جیب سے ہی ادا ہوگی۔
اسی طرح کی گورنر ہاؤسز کو میوزیمز بنانے کے اعلانات ہیں۔ میوزیمز تو پہلے بھی موجود ہیں۔ پتا نہیں گورنر ہاؤسز کو میوزیمز بنا کر تحریک انصاف اس میں قوم کو کیا دکھانا چاہتی ہے۔امکان یہی ہے کہ اگر تحریک انصاف یہ سب کچھ کر گزری تو اگلی حکومت اس ''انقلابی اقدام'' کو تحریک انصاف کا ملبہ قرار دے کر کسی نہ کسی بہانے کالعدم کر دے گی۔ تب بھی قوم کے سامنے کفایت شعاری کا عذر پیش کیا جائے گا۔ کیونکہ حکومت میں کفایت شعاری بھی ایک relevant term ہوتی ہے۔
ایک وقت میں جو چیز ''اصراف'' قرار دے کر ترک کر دی جاتی ہے، وہی چیز دوسرے وقت میں ناگزیر ''ضرورت'' قرار دے کر پھر سے اختیار کر لی جاتی ہے۔ بھٹو دور میں نیشنلائزیشن قومی ضرورت تھی۔ ضیاالحق دور میں ڈی نیشنلائزیشن قومی ضرورت بن گئی۔ لہٰذا تحریک انصاف کی یہ ''کفایت شعاری'' قوم کو بہت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔
پہلے پچاس دن میں یہ چیز بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آ چکی ہے،مگر وزیراعظم سمیت حکومت کا مائنڈ سیٹ ابھی تک اپوزیشن والا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور ٹی وی چینلوں پر تحریک انصاف کے عہدے دار اسی طرح چیخ و پکار کر رہے ہیں، جس طرح اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرتے تھے۔ جب بھی ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کی جائے گی، جھٹ سے کہیں گے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بھی یہ کرتی رہی ہیں۔
یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کہ عوام نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے تحریک انصاف کو زمام حکومت دی ہے۔قصہ کوتاہ یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پچاس دن بہت مایوس کن ہیں اور ماضی کی حکومتوں کی طرح اس کی ابتدائی دلچسپی بھی آرایشی، نمایشی اور تشہیری کاموں میں ہے۔شاعر نے کہا تھا ،
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم