جماعت اسلامی سیاسی زوال کا شکار کیوں
اگر جماعت اسلامی کو اس سیاسی آئی سی یو سے نکالنا ہے تو سراج الحق کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہوگا۔
جماعت اسلامی اس وقت سیاسی زوال کا شکار ہے۔ لیکن پتہ نہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ سراج الحق نے بلاشبہ جماعت اسلامی کو ایک نئی سوچ دی ہے۔ وہ پارلیمانی سیاست کے قائل ہیں اور اس کو ہی حقیقی سیاست سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ انھیں پارلیمانی سیاست کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
کے پی میں پانچ سال شریک اقتدار رہنے کے باوجود حالیہ انتخابات میں وہ نتائج نہیں مل سکے ہیں جن کی توقع تھی۔ پنجاب کی حالت تو پہلے ہی بہت بری ہو چکی تھی، مزید بری ہو گئی ہے۔ کراچی میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ بلوچستان سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اس طرح یہ کہنا کسی حد تک درست ہو گا کہ جماعت اسلامی ووٹ بینک اور سیاسی طاقت کے اعتبار سے زوال کا شکار ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جہاں مکمل جمہوریت ہے۔ لوگ ووٹ کی طاقت سے اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی میروثی سیاست نہیں ہے۔ کسی لیڈر کا بیٹا پیچھے سے آگے نہیںآ سکتا۔ جماعت اسلامی کے کسی بھی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ بے داغ قیادت۔ کسی پر نیب کا کوئی ریفرنس نہیں ہے۔ واحد جماعت ہی ہے جس کے اندر احتساب کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ جس کی وجہ سے نااہل اوپر آ ہی نہیں سکتا۔
پالیسی سازی کے لیے مجلس شوری اور مجلس عاملہ جیسے مضبوط ادارے موجود ہیں۔ مجلس شوری کا انتخاب بھی ووٹ کی طاقت سے ہوتا ہے۔ ہر سطح پر ارکان کی رائے کی اہمیت ہے۔ کسی فرد واحد کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ حتیٰ کے امیر جماعت بھی نہ صرف شوریٰ میں بلکہ ممبر مسجد پر بھی جوابدہ ہے۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی ووٹر کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی ۔ بلکہ جو ووٹر جماعت اسلامی کی طرف آبھی گیا تھا وہ بھی روٹھ رہا ہے۔ کیوں آخر کیوں۔
جماعت کے بانی سے لے کر کسی بھی سابق امیر کا بیٹا لائن توڑ کر آگے نہیں آسکا۔ ایسے میں سراج الحق کے بیٹے کا بھی آگے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔میروثی سیاست کے خلاف نفرت تو موجود ہے لیکن کوئی جماعت اسلامی کو کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں سیاسی طورپر جماعت اسلامی اس وقت آئی سی یو میں ہے۔ اگر کے پی کے،کے نتائج کی بات کی جائے تو بلاشبہ جماعت اسلامی نے کے پی کی حکومت چھوڑنے میں غیر ضروری تاخیر کی۔ وہ تمام دلائل کہ ابھی حلقوں میں کام ہو رہا ہے، اتنے فنڈز ہیں وہ تو خرچ ہو جائیں ورنہ کام رک جائیں گے، غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اس تاخیر کا جماعت اسلامی کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوا۔ آج اسی وجہ سے کے پی کی جماعت اسلامی میں توڑ پھوڑ اور اختلاف بھی نظر آتا ہے۔دیر بھی جاتا نظر آرہا ہے۔
پنجاب کی تو حالت ہی نہ پوچھیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے پنجاب اور بالخصوص لاہور کے ووٹر کو گو مگو کی کیفیت میں رکھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آنے دی کہ جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے۔ اتحادوں کی سیاست کی دلدل میں اسے غرق کر دیا ہے۔ اب وہ تنہا لڑنے کی ہمت ہی کھو بیٹھا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی سے بھاگ گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ کا بھی جماعت اسلامی کوئی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔
کبھی کبھی تو یہ طے کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ جماعت اسلامی کدھر کھڑی ہے۔ لیکن اگر جماعت اسلامی اپنی بقا کی یہ جنگ ہار گئی تو پاکستان سے ایک اچھی سیاسی اور واحد جمہوری جماعت فلاپ ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو کیا کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو ملک میں کرپشن کے خلاف کوئی موثر تحریک چلا سکتی ہے۔ اس کے کسی لیڈر کا نیب میں کوئی کیس نہیں ہے۔ کسی کے سر پر نا اہلی کی کوئی تلوار نہیں ہے۔ اس جماعت میں کوئی لوٹا نہیں ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کرپشن فری پاکستان کی تحریک شروع کی لیکن اس کو ادھورا چھوڑ دیا۔ پتہ نہیں وہ ملک کے باقی سیاسی معاملات میں کوئی پھنس جاتے ہیں۔ ان کا کیا تعلق کہ جنوبی پنجاب صوبہ بن رہا ہے کہ نہیں۔ منی بجٹ کیا آیا ہے۔
امریکا کیا کر رہا ہے۔انتخابات میں دھاندلی ہوئی کہ نہیں۔ پارلیمانی کمیشن بن رہا ہے کہ نہیں۔ حکومت کی کیا ناکامیاں ہیں۔ بہت سیاسی جماعتیں ہیں جو اس سب پر بات کر رہی ہیں آپ نہیں بھی کریں تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ کوئی کرپشن فری پاکستان پر بات نہیں کر رہا ہے۔ آپ بھی نہیں کر رہے۔ ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے احتساب اور کرپشن کی تحریک ملک کے لیے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت کو چاہیے کہ چند سال صرف یک نکاتی سیاست کریں۔ صرف کرپشن کے خلاف اور احتساب کے لیے کام کریں۔ عمران خان کی کرپشن کے خلاف تحریک بھی صرف شریف فیملی تک محدود تھی۔ یہ آصف زرداری کو بھی قابو رکھنے کے لیے ڈرامہ ہو رہا ہے۔ کوئی بھی کسی کا بھی احتساب کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کون لائے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس۔ سب ہی نے تو باہر جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ صرف جماعت اسلامی یہ کام کر سکتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی غیر ضروری کاموں میں اس قدر مصروف ہے کہ اس کے پاس صحیح کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
کوئی پوچھے سراج الحق صاحب سے کہ یہ پنجاب کے تین صوبے کرنے سے کوئی جماعت اسلامی کا ووٹ بینک واپس آجائے گا۔ یہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگانے سے کوئی ووٹ بینک آجائے گا۔ کراچی میں کیوں لوگ جماعت اسلامی کی طرف نہیں آئے۔ کیونکہ جماعت اسلامی ملک کے بڑے سیاسی منظر نامے پر چھوٹے چھوٹے کام کر رہی ہے۔ اس کو سمجھنا چاہیے کہ بہت سی آوازوں میں اس کی آواز دب جاتی ہے۔ پاناما میں عمران خان ان کا کریڈٹ چھین کر لے گیا۔
اگر جماعت اسلامی کو اس سیاسی آئی سی یو سے نکالنا ہے تو سراج الحق کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہوگا۔ نیا خون سامنے لائیں جن میں جینے سے زیادہ مرنے کی تڑپ موجود ہے۔ صرف جماعت اسلامی ایسی پڑھی لکھی قیادت سامنے لا سکتی ہے۔ نیا خون ۔ نئی بات۔ نیا جوش ۔ نیا جذبہ۔ اور لڑ کر مرجانے کی تڑپ ہی جماعت اسلامی کو بچا سکتی ہے۔ ورنہ سمجھ لیں کہ معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ جماعت اسلامی کا اصل کام دعوت و تبلیغ کا ہے۔ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام دعوت وتبلیغ والی جماعتیں کر رہی ہیں۔
کے پی میں پانچ سال شریک اقتدار رہنے کے باوجود حالیہ انتخابات میں وہ نتائج نہیں مل سکے ہیں جن کی توقع تھی۔ پنجاب کی حالت تو پہلے ہی بہت بری ہو چکی تھی، مزید بری ہو گئی ہے۔ کراچی میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ بلوچستان سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اس طرح یہ کہنا کسی حد تک درست ہو گا کہ جماعت اسلامی ووٹ بینک اور سیاسی طاقت کے اعتبار سے زوال کا شکار ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جہاں مکمل جمہوریت ہے۔ لوگ ووٹ کی طاقت سے اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی میروثی سیاست نہیں ہے۔ کسی لیڈر کا بیٹا پیچھے سے آگے نہیںآ سکتا۔ جماعت اسلامی کے کسی بھی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ بے داغ قیادت۔ کسی پر نیب کا کوئی ریفرنس نہیں ہے۔ واحد جماعت ہی ہے جس کے اندر احتساب کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ جس کی وجہ سے نااہل اوپر آ ہی نہیں سکتا۔
پالیسی سازی کے لیے مجلس شوری اور مجلس عاملہ جیسے مضبوط ادارے موجود ہیں۔ مجلس شوری کا انتخاب بھی ووٹ کی طاقت سے ہوتا ہے۔ ہر سطح پر ارکان کی رائے کی اہمیت ہے۔ کسی فرد واحد کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ حتیٰ کے امیر جماعت بھی نہ صرف شوریٰ میں بلکہ ممبر مسجد پر بھی جوابدہ ہے۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی ووٹر کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی ۔ بلکہ جو ووٹر جماعت اسلامی کی طرف آبھی گیا تھا وہ بھی روٹھ رہا ہے۔ کیوں آخر کیوں۔
جماعت کے بانی سے لے کر کسی بھی سابق امیر کا بیٹا لائن توڑ کر آگے نہیں آسکا۔ ایسے میں سراج الحق کے بیٹے کا بھی آگے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔میروثی سیاست کے خلاف نفرت تو موجود ہے لیکن کوئی جماعت اسلامی کو کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں سیاسی طورپر جماعت اسلامی اس وقت آئی سی یو میں ہے۔ اگر کے پی کے،کے نتائج کی بات کی جائے تو بلاشبہ جماعت اسلامی نے کے پی کی حکومت چھوڑنے میں غیر ضروری تاخیر کی۔ وہ تمام دلائل کہ ابھی حلقوں میں کام ہو رہا ہے، اتنے فنڈز ہیں وہ تو خرچ ہو جائیں ورنہ کام رک جائیں گے، غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اس تاخیر کا جماعت اسلامی کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوا۔ آج اسی وجہ سے کے پی کی جماعت اسلامی میں توڑ پھوڑ اور اختلاف بھی نظر آتا ہے۔دیر بھی جاتا نظر آرہا ہے۔
پنجاب کی تو حالت ہی نہ پوچھیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے پنجاب اور بالخصوص لاہور کے ووٹر کو گو مگو کی کیفیت میں رکھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آنے دی کہ جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے۔ اتحادوں کی سیاست کی دلدل میں اسے غرق کر دیا ہے۔ اب وہ تنہا لڑنے کی ہمت ہی کھو بیٹھا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی سے بھاگ گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ کا بھی جماعت اسلامی کوئی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔
کبھی کبھی تو یہ طے کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ جماعت اسلامی کدھر کھڑی ہے۔ لیکن اگر جماعت اسلامی اپنی بقا کی یہ جنگ ہار گئی تو پاکستان سے ایک اچھی سیاسی اور واحد جمہوری جماعت فلاپ ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو کیا کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو ملک میں کرپشن کے خلاف کوئی موثر تحریک چلا سکتی ہے۔ اس کے کسی لیڈر کا نیب میں کوئی کیس نہیں ہے۔ کسی کے سر پر نا اہلی کی کوئی تلوار نہیں ہے۔ اس جماعت میں کوئی لوٹا نہیں ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کرپشن فری پاکستان کی تحریک شروع کی لیکن اس کو ادھورا چھوڑ دیا۔ پتہ نہیں وہ ملک کے باقی سیاسی معاملات میں کوئی پھنس جاتے ہیں۔ ان کا کیا تعلق کہ جنوبی پنجاب صوبہ بن رہا ہے کہ نہیں۔ منی بجٹ کیا آیا ہے۔
امریکا کیا کر رہا ہے۔انتخابات میں دھاندلی ہوئی کہ نہیں۔ پارلیمانی کمیشن بن رہا ہے کہ نہیں۔ حکومت کی کیا ناکامیاں ہیں۔ بہت سیاسی جماعتیں ہیں جو اس سب پر بات کر رہی ہیں آپ نہیں بھی کریں تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ کوئی کرپشن فری پاکستان پر بات نہیں کر رہا ہے۔ آپ بھی نہیں کر رہے۔ ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے احتساب اور کرپشن کی تحریک ملک کے لیے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت کو چاہیے کہ چند سال صرف یک نکاتی سیاست کریں۔ صرف کرپشن کے خلاف اور احتساب کے لیے کام کریں۔ عمران خان کی کرپشن کے خلاف تحریک بھی صرف شریف فیملی تک محدود تھی۔ یہ آصف زرداری کو بھی قابو رکھنے کے لیے ڈرامہ ہو رہا ہے۔ کوئی بھی کسی کا بھی احتساب کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کون لائے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس۔ سب ہی نے تو باہر جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ صرف جماعت اسلامی یہ کام کر سکتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی غیر ضروری کاموں میں اس قدر مصروف ہے کہ اس کے پاس صحیح کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
کوئی پوچھے سراج الحق صاحب سے کہ یہ پنجاب کے تین صوبے کرنے سے کوئی جماعت اسلامی کا ووٹ بینک واپس آجائے گا۔ یہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگانے سے کوئی ووٹ بینک آجائے گا۔ کراچی میں کیوں لوگ جماعت اسلامی کی طرف نہیں آئے۔ کیونکہ جماعت اسلامی ملک کے بڑے سیاسی منظر نامے پر چھوٹے چھوٹے کام کر رہی ہے۔ اس کو سمجھنا چاہیے کہ بہت سی آوازوں میں اس کی آواز دب جاتی ہے۔ پاناما میں عمران خان ان کا کریڈٹ چھین کر لے گیا۔
اگر جماعت اسلامی کو اس سیاسی آئی سی یو سے نکالنا ہے تو سراج الحق کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہوگا۔ نیا خون سامنے لائیں جن میں جینے سے زیادہ مرنے کی تڑپ موجود ہے۔ صرف جماعت اسلامی ایسی پڑھی لکھی قیادت سامنے لا سکتی ہے۔ نیا خون ۔ نئی بات۔ نیا جوش ۔ نیا جذبہ۔ اور لڑ کر مرجانے کی تڑپ ہی جماعت اسلامی کو بچا سکتی ہے۔ ورنہ سمجھ لیں کہ معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ جماعت اسلامی کا اصل کام دعوت و تبلیغ کا ہے۔ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام دعوت وتبلیغ والی جماعتیں کر رہی ہیں۔