کیا بلوچستان واپس آ رہا ہے

مسلم لیگ (ن) اگر چاہتی تو بلوچستان میں حکومت بنا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہ کیا.


Zaheer Akhter Bedari June 07, 2013
[email protected]

PESHAWAR: بلوچستان قیام پاکستان کے بعد ہی سے ایک اضطراب کی کیفیت سے دوچار رہا ہے۔ اگرچہ اس کی وجوہات مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں لیکن پچھلے چند سال سے یہ اضطراب ''انحراف'' کی حدود میں داخل ہو گیا ہے اور یہ انحراف آزادی کی مسلح جنگ تک پہنچ گیا ہے۔ بڑے بڑے تجزیہ کار بلوچستان کا اﷲ ہی حافظ ہے کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لیکن مئی میں ہونے والے انتخاب کی مہم نے ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں امید کی ایک کرن پیدا کر دی ہے، عشروں سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ سیاست دان ایک ایک کر کے پاکستان واپس آئے اور 11 مئی کے الیکشن میں حصہ لیا۔

یہ بات بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ 11 مئی کے انتخابات میں کسی بلوچ سیاسی جماعت کو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ اس انتخابی نتائج سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ عوام عشروں پر محیط خون خرابے، سیاسی عدم استحکام سے سخت بیزار ہیں اور بلوچ قوم پرستوں پر سے ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ جب ہم اس منطق کو مان لیتے ہیں تو یہ بھی ماننا پڑ جاتا ہے کہ بلوچ عوام بلوچستان کی جنگ آزادی سے بھی مایوس ہو گئے ہیں اور اسے بلوچ عوام کے مفادات کے خلاف سمجھنے لگے ہیں۔

جس طرح خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا اور حکومت چلانا ایک انتہائی مشکل کام سمجھا جا رہا ہے، یہی حال بلوچستان کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ ملک کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر اپنا اقتدار قائم کر لے، اگر کوئی جماعت کسی صوبے میں اپنے سامنے رکھے ہوئے اقتدار کو قربان کر دیتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس صوبے میں حکومت چلانے کی دشواریوں سے واقف ہے، اس قسم کی مجبوری بعض اوقات اعلیٰ ظرفی میں بدل جاتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) اگر چاہتی تو بلوچستان میں حکومت بنا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہ کیا بلکہ حکومت بنانے کا موقع بلوچ سیاسی جماعتوں کے سپرد کر دیا اور اسے اقتدار پر اقدار کی فتح قرار دیا۔ اس فتح میں سب سے بڑی فتح یہ تسلیم کی جا رہی ہے کہ ماضی کی روایات کے برخلاف سرداروں کے بجائے حکومت چلانے کا اختیار متوسط طبقے کے ایک ایسے فرد کے ہاتھوں میں دے دیا جس کی پہچان روشن خیالی ہے اور اس سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اقتدار کو اپنا حق سمجھنے والے سرداروں نے نہ صرف متوسط طبقے کے ایک فرد کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے قبول کیا بلکہ اسے اپنے تعاون کا یقین بھی دلایا۔

11 مئی کے انتخابات میں عوام نے اپنے روایتی کردار کے بجائے نظم حکمرانی میں ایک تبدیلی کو فوقیت دی ہے جس کا ثبوت پی پی پی کی شکست، اے این پی کا سیاست سے بڑی حد تک خاتمہ اور متحدہ کی ماضی کے مقابلے میں کمزور پوزیشن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ عوامی ذہن میں آنے والی ان تبدیلیوں کا تعلق مختلف علاقوں میں مختلف رہا ہے۔ بلوچستان میں اس تبدیلی کی دو بڑی وجوہات نظر آ رہی ہیں۔ اول یہ کہ بلوچ عوام اب سرداری نظام سے بیزار ہو رہے ہیں دوئم یہ کہ وہ بلوچستان کی جنگ آزادی کو بلوچستان کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دوسرے چھوٹے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی یہ تصور عام رہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا ذمے دار پنجاب ہے۔ چھوٹے صوبوں میں اس قسم کا تصور کیوں ابھرا فی الوقت ہم اس مسئلے کو درگزر کرتے ہوئے بلوچ سیاست دانوں کے تازہ موقف کی طرف آتے ہیں۔ حاصل بزنجو، حئی بلوچ، محمود اچکزئی وغیرہ جیسے سیاست دانوں کا تعلق سردار گھرانوں سے نہیں ہے۔ جب یہ لوگ حالیہ تبدیلیوں پر اظہار رائے کرتے ہیں تو اس میں بڑی معصومیت ہوتی ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی فرماتے ہیں کہ ''نواز شریف نے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی اور حکومت کے قیام کے لیے جس قربانی اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے اس کے لیے بلوچ ان کے شکر گزار ہیں۔

نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ چھوٹی قومیتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا کام پنجاب اور صرف نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل نے مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے فیصلے کو قابل تعریف قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اختر مینگل نے یہ بھی کہا ہے کہ ''اعلان مری پر شادیانے بجانے سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے نئی حکومت کو بلوچستان کے گمبھیر اور انتہائی پیچیدہ مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا ہو گا۔'' یہ ایک دوستانہ انتباہ ہے یا حریفانہ موقف ہے اس پر کوئی قطعی رائے دینا مشکل ہے۔ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے جو افراد جدوجہد کرتے رہے ہیں انھیں ''قوم پرست'' کہا جاتا ہے جو ایک برخود غلط اصطلاح ہے کیونکہ صدیوں میں قوم نہیں قومیت ہوتی ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو ''قومیت پرست'' کہنا چاہیے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ قومیت پرستی از خود تعصب اور نفاق کا سبب بن جاتی ہے جس کا لازمی نتیجہ عوام کی تقسیم کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے ہمارے ملک میں ''قوم پرستی'' کی جنگ لڑنے والے ترقی پسند فکر کے حامل اور طبقاتی سیاست کے علمبردار ہیں۔ یہ دونوں طرز فکر نہ صرف متضاد ہیں بلکہ براہ راست طبقاتی سیاست کے دشمن ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی لڑائی قوم پرستی کے نام پر نہیں بلکہ قومی دھارے میں شامل ہو کر لڑی جاتی۔ تین صوبوں کے قوم یا قومیت پرست طاقتیں اگر ایک قومی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر قومی سیاست کرتیں تو انتشار کا شکار بایاں بازو ایک موثر طاقت بن کر اس جنگ میں شامل ہو جاتا اور اس جنگ کے مثبت فائدے یہ ہوتے کہ بورژوا سیاسی جماعتیں کمزور ہو جاتیں اور ان کے لیے اقتدار تک پہنچنا مشکل ہو جاتا۔

جب چھوٹے صوبوں کی قیادت دائیں بازو کے اتحادی کے ساتھ اقتدار میں آتی تو چھوٹے صوبوں کے حقوق مانگنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے قوم پرست تنہا یہ لڑائی لڑتے رہے اور عوام ان کی متعصب سیاست سے دور ہو کر وفاقی سیاست کرنے والوں کے ساتھ ہو گئے اور آج قوم پرستوں کو نہ صرف نواز شریف کا ممنون و مشکور ہونا پڑ رہا ہے بلکہ بالواسطہ طور پر قوم پرست بورژوا سیاست کو مضبوط بنانے میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور نواز شریف کو بہت سارے ایسے اعزازات سے نواز رہے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں۔ اگر چھوٹے صوبوں کی قیادت بڑے ویژن کے ساتھ سیاست کرے گی تو عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔

آج بلوچستان جن مسائل سے دو چار ہے وہ بڑے گمبھیر اور پیچیدہ ہیں۔ ان میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ اعلیٰ عدلیہ، سیاست دان، سول سوسائٹی سب ہی اس مسئلے کے حل کے لیے بے چین ہیں۔ ویسے تو اس مسئلے کے شارٹ ٹرم حل نکالے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں اس مسئلے کا طویل المدتی حل یہ ہے کہ اب بلوچستان میں لڑی جانے والی آزادی کی جنگ کو ختم کیا جائے اور پہاڑوں سے لوگوں کو نیچے لایا جائے۔

بلوچستان کی گنجلک صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی انتہاپسند گروہ بھی بلوچستان میں قتل و غارت کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اگر انحراف کی جنگ ختم ہو جائے اور مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے پر اتفاق ہو جائے تو دہشت گردوں کے گلے میں خود بخود رسی پڑ جائے گی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت رک جائے گی۔ بلوچستان میں بلوچوں کو حکومت بنانے دینا اتنا بڑا کارنامہ نہیں کہ اس پر کسی کو ایوارڈز سے نوازا جائے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نئی حکومت مکمل طور پر آزاد ہو اور با اختیار ہو۔ بلوچستان کی آبادی دوسرے چھوٹے صوبوں سے بھی کم ہے لیکن رقبے اور معدنی دولت کے حوالے سے بلوچستان دوسرے صوبوں سے بڑا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی معدنی دولت کو اپنے صوبے کی ترقی کے لیے استعمال کرنے میں آزاد ہوں۔

سرداروں کی دولت میں اضافے کے لیے بلوچستان کے وسائل کو استعمال کرنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ گوادر پورٹ مستقبل میں صوبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ گوادر پورٹ کے انتظامی اختیارات بلوچوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے جب تک یہ معاملات طے نہیں پاتے کسی کی کوئی قربانی بامعنی ہو سکتی ہے نہ کوئی کسی اعزاز کا مستحق ٹھہر سکتا ہے۔ بہرحال بلوچستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ کیا بلوچستان واپس آ رہا ہے؟ اگر قوم پرست اور بایاں بازو متحد ہو کر وفاقی سیاست کریں تو پاکستان واپس آ سکتا ہے...!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں