اپوزیشن کے بغیر حکومت

آج کے حکمرانوں کو یہ سب خوب معلوم ہے کیونکہ یہی اس حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن تھے.


Abdul Qadir Hassan June 07, 2013
[email protected]

لاہور: میاں صاحبان غیر معمولی طاقت کے ساتھ الیکشن جیت گئے۔ اس کامیابی کی پہلی خبر مجھے فوری طور پر عالمی ماہر امراض قلب ڈاکٹر شہر یار شیخ نے سنائی، یہ کہہ کر میں اس کی مبارک باد دینا چاہتا ہوں اس لیے آپ کا نام ہی فوری طور پر ذہن میں آیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ میاں صاحبان سے پرانا تعلق فرسودہ ہو جانے کے باوجود مجھے ان کی کامیابی کی بہت خوشی ہوئی۔

یہ بھائی نام کے ہی نہیں اخلاق اور عمل کے بھی شریف ہیں۔ یہ اقتدار میں ہوں اور آج کے غیر معمولی اقتدار میں یا اپوزیشن میں ہوں ہر حال میں اپنی طبعی شرافت کا وصف ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اس لیے قوم نے ان پر جو غیر معمولی حیران کن تاریخی اعتماد کیا ہے، یہ ان کو مبارک ہو۔ اسے شرعی اصطلاح میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان پر قوم نے اتمام حجت کر دیا ہے اور نئے محاورے میں گیند ان کے میدان میں پھینک دی ہے، ان کے سامنے قوم کے مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں ۔گزشتہ حیران کن حکومت نے مسائل سے لاپرواہی اور چشم پوشی کرنے کا کمال کر دیا ہے۔

آج کے حکمرانوں کو یہ سب خوب معلوم ہے کیونکہ یہی اس حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن تھے اور اندر باہر سے واقف تھے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو بجلی کی نایابی کا ہے جو حکمرانوں کے منہ پر اور ہر طرف منڈلا رہا ہے اور وہ بار بار گھبرا کر اس کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کے جو اہم پہلو ہیں ان میں ایک تھا بجلی کی پیداوار سے لاپرواہی، دوسرے بجلی کی غیر قدرتی اور غیر پاکستانی ذریعوں سے فراہمی اور اس کی ''درآمد''ہے جس میں اربوں کمائے گئے اور سب کے سامنے۔ ہمارے نئے حکمران آیندہ تو جو کریں گے سو کریں گے۔

لیکن جو قوم کو اندھیروں میں دھکیلنے والے زندہ و سلامت موجود ہیں بلکہ دندناتے پھر رہے ہیں ان کا ہمارے نئے حکمرانوں نے ذکر تک نہیں کیا جن افسروں کے نام آ رہے ہیں ان کے بھی صرف بے ضرر تبادلوں کا ذکر ہو رہا ہے جو قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ قوم اپنے مجرموں کو پکڑنا چاہتی ہے، ان سے اپنا حساب لینا چاہتی ہے جس معاشرے میں احتساب نہ ہو وہ خود بخود ہی مر جاتا ہے اور میاں صاحبان اس کو خوب سمجھتے جانتے ہیں۔ بجلی میں اضافہ تو انتظامی معاملہ ہے اور جاری و ساری کرپشن کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ ہمارے حکمرانوں نے کرپشن اور رشوت ستانی کو کتے کی موت مارنے کا اعلان کر رہے ہیں خدا انھیں کامیاب کرے۔

میں جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ مبارک سلامت کے شور میں یہ کمزور سی تحریر کہیں گم ہو جائے گی اور یہ بالکل قدرتی بات ہے۔ یہ سب کچھ جن لوگوں کے نام ہے انھوں نے نہ صرف الیکشن جیتا ہے بلکہ انتخابی دنیا کی ایک تاریخ بنائی ہے۔ ان کی سرمستی کا اندازہ بہت مشکل ہے، آج وہ خود بھی اس نشے کی تندی کا اندازہ نہیں کر سکتے، وقت کے ساتھ ساتھ حالات نارمل ہوں گے اور حکمران ذرا جم کر اپنے تخت پر بیٹھیں گے تو ان پر سب راز کھلیں گے فی الحال انھیں زیادہ نہیں تو مختصر سے ہنی مون کا حق حاصل ہے،

ان کے اقتدار کا یہ عالم اور اس کی تاریخ قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ جیل جلا وطنی سب کچھ دیکھا اور اب یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار کی نعمتیں سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔ قرآن پاک میں ہے کہ ''ہم دنوں کو انسانوں کے اندر پھیرتے رہتے ہیں'' قدرت کے اس کرشمے کا ایک نمونہ ہمارے سامنے ہے اور انھی دنوں ہم ایک آمر مطلق کو بھی کسمپرسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں اور قوم پکار رہی ہے کہ آئین کا یہ مجرم جانے نہ پائے۔ قدرت اس کے ہاں بھی دنوں کو پھیر رہی ہے۔

اس وقت لمبی چوڑی باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی موقع ہے کیونکہ سننے والے نہ جانے کس حال اور کیفیت میں ہیں لیکن ایک بات کی طرف حکمرانوں اور عوام کی توجہ دلانی ضروری ہے کہ اس حکومت کو اس مطلق سیاسی اقتدار کے باوجود اپوزیشن کی نعمت میسر نہیں ہے۔ حکومتیں اپوزیشن کے دباؤ میں رہ کر ہی صحیح کام کرتی ہیں۔ تنقید سے آزاد حکمران فرعون بن جاتے ہیں اور کسی نیل میں غرق ہو جاتے ہیں۔ قاہرہ کے عجائب گھر میں وہ فرعون بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا ہوا ہے جسے فرعون موسیٰ بھی کہتے ہیں۔ میں نہ جانے کن حیرتوں میں گم قدرت کے انتقام کا یہ عجوبہ دیکھتا رہا۔

اسے قیامت تک نشان عبرت بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ زمین پر ایسی عبرتیں بہت ہیں مگر ان سے عبرت پکڑنے والے بہت کم۔ تو عرض یہ کر رہا تھا کہ اقتدار کی ہر نعمت میسر مگر اس اقتدار کو سنوارنے والی طاقت موجود نہیں ہے اس منہ اور اقتدار کو قابو میں رکھنے والی طاقت اور اصل اقتدار کے استحکام کا ایک ذریعہ ہے اور اس قدر ضروری ہے کہ میں نے بڑے بڑے حکمرانوں کو اسے پیدا کرتے دیکھا ہے۔ امیر محمد خان کی اسمبلی میں اپوزیشن نہیں تھی یا نہ ہونے کے برابر چنانچہ انھوں نے اسمبلی میں سے کچھ لوگ تلاش کیے اور خواجہ صفدر صاحب کی نگرانی میں ان کو ایک اپوزیشن کی صورت میں منظم کر دیا لیکن تعجب ہے کہ اسمبلی میں تانگے میں سوار ہو کر آنے والی یہ اپوزیشن اس قدر محنت کرتی تھی کہ حکومت کو ہر روز رلاتی تھی۔ لاہور کے پیپلز ہاؤس میں ہر رات اپوزیشن کے کچھ لوگ جمع ہو کر دوسرے دن کے اسمبلی کے ایجنڈے کے بارے میں اپنی پالیسی طے کرتے تھے اور یوں عوام کی صحیح نمایندگی کرتے ان کے نام سے اس اسمبلی کا کچھ بھرم تھا۔ میاں صاحبان اپوزیشن کے بغیر کیسے گزر بسر کریں گے یہ سب دیکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں