شریف اقتدار کے اوّلین یاد گار لمحات
سیاہ شیروانی میں ملبوس محمد نواز شریف تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف پڑھتے ہوئے بھلے لگ رہے تھے.
ایوانِ صدر کی طرف سے آنے والے دعوت نامے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ جناب محمد نواز شریف ٹھیک 5 بجکر دس منٹ پر صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیں گے لیکن بوجوہ وقت کی پابندی نہ کی جا سکی۔ یہ ایک پُرشکوہ تقریب تھی جو ایوانِ صدر کے ایک بلند اور ٹھنڈے ہال میں منعقد ہو رہی تھی۔ لوڈشیڈنگ کا وہاں گزر تک نہ تھا جس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عمران خان کے مقتدر ہونے تک اہلِ اقتدار اور عوام کے درمیان موجود خلیج کو پاٹا نہیں جا سکے گا۔
سیاہ شیروانی میں ملبوس محمد نواز شریف تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف پڑھتے ہوئے بھلے لگ رہے تھے اور جن لوگوں نے تقریباً ڈیڑھ عشرہ قبل اُنہیں بندوق کے زور سے اقتدار کے ایوانوں سے نکالا اور ہتھکڑیاں پہنائی تھیں، اُن کے دلوں پر چُھریاں سی چل رہی ہوں گی اور قرآنِ پاک کی ایک شاندار آیتِ مبارکہ یقیناً، کسی نہ کسی شکل میں، اُن کے دل و دماغ میں گونج رہی ہو گی: ''یہ دِن ہیں جو ہم انسانوں پر پھیر پھیر کر لاتے ہیں۔'' لاریب اِس دنیا کی ہمہ مقتدر ہستی تو صرف اللہ کی ہے۔ باقی سب واہمہ اور خود فریبی ہے۔
سب اقتدار، سب اختیار، یہ خیرہ کن دمک چمک، سب فریب ہیں لیکن اقتدار و اختیار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والا تقریباً ہر شخص اِس کی فریب انگیز گرفت میں آ کر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ اِس کی تازہ مثال اسلام آباد کے مضافات میں اپنے بنائے محل میں نیم قید ایک سابق حکمران ہے جس کا مستقبل عدالتِ کے احکامات طے کریں گے یا اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والے تازہ تازہ حکمران، جو سابق ''ظالموں'' کو معاف کرنے کا دعوی بھی رکھتے ہیں۔ بے شک معاف کرنا اللہ پاک کے نزدیک نہایت پسندیدہ فعل ہے۔ زہے نصیب !!
پاکستان میں جناب نواز شریف کا تیسری بار وزیرِ اعظم بننا معجزہ ہے نہ یہ مرحلہ کسی انقلاب کی جدوجہد سے سامنے آیا ہے۔ یہ دنوں کے ہیر پھیر کی بس ایک کہانی ہے جسے قدرت نے انوکھے انداز میں رقم کیا ہے۔ چمکتی ہوئی سیاہ شیروانی اور دمکتے ہوئے رخساروں کے ساتھ جب میاں صاحب باقاعدہ وزیرِ اعظم بن رہے تھے، میرے ساتھ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی صاحب تشریف فرما تھے۔ آپ ممتاز عالمِ دین اور ایک صوفی منش بزرگ عالمِ دین ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی صاحب، جن کی قسمت میں طالبان کے ہاتھوں شہید ہونا لکھا تھا، کے صاحبزادے اور لاہور کی معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی علیہ رحمہ کے پوتے ہیں۔
میَں نے ڈاکٹر راغب حسین نعیمی صاحب، جن کے شریف خاندان سے گہرے تعلقات چلے آ رہے ہیں، سے کہا: ''حضرت، اِس منظر پر تبصرہ فرمایے۔'' کہنے لگے: ''مجھے یہ منظر دیکھ کر ایک آمر کے ڈھائے جانے والے مظالم بھی یاد آ رہے ہیں، شریف خاندان کے صبر کے مختلف انداز بھی دماغ میں گھوم رہے ہیں اور آیت اللہ خمینیؒ صاحب بھی یاد آ رہے ہیں۔ امام خمینیؒ بھی چودہ سال کی جلا وطنی اور جہاں گردی کے بعد فاتح کی حیثیت سے تہران اُترے تھے اور آج میاں صاحب بھی چودہ سال کے پُر آزمائش لمحات اور جلاوطنی کی تلخیوں سے گزر کر ایک فاتح کی حیثیت سے وزیرِ اعظم بنے ہیں۔
یہ خوشی کا مقام بھی ہے اور ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' کہنے والوں کے سامنے عمل کا ایک بے پناہ ثبوت بھی۔'' میَں نے سوچا: ڈاکٹر راغب صاحب کی باتیں درست ہیں لیکن میاں صاحب کو غالباً امام خمینیؒ کے مقابل کھڑا نہیں کیا جا سکتا کہ آیت اللہ خمینیؒ نے تو مقتدر قوتوں کو حقیقی معنوں میں Up Side down کر دیا تھا، ایک بے مثل انقلاب کے ساتھ جو 34 برس گزرنے کے باوجود آج بھی قوی اور جواں ہمت ہے۔
ایوانِ صدر کی یہ مسحور کن تقریب ایک ایسے ہال میں ہو رہی تھی جس کی چھت سے بیش قیمت فانوس لٹک رہے تھے۔ میرے دائیں ہاتھ وطنِ عزیز کے معروف اور محترم قانون دان علی احمد کُرد تشریف فرما تھے۔ وہی کُرد صاحب جنہوں نے بحالی ٔ تحریکِ چیف جسٹس میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی مگر مقاصد کی تکمیل کے بعد نظر اندازی کا شکار بنا دیے گئے۔ میَں نے کُرد صاحب سے استفسار کیا: ''جنابِ عالی، آج کے دن پر کوئی تبصرہ ؟'' فرمانے لگے: ''یہ ایک بے بدل اور بے مثل دن ہے۔ ایک سنہری دن۔'' پھر وہ رُکے اور کہنے لگے: ''نواز شریف صاحب نے بلوچستان کے نئے حکمرانوں کے بارے میں جو مستحسن فیصلہ کیا ہے، سو سال بعد بلوچستان کی سرزمین یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ اُن کا صوبائی حکمران زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور نوابوں، سرداروں کو اقتدار سے دُور رکھا گیا ہے۔
کاش میاں صاحب اُن وعدہ شکنیوں کا بھی ازالہ کر سکیں جو وعدے سابقہ حکمرانوں نے بلوچستان کے بارے میں کیے لیکن اُن پر واضح طور پر عمل کرنے کی توفیق نہ مل سکی۔'' کُرد صاحب کا شکوہ بجا لیکن جنابِ صدرِ مملکت آصف علی زرداری صاحب، کُرد صاحب ایسے معزز افراد کے گلے شکووں سے اتفاق نہیں کرتے۔ جنابِ صدر نے چند روز قبل پانچ نجی ٹی وی کے لوگوں سے بیک وقت گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کے بارے میں اگر ہم چند وعد ے ایفا نہ کر سکے تو اِس میں بلوچستان کے مقامی حکمرانوں کا بھی قصور تھا۔
ایک مغربی سفارتکار، جو ہمیشہ گہری مسکراہٹ سے ملتے ہیں، سے مضبوط مصافحہ کیا تو وہ از خود خوشی سے بولے: ''آج کا دن، یومِ سعید نہیں ہے؟ کس قدر احسن طریقے سے انتقالِ اقتدار ہوا ہے! پاکستانی تاریخ میں شاید پہلی بار۔'' کیا جناب نواز شریف کے لیے مقامِ مسرت اور مقامِ فخر نہیں ہے کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک لاتعداد افراد نے اُن سے بلند توقعات وابستہ کر لی ہیں؟ حلف کے بعد مخالفانہ سمت میں واقع ایک اور بڑے ہال میں خور و نوش کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا لیکن روایتی طور پر مہمانوں کی وہاں بِھیڑ نظر آئی نہ ہڑبونگ کا منظر پیدا ہوا۔
ہال کے درمیان میں وزیرِ اعظم محمد نواز شریف سے ملنے کے لیے سفارت کاروں، بیورو کریٹس، ارکانِ اسمبلی اور اخبار نویسوں کی لمبی لائن لگ چکی تھی۔
اِن دونوں ہالز کے درمیان ایک فراخ جگہ پر برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن کھڑے تھے۔ میَں نے اُن سے مصافحہ کیا اور انتقالِ اقتدار کے اُن تازہ لمحات پر کمنٹ کرنے کی درخواست کی۔ کہنے لگے: ''Enthusiastic ۔ میَں نے کہا: ''جمہوریت نے آخر اپنا بہترین انتقام لے ہی لیا؟'' ایک لحظے کے لیے وہ خاموش ہوئے اور اعلیٰ سفارتی آدب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے گویا ہوئے: ''اگر ہم اِس فقرے سے ''انتقام'' کا لفظ حذف کر دیں تو زیادہ مناسب نہ ہو گا؟''
رسید: ''شہباز شریف کے نئے قابلِ تحسین ساتھی'' کے عنوان سے لکھے گئے ہمارے ایک گزشتہ کالم میں پنجابی زبان کے البیلے شاعر شِو کمار بٹالوی کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ وہ سُکھو چک میں پیدا ہوئے تھے لیکن ہمارے بعض قارئین نے اِس سے اتفاق نہیں کیا۔ جناب عارف محمود عارف نے کینیڈا اور ایمسٹرڈیم سے واصف نصیر صاحب نے لکھا ہے کہ شِو کمار بٹالوی ''بڑا پِنڈ '' میں پیدا ہوئے تھے جب کہ طاہر رشید صاحب نے کسی نہ معلوم مقام سے لکھا ہے کہ یہ شاعرِ بے بدل ''بڑا پِنڈ لوٹیاں'' جو قصبہ درمان کے نزدیک واقع ہے، میں پیدا ہوئے تھے۔
چند روز قبل ایک کالم بعنوان ''مولانا محمد احمد لدھیانوی کا منفرد انداز'' لکھا گیا جس میں ہم نے عرض کیا تھا کہ حضرت مولانا کا یہ کہنا غیر مناسب سا ہے کہ ایران اور امریکا نے مل کر اُنہیں انتخابی شکست سے دوچار کیا ہے لیکن حیرت ہے کہ مولانا لدھیانوی صاحب کے فکری و نظری مخالفین نے اِس کالم کی سخت مخالفت کی اور ای میلز کے ذریعے ہمیں پیغامات بھجوائے ہیں کہ اُن کا ذکر نہیں کیا جانا چاہیے۔ حیرت ہوئی کہ ہم انتہا پسندی کے اِس مقام پر بدقسمتی سے پہنچ گئے ہیں کہ اپنے نظریات کے برعکس کسی کا نام بھی سُننا گوارا نہیں کر سکتے۔
یہ دراصل پرلے درجے کا غیر ذمے دارانہ اور عدم روا دارانہ رویہ ہے جو اجتماعی طور پر کسی بھی سماج کے لیے سُمِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمراز، ظہیر شاہ، علی زیدی، ریاض بنگش، سید رضا، زرغام عباس، ڈاکٹر اختر حسین، شبیر اخونزادہ، عامر ملک وغیرہ نے ہمارے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے، افسوس بھی ہوا ہے اور حیرت بھی۔ ایک صاحب نے لکھا: ''بوری سے ڈر گئے یا گولی سے؟'' ایسے الفاظ پر بھلا کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے؟ سوائے اِس کے کہ ان کے لیے دعا کی جائے۔