دیکھنے ہم بھی گئے تھے
2013 تا 2018 کی مدت کے لیے جو قومی اسمبلی تشکیل پائی ہے اس کے ارکان نے حلف اٹھالیا.
انتخابات کا عمل بہرصورت مکمل ہوگیا، نئی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان کی تقریب حلف برداری اور پھر اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے۔ ملک کے وزیراعظم اپنے عہدہ جلیلہ کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ یوں جو خوف و خدشات، امیدیں اور بہتر مستقبل کے خواب پاکستان کے عوام کی جاگتی آنکھوں میں بسے ہوئے تھے ان سب کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ کچھ لوگ یقیناً مایوس ہوئے ہوں گے اور نہ جانے کتنوں کے یہ خواب ''خواب پریشاں'' کی طرح بکھر گئے ہوں اور نہ جانے کتنوں کی دلی مراد اور آرزوئیں بر آئی ہوں گی۔ رہ گئی بہتر مستقبل کی امید، مثبت تبدیلی کا خیال، ابھی اس سفر کا آغاز ہوا ہے۔ ''معرکہ بیم و رجا'' جاری ہے، دیکھیے وقت کیا دکھاتا ہے۔۔۔۔ بہرحال ہمارے انداز فکر و عمل میں رجائیت کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔ مگر حالات اور زمینی حقائق پر بھی مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
2013 تا 2018 کی مدت کے لیے جو قومی اسمبلی تشکیل پائی ہے اس کے ارکان نے حلف اٹھالیا تو اب اس اسمبلی کے سفر کا تو آغاز ہوچکا ہے۔ ملک کی معاشی و معاشرتی اور امن و امان کی صورت حال اس قدر گمبھیر ہے کہ بڑے بڑے تجزیہ نگار کوئی بات حتمی طور پر واضح نہیں کرپارہے ہیں۔۔۔۔ بلکہ کچھ نے تو ابھی سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے کہ (خدانخواستہ) یہ اسمبلی اپنی مدت بمشکل پوری کرپائے گی۔۔۔۔ کیونکہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس کا نو منتخب حکومت کو سامنا ہے وہ ہے ''امن وامان کی صورت حال''۔ بہرحال ہم ملکی حالات کا تجزیہ کرنے نہیں بیٹھے تھے بلکہ کچھ قومی اسمبلی کی رسم حلف برداری کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا مقصود تھا۔
انتخابات 2013 کے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل سے لے کر انتخابات منعقد ہونے تک (11 مئی 2013) کے حالات پر اگر سرسری سی نظر ڈالی جائے تو کچھ حقائق واضح ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔۔۔۔ پوری قوم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہی نیک خواہشات اور خوشگوار امیدیں وابستہ کرلی تھیں اور پھر جوں جوں کمیشن کی اصلاحات اور کارکردگی سامنے آتی گئی تو لوگوں کے احساسات بھی ڈانواں ڈول ہوتے رہے۔ آئین کی شق نمبر 63-62 کی جانب طاہر القادری نے توجہ مبذول کروائی۔
الیکشن کمیشن نے فوراً اس کا نوٹس لیا۔ اسکروٹنی کی چھلنی کو بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی، مختلف حوالے سے لوگ نااہل قرار پائے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ چھلنی کے سوراخ تو بہت بڑے تھے تقریباً تمام ہی موٹی آسامیاں ان سے نکل گئیں اور بڑے نامی گرامی حضرات ''صادق و امین'' قرار پاگئے۔۔۔۔ پھر انتخابات تمام تر خوف و فکرمندی اور دہشت گردی کو شکست دے کر وقت مقررہ پر منعقد ہوگئے جو الیکشن کمیشن کا واقعی ایک کارنامہ ہے، یوں الیکشن کمیشن اور دیگر ذمے داران نے سکھ کا سانس ابھی پوری طرح لیا بھی نہ تھا کہ دھاندلی اور بدعنوانی کے چرچے گھر گھر، گلی گلی ہونے لگے۔۔۔۔ وہ جو کروڑوں خرچ کرکے بھی ہار گئے انھوں نے اپنے مقابلے پر جیتنے والے کو مورد الزام ٹھہرایا اور اس کو دھاندلی کا ذمے دار قرار دیا۔۔۔۔ اس میں بہت کچھ سچ تھا اور بہت کچھ غلط، لیکن ایک چیز بالکل واضح اور حقیقت پر مبنی تھی وہ تھی ''بدانتظامی اور غیر ذمے داری''۔۔۔۔۔ بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر انتظامات اس قدر ناقص تھے کہ کہیں عملہ رات سے بھوکا پیاسا موجود تھا تو سامان غائب اور اگر کہیں سامان موجود تو عملہ غیر حاضر۔
کتنے بوتھ ایسے تھے کہ وہاں آخر وقت تک عملہ ناکافی ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل سست رفتاری کا شکار رہا۔ اخبارات اور الیکٹرونکس ذرایع ابلاغ پر بھی اس قسم کی خبریں آتی رہیں کہ تمام خدشات اور اندیشوں کے باوجود ووٹرز کی بڑی تعداد صبح سے ہی اپنے انتخابی حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر موجود تھی مگر انتخابات کا عمل تاخیر سے اور کہیں رات تک شروع ہی نہ ہوسکا۔۔۔۔ مطلب یہ کہ بعض حلقوں میں بدنظمی ان انتخابات کا ایک اہم عنصر رہا۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور جدید اور ذرایع آمدورفت کے پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور تیز رفتار ہونے کے باوجود اس قسم کی بدنظمی ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔ اس صورت حال میں انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں جس بھی ردعمل کا اظہار کریں اس میں وہ حق بجانب ہیں۔
نو منتخب ارکان اسمبلی کی تقریب رسم حلف برداری کا وقت گیارہ بجے دیا گیا تھا جب کہ تقریباً بارہ چالیس پر تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا یعنی لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے۔ ادھر تمام ارکان اسمبلی کی نشستوں کی ترتیب حرف تہجی کے لحاظ سے کی گئی تھی۔ تمام اراکین کو ان کی نشستوں تک رہنمائی کے لیے تقریباً چھ افراد ناموں کی فہرست بغل میں دبائے نومنتخب ارکان کو ان کی جگہ پر پہنچانے پر مقرر تھے ، بعض ایم این ایز کو کئی بار اپنی نشستیں بدلنی پڑیں۔ مہمانوں کی گیلریوں کا عالم یہ تھا کہ مچھلی بازار کا سماں پیش کر رہی تھیں۔
آدمی پر آدمی چڑھا ہوا تھا ایک ایک نشست پر دو دو افراد براجمان ہونے کے باوجود، کھڑے ہوئے افراد کی تعداد بھی خاصی تھی۔ سب سے اوپر کی گیلری کی گرل پر لوگ لٹکے ہوئے تھے۔ وی پی آئی گیلری میں بھی گنجائش سے زیادہ افراد بھرے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اس ہال میں ممبران کے لیے کتنی نشستیں ہیں اور مہمانوں کے لیے کتنی، یہ تو سب کو معلوم ہی ہوگا پھر آخر اتنی اہم جگہ پر اتنا رش کیوں اور کیسے؟ تقریب کے بعد جب باہر آکر ذمے داران سے اس سلسلے میں بات کی تو معلوم ہوا کچھ مخصوص اور بااثر افراد نے عملے سے زبردستی (یعنی مار پٹائی کرکے) پچاس پچاس پاس حاصل کرلیے تھے اور صبح ہی سے اپنے جتھے لے کر ہال کی نشستوں پر قابض ہوگئے تھے جب کہ تمام ایم این ایز کے لیے صرف دو دو کا کوٹہ تھا۔ اس صورت حال کے باعث کئی ایم این ایز کے مہمان باہر گرمی میں آخر وقت تک اپنے پیاروں کو حلف اٹھاتے دیکھنے کے منتظر رہے۔
حلف برداری کے بعد جب نومنتخب ارکان قومی اسمبلی دستخط کرنے کے لیے جاتے اور واپس آتے تو ان کے حمایتی زبردست نعرے لگاتے اور تالیاں بجاکر اپنی مسرت کا اظہار کرتے۔ اسمبلی میں نظم و ضبط پر مامور عملہ بار بار لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کرتا رہا اور کہتا رہا کہ میڈم (اسپیکر صاحبہ) کئی بار منع کراچکی ہیں کہ یہ سب اسمبلی کے وقار کے منافی ہے مگر لوگ آخر تک باز نہ آئے۔ شیخ رشید کی آمد پر بھی نعرے بازی ہوئی۔۔۔۔ کسی کونے سے جئے بھٹو کا نعرہ بھی بلند ہوا مگر شور میں جلد ہی گم ہوگیا۔کیا یہ صورتحال خوش آیند ہے؟
2013 تا 2018 کی مدت کے لیے جو قومی اسمبلی تشکیل پائی ہے اس کے ارکان نے حلف اٹھالیا تو اب اس اسمبلی کے سفر کا تو آغاز ہوچکا ہے۔ ملک کی معاشی و معاشرتی اور امن و امان کی صورت حال اس قدر گمبھیر ہے کہ بڑے بڑے تجزیہ نگار کوئی بات حتمی طور پر واضح نہیں کرپارہے ہیں۔۔۔۔ بلکہ کچھ نے تو ابھی سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے کہ (خدانخواستہ) یہ اسمبلی اپنی مدت بمشکل پوری کرپائے گی۔۔۔۔ کیونکہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس کا نو منتخب حکومت کو سامنا ہے وہ ہے ''امن وامان کی صورت حال''۔ بہرحال ہم ملکی حالات کا تجزیہ کرنے نہیں بیٹھے تھے بلکہ کچھ قومی اسمبلی کی رسم حلف برداری کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا مقصود تھا۔
انتخابات 2013 کے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل سے لے کر انتخابات منعقد ہونے تک (11 مئی 2013) کے حالات پر اگر سرسری سی نظر ڈالی جائے تو کچھ حقائق واضح ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔۔۔۔ پوری قوم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہی نیک خواہشات اور خوشگوار امیدیں وابستہ کرلی تھیں اور پھر جوں جوں کمیشن کی اصلاحات اور کارکردگی سامنے آتی گئی تو لوگوں کے احساسات بھی ڈانواں ڈول ہوتے رہے۔ آئین کی شق نمبر 63-62 کی جانب طاہر القادری نے توجہ مبذول کروائی۔
الیکشن کمیشن نے فوراً اس کا نوٹس لیا۔ اسکروٹنی کی چھلنی کو بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی، مختلف حوالے سے لوگ نااہل قرار پائے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ چھلنی کے سوراخ تو بہت بڑے تھے تقریباً تمام ہی موٹی آسامیاں ان سے نکل گئیں اور بڑے نامی گرامی حضرات ''صادق و امین'' قرار پاگئے۔۔۔۔ پھر انتخابات تمام تر خوف و فکرمندی اور دہشت گردی کو شکست دے کر وقت مقررہ پر منعقد ہوگئے جو الیکشن کمیشن کا واقعی ایک کارنامہ ہے، یوں الیکشن کمیشن اور دیگر ذمے داران نے سکھ کا سانس ابھی پوری طرح لیا بھی نہ تھا کہ دھاندلی اور بدعنوانی کے چرچے گھر گھر، گلی گلی ہونے لگے۔۔۔۔ وہ جو کروڑوں خرچ کرکے بھی ہار گئے انھوں نے اپنے مقابلے پر جیتنے والے کو مورد الزام ٹھہرایا اور اس کو دھاندلی کا ذمے دار قرار دیا۔۔۔۔ اس میں بہت کچھ سچ تھا اور بہت کچھ غلط، لیکن ایک چیز بالکل واضح اور حقیقت پر مبنی تھی وہ تھی ''بدانتظامی اور غیر ذمے داری''۔۔۔۔۔ بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر انتظامات اس قدر ناقص تھے کہ کہیں عملہ رات سے بھوکا پیاسا موجود تھا تو سامان غائب اور اگر کہیں سامان موجود تو عملہ غیر حاضر۔
کتنے بوتھ ایسے تھے کہ وہاں آخر وقت تک عملہ ناکافی ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل سست رفتاری کا شکار رہا۔ اخبارات اور الیکٹرونکس ذرایع ابلاغ پر بھی اس قسم کی خبریں آتی رہیں کہ تمام خدشات اور اندیشوں کے باوجود ووٹرز کی بڑی تعداد صبح سے ہی اپنے انتخابی حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر موجود تھی مگر انتخابات کا عمل تاخیر سے اور کہیں رات تک شروع ہی نہ ہوسکا۔۔۔۔ مطلب یہ کہ بعض حلقوں میں بدنظمی ان انتخابات کا ایک اہم عنصر رہا۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور جدید اور ذرایع آمدورفت کے پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور تیز رفتار ہونے کے باوجود اس قسم کی بدنظمی ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔ اس صورت حال میں انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں جس بھی ردعمل کا اظہار کریں اس میں وہ حق بجانب ہیں۔
نو منتخب ارکان اسمبلی کی تقریب رسم حلف برداری کا وقت گیارہ بجے دیا گیا تھا جب کہ تقریباً بارہ چالیس پر تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا یعنی لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے۔ ادھر تمام ارکان اسمبلی کی نشستوں کی ترتیب حرف تہجی کے لحاظ سے کی گئی تھی۔ تمام اراکین کو ان کی نشستوں تک رہنمائی کے لیے تقریباً چھ افراد ناموں کی فہرست بغل میں دبائے نومنتخب ارکان کو ان کی جگہ پر پہنچانے پر مقرر تھے ، بعض ایم این ایز کو کئی بار اپنی نشستیں بدلنی پڑیں۔ مہمانوں کی گیلریوں کا عالم یہ تھا کہ مچھلی بازار کا سماں پیش کر رہی تھیں۔
آدمی پر آدمی چڑھا ہوا تھا ایک ایک نشست پر دو دو افراد براجمان ہونے کے باوجود، کھڑے ہوئے افراد کی تعداد بھی خاصی تھی۔ سب سے اوپر کی گیلری کی گرل پر لوگ لٹکے ہوئے تھے۔ وی پی آئی گیلری میں بھی گنجائش سے زیادہ افراد بھرے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اس ہال میں ممبران کے لیے کتنی نشستیں ہیں اور مہمانوں کے لیے کتنی، یہ تو سب کو معلوم ہی ہوگا پھر آخر اتنی اہم جگہ پر اتنا رش کیوں اور کیسے؟ تقریب کے بعد جب باہر آکر ذمے داران سے اس سلسلے میں بات کی تو معلوم ہوا کچھ مخصوص اور بااثر افراد نے عملے سے زبردستی (یعنی مار پٹائی کرکے) پچاس پچاس پاس حاصل کرلیے تھے اور صبح ہی سے اپنے جتھے لے کر ہال کی نشستوں پر قابض ہوگئے تھے جب کہ تمام ایم این ایز کے لیے صرف دو دو کا کوٹہ تھا۔ اس صورت حال کے باعث کئی ایم این ایز کے مہمان باہر گرمی میں آخر وقت تک اپنے پیاروں کو حلف اٹھاتے دیکھنے کے منتظر رہے۔
حلف برداری کے بعد جب نومنتخب ارکان قومی اسمبلی دستخط کرنے کے لیے جاتے اور واپس آتے تو ان کے حمایتی زبردست نعرے لگاتے اور تالیاں بجاکر اپنی مسرت کا اظہار کرتے۔ اسمبلی میں نظم و ضبط پر مامور عملہ بار بار لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کرتا رہا اور کہتا رہا کہ میڈم (اسپیکر صاحبہ) کئی بار منع کراچکی ہیں کہ یہ سب اسمبلی کے وقار کے منافی ہے مگر لوگ آخر تک باز نہ آئے۔ شیخ رشید کی آمد پر بھی نعرے بازی ہوئی۔۔۔۔ کسی کونے سے جئے بھٹو کا نعرہ بھی بلند ہوا مگر شور میں جلد ہی گم ہوگیا۔کیا یہ صورتحال خوش آیند ہے؟