کراچی کا بدلتا سیاسی رجحان
پیپلز پارٹی کی کراچی میں پہلے بھی دیہی اور مخصوص علاقوں کی نشستیں تھیں جن میں کمی آئی ہے.
11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے نتائج نے کراچی کے عوام کے بدلتے سیاسی رجحان کا اشارہ دے دیا ہے جس کے نتیجے میں کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے بھی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے جہاں بعض تلخ حقائق کا اعتراف کیا وہاں متحدہ کی حکومت میں دس سالہ شمولیت سے پیدا ہونے والے معاملات اور خامیوں کو مدنظر رکھ کر متحدہ میں تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں جس کے نتائج آنے والے وقت ہی میں سامنے آسکیں گے۔
پی پی کی سندھ میں جو اتحادی جماعتیں تھیں ان میں فنکشنل لیگ کے علاوہ پی پی، متحدہ اور اے این پی نے آپس میں کوئی اتحاد نہیں کیا اور انفرادی طور پر انتخاب لڑا جس میں متحدہ اور پی پی کے ہاتھ سے بعض نشستیں نکل گئیں جب کہ اے این پی اپنی دو نشستوں سے بھی محروم ہوگئی۔ جماعت اسلامی سندھ کے 10 جماعتی اتحاد میں شامل تھی مگر بائیکاٹ کی عادی جماعت اسلامی کراچی اور حیدر آباد میں بھی اس اتحاد کا کوئی فائدہ نہ لے سکی اور اپنی شکست دیکھ کر بائیکاٹ کرگئی۔
متحدہ نے کراچی میں حلقہ این اے 250 میں 43 پولنگ اسٹیشنوں کی پولنگ کا بائیکاٹ کرکے اپنی ایک نشست گنوادی جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ابھی انتخاب ہونا باقی ہے اور اب متحدہ کے پاس قومی اسمبلی کی 23 اور سندھ اسمبلی کی 48 نشستیں ہیں جب کہ پہلے 50 تھیں۔
پیپلز پارٹی کی کراچی میں پہلے بھی دیہی اور مخصوص علاقوں کی نشستیں تھیں جن میں کمی آئی ہے جب کہ پہلی بار مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے کچھ نشستیں کراچی سے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور تحریک انصاف نے خاص طور پر کراچی میں سوا چھ لاکھ سے زائد ووٹ لے کر متحدہ کے ووٹ بینک کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے جس نے متحدہ کے لیے خطرے کی خاص طور پر گھنٹی بجا دی ہے ۔ تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ جماعت اسلامی سے بہت زیادہ ہیں۔ کراچی میں ویسے بھی جماعت اسلامی کا ووٹ بینک محدود ہے جو اسے ہمیشہ ملتا رہا ہے۔
2002 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو ایم ایم اے کی وجہ سے چند نشستیں مل گئی تھیں جو باہمی انتشار کی نذر ہوگئی ہیں، جماعت اسلامی کو کراچی میئر شپ 3 بار حاصل ہوئی اور ان کے دور میں کراچی میں خاصے ترقیاتی کام بھی ہوئے۔ کراچی میں جماعت اسلامی ایک مضبوط سیاسی قوت بھی رہی جس کے کراچی سے ارکان اسمبلی متعدد بار منتخب ہوئے۔ کراچی میں جے یو پی بھی کبھی سیاسی طاقت تھی مگر ان دونوں کو کراچی و حیدرآباد کے عوام نے مسترد اور 1988 سے متحدہ کے ارکان اسمبلی کو منتخب کرنا شروع کردیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کراچی کے بلدیاتی سربراہ بھی رہے اور مصطفیٰ کمال کے دور کی ترقی کو سراہا گیا۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ کی سٹی حکومت کو جماعت اسلامی کے ناظم سے بھی زیادہ فنڈز ملے اور کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام بھی ہوئے اور متحدہ دس سال تک وفاق اور سندھ حکومت میں شامل رہی مگر متحدہ 2008 کے انتخابات میں اپنی زبردست کامیابی کو کیش نہ کراسکی۔ متحدہ کے پاس اگر کوئی مولانا فضل الرحمن ہوتا تو متحدہ صدر زرداری سے سندھ کی وزارت اعلیٰ یا داخلہ، تعلیم، خزانہ اور بلدیات جیسے اہم محکموں کی وزارتیں لے سکتی تھی کیونکہ گیلانی حکومت سے مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد متحدہ اس پوزیشن میں تھی۔ صدر زرداری کی نامزدگی متحدہ نے کی تھی مگر متحدہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں صدر زرداری کے وعدوں پر خود کو بہلاتی رہی اور صدر زرداری نے بلدیاتی انتخابات کراکر متحدہ کو کراچی اور حیدر آباد کا بلدیاتی اقتدار نہیں دیا۔
سندھ کے وزیر بلدیات نے کئی بار بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا مگر الیکشن نہیں کرائے۔ پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے پرایوں جیسا سلوک کیا اور انھیں اپنے ملازموں کو تنخواہ دینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اور متحدہ بے بسی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتی اور اقتدار سے چمٹی رہی۔ متحدہ پی پی حکومت میں چند غیر اہم وزارتوں پر قناعت کیے بیٹھی رہی اور کراچی میں کوئی اہم کام نہ کراسکی۔
کراچی میں اے این پی کو صرف دو صوبائی نشستیں ملی تھیں مگر شاہی سید جو لاکھوں پختونوں کے واحد رہنما بنے متحدہ کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ صدر زرداری نے اے این پی کو کراچی میں ایک وزارت دی تو اے این پی خود کو کراچی کیا پورے سندھ کا واحد ٹھیکیدار سمجھ بیٹھی ۔ بلاشبہ کراچی میں لاکھوں پختون آباد ہیں جنہوں نے کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی محنت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں آباد پختون زیادہ تر غیر سیاسی ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور جو سیاست میں ہیں وہ صرف اے این پی میں نہیں بلکہ جے یو آئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں میں شامل ہیں اور اے این پی کراچی میں رہنے والے پختونوں کی تنہا ٹھیکیدار نہیں ہے۔اسی طرح اردو بولنے والے بھی صرف ایم کیو ایم تک محدود نہیں لاکھوں اردو بولنے والے پی پی ، مسلم لیگ، جماعت اسلامی،جے یو پی، جے یو آئی، سنی تحریک،جمیعت اہلحدیث، جماعت اہلسنت،اور بائیں بازو کی جماعتوں میں شامل ہیں۔ کراچی کثرتیت پسند شہر ہے۔
کراچی کے پختونوں نے اس بار اے این پی کا ایک بھی رکن سندھ اسمبلی منتخب نہیں کیا، جے یو آئی بھی اپنا کوئی امیدوار کامیاب نہ کراسکی۔ پیپلز پارٹی بھی ناکام رہی البتہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کراچی سے کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے متحدہ کاووٹ بینک توڑا اور اس کے بے نام امیدواروں نے متحدہ کے بعض اہم حلقوں سے ہزاروں ووٹ لے کر سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے جو کراچی کے بدلتے سیاسی رجحان کا واضح ثبوت ہے۔یہ اس جبر کا نتیجہ ہے جو شہر میں سیاسی تسلط کے نام پر جاری ہے۔
کراچی میں جے یو پی اور جماعت اسلامی ڈھائی دہائیوں میں متحدہ کا ووٹ بینک توڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں اور جو کام یہ دونوں جماعتیں اور پی پی نہ کرسکیں وہ پی ٹی آئی نے کر دکھایا، عروج کو زوال یقینی ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی اب دوسری بار زوال کا شکار ہوئی ہے اور اپنی پالیسی کے باعث کراچی میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی بجائے مزید گھٹا چکی ہے۔
متحدہ کے قائد نے کراچی کے بدلتے سیاسی رجحان کے باعث ہی متحدہ میں تطہیری عمل شروع کیا ہے اور متحدہ نے دونوں جگہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج بھی شروع کردیا ہے جو اگر بڑھتا گیا اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور بھتہ خوری پر سندھ حکومت نے قابو نہ پایا تو گورنر راج کی تلوار لٹکی رہی گی جس کے نتائج پی پی حکومت ہی نہیں متحدہ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔لہٰذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں کراچی میں مل بیٹھ کر جمہوری عمل کو امن کے راستے پر ڈالنے کی مشترکہ کوششیں کریں۔اسی میں کراچی کے عوام کا مفاد ہے۔
پی پی کی سندھ میں جو اتحادی جماعتیں تھیں ان میں فنکشنل لیگ کے علاوہ پی پی، متحدہ اور اے این پی نے آپس میں کوئی اتحاد نہیں کیا اور انفرادی طور پر انتخاب لڑا جس میں متحدہ اور پی پی کے ہاتھ سے بعض نشستیں نکل گئیں جب کہ اے این پی اپنی دو نشستوں سے بھی محروم ہوگئی۔ جماعت اسلامی سندھ کے 10 جماعتی اتحاد میں شامل تھی مگر بائیکاٹ کی عادی جماعت اسلامی کراچی اور حیدر آباد میں بھی اس اتحاد کا کوئی فائدہ نہ لے سکی اور اپنی شکست دیکھ کر بائیکاٹ کرگئی۔
متحدہ نے کراچی میں حلقہ این اے 250 میں 43 پولنگ اسٹیشنوں کی پولنگ کا بائیکاٹ کرکے اپنی ایک نشست گنوادی جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ابھی انتخاب ہونا باقی ہے اور اب متحدہ کے پاس قومی اسمبلی کی 23 اور سندھ اسمبلی کی 48 نشستیں ہیں جب کہ پہلے 50 تھیں۔
پیپلز پارٹی کی کراچی میں پہلے بھی دیہی اور مخصوص علاقوں کی نشستیں تھیں جن میں کمی آئی ہے جب کہ پہلی بار مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے کچھ نشستیں کراچی سے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور تحریک انصاف نے خاص طور پر کراچی میں سوا چھ لاکھ سے زائد ووٹ لے کر متحدہ کے ووٹ بینک کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے جس نے متحدہ کے لیے خطرے کی خاص طور پر گھنٹی بجا دی ہے ۔ تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ جماعت اسلامی سے بہت زیادہ ہیں۔ کراچی میں ویسے بھی جماعت اسلامی کا ووٹ بینک محدود ہے جو اسے ہمیشہ ملتا رہا ہے۔
2002 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو ایم ایم اے کی وجہ سے چند نشستیں مل گئی تھیں جو باہمی انتشار کی نذر ہوگئی ہیں، جماعت اسلامی کو کراچی میئر شپ 3 بار حاصل ہوئی اور ان کے دور میں کراچی میں خاصے ترقیاتی کام بھی ہوئے۔ کراچی میں جماعت اسلامی ایک مضبوط سیاسی قوت بھی رہی جس کے کراچی سے ارکان اسمبلی متعدد بار منتخب ہوئے۔ کراچی میں جے یو پی بھی کبھی سیاسی طاقت تھی مگر ان دونوں کو کراچی و حیدرآباد کے عوام نے مسترد اور 1988 سے متحدہ کے ارکان اسمبلی کو منتخب کرنا شروع کردیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کراچی کے بلدیاتی سربراہ بھی رہے اور مصطفیٰ کمال کے دور کی ترقی کو سراہا گیا۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ کی سٹی حکومت کو جماعت اسلامی کے ناظم سے بھی زیادہ فنڈز ملے اور کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام بھی ہوئے اور متحدہ دس سال تک وفاق اور سندھ حکومت میں شامل رہی مگر متحدہ 2008 کے انتخابات میں اپنی زبردست کامیابی کو کیش نہ کراسکی۔ متحدہ کے پاس اگر کوئی مولانا فضل الرحمن ہوتا تو متحدہ صدر زرداری سے سندھ کی وزارت اعلیٰ یا داخلہ، تعلیم، خزانہ اور بلدیات جیسے اہم محکموں کی وزارتیں لے سکتی تھی کیونکہ گیلانی حکومت سے مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد متحدہ اس پوزیشن میں تھی۔ صدر زرداری کی نامزدگی متحدہ نے کی تھی مگر متحدہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں صدر زرداری کے وعدوں پر خود کو بہلاتی رہی اور صدر زرداری نے بلدیاتی انتخابات کراکر متحدہ کو کراچی اور حیدر آباد کا بلدیاتی اقتدار نہیں دیا۔
سندھ کے وزیر بلدیات نے کئی بار بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا مگر الیکشن نہیں کرائے۔ پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے پرایوں جیسا سلوک کیا اور انھیں اپنے ملازموں کو تنخواہ دینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اور متحدہ بے بسی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتی اور اقتدار سے چمٹی رہی۔ متحدہ پی پی حکومت میں چند غیر اہم وزارتوں پر قناعت کیے بیٹھی رہی اور کراچی میں کوئی اہم کام نہ کراسکی۔
کراچی میں اے این پی کو صرف دو صوبائی نشستیں ملی تھیں مگر شاہی سید جو لاکھوں پختونوں کے واحد رہنما بنے متحدہ کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ صدر زرداری نے اے این پی کو کراچی میں ایک وزارت دی تو اے این پی خود کو کراچی کیا پورے سندھ کا واحد ٹھیکیدار سمجھ بیٹھی ۔ بلاشبہ کراچی میں لاکھوں پختون آباد ہیں جنہوں نے کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی محنت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں آباد پختون زیادہ تر غیر سیاسی ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور جو سیاست میں ہیں وہ صرف اے این پی میں نہیں بلکہ جے یو آئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں میں شامل ہیں اور اے این پی کراچی میں رہنے والے پختونوں کی تنہا ٹھیکیدار نہیں ہے۔اسی طرح اردو بولنے والے بھی صرف ایم کیو ایم تک محدود نہیں لاکھوں اردو بولنے والے پی پی ، مسلم لیگ، جماعت اسلامی،جے یو پی، جے یو آئی، سنی تحریک،جمیعت اہلحدیث، جماعت اہلسنت،اور بائیں بازو کی جماعتوں میں شامل ہیں۔ کراچی کثرتیت پسند شہر ہے۔
کراچی کے پختونوں نے اس بار اے این پی کا ایک بھی رکن سندھ اسمبلی منتخب نہیں کیا، جے یو آئی بھی اپنا کوئی امیدوار کامیاب نہ کراسکی۔ پیپلز پارٹی بھی ناکام رہی البتہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کراچی سے کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے متحدہ کاووٹ بینک توڑا اور اس کے بے نام امیدواروں نے متحدہ کے بعض اہم حلقوں سے ہزاروں ووٹ لے کر سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے جو کراچی کے بدلتے سیاسی رجحان کا واضح ثبوت ہے۔یہ اس جبر کا نتیجہ ہے جو شہر میں سیاسی تسلط کے نام پر جاری ہے۔
کراچی میں جے یو پی اور جماعت اسلامی ڈھائی دہائیوں میں متحدہ کا ووٹ بینک توڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں اور جو کام یہ دونوں جماعتیں اور پی پی نہ کرسکیں وہ پی ٹی آئی نے کر دکھایا، عروج کو زوال یقینی ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی اب دوسری بار زوال کا شکار ہوئی ہے اور اپنی پالیسی کے باعث کراچی میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی بجائے مزید گھٹا چکی ہے۔
متحدہ کے قائد نے کراچی کے بدلتے سیاسی رجحان کے باعث ہی متحدہ میں تطہیری عمل شروع کیا ہے اور متحدہ نے دونوں جگہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج بھی شروع کردیا ہے جو اگر بڑھتا گیا اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور بھتہ خوری پر سندھ حکومت نے قابو نہ پایا تو گورنر راج کی تلوار لٹکی رہی گی جس کے نتائج پی پی حکومت ہی نہیں متحدہ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔لہٰذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں کراچی میں مل بیٹھ کر جمہوری عمل کو امن کے راستے پر ڈالنے کی مشترکہ کوششیں کریں۔اسی میں کراچی کے عوام کا مفاد ہے۔