وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے

موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کی کوئی تجویز کسی بھی...


Editorial August 16, 2012
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نےکہا کہ آیندہ عام انتخابات شفاف اور غیر جانب دارانہ ہوں گے۔ فوٹو: پی آئی ڈی

ISLAMABAD: دو معاملات ایک دوسرے کے متوازی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ ان دونوں ایشوز کا ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ایک تعلق بنتا بھی ہے۔ پہلا ایشو ہے این آر او کیس پر مکمل عمل درآمد جس کے بارے میں عدلیہ کا خیال ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جان بوجھ کر سوئس حکام کو خط نہیں لکھا۔ اس کی پاداش میں ان کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا گیا اور ایک مختصر سزا دینے کے بعد انھیں نااہل بھی گردانا گیا۔ اب وہی معاملہ نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ بھی ہے' ان سے بھی این آر او کیس کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا جا رہا ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں عدالتی احکامات پر نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ پر اٹارنی جنرل کے اعتراض' لارجر بینچ کی تشکیل اور سماعت عید کے بعد تک ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ان درخواستوں میں اٹھائے گئے نکات پر فیصلہ آ جانے کے بعد عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم کے لیے تمام قانونی دروازے بند ہو جائیں گے۔ پانچ رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر صدر کا نام نہ لیا جائے تو وہ خط لکھنے کے معاملے پر بات کر سکتے ہیں۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ صدر کے حوالے سے خط لکھنے کا کوئی حکم نہیں' عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ملک قیوم نے جو خط لکھا وہ غلط تھا اس لیے حکومت اس خط کو واپس لینے کے لیے خط لکھے۔ اس حوالے سے حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چل سکے گا فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ عدل اور انصاف کے تمام تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ایک نیا ایشو سامنے لے کر آئے ہیں۔

انھوں نے ملتان میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک تو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ان کی پذیرائی مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نہ جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ویسے بھی عدالت کو آئینی اختیار نہیں کہ وہ وزیر اعظم کو بُلائے۔ دوسرے انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے ان کا جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر توثیق کے لیے پارلیمنٹ کو بھیجا جانا چاہیے۔ چنانچہ ان مشوروں پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم اگر عدالت نہ گئے یا ان کی تجویز کے مطابق ایگزیکٹو آرڈر پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا تو ظاہر ہے کہ دونوں صورتوں میں ایک نیا آئینی بحران سامنے آنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا اور یوں ممکن ہے سسٹم تو چلتا رہے لیکن موجودہ سیٹ اپ کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم عدالت میں پیش نہ ہوں تو ان کے خلاف یکطرفہ فیصلہ کر کے ان کو چلتا کیا جائے۔ اس پر ہو سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ ویسے بھی حکومت کی جانب سے اگلے انتخابات کی تیاریاں واضح نظر آنا شروع ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلے اپوزیشن کے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور اب وزیر اعظم کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ حکومت نگران سیٹ کے بارے میں تمام سیاسی قوتوں سے بات کرنے کو تیار ہے۔ بدھ کو بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے قرار دیا کہ آیندہ عام انتخابات شفاف اور غیر جانب دارانہ ہوں گے۔

انھوں نے سیاسی جماعتوں کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ آیندہ عام انتخابات کی تیاری کریں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عوام نے جسے مینڈیٹ دیا وہ اسے تسلیم کریں گے۔ یہ ظاہر ہے ایک اچھی پیش رفت ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے تاہم ایسا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب اپوزیشن بھی اس سلسلے میں حکومت کا ساتھ دے۔ کابینہ نے بدھ کو ہونے والے اپنے اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کی توثیق بھی کی۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کی کوئی تجویز کسی بھی سطح پر زیر غور نہیں ہے۔

ان کی اس وضاحت سے اس حوالے سے پھیلی یا پھیلائی گئی خبروں کی خود بخود تردید ہو گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 2011 میں کابینہ نے فیصلہ دیا تھا کہ سیاستدان اور سرکاری ملازمین اپنے اثاثے ظاہر کریں جس پر جزوی طور پر عمل ہوا۔ ہمارے خیال میں اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ ملک سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے اور معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کی جا سکیں۔ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بیوروکریٹس سمیت سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے ججز اور جرنیلوں کے اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون سازی کی جائے گی لہٰذا ایسا کوئی قانون بنتا ہے تو اس سے پورے نظام کو شفاف بنانے میں بڑی مدد ملے گی چنانچہ حکومت کو اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے۔

بی بی سی کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں سیاستدانوں کی طرح ججوں اور جرنیلوں سمیت تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو ہر سال اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بنانے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کا پکا ارادہ رکھتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ کابینہ کے دیگر فیصلوں پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں