پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہ ٹی ہائوس کا کمال ہے کہ وہ اب کسی باہر کے معمار کا شرمندہ احسان نہیں
14 اگست کی مبارک تاریخ اپنی رنگارنگ تقریبات کے ساتھ بخیرو خوبی گزر گئی۔ بخیرو خوبی کا جو ٹکڑا ہم نے لگایا ہے وہ رسمی نہیں ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ ایسے مبارک موقعے پر رنگ میں بھنگ ڈالنے والے کہیں آس پاس ہی منڈلاتے رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں تو ہمارے سیکیورٹی والے اسے کامیابی سمجھتے ہیں اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری یہ تقریب بھی خیریت سے گزرگئی۔
ہاں تو ذکر یہ تھا کہ یہ مبارک تاریخ کتنی رنگارنگ تقاریب اپنے جلو میں لے کر آئی۔ ان تقاریب سے اس موقع پر کتنی گہما گہمی رہی۔ بس یاروں کو ایک تقریب کی حسرت رہ گئی۔ وہ بھی ہو جاتی تو یاروں کی عید ہو جاتی۔ سن رہے تھے کہ پاک ٹی ہائوس کی تعمیر نو مکمل ہوا چاہتی ہے اور بس ان ہی تاریخوں میں اس کی مہورت ہوجائے گی۔ مگر وہ گھڑی پھر ٹل گئی۔ کب سے یہی ہو رہا ہے کہ وہ خوشی کی گھڑی آتے آتے ٹل جاتی ہے۔ کب سے یہ عمل جاری ہے کہ
پلیٹوں کی صدا آتی ہے پر کھانا نہیں آتا
خیر کوئی بات نہیں۔ جتنا التوا ہوتا جاتا ہے انتظار کرنے والوں کے اشتیاق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہر التوا کی خبر کے ساتھ شوق دید بڑھ جاتا ہے۔ اصل میں یاروں کے یہاں ایک تجسس بھی تو ہے کہ ٹی ہائوس اب جو بند ہو کر دوبارہ کھلنے لگا ہے وہ کیسا ہو گا۔
لیکن اس مرتبہ التوا کے اسباب کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے ایک نئے حوالے سے ہمارے اشتیاق میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ جو اب ٹی ہائوس تعمیر نو کے عمل سے گزر رہا ہے اس کا ٹھیکہ معمار ایسوسی ایٹس نام کی فرم کو دیا گیا ہے جس کے مالک ہیں مشہور ڈرامہ نگار انور سجاد۔ ہم تو خوشی سے اچھل پڑے۔ یہ ٹی ہائوس کا کمال ہے کہ وہ اب کسی باہر کے معمار کا شرمندہ احسان نہیں ہے۔ اپنے ہی دامن سے اس نے اپنی تعمیر نو کے لیے ایک معمار برآمد کر لیا ہے۔ انور سجاد ایسے ویسے معمار نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے انھیں جدید اردو افسانے کا معمار اعظم قرار دیا تھا۔
جدید افسانے کی عمارت ویسے تو انھوں نے ٹی ہائوس ہی میں بیٹھ کر کھڑی کی تھی۔ مگر ٹی ہائوس کی مخلوق انھیں گھر کی مرغی سمجھتی رہی۔ معمار اعظم کی سند الٰہ آباد سے آئی۔ تب انھیں پتہ چلا کہ انور سجاد نے کونسا تعمیری کارنامہ انجام دیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ افسانہ نگاری سے لے کر ٹھیکیداری تک انور سجاد کی گوناگوں تخلیقی سرگرمیاں حسرت تعمیر سے لبریز ہیں۔ افسانہ نگاری، مصوری، ڈرامہ نگاری، ٹھیکیداری۔ ایک فن میں جو کمی رہ گئی وہ اگلے فن میں جا کر پوری ہوئی۔ اس میں جو کھانچہ رہ گیا وہ اس سے اگلے کام میں جا کر پر ہوا۔
ایک معنی خیز بات یہ ہے کہ پچھلی دہائیوں میں جو بھی تخلیقی جوہر لاہور میں نمودار ہوا اس کا پارکھ ہر پھر کر الٰہ آباد سے برآمد ہوا۔ ظفر اقبال، احمد مشتاق، انور سجاد تینوں کے جوہر شناس شمس الرحمن فاروقی ہیں۔
خیر یہ الگ مضمون ہے جو تفصیل کا طلب گار ہے۔ اس وقت تو مقدمہ پاک ٹی ہائوس کا درپیش ہے۔ اور ہم دوستوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ اب جب کہ ہم پر واضح ہوگیا ہے کہ ٹی ہائوس کی تعمیر نو کے معاملے میں انور سجاد کا قدم درمیان میں ہے تو ہمیں مطمئن ہو جانا چاہیے کہ یہ کام صحیح ہاتھوں میں ہے۔ انور سجاد کو شمس الرحمن فاروقی نے معمار اعظم کا خطاب خواہ مخواہ تو نہیں دیا تھا۔ کوئی جوہر دیکھا تھا جو اس خطاب سے نوازا۔ تو ہمیں آپ کو اعتبار کر لینا چاہیے کہ جو بھی تاخیر ہو رہی ہے وہ ٹی ہائوس کے بھلے کے لیے ہو رہی ہے۔ تھوڑا اور صبر کر لیں اور انتظار کریں کہ پردۂ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔
ارے ہم تو ٹی ہائوس کی جان کو رو دھو کر فارغ ہوئے تھے۔ یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا کہ ہم آپ نے یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالی میں جتنے طوفان ہماری بساط میں تھے وہ ہم نے اٹھا لیے۔ اب موٹر کے ٹائروں کے خریداروں کی باری ہے۔ کیا عجب ہے کہ یہاں کے ٹائر بھی ویسی ہی شہرت پائیں جیسی یہاں کی چائے نے شہرت پائی تھی۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خلاف توقع کچھ مسیحا نفس نمودار ہوئے اس عزم کے ساتھ کہ ٹی ہائوس کے تن مردہ میں وہ نئی روح پھونکیں گے اور اسے پھر سے آباد کریں گے۔ حمزہ شہباز صاحب۔ ان کے دست راست عطاء الحق قاسمی اور کہیں پیچھے بیٹھے ہوئے انور سجاد بمعہ اپنی فرم معمار ایسوسی ایٹس کے۔
بیشک زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ وہ سماں اور تھا جب مال روڈ پر بھنگیوں کی توپ سے لے کر چیئرنگ کراس تک ریستوراں جابجا آباد تھے۔ رنگ رنگ کے دانشور، صحافی، وکیل، نمبر2 سیاستدان، یونیورسٹی کالجوں کے استاد، نئے پرانے مصور، ادیب، انھوں نے مل کر ان ریستورانوں کو آباد کر رکھا تھا۔ پتہ نہیں وہ کون سے سبز قدم آئے کہ اب اس شاہراہ پر یہاں سے وہاں تک ریستوراں کے نام ویرانہ ہے۔ یا اللہ وہ شاد آباد ریستوراں کہاں گئے۔ انھیں زمین کھا گئی یا فلک نے انھیں برباد کیا۔ اور یہاں بیٹھنے والے گرم گفتار ادیب، آرٹسٹ، دانشور وہ کدھر نکل گئے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
تو اب جب ان گمشدہ ریستورانوں میں سے اکیلا ٹی ہائوس نمودار ہو گا اور اس تہذیبی ویرانے میں اپنا چراغ جلائے گا تو کیا نقشہ نمودار ہو گا۔ اس کوچے میں اہلی گہلی پھرنے والی مخلوق نے دور دور جا کر نئی بستیوں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہ جو اب یہاں نئے سرے سے شمع ٹمٹمائے گی کیا پرانے پروانے اڑ اڑ کر یہاں آئیں گے یا نئے پروانے نمودار ہوں گے اور شمع کے گرد منڈلائیں گے۔ رنگ محفل تب کیا تھا، اب کیا ہوگا۔
ٹی ہائوس کے آخری ایام میں دو روحیں اس امید موہوم کے ساتھ کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ یہاں بیٹھی رہ گئی تھیں۔ ایک گوشہ میں اسرار زیدی اکیلے بیٹھے اونگھتے نظر آتے تھے۔ ان کے سب مریدان باصفا تتر بتر ہو چکے تھے۔ اس میز سے دور ایک گوشے میں زاہد ڈار اپنی کتاب پر جھکا نظر آتا تھا اس اطمینان کے ساتھ کہ اب کوئی اس میز پر آ کر اس کے مطالعہ میں کھنڈت نہیں ڈالے گا۔ اسرار زیدی کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ
گلی ہم نے کہی تھی تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو
ہاں زاہد ڈار ہنوز کبھی اس راہ کبھی اس راہ بھٹکتا پھرتا نظر آتا ہے۔
چائے خانے میخانے ایسے وضعدار ایک زمانے تک آباد رہنے کے بعد اپنے بطن سے برآمد کرتے ہیں۔ نو آمدہ ٹی ہائوس کمرشلائزیشن سے بدحال اس زمانے میں ایسی روحوں کو جنم دینے میں کتنا وقت لے گا۔