عملے کی کمی کے باعث کراچی کے طلبا کے سرٹیفکیٹس دستخط کیلیے کوئٹہ جانے لگے

’’او اوراے لیول‘‘ طلبا کے سرٹیفکیٹ پردستخط کیلیے کراچی دفترمیں گریڈ 18 کاایک ہی افسرموجود ہے،روزانہ ڈاک کوئٹہ جاتی ہے۔


Safdar Rizvi October 04, 2018
سالانہ 4 کروڑ روپے کا ریونیو دینے والا آئی بی سی سی کراچی آفس بدترین صورتحال سے دوچار، افسران سمیت عملے کی شدید قلت۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ''او اوراے لیول'' کے طلبا کی اسناد کو مساوی قراردینے کیلیے وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والے ادارے ''آئی بی سی سی''(انٹربورڈکمیٹی آف چیئرمین) کے کراچی میں قائم دفتر کے وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ ministry of inter provincial coordination کی عدم دلچسپی کے سبب بدترین صورت حال سے دوچارہونے کامعاملہ سامنے آیا ہے۔

''ایکسپریس'' کو اس امر کا انکشاف ہوا ہے کہ اور تقریباً 4 کروڑ روپے سالانہ کاریونیووفاقی حکومت کودینے والے اس ادارے کے پاس مطلوبہ تعدادمیں افسران ہی موجودنہیں جس کے سبب طلبا کی او اواے لیول کی اسنادکومیٹرک اورانٹرکے مساوی قراردینے کے لیے''ایکویلنس سرٹیفیکیٹ''(مساوی سرٹیفیکیٹ) محض دستخط کے لیے روزانہ کراچی سے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ بھجوائے جارہے ہیں۔

کوئٹہ سے متعلقہ افسرکے ''کائونٹرسائن'' کے بعد سرٹیفیکیٹ واپس کراچی بھجواکرطلبا کوفراہم کیے جاتے ہیں جس کے سبب اواوراے لیول کے طلبا کے لیے ایکویلنس سرٹیفیکیٹ کے اجرا کامرحلہ انتہائی مشکل،دشوار اورطویل ہوگیاہے اس بات کا انکشاف ''ایکسپریس''کے آئی بی سی سی کے دفترکے دورے موقع پر ہوا جہاں معلوم ہوا ہے کہ روزانہ تقریبا200اورایک ماہ میں تقریباً6ہزارطلبا کے ایکویلنس سرٹیفکیٹ سمیت دیگر اسناد فراہم کرنے والے ادارے کے پاس مجموعی طورپرایک افسرسمیت 6ملازمین پر مشتمل عملہ کام کررہاہے جوروزانہ کی بنیادپرکراچی سمیت سندھ کے سیکڑوں طلبا کے اے اور اولیول کی اسنادجمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اسکروٹنی کرنے، سرٹیفکیٹ کی تصدیق اوراس کے اجرا کاکام کررہاہے کیونکہ کراچی میں آئی بی سی سی کایہ واحد دفتر ہے جو پورے سندھ کے کیمبرج کے طلبا کوسہولت فراہم کررہاہے تاہم وفاقی حکومت کی متعلقہ وزارت کراچی میں قائم آئی بی سی سی کے دفترکومطلوبہ تعدادمیں عملہ فراہم کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔

ان ملازمین میں گریڈ18کے ایک افسرکے علاوہ ایک گریڈ 16کے ایک سپریٹنڈنٹ جبکہ چارکلریکل اسٹاف شامل ہے دوسری جانب جس سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی جس عمارت میں آئی بی سی سی کے دفترکوجگہ دی گئی ہے یہ آفس بھی محض 2کمروں پر ہی مشتمل ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کیمبرج اسکول کراچی میں قائم ہیں جہاں سے ہرسال کئی ہزارطلبا اے اوراولیول کاامتحانی پاس کرکے کالجوں اورجامعات میں داخلوں کے لیے آئی بی سی سی سے مساوی سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے لیے اس دفترکارخ کرتے ہیں اوراس ادارے کوملک سے سب سے زیادہ ریونیو جنریشن بھی کراچی میں قائم آئی بی سی سی کے دفترسے ہی ہوتی ہے اس کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ سے اس دفترکارخ کرنے والے طلبا کے لیے وفاقی حکومت سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تیارنہیں ہے روزانہ کی بنیادپرسیکڑوں طلبا سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن میں قائم اس دفترکارخ کرتے ہیں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنی اسنادبمعہ فارم جمع کراتے اورحاصل کرتے ہیں تاہم عملے کی شدیدقلت کے سبب طلبا کے منٹوں کے امورگھنٹوں میں انجام پاتے ہیں ٹیکنیکل بورڈ کی عمارت کے باہرکیمبرج کے طلبا کی طویل قطاریں موجودہوتی ہیں جوشدیددھوپ اورگرمی میں قطاروں میں کھڑے ہوکراپنے فارم جمع کرانے پرمجبورہیں۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان طلبا سے ایکویلنس کی مد میں 3ہزارروپے ''آڈنری'' جبکہ 4ہزارروپے ''ارجنٹ''فیس چارج کی جاتی ہے جبکہ ایسے طلبا جوبیرون ملک تعلیم یاروزگارکے لیے اپنی میٹرک اورانٹرکی اسنادکی تصدیق کے لیے آئی بی سی سی آتے ہیں ان کی فی دستاویز400روپے فیس چارج کی جاتی ہے اورہر طالب علم بیک وقت کئی کئی دستاویزات کی تصدیق آئی بی سی سی سے کراتاہے تاہم اس قدربھاری فیسوں کے باوجود بھی وفاقی حکومت کراچی میں قائم آئی بی بی سی سی کومطلوبہ تعداد میں عملہ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے اورنہ ہی طلبا کودیگرسہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔

یادرہے کہ کچھ عرصہ قبل آئی بی سی سی کی جانب سے کراچی اوربھاولپورمیں آئی بی سی سی کے دفترکے لیے عمارت کی خریداری کے سلسلے میں اشتہارجاری کیاگیااس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دی گئی اوربجٹ مختص کیاگیاتاہم حیرت انگیزطورپرکمیٹی کوکراچی میں توکوئی معقول عمارت آئی بی سی سی کے دفترکے لیے نہ مل سکی لیکن بھاولپور میں عمارت خریدکروہاں آئی بی سی سی کاریجنل دفتربنادیاگیا۔

ذرائع کہتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کے سابق وزیربرائے بین الصوبائی رابطہ اسی شہرسے تعلق رکھتے تھے ادھرکمیٹی کی جانب سے کراچی میں کسی عمارت کی خریداری میں ناکامی کے بعدآئی بی سی سی کادفتراگست میں نارتھ ناظم آباد کٹی پہاڑی کے نزدیک انٹربورڈ کراچی سے گلشن اقبال کے علاقے میں قائم سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں منتقل کردیاگیاجہاں طلبا ماضی کے مقابلے میں آسانی سے آئی بی سی سی کے دفترتک توپہنچ جاتے ہیں تاہم اس دفترمیں پہنچنے کے بعد عملے کی قلت اوردفترمیں کم گنجائش کے سبب طلبا کے مسائل میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوسکی۔

ادھراس معاملے پر سیکریٹری آئی بی سی سی حسین مدنی سے ''ایکسپریس''نے رابطے کرنے کی مسلسل کوشش کی پہلی بارفون پران کاکہناتھاکہ دفتری اوقات میں فون کریں تب ہی جواب دے سکیں گے دفتری اوقات میں انھیں کئی بارفون کیاتاہم وہ مسلسل رابطے سے گریز کرتے رہے۔

اسلام آباد میں ان کے دفترفون کرکے موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کے پرائیویٹ سیکریٹری کاکہناتھاکہ صاحب اس وقت اجلاس میں گئے ہوئے ہیں دوسری بارپھرفون کیاتاہم معلوم ہواکہ صاحب اجلاس سے واپس نہیں آئے سیکریٹری آئی بی سی سی کے موبائل فون پرایس ایم ایس کے ذریعے بھی معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں