شام چین امریکا اور پاکستان
انگریزوں کی ہمیشہ یہی سیاست رہی ہے کہ اقلیتی فرقے کو اقتدار دیا جائے
WASHINGTON:
جمہوریہ شام سابق سوویت یونین کا نہر سوئزکے 1956ء کے بحران کے بعد قریب ترین اتحادی تھا، شام کو قدیم زبان میں سوریا بھی کہا جاتا ہے، شام کی تہذیب قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس خطے پر بنی امیہ نے تقریباً 80 برس حکومت کی ہے، بعد ازاں یہ عباسیوں کے قبضے میں آ گیا۔ شام کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے بھری پڑی ہے۔ شام کی آبادی ڈھائی کروڑ کے قریب ہے، اس کی اکثریتی آبادی سنی العقیدہ مسلمانوں کی ہے، مگر اس پر اقلیتی آبادی جس کو عرفِ عام میں علوی کہا جاتا ہے گزشتہ تقریباً 55 برسوں سے قابض ہیں۔
یہ قبضہ ایک فوجی انقلاب کے ذریعے ہوا اور عرب نیشنلسٹ بعث پارٹی کے رہنما حافظ الاسد نے باگ ڈور سنبھالی۔ بعد ازاں ان کی رحلت کے بعد بشار الاسد جو حافظ الاسد کے صاحبزادے ہیں، ان کے پاس حکومت آئی اور ہنوز جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں عرب دنیا میں ایک جمہوری تبدیلی آئی اور یہ لہر مصر پر جا کے رکی، حالانکہ مظاہروں کے اعتبار سے یمن میں حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے، یہاں تک کہ یمن کے حاکم نے سعودی عرب میں پناہ لی۔ انگریزوں کی ہمیشہ یہی سیاست رہی ہے کہ اقلیتی فرقے کو اقتدار دیا جائے تاکہ جب کوئی انقلاب آئے یا اس کو لانا مقصود ہو تو اقلیتی فرقے کو بہ آسانی ہٹایا جا سکتا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں بھی یہی رہا کہ شریفِ مکہ کو ہٹایا گیا جو ہاشمی تھے اور حنفی سنّی عقاید کے مالک تھے، اسی طرح بحرین جہاں شیعہ اکثریت رہتی ہے، وہاں پر سنّی حکومت قائم کی گئی تاکہ ذرا سی شورش کے بعد ان کو ہٹایا جا سکے اور اپنی مرضی کے حاکم لائے جائیں یا تھوڑی بہت تحریک چلوا کر ان حکومتوں کو مزید مغربی دبائو میں لیا جائے۔ وہ دن دور نہیں جب عرب دنیا کی باقی ماندہ جگہوں پر تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھی جائے اور اپنی من مانی پالیسی کی طرف دھکیل دیا جائے۔ جمہوریت کے نام پر جہاں جہاں بھی مطلق العنان حکمراں موجود ہیں، وہاں آزادی اور انسانی حقوق کا خواب دِکھا کر عوام کو ابھارا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق اور آزادی کا نعرہ بہت دل پسند ہے مگر ایسی جمہوریت سے کیا فائدہ جہاں انسان نانِ شبینہ کو ترسے اور خودکشی، بے روزگاری، قتل وغارت گری کی آزادی ہو۔ ظاہر ہے انسانی آزادی کا تصور بغیر معاشی اور تعلیمی آزادی، صحت عامہ کے بغیر بے معنی ہے۔ شام میں اسی قسم کی آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ شام محل وقوع کے اعتبار سے بڑی جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ شام کے شمال میں عراق اور شمال مغرب میں ترکی ہے جو نیٹو اور مغرب کا قابلِ اعتماد اتحادی ہے۔اس کی سرحدیں ترکی کے کرد علاقے سے ملتی ہیں اور اسی علاقے میں ایک شہر علیپو ہے جہاں سنّی العقیدہ مسلمان زیادہ ہیں، ان کے بعد شیعہ اور عیسائی ہیں۔ اس کے علاوہ دروزی ہیں جو بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔
عیسائی بہ مشکل 7 فیصد ہیں۔ شام کے اس سرحدی علاقے سے بغاوت شروع ہوئی کیونکہ اگر اس علاقے پر قبضہ ہو جائے تو پھر شام سے لبنان کی وہ سپلائی لائن کٹ جائے گی جو لبنان کے حزب اﷲ کا سہارا ہے اور اس طرح اسرائیلی اثر و نفوذ اس علاقے میں فوجی اعتبار سے بالاتر ہو جائے گا۔ لبنان ماضی میں اسرائیل کے خلاف ایک آہنی دیوار ثابت ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہ جمہوریت کے نام پر اسرائیلی برتری کی حکمتِ عملی کا پیش خیمہ تھا، تا کہ مستقبل کی زمینی جنگ میں لبنان کو یکتا و تنہا کر کے چھوڑ دیا جائے اور پورے عرب میں امریکی روڈ میپ کے مطابق جمہوریت قائم کی جائے، جہاں جمہوریت کے نام سے کام چلتا ہو، وہاں جمہوریت اور جہاں آمریت کے نام سے کام چلتا ہو وہاں آمریت۔
حالانکہ امریکا نے اپنے باشندوں کو حقیقی جمہوریت سے نواز رکھا ہے، صرف 20 فیصد ادا کیجیے اور مالک مکان بن جائیے اور ماہانہ اقساط دیتے رہیے جب کہ کرایے دار پاکستان میں عمر بھر کرایے دار رہے گا۔ اس کے علاوہ عام شہری کو زندگی کی آسایش مگر دیگر علاقوں میں جہاں کہیں بھی سرمایہ دارانہ یا جاگیردارانہ حکومتیں قائم ہیں وہاں امریکا کو ان کی داخلی حکمتِ عملی سے کوئی کام نہیں۔
اسی لیے جہاں عوامی جدوجہد سے حکومتیں قائم کی گئیں، وہ سب کے سب امریکا سے شروع میں نفرت کرتے تھے، بعد ازاں معاشی مفاد کے تحت رفتہ رفتہ ان کے تعلقات بہتر ہوئے۔ مثلاً چین، ویت نام، شمالی کوریا ابھی بھی تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور ایسا ہی کچھ حال ایران کا ہے، جہاں ایرانی انقلاب کے بعد آج تک صورتِ حال بہتر نہ ہوئی، مگر امید ہے کہ مستقبل میں تنائو کم ہو جائے گا اور ڈپلومیسی سے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا، مگر افغانستان کا معاملہ درمیان میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو ایران اور امریکا کے تعلقات میں وجہ تنائو ہے کیونکہ ایران افغانستان میں اپنا اثر قائم کرنا چاہتا ہے، خاص طور سے ان علاقوں میں جو ایران کے قریب ہیں اور یہ ایران کے استحکام کے لیے ضروری ہے، وہاں پر وہ اپنا سیاسی اثر رکھنا چاہتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت جو افغانستان کا ہمسایہ نہیں ہے، وہ بھی اگر اپنا اثر رکھنا چاہتا ہے تو پھر ایران کیوں نہیں؟ فارسی بولنے والے علاقے ماضی میں ایرانی سلطنت کا حصّہ رہ چکے ہیں۔ درحقیقت دنیا میں اس وقت جمہوریت اور آمریت کی جنگ نہیں بلکہ یہ سیاسی اثر و نفوذ کی جنگ ہے کہ دنیا پر کس کی بالادستی ہو۔ غور فرمائیے کہ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور معاہدہ وارسا ختم ہوگیا تو پھر معاہدہ نیٹو کس کے خلاف ہے کیونکہ دنیا یونی پولر ہو کر رہ گئی ہے۔
یہ امریکا سے بڑھ کر مغربی ممالک کی دلچسپی ہے کہ طاقت کا توازن ان کے حق میں رہے اور جب دنیا میں کوئی تبدیلی رونما ہو تو اس میں اوّلین مفاد یہ ہو کہ نیٹو کو برتری حاصل ہو، مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں یا بیرونی دبائو کے تحت بناتے ہیں۔ اس وقت امریکا کو جو بھی خارجہ حکمت عملی بنانی چاہیے، وہ صرف اپنے ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ عوامی مفاد کے تحت پالیسی اگر تشکیل دی جائے تو پھر امریکا کا وہ رخ جو ماضی میں کمیونسٹ ممالک نے پینٹ کیا ہے، جاتا رہے گا اور لوگ امریکی حکومت کے لیے اچھے اور پسندیدہ خیالات رکھیں گے۔
مغربی ممالک کو بدلتی دنیا کی رائے کا احترام کرنا ہوگا، ورنہ محض انسانی حقوق کی ڈھال بنا کر من مانی خود امریکا کے مفاد میں نہیں۔ یقیناً اسرائیل کے لوگوں کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے اور ان کو بھی اﷲ کی سرزمین پر امن سے رہنے کا حق ہے مگر اسرائیل کی بالادستی کا رویہ مسلم امّہ میں ایک بہت بڑا تنازع ہے، اس کو انسانی حقوق کے احترام کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔ قوموں کے حقوق اور ان کی آزادی رائے کا احترام مغرب کو اپنے پیمانے میں نہیں سوچنا چاہیے بلکہ انسان کی پسماندگی کی بنیاد پر سوچنا چاہیے۔
بہرصورت یہ پس منظر آپ کے سامنے ہے۔ شام کے بڑے شہروں میں دمشق، علیپو، سیدہ زینب، ام شیل، ماما، حمّا، حمص، لطیکیہ قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ بغاوت کا اصل محور علیپو ہی تھا جہاں پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اس لیے نہ جا سکا کہ روس اور چین اس پر ایک موقف رکھتے تھے اور اس میں معاملہ ویٹو تک جا سکتا تھا۔ اس لیے باغی علیپو سے پسپا ہو گئے اور غیر ملکی مداخلت سے شام محفوظ رہا، ورنہ بشار الاسد کب کے جا چکے ہوتے اور وہی حال ہوتا جو معمر قذافی اور ان کے صاحبزادگان کا ہوا تھا، مگر یہاں بات بالکل واضح ہے کہ چین شام کی حکومت کا ساتھی تھا اور روس بھی اس کا ہمنوا، مگر پاکستان کا جھکائو مغربی پالیسی کی جانب ہے۔ یہاں عالمی سیاست میں چین اور پاکستان کے موقف جدا گانہ نظر آتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ پاکستان کا موقف درست ہے یا چین کا تو یہ صاحبِ اقتدار بتا سکتے ہیں کہ ملکی مفاد میں کیا ہے؟
جمہوریہ شام سابق سوویت یونین کا نہر سوئزکے 1956ء کے بحران کے بعد قریب ترین اتحادی تھا، شام کو قدیم زبان میں سوریا بھی کہا جاتا ہے، شام کی تہذیب قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس خطے پر بنی امیہ نے تقریباً 80 برس حکومت کی ہے، بعد ازاں یہ عباسیوں کے قبضے میں آ گیا۔ شام کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے بھری پڑی ہے۔ شام کی آبادی ڈھائی کروڑ کے قریب ہے، اس کی اکثریتی آبادی سنی العقیدہ مسلمانوں کی ہے، مگر اس پر اقلیتی آبادی جس کو عرفِ عام میں علوی کہا جاتا ہے گزشتہ تقریباً 55 برسوں سے قابض ہیں۔
یہ قبضہ ایک فوجی انقلاب کے ذریعے ہوا اور عرب نیشنلسٹ بعث پارٹی کے رہنما حافظ الاسد نے باگ ڈور سنبھالی۔ بعد ازاں ان کی رحلت کے بعد بشار الاسد جو حافظ الاسد کے صاحبزادے ہیں، ان کے پاس حکومت آئی اور ہنوز جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں عرب دنیا میں ایک جمہوری تبدیلی آئی اور یہ لہر مصر پر جا کے رکی، حالانکہ مظاہروں کے اعتبار سے یمن میں حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے، یہاں تک کہ یمن کے حاکم نے سعودی عرب میں پناہ لی۔ انگریزوں کی ہمیشہ یہی سیاست رہی ہے کہ اقلیتی فرقے کو اقتدار دیا جائے تاکہ جب کوئی انقلاب آئے یا اس کو لانا مقصود ہو تو اقلیتی فرقے کو بہ آسانی ہٹایا جا سکتا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں بھی یہی رہا کہ شریفِ مکہ کو ہٹایا گیا جو ہاشمی تھے اور حنفی سنّی عقاید کے مالک تھے، اسی طرح بحرین جہاں شیعہ اکثریت رہتی ہے، وہاں پر سنّی حکومت قائم کی گئی تاکہ ذرا سی شورش کے بعد ان کو ہٹایا جا سکے اور اپنی مرضی کے حاکم لائے جائیں یا تھوڑی بہت تحریک چلوا کر ان حکومتوں کو مزید مغربی دبائو میں لیا جائے۔ وہ دن دور نہیں جب عرب دنیا کی باقی ماندہ جگہوں پر تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھی جائے اور اپنی من مانی پالیسی کی طرف دھکیل دیا جائے۔ جمہوریت کے نام پر جہاں جہاں بھی مطلق العنان حکمراں موجود ہیں، وہاں آزادی اور انسانی حقوق کا خواب دِکھا کر عوام کو ابھارا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق اور آزادی کا نعرہ بہت دل پسند ہے مگر ایسی جمہوریت سے کیا فائدہ جہاں انسان نانِ شبینہ کو ترسے اور خودکشی، بے روزگاری، قتل وغارت گری کی آزادی ہو۔ ظاہر ہے انسانی آزادی کا تصور بغیر معاشی اور تعلیمی آزادی، صحت عامہ کے بغیر بے معنی ہے۔ شام میں اسی قسم کی آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ شام محل وقوع کے اعتبار سے بڑی جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ شام کے شمال میں عراق اور شمال مغرب میں ترکی ہے جو نیٹو اور مغرب کا قابلِ اعتماد اتحادی ہے۔اس کی سرحدیں ترکی کے کرد علاقے سے ملتی ہیں اور اسی علاقے میں ایک شہر علیپو ہے جہاں سنّی العقیدہ مسلمان زیادہ ہیں، ان کے بعد شیعہ اور عیسائی ہیں۔ اس کے علاوہ دروزی ہیں جو بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔
عیسائی بہ مشکل 7 فیصد ہیں۔ شام کے اس سرحدی علاقے سے بغاوت شروع ہوئی کیونکہ اگر اس علاقے پر قبضہ ہو جائے تو پھر شام سے لبنان کی وہ سپلائی لائن کٹ جائے گی جو لبنان کے حزب اﷲ کا سہارا ہے اور اس طرح اسرائیلی اثر و نفوذ اس علاقے میں فوجی اعتبار سے بالاتر ہو جائے گا۔ لبنان ماضی میں اسرائیل کے خلاف ایک آہنی دیوار ثابت ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہ جمہوریت کے نام پر اسرائیلی برتری کی حکمتِ عملی کا پیش خیمہ تھا، تا کہ مستقبل کی زمینی جنگ میں لبنان کو یکتا و تنہا کر کے چھوڑ دیا جائے اور پورے عرب میں امریکی روڈ میپ کے مطابق جمہوریت قائم کی جائے، جہاں جمہوریت کے نام سے کام چلتا ہو، وہاں جمہوریت اور جہاں آمریت کے نام سے کام چلتا ہو وہاں آمریت۔
حالانکہ امریکا نے اپنے باشندوں کو حقیقی جمہوریت سے نواز رکھا ہے، صرف 20 فیصد ادا کیجیے اور مالک مکان بن جائیے اور ماہانہ اقساط دیتے رہیے جب کہ کرایے دار پاکستان میں عمر بھر کرایے دار رہے گا۔ اس کے علاوہ عام شہری کو زندگی کی آسایش مگر دیگر علاقوں میں جہاں کہیں بھی سرمایہ دارانہ یا جاگیردارانہ حکومتیں قائم ہیں وہاں امریکا کو ان کی داخلی حکمتِ عملی سے کوئی کام نہیں۔
اسی لیے جہاں عوامی جدوجہد سے حکومتیں قائم کی گئیں، وہ سب کے سب امریکا سے شروع میں نفرت کرتے تھے، بعد ازاں معاشی مفاد کے تحت رفتہ رفتہ ان کے تعلقات بہتر ہوئے۔ مثلاً چین، ویت نام، شمالی کوریا ابھی بھی تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور ایسا ہی کچھ حال ایران کا ہے، جہاں ایرانی انقلاب کے بعد آج تک صورتِ حال بہتر نہ ہوئی، مگر امید ہے کہ مستقبل میں تنائو کم ہو جائے گا اور ڈپلومیسی سے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا، مگر افغانستان کا معاملہ درمیان میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو ایران اور امریکا کے تعلقات میں وجہ تنائو ہے کیونکہ ایران افغانستان میں اپنا اثر قائم کرنا چاہتا ہے، خاص طور سے ان علاقوں میں جو ایران کے قریب ہیں اور یہ ایران کے استحکام کے لیے ضروری ہے، وہاں پر وہ اپنا سیاسی اثر رکھنا چاہتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت جو افغانستان کا ہمسایہ نہیں ہے، وہ بھی اگر اپنا اثر رکھنا چاہتا ہے تو پھر ایران کیوں نہیں؟ فارسی بولنے والے علاقے ماضی میں ایرانی سلطنت کا حصّہ رہ چکے ہیں۔ درحقیقت دنیا میں اس وقت جمہوریت اور آمریت کی جنگ نہیں بلکہ یہ سیاسی اثر و نفوذ کی جنگ ہے کہ دنیا پر کس کی بالادستی ہو۔ غور فرمائیے کہ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور معاہدہ وارسا ختم ہوگیا تو پھر معاہدہ نیٹو کس کے خلاف ہے کیونکہ دنیا یونی پولر ہو کر رہ گئی ہے۔
یہ امریکا سے بڑھ کر مغربی ممالک کی دلچسپی ہے کہ طاقت کا توازن ان کے حق میں رہے اور جب دنیا میں کوئی تبدیلی رونما ہو تو اس میں اوّلین مفاد یہ ہو کہ نیٹو کو برتری حاصل ہو، مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں یا بیرونی دبائو کے تحت بناتے ہیں۔ اس وقت امریکا کو جو بھی خارجہ حکمت عملی بنانی چاہیے، وہ صرف اپنے ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ عوامی مفاد کے تحت پالیسی اگر تشکیل دی جائے تو پھر امریکا کا وہ رخ جو ماضی میں کمیونسٹ ممالک نے پینٹ کیا ہے، جاتا رہے گا اور لوگ امریکی حکومت کے لیے اچھے اور پسندیدہ خیالات رکھیں گے۔
مغربی ممالک کو بدلتی دنیا کی رائے کا احترام کرنا ہوگا، ورنہ محض انسانی حقوق کی ڈھال بنا کر من مانی خود امریکا کے مفاد میں نہیں۔ یقیناً اسرائیل کے لوگوں کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے اور ان کو بھی اﷲ کی سرزمین پر امن سے رہنے کا حق ہے مگر اسرائیل کی بالادستی کا رویہ مسلم امّہ میں ایک بہت بڑا تنازع ہے، اس کو انسانی حقوق کے احترام کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔ قوموں کے حقوق اور ان کی آزادی رائے کا احترام مغرب کو اپنے پیمانے میں نہیں سوچنا چاہیے بلکہ انسان کی پسماندگی کی بنیاد پر سوچنا چاہیے۔
بہرصورت یہ پس منظر آپ کے سامنے ہے۔ شام کے بڑے شہروں میں دمشق، علیپو، سیدہ زینب، ام شیل، ماما، حمّا، حمص، لطیکیہ قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ بغاوت کا اصل محور علیپو ہی تھا جہاں پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اس لیے نہ جا سکا کہ روس اور چین اس پر ایک موقف رکھتے تھے اور اس میں معاملہ ویٹو تک جا سکتا تھا۔ اس لیے باغی علیپو سے پسپا ہو گئے اور غیر ملکی مداخلت سے شام محفوظ رہا، ورنہ بشار الاسد کب کے جا چکے ہوتے اور وہی حال ہوتا جو معمر قذافی اور ان کے صاحبزادگان کا ہوا تھا، مگر یہاں بات بالکل واضح ہے کہ چین شام کی حکومت کا ساتھی تھا اور روس بھی اس کا ہمنوا، مگر پاکستان کا جھکائو مغربی پالیسی کی جانب ہے۔ یہاں عالمی سیاست میں چین اور پاکستان کے موقف جدا گانہ نظر آتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ پاکستان کا موقف درست ہے یا چین کا تو یہ صاحبِ اقتدار بتا سکتے ہیں کہ ملکی مفاد میں کیا ہے؟