اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک آخری قسط
نواب اکبر بگٹی: نوجوانی سے بڑھاپے تک
نواب اکبر بگٹی اور ذوالفقار علی بھٹو، دونوں آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ جاگیردار اور وڈیرے، جمہوریت پسند اور ترقی کے دعویدار، غریبوں کے نمائندہ حکمران سیاستدان تھے۔ ایک کو پھانسی ہوگئی اور دوسرا فراری کیمپوں میں مارا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایک یادگار تصویر جبکہ دائیں جانب نواب اکبر بگٹی کے آخری دنوں کی تصویر
ان دونوں کو مارنے کے بعد بھی نہ تو سندھ کی محرومیوں کا سلسلہ ختم ہوا نہ بلوچستان کی دیرینہ محرومیوں ہی کا ازالہ کیا گیا۔ نہ تو لاڑکانہ میں غربت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ڈیرہ بگٹی میں۔ نہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا کوئی کیمپس بلوچستان میں بنا اور نہ سندھ میں بنا۔ ہاں! البتہ سندھ اور بلوچستان میں آج بھی سیکڑوں سال پرانی عمارات ضرور موجود ہیں۔
یہ بلاگز بھی پڑھیے: اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک| اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک (دوسری قسط) | اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک (تیسری قسط)
ڈیرہ بگٹی میں ہندوؤں کا مندر سیکڑوں سال پرانا تھا جس کی عمارت بم دھماکوں میں مخدوش ہوگئی تھی۔ اب اس کی نئے سرے سے تعمیر کی جارہی ہے۔ یہاں سے کچھ آگے گوردوارہ بھی بھی موجود تھا۔ یہ مسجد، مندر اور گوردوارہ، تینوں ہی آدھے کلومیٹر سے کم فاصلے پر موجود ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے لوگ اپنی اپنی عبادت میں خوش ہیں۔ ویسے یہ مندر مسجد بھی کیا عجیب جگہیں ہیں جہاں غریب باہر اور امیر اندر ''بھیک'' مانگتا ہے۔ بارات میں دولہا پیچھے اور دنیا اس کے آگے چلتی ہے جبکہ میت میں جنازہ آگے اور دنیا پیچھے چلتی ہے۔ یعنی دنیا خوشی میں آگے اور غم میں پیچھے ہوجاتی ہے۔ موم بتی جلا کر مُردوں کو یاد کرنا اور موم بتی بجھا کر سالگرہ منانا، یہی اس دنیا کا دستور ہے۔
نواب اکبر بگٹی کا بنگلہ عام طور پر بند رہتا ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے ہم آثار قدیمہ کی کسی عمارت میں داخل ہوگئے ہیں۔ مرکزی دروازہ مضبوط فولادی چادر کا بنا ہوا جو ایک شخص نہیں کھول سکتا۔ یہ عمارت بہت پرانی تھی، اس قلعے کے اندر ایک بنگلہ ایسا بھی ہے جو فاتحہ خوانی کےلیے مخصوص ہے۔ اگر نواب صاحب کے خاندان کا کوئی شخص فوت ہوجاتا تو اسی بنگلے میں دعا خوانی کی جاتی تھی۔
نواب صاحب کی شہادت کے بعد ان کے بیٹوں نے اس بنگلے کو ہندوؤں کے بچوں کےلیے اسکول کے طور پر عطیہ کردیا ہے۔ آج یہاں ڈیرہ بگٹی اور گرد و نواح سے ہندوؤں کے سیکڑوں بچے، لڑکے اور لڑکیاں، ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں واقع اسکول کے چند مناظر
بابو بیلی نے بتایا کہ ڈیرہ بگٹی میں رہنے والا ہر شخص بلوچ ہے چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا عیسائی۔ یہ تفریق نواب اکبر بگٹی نے ختم کردی تھی اور کہا تھا کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ البتہ ہمارے رسوم و رواج بہت پرانے اور الگ الگ ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں قلعے کے مین گیٹ کے سامنے پاسپورٹ آفس بھی موجود ہے۔ بکرا منڈی اسٹیڈیم، نادرا آفس اور نیشنل بینک آف پاکستان کی بھی عمارتیں موجود ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں ہندوؤں کی گلی جہاں سے آج تک کوئی چیز چوری نہیں ہوئی، یہ گلی بھی قلعے اندر واقع ہے
ڈیرہ بگٹی شہر کا پرانا ہندو بازار جنگ کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا جس جگہ نیا بازار بنایا گیا، یہ نیا بازار چھوٹا ضرور ہے مگر خوبصورت ہے۔ پورے بازار کو کوئی بھی سیاح ایک گھنٹے کے اندر گھوم سکتا ہے۔ ڈیرہ بگٹی شہر میں ایک برف شاپ بھی ہے جہاں سے برف صرف اور صرف دس روپے فی کلوگرام سے زیادہ کے نرخ پر کبھی فروخت نہیں کی جاتی۔ مقامی ہوٹلوں پر چائے فی کپ بیس روپے سے زیادہ کی نہیں دی جاتی، مارکیٹ میں تمام سبزی فروشوں کے پاس سبزیوں کا ایک ہی نرخ لکھا ہوتا ہے اور دکاندار اسی بھاؤ پر سبزیاں فروخت کرتے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں پرانی عمارات کے چند مناظر
ڈیرہ بگٹی میں چھوٹی چھوٹی گلیاں اور کچی پکی دیواریں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ بارش کے پانی کا نکاسی نظام ایسا ہے کہ بارش کا پانی کہیں جمع نہیں ہوتا۔ جب بارش ہوتی ہے تو پوری سڑک کو دھو کر صاف کردیتی ہے جبکہ رات میں اسٹریٹ لائٹس بھی چمک رہی ہوتی ہیں جن کی روشنی گلیوں کو بھی منور کردیتی ہے۔ ان اسٹریٹ لائٹس نے پورے شہر کو خوبصورت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، البتہ ہر دو گھنٹے بجلی چلی جاتی ہے۔
آج ڈیرہ بگٹی میں صحت کی سہولتیں، پانی، بجلی اور گیس کی سہولیات بالکل مفت ضرور ہیں مگر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ البتہ میں نے ڈیرہ بگٹی کی گلیاں بھی ہموار سڑکوں کے جال کی مانند بچھی ہوئی دیکھیں۔
اس وقت نواب اکبر بگٹی کے خاندان سے دو پوتے، یعنی نواب زادہ شازین خان بگٹی قومی اسمبلی کے اور نواب زادہ گہرام خان بگٹی صوبائی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ یہ دونوں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد پہلی بار اپنے علاقے ڈیرہ بگٹی سے الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مقامی لوگ نواب اکبر بگٹی کی اولاد کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہر شام نواب گہرام بگٹی کھلی کچری بھی کرتے ہیں جس میں تمام لوگوں سے بلوچی میں حال احوال کرتے ہیں۔ ہم جس روز ڈیرہ بگٹی پہنچے، اس روز دونوں بھائی شہر سے باہر تھے ورنہ ہم بھی ان سے ضرور کھلی کچہری میں ملاقات کرتے۔
نواب اکبر بگٹی خود گورنر رہ چکے تھے جبکہ نواب اکبر بگٹی پاکستان کے ابتدائی دور میں وزیر دفاع جبکہ بعد ازاں بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کے ادوار میں بلوچستان کے وزیر اعلی بھی رہ چکے تھے۔ اب عمران خان کے نئے پاکستان میں نواب بگٹی کے دو پوتے نواب زادہ طلال بگٹی کے فرزند شازین خان ایم این اے اور گہرام خان بگٹی جمہوری وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے منتخب ہوکر عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
آج بھی ڈیرہ بگٹی کے لوگ اپنے قدیمی رواج کا پاس رکھتے ہوئے سر پر پگڑی سجاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اب سر پر ٹوپی بھی شوق سے پہنتے ہیں۔
یہاں ایک شخص ڈوب کر جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد سے یہ تالاب بالکل خشک اور مقفل چلا آرہا ہے
ڈیرہ بگٹی میں ٹیوب ویل اور آر او پلانٹ بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک آر او پلانٹ کا افتتاح پیر کوہ (ڈیرہ بگٹی) کے علاقے میں ہوا۔ اس آر او پلانٹ سے ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ پیر کوہ سے ایک واٹر کورس کے ذریعے پہاڑوں کا پانی ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ واٹر کورس اس طرح بنا گیا ہے کہ پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔ یہ واٹر کورس ڈیرہ بگٹی کے عوام کےلیے رحمت بن گیا ہے۔ اسی واٹر کورس کے ساتھ ایک عدد سوئمنگ پول بھی موجود ہے جس میں اکثر لوگ نہانے جاتے تھے؛ لیکن جس دن ایک شخص یہاں ڈوب کر جاں بحق ہوا، تو اس دن کے بعد سے اس سوئمنگ پول کا پانی بند کردیا گیا اور ایک تالا لگادیا گیا جسے آج تک کسی نے کھولنے کی زحمت بھی نہیں کی ہے۔ اس سوئمنگ پول کے ساتھ ہی نواب اکبر بگٹی کا ایک باغیچہ بھی ہے جس میں خوبصورت درخت لگے ہوئے ہیں۔ یہاں نواب اکبر بگٹی کے بیٹھنے کی جگہ بھی ہوا کرتی تھی جس کی صرف دیواریں باقی رہ گئی ہیں۔ ڈیرہ بگٹی پر حملے کے دوران اس جگہ پر بھی شدید گولہ باری کی گئی تھی۔
نواب اکبر بگٹی کے باغیچے میں بیٹھنے کی جگہ
ڈیرہ بگٹی کے لوگ کھانوں کے بہت پرانے شوقین ہیں۔ ان کھانوں میں ایک ایسی روٹی پکائی جاتی ہے جو پاکستان میں کہیں بھی نہیں ملتی، جس کا نام ''کاک روٹی'' ہے۔ یہ تیز آگ کی حدت پر براہِ راست پکائی جاتی ہے۔ کاک روٹی کے پیڑے کے اندر ایک پتھر ہوتا ہے؛ اور جب یہ روٹی آگ کے قریب رکھی جاتی ہے تو اس کے اندر موجود پتھر بھی گرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ روٹی پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ اپنے ذائقے میں کاک روٹی بے حد لذیذ ہوتی ہے۔
بلوچستان کی خاص ''کاک روٹی'' جس کے اندر پتھر ہوتا ہے
یہ روٹی کئی کئی روز سفر میں بھی کھائی جاتی ہے شاید یہ روٹی جنگوں کے دوران بہت کھائی جاتی رہی ہے اس روٹی کا ذائقہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے جتنے درد دیکھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ڈیرہ بگٹی ریگستان اور پہاڑوں میں بٹا ہوا ضلع ہے ڈیرہ بگٹی میں مال مویشیوں کی جنت ہے، چرتے دوڑتے اور ہانکتے ہوئے جانور دیکھ کر بہت بھلا بھی لگتا ہے۔ ان مال مویشیوں کو چرانے والوں کو چرواہہ کہا جاتا ہے۔ جو بلوچستان میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ یہ لاوارث لوگ ہی بلوچستان کے اصل وارث ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے بلوچستان کو مویشیوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے جب ان کے پاس مہمان جاتے ہیں تو اس کے لئے ایک عدد بکرا ضرور کاٹ کر سجی بناتے ہیں چرواہوں کی مال متاع یہ بھیڑ اور بکریاں ہوتی ہے ان کو بیچ کر ڈیرہ بگٹی کے لوگ اپنی روزی روٹی کھاتے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں پاکستان بازار
ڈیرہ بگٹی میں عورتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان پر کوئی بھی شخص انگلی اٹھائے تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔ ایک مقامی فرد موریا نے مجھے بتایا کہ آج سے بیس سال پہلے اسے سیاہ کاری کے الزام میں نواب اکبر بگٹی نے آگ پر سے گزارا تھا جس پر سے وہ گزر گیا تھا اور پاؤں بھی نہ جلے تھے۔ ڈیرہ بگٹی میں شادی شدہ لوگوں کو سیاہ کاری کے الزام میں کبھی آگ پر چلایا نہیں جاتا، یہ آزمائش صرف غیر شادی شدہ نوجوانوں کےلیے ہے۔
ملزم کو آگ پر سے گزارنے کےلیے گڑھا کھودا جارہا ہے جس میں جلتے کوئلے بھرے جائیں گے
یہ عمل ڈیرہ بگٹی میں صدیوں سے جاری ہے جسے بلوچی میں ''آس پلو'' کہتے ہیں۔ بلوچستان میں یہ قدیم رواج ہے جس کے تحت اگر کہیں دوران جرگہ کسی شخص کے مجرم یا بے قصور ہونے کے درمیان معاملہ شک پر اٹکا ہو تو پھر متعلقہ شخص کو آگ پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ہزاروں افراد کے بالکل محفوظ ہوکر نکلنے کے قصے ڈیرہ بگٹی شہر میں سننے کو ملتے ہیں۔
موریا اپنی بے گناہی ثابت کرنے کےلیے آگ پر سے گزر رہا ہے، بیس سال پرانی تصویر
خیر! موریا نے اپنا واقعہ سنانے کے بعد مزید بتایا کہ اس نے بھی کئی لوگوں کو آگ پر سے محفوظ طور پر گزرنے ہوئے دیکھا ہے۔ کسی شخص کا اس طرح بخیر و عافیت آگ پر چلتے ہوئے گزر جانا بڑے بڑے مسائل کو آسانی سے اور لمحوں میں حل کرنے کا مؤجب بنتا ہے۔ مخالفین بھی، بجائے جنگ و جدل کے، آپس میں شیر و شکر ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ کبھی کوئی بے گناہ شخص، آگ کی لپکتی لپٹوں سے متاثر نہیں ہوا۔ مگر جو اکا دکا آگ سے جھلسے تو بعد میں ثابت ہوا کہ انہوں نے واقعی میں جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس آگ کے چاروں اطراف قرآن پاک کا پھیرا کیا جاتا ہے اور آگ کو قسم دی جاتی ہے کہ قسم ہے تجھے قرآن پاک کی، جو جھوٹا ہے اسے جھوٹا ثابت کر اور جو سچا ہے اسے سچا ثابت کر؛ اور ہم مسلمان ہیں، ہمارا ایمان ہے کہ قرآن پاک کبھی ناانصافی نہیں کرتا، اور یوں بے گناہ پر آگ ٹھنڈی پڑجاتی ہے۔
ڈیرہ بگٹی میں پہاڑوں کے بیچ سے گزرتا ہوا کچا پکا لیکن خوبصورت راستہ
ڈیرہ بگٹی کو الوداع کرتے وقت مجھے نواب اکبر بگٹی کی کمی محسوس ہورہی تھی مگر افسوس کہ آج حالات ایسے بدلے ہیں کہ ان کی ایک تصویر بھی ان کے اپنے شہر ڈیرہ بگٹی کے کسی کونے میں بھی موجود نہیں۔ مقامی پروفیسر نصیر احمد نے آخری دن ہم سب کی دعوت کی جس کے بعد ہم ڈیرہ بگٹی سے روانہ ہوگئے۔
ڈیرہ بگٹی کو الوداع کہتے ہوئے مجھے چند باتیں سمجھ میں آگئیں کہ ڈیرہ بگٹی کے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ پتھر پر کھینچی ہوئی لکیر تو مٹ سکتی ہے مگر مرد کی زبان سے کیا ہوا وعدہ کبھی نہیں مٹ سکتا۔ ڈیرہ بگٹی کے لوگ وعدہ فراموشی سے پہلے اپنی موت تصور کرتے ہیں۔ اور تو اور، ان کے دروازے پر آئے ہوئے دشمن کا بھی خون معاف کیا جاتا ہے اور اس شخص کو بھائی بھی تصور کیا جاتا ہے۔
ہم نے جاتے جاتے تمام گائیڈز کو الوداع کیا اور شکریہ ادا کیا تو بابو بیلی بول پڑے، ''بلوچوں کا ایمان ہے کہ 'مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ خود لاتا ہے اور خود کھاتا ہے۔'' ہم نے تمام گائیڈز کو گلے سے لگایا اور مقامی چرواہے سے ایک بھیڑ، پانچ ہزار روپے میں خریدنے کے بعد ڈیرہ بگٹی سے گھر واپسی کے سفر پر گامزن ہوگئے۔
واپسی کے سفر میں مصنف کے ساتھ اُن کی خریدی ہوئی بھیڑ بھی موجود ہے
واپسی کے پورے سفر میں بھیڑ کی آواز سنتے سنتے ہم تھک گئے اور توبہ کرلی کہ اب سفر میں کبھی کوئی بھیڑ نہیں خریدیں گے۔ اس طرح ہم رات کے دس بجے اوستہ محمد واپس پہنچ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ سفر بخیریت گزر گیا۔ اس سفر میں جن جن دوستوں نے تعاون کیا ان میں ضلعی آفیسر زکوات ڈیرہ بگٹی جہانگیر احمد، ڈرائیور استاد پیرل، بابو فاروق احمد، بابو بیلی عرف خاوند بخش، محمد خان، محمد اسماعیل، موریاں اور پروفیسر نصیر احمد بگٹی کا شکریہ ہم پر بطورِ خاص واجب ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔