یارانِ کہن
مولانا گرامی اور حکیم فقیر محمد چشتی سے سالک کی جو یادیں وابستہ ہیں ان کی جھلکیاں قابل دید ہیں۔
عبدالمجید سالک اپنی کتاب ''یارانِ کہن'' کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں، میں نے جن شخصیات کی جھلکیاں دکھائی ہیں ان سے میرا براہ راست تعلق تھا اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کے تذکرے میں میرا اپنا ذکر نہ ہو۔
مولانا محمد علی کا ذکر کرتے ہوئے سالک لکھتے ہیں ''میاں فیروز الدین نے ان کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ مولانا نے تاکید کردی تھی کہ ان کا پرہیز ہے اور وہ صرف سلاد اور روغنِ زیتون کھاتے ہیں۔ چنانچہ میں اور فیروز الدین لوہاری دروازے سے سلاد اور روغنِ زیتون تلاش کرکے لائے۔ جب کھانا کھانے بیٹھے تو میں نے کہا، مولانا کیا تھوڑی سی سلاد میں بھی لے لوں؟ کہنے لگے۔ ہاں، ہاں کھاؤ۔ یہ کہہ کر بہت سی سلاد میری پلیٹ میں ڈال دی۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے۔ کیا یہ پلاؤ، قورمہ اکیلے اکیلے ہی اڑا جاؤ گے؟ میں نے کہا، آپ شوق سے کھائیے لیکن آپ کو تو پرہیز ہے۔ کہنے لگے، اجی کہاں کا پرہیز۔ یہ کہا اور سب کچھ کھانے لگے۔ میں نے بگڑ کر کہا، اگر یہی بات تھی تو آپ نے سلاد اور روغنِ زیتون کے لیے ہمیں کیوں پریشان کیا۔ کہنے لگے، میرا قصور معاف کرو اور مجھے کھانے دو۔''
مولانا شوکت علی کے بارے میں لکھتے ہیں ''ان کی ایک خصوصیت عدیم المثال تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور یہ قول رسمی یا مبالغہ آمیز نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔''
سالک علامہ اقبال کے ذکر میں لکھتے ہیں ''1908ء میں میری عمر چودہ برس کی ہوگی، مجھے شعر کہنے کا شوق ہوا۔ میں نے علامہ کو تلمذ کے لیے خط لکھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے تحریر فرمایا کہ ہر شخص کو طبیعت آسمان سے اور زبان زمین سے ملتی ہے۔ اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خودبخود شعر گوئی پر مجبور ہوں گے۔ باقی رہی زبان تو میں اس کے لیے موزوں استاد نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی شعر کے لیے کسی استاد یا پیر کی ضرورت نہیں۔''
عبدالمجید سالک لکھتے ہیں ''قرآن مجید سے اقبال کو عشق تھا۔ ہر روز صبح کے وقت خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور اکثر اشکبار ہو جاتے۔ چونکہ اہل دل کی آغوش میں پرورش پائی تھی اس لیے طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ میں نے بارہا دیکھا کہ جوانی کے دور میں بھی جب کبھی دوران گفتگو میں حضورؐ سرور کائنات کی رافت و رحمت کا ذکر آجاتا تو ڈاکٹر صاحب زار و قطار رونا شروع کردیتے اور دیر تک طبیعت نہ سنبھل پاتی۔''
سالک لکھتے ہیں ''مجھے اعتراف ہے کہ مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق و ذوق بخشنے اور جذبات کے اعتبار سے پرجوش مسلمان بنانے میں علامہ اقبال کی نظم اور ابوالکلام آزاد کی نثر نے سب سے بڑا حصہ لیا ہے۔''
مولانا آزاد ایک مرتبہ لاہور آئے تو میاں افتخار الدین کے ہاں سالک اور مہر ان سے ملنے گئے۔ مولانا نے سالک سے پوچھا کہیے سالک صاحب کیا مشغلے ہیں۔ سالک نے جواب دیا، وہی سیاست اور صحافت کی خاک بازی۔ سالک لکھتے ہیں ''میرا جواب سن کر مولانا نے فرمایا، جی ہاں، کوئی نہ کوئی لگاؤ اور اٹکاؤ زندگی بسر کرنے کے لیے ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے کہا، یہ کانگریس کی صدارت وغیرہ بھی تو لگاؤ اور اٹکاؤ ہی ہے۔ فرمانے لگے اس میں کیا شک ہے۔ زندگی کسی اٹکاؤ کے بغیر بسر ہو ہی نہیں سکتی۔''
سالک لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد اپنے بے تکلف احباب میں بیٹھتے تو لطیفہ کہنے اور لطیفہ سننے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔ لیکن کسی حالت میں اور کسی موقع پر بھی ان کی زبان سے کوئی گھٹیا اور نازیبا بات نہ نکلتی۔ اسی طرح جب کوئی علمی بات کرتے تو اس کو اپنی خوش بیانی سے اتنا دل کش بنا دیتے کہ عمر بھر بھلائی نہ جاسکے۔
سالک صاحب کو پرجوش مسلمان بنانے میں علامہ اقبال اور مولانا آزاد کا جو حصہ رہا وہ اپنی جگہ لیکن ادب و انشا میں ان کی تربیت کے واحد ذمے دار، شمس العلما مولوی، سید ممتاز علی صاحب تھے۔ سالک لکھتے ہیں ''ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہونے سے پہلے میں نے بعض مضامین لکھے اور پٹھان کوٹ سے ایک ادبی رسالہ ''فانوس خیال'' بھی جاری کیا لیکن میرے باقاعدہ شغل تحریر نے مولوی صاحب ہی کے آغوش عاطفت میں پرورش پائی۔ مولوی صاحب عربی، فارسی اور اردو میں پوری دسترس رکھنے کے علاوہ انگریزی بھی خوب جانتے تھے اور طبیعت میں تحقیق، تنقید اور تجسس کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ علم سمجھ لینے اور سمجھا دینے کا نام ہے۔ کہتے تھے جو بولو وہی لکھو۔''
ظفر علی خان کا ذکر کرتے ہیں تو سالک لکھتے ہیں ''مولانا ظفر علی خان خالص جذباتی اور تصوراتی بزرگ تھے۔ ہر قومی اور اسلامی مسئلے کو جذباتی نکتہ نظر سے دیکھتے اور پھر اپنے جذبات کے اظہار میں اس قدر غیر محتاط ہو جاتے کہ انگریز کے قانون کو حرکت میں آنا پڑتا اور مولانا اپنے چند کارکنوں اور رضاکاروں کو بھی ساتھ لے کر داخل زنداں ہوتے۔ دلیر اور بہادر آدمی تھے۔ صحافت میں جنگ جوئی اور رزم آرائی کے قائل تھے۔''
میاں فضل حسین کے بارے میں سالک لکھتے ہیں کہ پنجاب نے عملی سیاست کے دائرے میں جو بڑے آدمی پیدا کیے ہیں ان میں میاں فضل حسین کا نام بلاشبہ سرفہرست ہے، اس صوبے میں ان جیسا عالی پایہ دانش مند، ہمہ گیر اور شاطر سیاستدان پیدا نہیں ہوا اور لطف یہ ہے کہ جب وہ نظم و نسق حکومت کے کاموں پر فائز ہوئے تو ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھی بے مثال ثابت ہوئے۔
سردار سکندر حیات کا ذکر سالک یوں کرتے ہیں ''بلند و بالا، وجہہ و شکل، چھریرے بدن کے آدمی تھے۔ انگریزی سوٹ بھی پہنتے تھے اور شیروانی شلوار بھی۔ لیکن دونوں صورتوں سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس پر پنجاب کے زمینداروں کا امتیازی نشان یعنی طرہ دستار بہار دیتا تھا۔ کبھی گھریلو قسم کی مجلسوں میں ترکی ٹوپی بھی پہن لیتے لیکن ان کا سرکاری وغیر سرکاری لباس طرہ دار سفید دستار تھا۔''
آغا حشر کا ذکر سالک نے محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں ''حقیقت میں آغا حشر ایک نابغہ تھے جنھوں نے حالات کی نامساعدت اور ملک کے پست معیار کے باوجود نثر، شعر، خطابت اور ڈرامے میں بہت ہی بلند مقام حاصل کیا۔ زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدل جائے، ادب کی اقدار میں کتنا ہی تغیر پیدا ہوجائے، ڈرامہ زندہ رہے یا مر جائے یا دوبارہ زندگی حاصل کرے۔ ہمارے ادب اور ڈرامے کی تاریخ میں آغا حشر کا دور ہمیشہ نقادوں کے لیے توجہ اور احترام کا مرکز رہے گا۔''
مولانا حسرت موہانی سے سالک صاحب کی پہلی ملاقات امرتسر میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ، نشاط النسابیگم ان کے ساتھ تھیں۔ لکھتے ہیں ''مولانا کی غزلیں پڑھ پڑھ کر ان کی شکل و صورت کے بارے میں جو دلکش تصور قائم تھا وہ انھیں دیکھ کر کافور ہوگیا۔ سرپر ترکی ٹوپی جس کے کناروں پر چیکٹ جما ہوا۔ گندمی رنگ، چہرے پر چیچک کے داغ، بھری ہوئی، بے ترتیب سی داڑھی، ذرہ کی شیروانی، میلا پاجامہ، جوتے نے کبھی پالش کی شکل نہ دیکھی تھی۔ آواز کچھ باریک، کچھ بھرائی ہوئی۔ سادگی اور غربت کا نمونہ مجسم۔ یہی حالت بیگم کی تھی۔ وہ بھی ایک فقیر شوہر کی فقیر بیوی تھیں اور ایک خاصے خوشحال خاندان کی بیٹی ہونے کے باوجود درویشی کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔''
مولانا گرامی اور حکیم فقیر محمد چشتی سے سالک کی جو یادیں وابستہ ہیں ان کی جھلکیاں قابل دید ہیں۔ مولانا غلام قادر گرامی کی ذات جن سے عرفی اور نظری کی یاد تازہ ہوتی تھی، دلچسپیوں کی پوٹ تھے اور حکیم فقیر محمد چشتی نہ صرف ماہر و حاذق تھے ایک اعلیٰ درجے کے خطاط، چابکدست مصور، خوش بیان شاعر، زبان دان انشا پرداز بھی تھے۔
''یارانِ کہن'' میں خواجہ حسن نظامی، مولانا احمد سعید، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر تاثیر اور مولانا بیدل شاہ جہاں پوری کی جھلکیاں بھی کچھ کم دیدہ زیب نہیں۔ یہ نادر شخصیات اور عبدالمجید سالک کا اسلوب بیان پڑھنے کے قابل ہے۔
مولانا محمد علی کا ذکر کرتے ہوئے سالک لکھتے ہیں ''میاں فیروز الدین نے ان کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ مولانا نے تاکید کردی تھی کہ ان کا پرہیز ہے اور وہ صرف سلاد اور روغنِ زیتون کھاتے ہیں۔ چنانچہ میں اور فیروز الدین لوہاری دروازے سے سلاد اور روغنِ زیتون تلاش کرکے لائے۔ جب کھانا کھانے بیٹھے تو میں نے کہا، مولانا کیا تھوڑی سی سلاد میں بھی لے لوں؟ کہنے لگے۔ ہاں، ہاں کھاؤ۔ یہ کہہ کر بہت سی سلاد میری پلیٹ میں ڈال دی۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے۔ کیا یہ پلاؤ، قورمہ اکیلے اکیلے ہی اڑا جاؤ گے؟ میں نے کہا، آپ شوق سے کھائیے لیکن آپ کو تو پرہیز ہے۔ کہنے لگے، اجی کہاں کا پرہیز۔ یہ کہا اور سب کچھ کھانے لگے۔ میں نے بگڑ کر کہا، اگر یہی بات تھی تو آپ نے سلاد اور روغنِ زیتون کے لیے ہمیں کیوں پریشان کیا۔ کہنے لگے، میرا قصور معاف کرو اور مجھے کھانے دو۔''
مولانا شوکت علی کے بارے میں لکھتے ہیں ''ان کی ایک خصوصیت عدیم المثال تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور یہ قول رسمی یا مبالغہ آمیز نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔''
سالک علامہ اقبال کے ذکر میں لکھتے ہیں ''1908ء میں میری عمر چودہ برس کی ہوگی، مجھے شعر کہنے کا شوق ہوا۔ میں نے علامہ کو تلمذ کے لیے خط لکھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے تحریر فرمایا کہ ہر شخص کو طبیعت آسمان سے اور زبان زمین سے ملتی ہے۔ اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خودبخود شعر گوئی پر مجبور ہوں گے۔ باقی رہی زبان تو میں اس کے لیے موزوں استاد نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی شعر کے لیے کسی استاد یا پیر کی ضرورت نہیں۔''
عبدالمجید سالک لکھتے ہیں ''قرآن مجید سے اقبال کو عشق تھا۔ ہر روز صبح کے وقت خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور اکثر اشکبار ہو جاتے۔ چونکہ اہل دل کی آغوش میں پرورش پائی تھی اس لیے طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ میں نے بارہا دیکھا کہ جوانی کے دور میں بھی جب کبھی دوران گفتگو میں حضورؐ سرور کائنات کی رافت و رحمت کا ذکر آجاتا تو ڈاکٹر صاحب زار و قطار رونا شروع کردیتے اور دیر تک طبیعت نہ سنبھل پاتی۔''
سالک لکھتے ہیں ''مجھے اعتراف ہے کہ مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق و ذوق بخشنے اور جذبات کے اعتبار سے پرجوش مسلمان بنانے میں علامہ اقبال کی نظم اور ابوالکلام آزاد کی نثر نے سب سے بڑا حصہ لیا ہے۔''
مولانا آزاد ایک مرتبہ لاہور آئے تو میاں افتخار الدین کے ہاں سالک اور مہر ان سے ملنے گئے۔ مولانا نے سالک سے پوچھا کہیے سالک صاحب کیا مشغلے ہیں۔ سالک نے جواب دیا، وہی سیاست اور صحافت کی خاک بازی۔ سالک لکھتے ہیں ''میرا جواب سن کر مولانا نے فرمایا، جی ہاں، کوئی نہ کوئی لگاؤ اور اٹکاؤ زندگی بسر کرنے کے لیے ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے کہا، یہ کانگریس کی صدارت وغیرہ بھی تو لگاؤ اور اٹکاؤ ہی ہے۔ فرمانے لگے اس میں کیا شک ہے۔ زندگی کسی اٹکاؤ کے بغیر بسر ہو ہی نہیں سکتی۔''
سالک لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد اپنے بے تکلف احباب میں بیٹھتے تو لطیفہ کہنے اور لطیفہ سننے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔ لیکن کسی حالت میں اور کسی موقع پر بھی ان کی زبان سے کوئی گھٹیا اور نازیبا بات نہ نکلتی۔ اسی طرح جب کوئی علمی بات کرتے تو اس کو اپنی خوش بیانی سے اتنا دل کش بنا دیتے کہ عمر بھر بھلائی نہ جاسکے۔
سالک صاحب کو پرجوش مسلمان بنانے میں علامہ اقبال اور مولانا آزاد کا جو حصہ رہا وہ اپنی جگہ لیکن ادب و انشا میں ان کی تربیت کے واحد ذمے دار، شمس العلما مولوی، سید ممتاز علی صاحب تھے۔ سالک لکھتے ہیں ''ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہونے سے پہلے میں نے بعض مضامین لکھے اور پٹھان کوٹ سے ایک ادبی رسالہ ''فانوس خیال'' بھی جاری کیا لیکن میرے باقاعدہ شغل تحریر نے مولوی صاحب ہی کے آغوش عاطفت میں پرورش پائی۔ مولوی صاحب عربی، فارسی اور اردو میں پوری دسترس رکھنے کے علاوہ انگریزی بھی خوب جانتے تھے اور طبیعت میں تحقیق، تنقید اور تجسس کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ علم سمجھ لینے اور سمجھا دینے کا نام ہے۔ کہتے تھے جو بولو وہی لکھو۔''
ظفر علی خان کا ذکر کرتے ہیں تو سالک لکھتے ہیں ''مولانا ظفر علی خان خالص جذباتی اور تصوراتی بزرگ تھے۔ ہر قومی اور اسلامی مسئلے کو جذباتی نکتہ نظر سے دیکھتے اور پھر اپنے جذبات کے اظہار میں اس قدر غیر محتاط ہو جاتے کہ انگریز کے قانون کو حرکت میں آنا پڑتا اور مولانا اپنے چند کارکنوں اور رضاکاروں کو بھی ساتھ لے کر داخل زنداں ہوتے۔ دلیر اور بہادر آدمی تھے۔ صحافت میں جنگ جوئی اور رزم آرائی کے قائل تھے۔''
میاں فضل حسین کے بارے میں سالک لکھتے ہیں کہ پنجاب نے عملی سیاست کے دائرے میں جو بڑے آدمی پیدا کیے ہیں ان میں میاں فضل حسین کا نام بلاشبہ سرفہرست ہے، اس صوبے میں ان جیسا عالی پایہ دانش مند، ہمہ گیر اور شاطر سیاستدان پیدا نہیں ہوا اور لطف یہ ہے کہ جب وہ نظم و نسق حکومت کے کاموں پر فائز ہوئے تو ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھی بے مثال ثابت ہوئے۔
سردار سکندر حیات کا ذکر سالک یوں کرتے ہیں ''بلند و بالا، وجہہ و شکل، چھریرے بدن کے آدمی تھے۔ انگریزی سوٹ بھی پہنتے تھے اور شیروانی شلوار بھی۔ لیکن دونوں صورتوں سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس پر پنجاب کے زمینداروں کا امتیازی نشان یعنی طرہ دستار بہار دیتا تھا۔ کبھی گھریلو قسم کی مجلسوں میں ترکی ٹوپی بھی پہن لیتے لیکن ان کا سرکاری وغیر سرکاری لباس طرہ دار سفید دستار تھا۔''
آغا حشر کا ذکر سالک نے محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں ''حقیقت میں آغا حشر ایک نابغہ تھے جنھوں نے حالات کی نامساعدت اور ملک کے پست معیار کے باوجود نثر، شعر، خطابت اور ڈرامے میں بہت ہی بلند مقام حاصل کیا۔ زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدل جائے، ادب کی اقدار میں کتنا ہی تغیر پیدا ہوجائے، ڈرامہ زندہ رہے یا مر جائے یا دوبارہ زندگی حاصل کرے۔ ہمارے ادب اور ڈرامے کی تاریخ میں آغا حشر کا دور ہمیشہ نقادوں کے لیے توجہ اور احترام کا مرکز رہے گا۔''
مولانا حسرت موہانی سے سالک صاحب کی پہلی ملاقات امرتسر میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ، نشاط النسابیگم ان کے ساتھ تھیں۔ لکھتے ہیں ''مولانا کی غزلیں پڑھ پڑھ کر ان کی شکل و صورت کے بارے میں جو دلکش تصور قائم تھا وہ انھیں دیکھ کر کافور ہوگیا۔ سرپر ترکی ٹوپی جس کے کناروں پر چیکٹ جما ہوا۔ گندمی رنگ، چہرے پر چیچک کے داغ، بھری ہوئی، بے ترتیب سی داڑھی، ذرہ کی شیروانی، میلا پاجامہ، جوتے نے کبھی پالش کی شکل نہ دیکھی تھی۔ آواز کچھ باریک، کچھ بھرائی ہوئی۔ سادگی اور غربت کا نمونہ مجسم۔ یہی حالت بیگم کی تھی۔ وہ بھی ایک فقیر شوہر کی فقیر بیوی تھیں اور ایک خاصے خوشحال خاندان کی بیٹی ہونے کے باوجود درویشی کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔''
مولانا گرامی اور حکیم فقیر محمد چشتی سے سالک کی جو یادیں وابستہ ہیں ان کی جھلکیاں قابل دید ہیں۔ مولانا غلام قادر گرامی کی ذات جن سے عرفی اور نظری کی یاد تازہ ہوتی تھی، دلچسپیوں کی پوٹ تھے اور حکیم فقیر محمد چشتی نہ صرف ماہر و حاذق تھے ایک اعلیٰ درجے کے خطاط، چابکدست مصور، خوش بیان شاعر، زبان دان انشا پرداز بھی تھے۔
''یارانِ کہن'' میں خواجہ حسن نظامی، مولانا احمد سعید، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر تاثیر اور مولانا بیدل شاہ جہاں پوری کی جھلکیاں بھی کچھ کم دیدہ زیب نہیں۔ یہ نادر شخصیات اور عبدالمجید سالک کا اسلوب بیان پڑھنے کے قابل ہے۔