اندھے پن کی وبا
اگرکسی آنکھ والے سے پوچھا جائے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں یا اندھے ہیں تو وہ جواب میں کہے گا میں اندھا نہیں ہوں۔
آنکھوں والے بھی اندھے ہوتے ہیں، کیسے؟ آئیں! اس ''کیسے'' کا جواب سنتے ہیں۔
نوبل انعام یافتہ پرتگیزی ادیب حوزے سارا میگو کا 1995ء میں شایع ہونے والا ''اندھا پن :ایک ناول'' ایک مرکزی علامت کے گرد لکھا گیا ہے۔ سرخ بتی پر ٹریفک رکا ہوا ہے، بتی سبز ہوتے ہی سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں ۔ سوائے ایک گاڑی کے جس کے اندر بیٹھا ہوا ایک آدمی چیخ رہا ہے، چیخے چلا جا رہا ہے۔
'' میں اندھا ہو گیا ! میں اندھا ہو گیا '' ایک نیک دل آدمی اس کی مدد کرتا ہے اور اسے گھر پہنچا دیتا ہے اور گھر پہنچا کر اس کی گاڑی چرا لیتا ہے۔کچھ دیر بعد وہ خود بھی اندھا ہو جاتا ہے جو ڈاکٹر ''سفید اندھے پن'' کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود بھی اندھا ہو جاتا ہے۔ جلد ہی یہ بیماری پورے شہرکو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ حکومت اس معاملے سے نپٹنے کے لیے ان لوگوں کو ایک علیحدہ مقام پر بھیج دیتی ہے لیکن اس وقت تک یہ بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ ہوائی جہاز، ٹریفک اور شہری نظام متاثر ہونے لگتا ہے۔
بس ڈاکٹرکی بیوی اس سے محفوظ ہے جو جھوٹ موٹ اندھی بنی ہوئی ہے۔ وبا کے پھیلنے اور بحران میں مبتلا لوگوں کے اخلاقی زوال کے نقشے جن کی وجہ سے نقادوں نے اس ناول کا موازنہ کامیو کے '' طاعون'' اور ولیم گولڈنک کے '' لارڈ آف دی فلائیز '' سے کیا ہے اور جس کا موازنہ جوگندر پال کے '' نادید '' سے بھی کیا جا سکتا ہے ۔
واقعات ایسی بلیغ نثر میں بیان کیے گئے ہیں کہ تنائو اور خوف بتدریج بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ناول کے آخر میں کہیں جا کر ڈاکٹر کی بیوی یہ کہتی ہوئی دکھائی جاتی ہے ''ہم اندھے کیوں ہوگئے ، مجھے نہیں معلوم ، شاید ایک دن ہمیں معلوم ہو جائے، اگر تم مناسب سمجھو تو میں اپنا خیال بتادوں ، ہاں ضرور بتائو ، میں نہیں سمجھتی کہ ہم اندھے ہو گئے تھے بلکہ ہم اندھے ہیں اندھے ہیں مگر دیکھ سکتے ہیں ایسے اندھے جو دیکھ سکتے ہیں مگر دیکھتے نہیں۔''
اگرکسی آنکھ والے سے پوچھا جائے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں یا اندھے ہیں تو وہ جواب میں کہے گا میں اندھا نہیں ہوں، سب کچھ دیکھ سکتا ہوں، اس کے جواب میں پھر اس سے یہ کہا جائے گا کہ آپ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہیں توہ کہے گا میں اندھا کیسے ہو سکتا ہوں میں تو ہر چیزکو دیکھ رہا ہوں ۔ ان صاحب کا کہنا بالکل صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ دیکھنے والا بھی اندھا ہو سکتا ہے۔ مہذب ممالک میں تمام شہری آنکھوں والے ہوتے ہیں ، اس لیے وہ کوئی چیز غلط ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں، اگرکوئی چیز غلط ہو رہی ہو تو وہ اس پر اپنا Reaction دکھاتے ہیں اور اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف ہم آنکھوں والے ہر ناانصافی ، ظلم ، زیادتی،کرپشن ، لوٹ مار، غنڈہ گردی ، دادا گیری ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اندھے بن جاتے ہیں۔ اس لیے توکہتے ہیں کہ آنکھوں والے بھی اندھے ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 95 فیصد لوگ اندھے ہیں اور باقی پانچ فیصد لوگ جو ہر زیادتی ظلم ، نا انصافی،کرپشن، لوٹ مارکے ذمے دار ہیں وہ ناول میں ڈاکٹرکی بیوی کی طرح اندھے بننے کی اداکاری میں مصروف ہیں ۔ ان کی نظر میں ہر طرف ایمانداری اور دیانتداری کا دور دوراہے چاروں اطراف سکون ہی سکون ہے اگرکوئی انھیں ملک میں پھیلی برائیوں اور خرابیوں کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور انھیں ان ساری ، خرابیوں اور برائیوں کا ذمے دار ٹہراتے ہیں تو وہ غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں۔ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھیں ! ایمانداری اور دیانتداری کی کمی نے ہماری فکروں کوکھوکھلا کر دیا ہے وہ شخص جسے اپنے ضمیر پر اعتماد نہیں انسانی زندگی کے اہم مسائل سے گریزکرتا ہے لیکن کسی وقت بھی زندگی کی یہ وسیع و عریض تجربہ گاہ اس کے حقیر جھوٹ کو بے نقاب کر سکتی ہے، کسی وقت بھی وہ حقیقت کے سامنے برہنہ ہو کر لرزہ براندام ہو سکتا ہے ۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مزید اندھا نہیں رہا جا سکتا ۔ مزید اندھا رہنے کا مطلب سوائے خود کشی کے اورکچھ نہیں ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے جب کہ پانے کے لیے پوری دنیا ہے، اس لیے آئیں ! اپنی آنکھیں بھی کھول لیتے ہیں اور باقیوں کی آنکھیں بھی کھولنے کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں۔