پراپیگنڈوں کی دنیا سے باہر نکلیں 

اگر ہم پراپیگنڈوں کی دنیا سے نکل کر سیاسی جماعتوں کو دیکھیں گے تو دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔


علی احمد ڈھلوں October 05, 2018
[email protected]

کہتے ہیں کہ پروپیگنڈا افریقی ہتھیار ''بوم رنگ'' کی طرح ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ حملہ آور کی طرف ہی پلٹ آتا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ ہر ایک کو وہی کاٹنا ہے، جو اس نے بویا ہو۔ افسوس ہوتا ہے جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک پراپیگنڈوں کی دنیا سے باہر نہیں نکل پا رہے ۔ہر سیاستدان اس وقت تاک میں بیٹھا ہے کہ وہ کسی طرح جھپٹ کر اقتدار میں آجائے۔

ابھی گزشتہ روز ہی پنجاب کے سابق وزیر رانا مشہود کا وہ بیان سامنے پڑا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ لیگی قیادت اور ریاستی اداروں کے مابین معاملات (ڈیل) طے ہو چکے ہیں اور اگلے دو ماہ کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہو گی۔ پورا دن یہ بیان ذرایع ابلاغ پر نمایاں انداز میں زیر بحث رہا۔

مسلم لیگی قیادت نے اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے اسے رانا مشہود کی ذاتی رائے قرار دیا اور ان سے وضاحت طلبی کا بتایا ہے۔ بیشتر تجزیہ کاروں کے مطابق رانا صاحب کے یہ ارشادات، لیگی قیادت کے ایما پر ہیں۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ امید برقرار رکھی جا سکے۔ پارٹی کو شکست و ریخت سے بچایا جا سکے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ کبھی ایم کیو ایم اور اے این پی والے اس طرح کی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ اب کسی قدر وہ سنبھل گئے۔ پے در پے شکستوں نے تھوڑی سی آدمیت پیدا کر دی۔ ایم کیو ایم کے بعد، برسوں تک پورے میڈیا کو جس نے یرغمال بنائے رکھا، یہ نون لیگ ہے۔ کاش اپنے رہنمائوں کی ن لیگ نے تربیت کی ہوتی۔ کاش عملی سیاست کے تقاضوں کا انھیں ادراک ہوتا۔ 1988ء کے الیکشن میں حسین حقانی اینڈ کمپنی نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کے حوالے سے جو کچھ مرتب اور شایع کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔

حقیقت میں پراپیگنڈہ سیاست اورپراپیگنڈہ جرنلزم کا تعلق بہت گہرا ہے ، اسے سمجھنے کے لیے ہمیںگڑے مُردے اُکھاڑنا کی مثال لینا ہوگی یعنی نان ایشوز کو دوبارہ اُبھارا جائے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرکے مخالفین کو زچ کیا جائے۔ اگر اسے پراپیگنڈہ سیاست کے ساتھ جوڑا جائے تو تکنیکی اعتبار سے اسے اس طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک ''خبر''کی جگہ ہی نہ بنتی ہو، اُس خبر پر پراپیگنڈہ کرواکر اُسی خبر کی ''ہیڈ لائن''بنائی جائے اور پھر روزانہ اُس پر بحث کروائی جائے۔ اس طرح کی جرنلزم کے دو فوائد ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے اور دوسرا مخالفین پر نفساتی دبائو بڑھایا جائے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ طریقہ ''واردات'' پاکستان کی سیاست میں بھی سرائیت کر چکا ہے جیسے سابق وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود کا حالیہ بیان جس میں انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومت بنانے کے لیے شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہوگئے ہیں۔ جو قطعی درست نہیں ہے۔

دوسری طرف مختلف حلقوں کی طرف سے مسلم لیگ ن سے وفادار کچھ سرکاری افسران کی بابت اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سرکاری افسران حکومتی کارکردگی کو خراب اور سست کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک مربوط حکمت عملی دکھائی دیتی ہے جس کا مقصد ایسا تاثر قائم کرنا ہے کہ تحریک انصاف پنجاب اور مرکز میں اپنی انتظامی گرفت مضبوط ثابت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

رانا مشہود کے بیان کا تاثر سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی حکومت مخالف مہم سے ہم آہنگ ہے۔ اس بیان سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طاقتور ریاستی ادارے تحریک انصاف کی کارکردگی سے مایوس ہو کر ایک بار پھر گویا مسلم لیگ ن کو صوبائی حکومت دینے پر رضا مند ہیں۔ رانامشہود پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے ہیں۔ وہ دو بار صوبائی وزیر رہے۔

رانا مشہود جیسے تجربہ کار سیاستدان کی گفتگو سے یہ لگتا ہے گویا انتخابی عمل کی کوئی حیثیت نہیں اور ریاستی اداروں نے پورے نظام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ رانا مشہود کے بیان سے یہ محسوس ہوا کہ عوام کا ووٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گویا حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی وجہ سے تھی جسے اب رضا مند کر لیا گیا ہے۔

حقیقت میں میری ذاتی رائے میں رانا مشہود نے بتا دیا کہ نون لیگ اب تک سول بالادستی کے جس بیانیے پہ مصرتھی، وہ محض پراپیگنڈے کا ایک ہتھیار ہے۔ان کا یہ ارشاد کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کی بات طے پا چکی، اس امر کا اعلان ہے کہ وہ اب بھی انھی حربوں پہ یقین رکھتی ہے، تین عشرے قبل جو اس کی بنیاد بنے۔جہاں میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پائی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب جب ان کے بڑوں کے خلاف نیب کے فیصلے آنا شروع ہوئے اور عدالتیں بھی لوٹ کھسوٹ کے خلاف متحرک ہوئیں تو انھوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے عوام میں یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے خلاف ہے جب کہ شہباز شریف کے ساتھ اس کے تعلقات ٹھیک ہیں اس لیے وہ بچ جائیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاسی گروہوں کو چاہیے کہ یہ لوگ اپنے پارٹی لیڈروں کے ایما پر ''پراپیگنڈہ سیاست'' کا حصہ نہ بنیں کیوں کہ سیاسی جماعت ایک تنظیم اور نصب العین کا نام ہوتی ہے۔ نصب العین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ تنظیم مقصد کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہوتی ہے۔ افسوس کہ ان پراپیگنڈہ میکرز کے لیے جب اقتدار ہی پہلی اور آخری ترجیح ہو تو کہاں کا نصب العین اور کیسی تنظیم۔ اگر ہم پراپیگنڈوں کی دنیا سے نکل کر سیاسی جماعتوں کو دیکھیں گے تو دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ ہر طرف سیاسی جماعتوں کی وجہ سے عوام میں اُمید اور روشنی کی کرنیں موجود ہیں، خدارا ہمیں ان سب چیزوں سے نکل کر آگے کا سوچنا ہوگا ورنہ ہم بہت پیچھے دھکیل دیے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں