زرعی تحقیق کی آڑ میں ’زرعی دہشت گردی‘ کا ایک اور امریکی منصوبہ

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی ملک کی فصل بھی بغیر بمباری کے تباہ کی جاسکے گی

امریکی ادارے ’ڈارپا‘ کے تحت جاری اس منصوبے میں کیڑوں کے ذریعے پودوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

امریکی فوج کے زیرِنگرانی گزشتہ کئی سال سے ''انسیکٹ ایلائیز'' نامی ایک ایسے منصوبے پر کام ہورہا ہے جس کے تحت کیڑے مکوڑوں کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی پودے میں وقتی طور پر جینیاتی تبدیلیاں (genetic modifications) کی جاسکیں گی؛ اور یوں اس میں ناموافق حالات کے خلاف مزاحمت پیدا کر دی جائے گی۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر بے ضرر اور پرامن دکھائی دینے والا یہی منصوبہ، مستقبل میں حیاتیاتی/ زرعی دہشت گردی کےلیے نئی اور انتہائی خطرناک ٹیکنالوجی کو بھی جنم دے سکتا ہے جسے ممکنہ طور پر امریکا مخالف ملکوں کی زراعت تباہ کرنے میں استعمال کیا جاسکے گا۔

گزشتہ روز ''امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس'' (AAAS) کے ہفت روزہ تحقیقی جریدے ''سائنس'' میں جرمن اور فرانسیسی ماہرین کا ایک مشترکہ مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اس منصوبے پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے مؤقف کا لبِ لباب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کسی دو دھاری تلوار کی مانند ہے جسے انسانیت کےلیے فائدے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تباہی و بربادی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

''انسیکٹ ایلائیز'' میں جس طرح کی حیاتیاتی ٹیکنالوجی کو پختہ کرنے پر کام ہورہا ہے، وہ آنے والے برسوں میں امریکا مخالف ممالک کی فصلیں تباہ کرنے میں بھی اتنی ہی سہولت سے استعمال کی جاسکے گی کہ جتنی سہولت سے اس کے ذریعے فصلوں کو مضبوط اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ''انسیکٹ ایلائیز'' منصوبے کے تحت کسی وائرس سے متاثر کردہ یا (جینیاتی طور پر) ترمیم شدہ کیڑے کسی پودے (فصل) پر حملہ کرتے ہیں اور اپنا جینیاتی مواد (جین/ ڈی این اے) اس میں داخل کردیتے ہیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی پودے میں وقتی طور پر کچھ ایسی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں جو اس میں قدرتی طور پر پہلے سے موجود نہیں تھیں۔

اس منصوبے پر ماہرین کا اعتراض ہے کہ جینیاتی ترمیم کے ذریعے کیڑوں کو پودوں میں ایسا جینیاتی مواد داخل کرنے کے قابل بھی بنایا جاسکتا ہے جو انہیں موت کی نیند سلا دے اور صرف چند دنوں میں پوری کی پوری فصل تباہ کردے۔ یہ ٹیکنالوجی پختہ ہوجانے کی صورت میں صرف جینیاتی مواد تبدیل کرنے کی دیر ہوگی کہ یہی 'مفید ٹیکنالوجی' چشمِ زدن میں بھیانک اور مہلک روپ دھار لے گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسی کوئی بھی صورت، حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کے عالمی معاہدے (BWC) کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔


''انسیکٹ ایلائیز'' پر ماہرین کا دوسرا منطقی اعتراض یہ ہے کہ زراعت سے متعلق منصوبوں پر کام کروانا اور ان کی نگرانی کرنا، امریکی محکمہ زراعت (ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچر) کا کام ہے لیکن یہ منصوبہ، دفاعی تحقیق کے امریکی فوجی ادارے ''ڈارپا'' (DARPA) یعنی ''ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی'' کی سرپرستی میں جاری ہے۔ امریکی فوج کے حکام یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آخر دفاعی اُمور سے تعلق رکھنے والا ایک خالص فوجی ادارہ کسی زرعی یا حیاتیاتی منصوبے میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟

قصہ مختصر یہ کہ تکنیکی بنیادوں پر ماہرین کی تشویش بالکل درست ہے مگر امریکی حکام اب تک یہ تشویش دُور کرنے میں ناکام ہیں۔

قبل ازیں 1990 کے عشرے میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوچکا ہے جب ایک نجی امریکی کمپنی نے ''سیڈ ٹرمنیشن ٹیکنالوجی'' وضع کی تھی جسے ''گرٹ'' (GURT) کا تکنیکی نام دیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے بیج تیار کیے جاتے ہیں جن سے صرف ایک بار ہی فصل حاصل کی جاسکتی ہے؛ اور کاشتکار کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اگلی فصل کےلیے بازار سے نئے بیج خریدے کیونکہ پچھلی فصل سے بچائے گئے بیج اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان سے کوئی پودا نکل سکے۔ بعد ازاں ایک اور بڑی امریکی کمپنی نے یہ ٹیکنالوجی (متعلقہ کمپنی سمیت) دو ارب ڈالر میں خرید لی اور اسے استعمال کرتے ہوئے بہت سی نئی اور بہتر فصلیں تیار بھی کروالیں۔

آج یہ فصلیں پاکستان اور بھارت سمیت، دنیا کے کئی ممالک میں فروخت ہورہی ہیں جبکہ بھارت میں اب تک لاکھوں کسان اسی ٹیکنالوجی کے باعث خودکشی کرچکے ہیں کیونکہ ایک بار فصل خراب ہونے کے بعد وہ (روایتی طرز پر) اس کے بچے کچھے بیجوں سے دوسری فصل پیدا نہیں کرسکتے تھے اور کمپنی سے منہ مانگے داموں پر نیا بیج خریدنے کےلیے ان کے پاس رقم بھی نہیں تھی۔ ''سیڈ ٹرمنیشن ٹیکنالوجی'' (GURT) کے طفیل جب ان کے گھروں میں فاقے ہونے لگے تو وہ خودکشی پر مجبور ہوگئے۔

ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ''انسیکٹ ایلائیز'' سے وجود میں آنے والی ٹیکنالوجی بھی امریکا مخالف ملکوں کی زراعت تباہ کرنے اور وہاں رہنے والوں کو فاقے کرنے پر مجبور کرکے ''عظیم امریکی مفادات'' حاصل کرنے میں استعمال کرلی جائے... امریکا بہادر سے کچھ بھی بعید نہیں۔
Load Next Story