’’چھجو کا چوبارہ‘‘ کیا صرف محاورے میں باقی رہ جائے گا

پرانے لاہور کے تاریخی مقامات میں سے ایک اور مقام جو شاید اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے


طلحہ شفیق October 07, 2018
پرانے لاہور کے تاریخی مقامات میں سے ایک اور مقام جو شاید اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

نا بلخ نہ بخارے
جو سُکھ چھجو دے چوبارے


بقول پران نوائل، یہ کہاوت لاہور میں موجود چھجو بھگت کے چوبارے کے متعلق ہے۔ چھجو بھگت کی پیدائش سے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں البتہ چھجو بھگت کا تعلق جہانگیر بادشاہ کے دور سے ہے۔ سید لطیف نے آپ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے: ''لاہور کا رہنے والا تھا۔ ذات کا بھاٹیہ تھا۔ وہ ایک صراف تھا لیکن اسے فقیروں کی صحبت سے بڑی رغبت تھی۔ آخرکار دنیا سے قطع تعلق کرنے کے بعد اس نے بقیہ زندگی کو عبادت و ریاضت کےلیے وقف کردیا۔''



بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائیڈ میں درج ہے کہ آپ کی زندگی حضرت میاں میر، حضرت شاہ بلاول اور حضرت میاں وڈا کے فیض صحبت سے بدلی۔ آپ کی ان بزرگوں سے گہری دوستی تھی۔ چھجو بھگت سے بہت سی کرامات منسوب ہیں جن کی تفصیل تحقیقات چشتی میں درج ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ مغل درباری آپ کے پاس اشرفیاں پرکھوانے آیا۔ اس کی گنتی شدہ اشرفیوں میں سے ایک اشرفی اس کی بیوی نے چُرالی تھی، اس نے اس کمی کا الزام آپ پر لگایا اور آپ کو چابک رسید کیے۔ گھر پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کو غیب سے چابک پڑ رہے ہیں، تب اس نے جانا کہ چھجو جی، صَاحِب کَمال ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک مجبور و بے کس عورت کو کھوٹے سکے کے کھرے دام دیئے تو بازار کے لوگوں نے آپ کا مذاق اڑایا مگر جب انہوں نے سکہ دیکھا تو وہ کھرے سکہ میں بدل چکا تھا۔ اسی طرح معروف ہے کہ آپ نے ایک عورت کو گنگا کی سیر کروائی یا گنگا جاری کی۔



کہا جاتا ہے کہ چھجو بھگت کی موت واقع نہیں ہوئی بلکہ وہ غائب ہوگئے۔ نور احمد چشتی کا بیان ہے ''ایک روز بتاریخ نوی ودی وہ اپنے چوبارہ میں چلے گئے اور دروازہ بند کرلیا اور وہاں ہی سما گئے، کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کہاں گئے اور سال وفات چھجو صاحب کا سمت بکرما جیتی سولہ سو چھیانوے مطابق سن ایک ہزار باون ہجری ہے۔'' مگر چشتی صاحب کا ہی بیان ہے: ''چھجو صاحب کے گدی نشین کے بقول آپ بعد شاہجہان بادشاہ زندہ تھے۔''



سید لطیف نے سن وفات 1696 سمبت 1610ء درج کی ہے۔ زیادہ تر کتب میں سن وفات 1052ھ درج ہے لیکن اختلاف موجود ہے۔ اسی طرح چھجو بھگت کی سمادھی کا محل وقوع واضح نہیں۔ چشتی صاحب کا کہنا ہے کہ جہاں سے چھجو غائب ہوا وہاں سمادھی ہے، کہنیالال کا بیان ہے جہاں اس کی سمادھی ہے وہاں اس کی دکان تھی، سید لطیف کہتے ہیں کہ سمادھی سنگ مرمر کی تعمیر ہوئی، نقوش لاہور نمبر میں درج ہے کہ میو ہسپتال کے بڑے دروازے کے قریب سمادھی ہے جبکہ اسی مضمون کہ آخر میں لکھا ہوا ہے یہ سمادھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے احاطے میں ہے۔



کچھ لوگوں کا خیال ہے جو کمرہ اب موجود ہے (جس کی تصاویر اس بلاگ میں دی جارہی ہیں) وہاں سے یہ غائب ہوا اور یہی اس کی سمادھی ہے۔



سید لطیف بھی کہتے ہیں کہ چھجو بھگت یک منزلہ کمرے میں ریاضت کرتا تھا مگر بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائیڈ میں درج ہے کہ آپ نے ''چوبارہ کے ساتھ ایک چوبی زینہ لگا رکھا تھا تاکہ عوام عبادت میں مخل نہ ہوں، یہیں سے آپ غائب ہوئے اور لوگوں نے اس کو سمادھی قرار دیا۔'' چشتی صاحب نے چوبارے کی حدود میں دو منزلہ عمارت کا ذکر کیا ہے مگر وہ کسی اور کی سمادھی ہے۔



ماضی میں یہ چوبارہ بہت وسیع تھا جس کی خاطر خواہ تفصیل تحقیقات چشتی میں درج ہے۔ یہاں بہت سی اور سمادھیاں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں بہت بڑا مندر بھی تھا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی عمارت میں خصوصی ترقی ہوئی۔ رنجیت سنگھ یہاں ہر سوموار کو حاضری دیتے تھے اور صد ہا روپے نذر چڑھاتے تھے۔ اس کے علاوہ چودہ کنال سات مرلہ قابل کاشت زمین بھی عطیہ کی۔ رنجیت کے جانشین بھی مندر کو عطیات دیتے تھے۔ یہاں میلہ بھی لگتا تھا۔



مندر کا مہنت دادو پنتھی بھی بہت مشہور تھا۔ اس کے پیروکار مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ انکا شاستری زبان میں لکھا ہوا اپنا گرنتھ بھی ہے جسے ''دادو رام کی بانی'' کہا جاتا ہے۔ نقوش لاہور نمبر میں درج ہے کہ لاہور میڈیکل کالج جب بنایا گیا تو باغ کی سب عمارات برباد کردی گئیں۔ 1909ء میں شائع شدہ لاہور گائیڈ کے مصنف نے چوبارہ سے ملحق کچھ عالیشان عمارات کا ذکر کیا ہے مگر 1928ء میں شائع شدہ کتاب ''لاہور کی سیر'' کے مصنف ماسٹر امرناتھ کا کہنا ہے ''پہلے یہ عمارت بہت وسیع تھی اور بہت سی سمادھیاں تھیں۔ لیکن اب صرف ایک سمادھی رہ گئی ہے۔ باقی تمام جگہ اسپتال کے استعمال میں آگئی ہے۔'' ایف سی چوہدری کی کتاب میں بھی چھجو کے چوبارے کی تصاویر شامل ہیں مگر تصویر میں موجود عمارتیں اب موجود نہیں۔



اب چھجو چوبارے کا فقط ایک کمرہ باقی ہے جو شمس شہاب الدین صحت گاہ اسپتال میں موجود ہے۔ اس کمرے کو ہم نے خاصی مشکل سے تلاش کیا۔ یہاں اگر کسی کو جانا ہو تو میو اسپتال کے سرجیکل ٹاور کا راستہ کسی سے پوچھ لے۔ شمس شہاب الدین صحت گاہ وہیں ہے۔



اندر داخل ہوئے تو ایک صاحب نے پکڑ لیا۔ ان سے گزارش کی تو وہ ایک اور صاحب کے پاس لے گئے جو انتہائی خوش اخلاق تھے۔ ان کا نام حسین تھا، انہیں اپنی داستاں سنائی کہ سر یہ کمرہ دیکھنا ہماری پہلی اور آخری خواہش ہے۔ اگر ہم آج یہ نہ دیکھ پائے تو ہماری زندگی ختم... یہ سن کر وہ ہمیں خوشی سے کمرہ دکھانے لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کمرے کی حال ہی میں مرمت ہوئی ہے جس پر تقریباً بیس لاکھ روپے سے زائد خرچ آیا ہے۔ انہوں اس حوالے سے بہت سے کاغذات بھی دکھائے۔

ایکسپریس ٹریبیون اور انڈیا ٹوڈے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسپتال میں توسیع کےلیے چھجو کے چوبارے کے بچ جانے والا آخری کمرہ بھی گرائے جانے کا امکان ہے۔ شاید اسی رپوٹ کے بعد اس کی مرمت کا خیال آیا۔ خیر، حسین صاحب سے معلوم ہوا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک اس تاریخی ورثے کےلیے رتّی بھر بھی کام بھی نہیں کروایا جو درحقیقت افسوسناک بلکہ شرم ناک ہے۔



سید لطیف کی کتاب میں چھجو کے چوبارے کا ایک خاکہ موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اسپتال بنایا گیا، تب خاکے میں موجود تمام عمارتیں موجود تھیں مگر اب فقط ایک کمرہ بچا ہے جو بہت خوبصورت ہے۔ چھت پر سونے کا پانی استعمال ہوا ہے اور شیشوں کا کام ہے۔ اب اس جگہ اسپتال میں آنے والی خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ اس بچ جانے والے کمرے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں چھجو کا چوبارہ کیسا عالیشان تھا۔

حکومت کو اس تاریخی ورثے کی حفاظت کےلیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |