ڈیمز آبی ذخیروں کے بارے میں اہم معلومات اور دلچسپ حقائق
ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے۔
کسی نے ڈیم کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ آبی ذخیرہ فطرت پر انسان کی فتح ہے۔
ڈیمز کے دو بڑے اور بنیادی کام یا مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد پانی کو ذخیرہ کرنا ہے جس کی مدد سے دریاؤں میں پانی کی طلب کے وقت اس کے بہاؤ کو متوازن بنانا ہے اور توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا ہے، تاکہ دوسرے پیداواری کام انجام دیے جاسکیں۔ مثلاً اس سے بجلی بنائی جاسکے۔
اس کے علاوہ اس کا دوسرا کام وقت ضرورت اس ذخیرہ شدہ پانی کی سطح کو اس کی ذخیرہ گاہ کے اندر اس حد تک بلند کرنا ہے تاکہ اس پانی کو مطلوبہ مقام تک بہ ذریعہ نہر یا کینال پہنچایا جائے۔ اس طرح ایک طرف تو یہ پانی نہر کے ذریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائے گا اور ساتھ ہی یہ اس حد تک بلند سطح پر پہنچ جائے گا جس کے بعد اس کو توانائی پیدا کرنے کے لیے حسب منشا استعمال کیا جاسکے یعنی ریزروائر کی سطح اور دریا کے نچلے بہاؤ کے درمیان بلندی کو کم کیا جاسکے۔
پانی کے ذخیرے کی تخلیق اور اس کا بالائی حصہ ڈیمز میں بجلی کو جنریٹ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے، ہماری صنعتوں کو بھی اسی کی وجہ سے بجلی فراہم ہوتی ہے، اور پھر ہمارے گھروں کو بھی بجلی فراہم ہونے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ اور اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں اسی بجلی کے ذریعے معاونت ملتی ہے۔اس کے علاوہ بھی یہ ڈیمز مختلف دوسرے کاموں میں ہماری مدد کرتے ہیں جیسے: فشریز کے کاموں کے لیے مدد کرنا اور بوٹنگ وغیرہ میں بھی اس کی مدد حاصل کرنا۔
٭ڈیمز کی تاریخ: دنیا کی تاریخ میں ابتدائی اور قدیم ترین ڈیمز جن کے آثار بھی ملتے ہیں، یہ 3,000 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ آج کے دور جدید کے اردن میں جاوا شہر میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس ڈیم یا پانی کے سسٹم میں ایک 200 میٹر چوڑا ڈیم یا پشتہ شامل ہے جو ایک نہر کے ذریعے پانی کو دس چھوٹے چھوٹے ریزروائرز کو منتقل کرتا تھا۔ اس میں پانی ایک بلند چٹان سے کافی زور کے ساتھ گرتا تھا اور نیچے زمین پر بنے ہوئے ڈیمز کے ذریعے اسٹور ہونے کے بعد آگے جاتا تھا۔ ان میں سب سے بڑا ڈیم چار میٹر بلند اور 80 میٹر طویل تھا۔
اس کے کوئی 400 سال بعد غالباً پہلے اہراموں کے وقت کے قریب مصری معماروں نے Sadd el-Kafra تعمیر کیا جسے Dam of the Pagans بھی کہا جاتا تھا، یہ ڈیم قاہرہ کے قریب موسمی چشمے کے آر پار تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ریت، بجری اور چٹانی پتھروں کا سکڑا سمٹا ہوا ڈھیر 14 میٹر بلند اور 113 میٹرز طویل تھا جسے 17,000 کٹے ہوئے پتھروں سے اس طرح سہارا دیا گیا تھا کہ جیسے ایک پشتے کو دیا جاتا ہے۔ پھر غالباً تعمیر کے ایک عشرے بعد یہ ڈیم جزوی طور پر بہ گیا اور اس کی مرمت بھی نہیں کی گئی۔ یہ ناکام ڈیم اصل میں مقامی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
دریائے نیل سے آنے والے سیلاب ویسے ہی اس دریا کے پانی کو دور دور تک پھیلادیتے تھے، اس لیے مصر کے کاشت کاروں کو نہ ڈیمز کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی ایسے اسٹور شدہ پانی کی، چناں چہ یہ ڈیم ان کے لیے کسی کام کے ثابت نہ ہوسکے۔
پہلے میلینیم (قبل مسیح) کے اواخر تک بحیرہ روم کے اطراف میں چٹانی اور دیگر پتھروں کے ڈیمز تعمیر کیے گئے، یہ سب ڈیمز مشرق وسطیٰ، چین اور وسطی امریکا میں تعمیر ہوئے تھے۔ لیکن رومی انجنیئرز کے تعمیر کردہ ڈیمز میں ان کی ہنرمندی بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سب سے متاثر کن رومی ڈیم آج بھی اسپین میں موجود ہے جو مور عہد سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔
ایک اور 46 میٹر بلند پتھریلا ڈیم جو Alicante کے قریب بنایا گیا تھا اس کی تعمیر 1580 میں شروع ہوئی تھی اور یہ لگ بھگ 14 برسوں میں مکمل ہوا تھا، یہ ڈیم کوئی معمولی نہیں تھا، بل کہ یہ دنیا کا بلند ترین ڈیم تھا جو کم و بیش تین صدیوں تک دنیا کا سب سے بلند ڈیم شمار ہوتا رہا۔
٭جنوبی ایشیا میں ڈیمز کی تعمیر کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں سری لنکا کے شہروں میں چوتھی صدی قبل مسیح میں طویل اور لمبے پشتے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ابتدائی پشتوں میں سے 460 عیسوی میں 34 میٹر بلند ڈیم تعمیر کیے گئے تھے جب کہ ایک میلینیم سے بھی زیادہ عرصے بعد دنیا کا بلند ترین ڈیم تعمیر کیا گیا تھا۔
شاہ پرکارما بابو بارھویں صدی کا ایک سنہالی حکم راں تھا جو ایک غارت گر کے طور پر مشہور تھا۔ اس نے 4,000 سے زیادہ ڈیم تعمیر کرائے تھے۔اس نے ایک پتھریلا پشتہ پندرہ میٹر کی بلندی تک تعمیر کرایا تھا جس کی لمبائی لگ بھگ14 کلو میٹر تھی۔ اس کے حجم کے برابر کوئی دوسرا ڈیم نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ پرکارما بابو کے ان ڈیمز سے سری لنکا کی دیہی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا، کیوں کہ اس خطے کے کاشت کار یا تو بارشوں سے آب پاشی کا کام لیتے تھے یا پھر چھوٹے مصنوعی تالاب بناکر ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے تھے۔
بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو بدل کر میکینیکل انرجی میں بدلنے کی ٹیکنالوجیز کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسی طرح آب پاشی کی بھی اپنی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قدیم مصر اور سمیریا میں رہٹ کے ذریعے کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح تک روم میں ا ناج کو پیسنے کے لیے پن چکیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ازمنہ وسطی میں جرمنی اور شمالی اٹلی میں صنعتی مراکز میں ایسی پن چکیں استعمال کی جاتی تھیں۔
٭انیسویں صدی کے ڈیم: انیسویں صدی صنعتی شعبے میں تیزی سے ترقی پانے والی صدی تھی جس کے دوران 15 میٹرز سے زائد بلند لگ بھگ 200 ڈیمز تعمیر کیے گئے۔برطانیہ کو اپنے تیزی سے پھیلتے اور ترقی پاتے شہروں کے لیے پانی اسٹور کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔1900 میں برطانیہ میں بڑے ڈیم اتنے زیادہ تھے جو باقی پوری دنیا کی تعداد کے برابر تھے۔
انیسویں صدی کے ڈیم زیادہ تر پتھر سے تعمیر کردہ پشتوں پر مشتمل تھے مگر ان میں خاصی پیچیدگیاں تھیں۔ اس دور میں مٹی اور چٹانوں پر بھی ریسرچ کی گئی، تاکہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے مناسب زمین منتخب کی جائے۔کسی جگہ ڈیمز تعمیر کرنے کے لیے نہ صرف اس جگہ کہ مٹی کو دیکھا جاتا ہے ، بلکہ وہاں پانی کے بہاؤ اور بارش کا بھی ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔
اس سارے ڈیٹا کی تیاری اور پوری ریسرچ کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ ڈیم کہاں اور کس طرح تعمیر کرنے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر کے دوران کافی حادثات بھی پیش آئے اور اچھے خاصے لوگ مارے بھی گئے۔ امریکا میں متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے جب ڈیمز کی تعمیر کے دوران بہت سے حادثات نے جنم لیا اور ان کے نتیجے میں کئی ڈیمز ناکام بھی ہوئے۔
فرانسیسی انجینئر Benoit Fourneyron نے 1832ء میں پہلی واٹر ٹربائن تیار کی جس سے واٹر ملز کی کارکردگی بڑھ گئی۔ ٹربائن وہ چیز ہے جو اوپر سے گرتے ہوئے پانی کی پوٹینشیل انرجی کو میکینیکل انرجی میں بدل دیتی ہے۔ یہ بعد میں آنے والے برسوں میں کام یاب رہی جس کی وجہ سے بعد میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں بڑی پیش رفت ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاور اسٹیشنز اور ٹرانسمیشن لائنز وجود میں آئیں۔
اگلے چند عشروں کے دوران چھوٹے ہائیڈرو ڈیم دریاؤں اور چشموں پر تعمیر کیے گئے جن میں یورپ میں زیادہ کام ہوا تھا۔ ایلپس کی پہاڑیوں میں اسکینڈیویا میں بھی بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔اگلی صدی کے دوران ان ڈیمز اور پاور اسٹیشنز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ان کی خامیاں بھی بہ تدریج دور ہوتی چلی گئیں۔
٭اہم نکات:
تاجکستان کا Rogun Dam دنیا کا سب سے بلند ڈیم ہے جس کی بلندی 1,099 فٹ یا 335 میٹر ہے۔
ڈیمز اور ریزروائر کیا ہوتے ہیں؟ ڈیمز اور دیگر اسٹرکچرز جو دریاؤں پر تعمیر کیے جاتے ہیں، ان کا مقصد کی ایک یا زیادہ مقاصد کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنا ہوتا ہے یعنی ہائیڈرو الیکٹریسٹی جنریشن کے لیے۔
٭ریزروائر اصل میں ڈیمز کے پیچھے تعمیر کیے جاتے ہیں۔
ایک ریزروائر پانی کی ایک باڈی ہے جو خاص مقاصد کے لیے انسان کی کوششوں سے وجود میں آتی ہے۔ تاکہ انہیں ایک قابل اعتماد اور قابل کنٹرول ذریعہ مل سکے۔
٭گلینمور ریزروائر:گلینمور ریزروائر ڈیو کیچپ کے لائسنس کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔
٭ڈیمز اور ریزروائر کیا کام کرتے ہیں؟
ڈیمز اور ریزروائر بہت سے کاموں اور مقاصد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ مقصد ایک بھی ہوسکتا ہے اور متعدد بھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی آسکتی ہیں۔ویسے ڈیمز اور ریزروائر کے درج ذیل مقاصد ہوسکتے ہیں:
٭پانی کو ذخیرہ کرنا: یعنی ان کے ذریعے پانی کو میونسپل یعنی گھریلو مقاصد یا پھر کاشت کاری کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭بجلی کی پیداوار کے لیے:ڈیمز اور ریزروائر کو بجلی کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭تفریحی مقاصد کے لیے:ریزروائرز کو تفریحی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بوٹنگ اور فشنگ وغیرہ۔
٭سیلاب سے تحفظ: بعض ڈیمز اس انداز سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ خاص طور سے سیلاب سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ خاص قسم کے ڈیمز سیلاب سے تیس سے پچاس فی صد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پانی کے نچلے بہاؤ والے ایریاز کو بھی خالی کرانے میں مدد کرتے ہیں، جب کہ ایک ڈیم کا دوسرا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے سیلاب سے تحفظ فراہم کیا جائے۔اگر مناسب منصوبہ ڈیمی کی جائے تو ایک ریزروائر کی سطح نچلی کرکے سیلاب کے پانی کو روکا جاسکتا ہے۔
٭آلودگی کا کچرا:بعض اوقات ریزروائرز آلودگی اور کچرا روکنے کے لیے بھی تعمیر کیے جاتے ہیں۔
٭دنیا کے 10سب سے بڑے ڈیمز:
Longtan Dam: یہ ڈیم چین کے ہانگ شوئی دریا پر واقع ہے۔
Grand Coulee: یہ ڈیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے دریائے کولمبیا پر واقع ہے۔
Xiangjiaba: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔
Tucuruí: یہ ڈیم برازیل کے دریائے ٹوکنٹنز پر واقع ہے۔
Tucuruí: یہ ڈیم وینی زوئلا میں دریائے کیرونی پر واقع ہے۔
Xiluodu: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔
Itaipu Dam: یہ ڈیم برازیل اور پیراگوئے میں مشترکہ طور پر دریائے پارانا پر واقع ہے۔
٭ دنیا کا بلند ترین ڈیم:
دنیا کا سب سے بلند اور لمبا ڈیم Jinping-I Dam ہے جو ایک کمان کی صورت میں 305 m (1,001 ft) چین میں واقع ہے۔ دنیا کے سب سے بلند پشتے اور دوسرے سب سے بلند ڈیم 300 m (984 ft) کا نام Nurek Dam ہے جو تاجکستان میں واقع ہے۔ سب سے بلند کشش ثقل کا حامل ڈیم 285 m (935 ft) ہے جس کا نام Dixence Damہے اور جو سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے۔
٭ دنیا کا قدیم ترین ڈیم
دنیا کا قدیم ترین ڈیم Kallanai Dam جسے Anicut بھی کہا جاتا ہے، یہ تاریخ کا چوتھا قدیم ترین ڈیم ہے۔ یہ آج بھی انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کے لوگوں کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ڈیم دوسری صدی عیسوی میں چولا دور حکومت کے شاہ کاری کالا چولا نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ ڈیم دریائے کاویری پر واقع ہے جو Tiruchirapalli شہر سے لگ بھگ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
٭اسوان ڈیم: مصر میں واقع اہم تاریخی ذخیرۂ آب:
اسوان ڈیم مصر کے شہر اسوان کے قریب دریائے نیل پر بنایا گیا ایک عظیم ڈیم ہے۔ دراصل یہ دو ڈیم ہیں جن میں ایک جدید اور ایک قدیم ہے۔ جدید ڈیم کو عربی میں ''السد العالی'' جب کہ انگریزی میں Aswan High Dam کہتے ہیں۔ قدیم ڈیم کو Aswan Low Dam کہا جاتا ہے۔ قدیم اسوان ڈیم کی تعمیر برطانوی دور میں ہوئی جو 1899ء میں شروع ہوکر 1902ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 1900 میٹر طویل اور 54 میٹر بلند تھا۔ 1907ء سے 1912ء اور 1929ء سے 1933ء کے درمیان میں دو مراحل میں اس ڈیم کی بلندی میں اضافہ کیا گیا۔ 1946ء میں جب ایک مرتبہ پھر ڈیم میں پانی زیادہ ہو گیا تو اس دفعہ تیسری مرتبہ ڈیم کو بلند کرنے کے بجائے نئے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا جسے قدیم ڈیم سے 6 کلومیٹر دور تعمیر کیا گیا۔
1952ء میں جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں چیکوسلواکیہ سے خفیہ عسکری معاہدے اور عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے پر امریکا اور برطانیہ نے ڈیم کی تعمیر کے لیے 270 ملین ڈالر کا قرضہ دینے سے انکار کر دیا جس پر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے اس سے ہونے والی آمدنی سے ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے نے یورپ میں تہلکا مچادیا اور برطانیہ اور فرانس کی مدد سے اسرائیل نے مصر پر حملہ کرتے ہوئے نہر سوئز پر قبضہ جمالیا۔ یہ واقعہ سوئز بحران کہلاتا ہے۔
اقوام متحدہ، روس اور امریکا نے مداخلت کرتے ہوئے قابض افواج سے مصر نے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کر لیا گیا۔ سرد جنگ کے ان دنوں میں سوویت یونین نے افریقا میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے 1958ء میں مصر کو اسوان ڈیم کی تعمیر میں تعاون کی پیشکش کی اور بہ طور تحفہ ایک تہائی لاگت بھی دینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ تکنیکی ماہرین اور بھاری مشینری بھی مہیا کی۔ 1960ء میں ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا گیا اور ''السد العالی'' 21 جولائی 1970ء کو مکمل ہوا۔
٭ خصوصیات:
جدید اسوان ڈیم 3600 میٹر طویل، بنیادوں پر 980 میٹر اور ہلال پر 40 میٹر عریض اور 111 میٹر بلند ہے۔ ڈیم میں ہر سیکنڈ میں 11 ہزار مکعب میٹر پانی گزر سکتا ہے۔ اس عظیم ڈیم کی تعمیر سے بننے والی جھیل کو ''جھیل ناصر'' کا نام دیا گیا جو 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر عریض ہے۔ اس کا سطحی رقبہ 5250 مربع کلومیٹر ہے۔ ڈیم سے 175 میگا واٹ کے 12 جنریٹر چلتے ہیں جو 2.1 گیگا واٹ کی پن بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کا آغاز 1967ء میں ہوا۔
ڈیمز کے دو بڑے اور بنیادی کام یا مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد پانی کو ذخیرہ کرنا ہے جس کی مدد سے دریاؤں میں پانی کی طلب کے وقت اس کے بہاؤ کو متوازن بنانا ہے اور توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا ہے، تاکہ دوسرے پیداواری کام انجام دیے جاسکیں۔ مثلاً اس سے بجلی بنائی جاسکے۔
اس کے علاوہ اس کا دوسرا کام وقت ضرورت اس ذخیرہ شدہ پانی کی سطح کو اس کی ذخیرہ گاہ کے اندر اس حد تک بلند کرنا ہے تاکہ اس پانی کو مطلوبہ مقام تک بہ ذریعہ نہر یا کینال پہنچایا جائے۔ اس طرح ایک طرف تو یہ پانی نہر کے ذریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائے گا اور ساتھ ہی یہ اس حد تک بلند سطح پر پہنچ جائے گا جس کے بعد اس کو توانائی پیدا کرنے کے لیے حسب منشا استعمال کیا جاسکے یعنی ریزروائر کی سطح اور دریا کے نچلے بہاؤ کے درمیان بلندی کو کم کیا جاسکے۔
پانی کے ذخیرے کی تخلیق اور اس کا بالائی حصہ ڈیمز میں بجلی کو جنریٹ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے، ہماری صنعتوں کو بھی اسی کی وجہ سے بجلی فراہم ہوتی ہے، اور پھر ہمارے گھروں کو بھی بجلی فراہم ہونے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ اور اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں اسی بجلی کے ذریعے معاونت ملتی ہے۔اس کے علاوہ بھی یہ ڈیمز مختلف دوسرے کاموں میں ہماری مدد کرتے ہیں جیسے: فشریز کے کاموں کے لیے مدد کرنا اور بوٹنگ وغیرہ میں بھی اس کی مدد حاصل کرنا۔
٭ڈیمز کی تاریخ: دنیا کی تاریخ میں ابتدائی اور قدیم ترین ڈیمز جن کے آثار بھی ملتے ہیں، یہ 3,000 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ آج کے دور جدید کے اردن میں جاوا شہر میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس ڈیم یا پانی کے سسٹم میں ایک 200 میٹر چوڑا ڈیم یا پشتہ شامل ہے جو ایک نہر کے ذریعے پانی کو دس چھوٹے چھوٹے ریزروائرز کو منتقل کرتا تھا۔ اس میں پانی ایک بلند چٹان سے کافی زور کے ساتھ گرتا تھا اور نیچے زمین پر بنے ہوئے ڈیمز کے ذریعے اسٹور ہونے کے بعد آگے جاتا تھا۔ ان میں سب سے بڑا ڈیم چار میٹر بلند اور 80 میٹر طویل تھا۔
اس کے کوئی 400 سال بعد غالباً پہلے اہراموں کے وقت کے قریب مصری معماروں نے Sadd el-Kafra تعمیر کیا جسے Dam of the Pagans بھی کہا جاتا تھا، یہ ڈیم قاہرہ کے قریب موسمی چشمے کے آر پار تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ریت، بجری اور چٹانی پتھروں کا سکڑا سمٹا ہوا ڈھیر 14 میٹر بلند اور 113 میٹرز طویل تھا جسے 17,000 کٹے ہوئے پتھروں سے اس طرح سہارا دیا گیا تھا کہ جیسے ایک پشتے کو دیا جاتا ہے۔ پھر غالباً تعمیر کے ایک عشرے بعد یہ ڈیم جزوی طور پر بہ گیا اور اس کی مرمت بھی نہیں کی گئی۔ یہ ناکام ڈیم اصل میں مقامی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
دریائے نیل سے آنے والے سیلاب ویسے ہی اس دریا کے پانی کو دور دور تک پھیلادیتے تھے، اس لیے مصر کے کاشت کاروں کو نہ ڈیمز کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی ایسے اسٹور شدہ پانی کی، چناں چہ یہ ڈیم ان کے لیے کسی کام کے ثابت نہ ہوسکے۔
پہلے میلینیم (قبل مسیح) کے اواخر تک بحیرہ روم کے اطراف میں چٹانی اور دیگر پتھروں کے ڈیمز تعمیر کیے گئے، یہ سب ڈیمز مشرق وسطیٰ، چین اور وسطی امریکا میں تعمیر ہوئے تھے۔ لیکن رومی انجنیئرز کے تعمیر کردہ ڈیمز میں ان کی ہنرمندی بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سب سے متاثر کن رومی ڈیم آج بھی اسپین میں موجود ہے جو مور عہد سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔
ایک اور 46 میٹر بلند پتھریلا ڈیم جو Alicante کے قریب بنایا گیا تھا اس کی تعمیر 1580 میں شروع ہوئی تھی اور یہ لگ بھگ 14 برسوں میں مکمل ہوا تھا، یہ ڈیم کوئی معمولی نہیں تھا، بل کہ یہ دنیا کا بلند ترین ڈیم تھا جو کم و بیش تین صدیوں تک دنیا کا سب سے بلند ڈیم شمار ہوتا رہا۔
٭جنوبی ایشیا میں ڈیمز کی تعمیر کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں سری لنکا کے شہروں میں چوتھی صدی قبل مسیح میں طویل اور لمبے پشتے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ابتدائی پشتوں میں سے 460 عیسوی میں 34 میٹر بلند ڈیم تعمیر کیے گئے تھے جب کہ ایک میلینیم سے بھی زیادہ عرصے بعد دنیا کا بلند ترین ڈیم تعمیر کیا گیا تھا۔
شاہ پرکارما بابو بارھویں صدی کا ایک سنہالی حکم راں تھا جو ایک غارت گر کے طور پر مشہور تھا۔ اس نے 4,000 سے زیادہ ڈیم تعمیر کرائے تھے۔اس نے ایک پتھریلا پشتہ پندرہ میٹر کی بلندی تک تعمیر کرایا تھا جس کی لمبائی لگ بھگ14 کلو میٹر تھی۔ اس کے حجم کے برابر کوئی دوسرا ڈیم نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ پرکارما بابو کے ان ڈیمز سے سری لنکا کی دیہی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا، کیوں کہ اس خطے کے کاشت کار یا تو بارشوں سے آب پاشی کا کام لیتے تھے یا پھر چھوٹے مصنوعی تالاب بناکر ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے تھے۔
بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو بدل کر میکینیکل انرجی میں بدلنے کی ٹیکنالوجیز کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسی طرح آب پاشی کی بھی اپنی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قدیم مصر اور سمیریا میں رہٹ کے ذریعے کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح تک روم میں ا ناج کو پیسنے کے لیے پن چکیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ازمنہ وسطی میں جرمنی اور شمالی اٹلی میں صنعتی مراکز میں ایسی پن چکیں استعمال کی جاتی تھیں۔
٭انیسویں صدی کے ڈیم: انیسویں صدی صنعتی شعبے میں تیزی سے ترقی پانے والی صدی تھی جس کے دوران 15 میٹرز سے زائد بلند لگ بھگ 200 ڈیمز تعمیر کیے گئے۔برطانیہ کو اپنے تیزی سے پھیلتے اور ترقی پاتے شہروں کے لیے پانی اسٹور کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔1900 میں برطانیہ میں بڑے ڈیم اتنے زیادہ تھے جو باقی پوری دنیا کی تعداد کے برابر تھے۔
انیسویں صدی کے ڈیم زیادہ تر پتھر سے تعمیر کردہ پشتوں پر مشتمل تھے مگر ان میں خاصی پیچیدگیاں تھیں۔ اس دور میں مٹی اور چٹانوں پر بھی ریسرچ کی گئی، تاکہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے مناسب زمین منتخب کی جائے۔کسی جگہ ڈیمز تعمیر کرنے کے لیے نہ صرف اس جگہ کہ مٹی کو دیکھا جاتا ہے ، بلکہ وہاں پانی کے بہاؤ اور بارش کا بھی ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔
اس سارے ڈیٹا کی تیاری اور پوری ریسرچ کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ ڈیم کہاں اور کس طرح تعمیر کرنے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر کے دوران کافی حادثات بھی پیش آئے اور اچھے خاصے لوگ مارے بھی گئے۔ امریکا میں متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے جب ڈیمز کی تعمیر کے دوران بہت سے حادثات نے جنم لیا اور ان کے نتیجے میں کئی ڈیمز ناکام بھی ہوئے۔
فرانسیسی انجینئر Benoit Fourneyron نے 1832ء میں پہلی واٹر ٹربائن تیار کی جس سے واٹر ملز کی کارکردگی بڑھ گئی۔ ٹربائن وہ چیز ہے جو اوپر سے گرتے ہوئے پانی کی پوٹینشیل انرجی کو میکینیکل انرجی میں بدل دیتی ہے۔ یہ بعد میں آنے والے برسوں میں کام یاب رہی جس کی وجہ سے بعد میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں بڑی پیش رفت ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاور اسٹیشنز اور ٹرانسمیشن لائنز وجود میں آئیں۔
اگلے چند عشروں کے دوران چھوٹے ہائیڈرو ڈیم دریاؤں اور چشموں پر تعمیر کیے گئے جن میں یورپ میں زیادہ کام ہوا تھا۔ ایلپس کی پہاڑیوں میں اسکینڈیویا میں بھی بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔اگلی صدی کے دوران ان ڈیمز اور پاور اسٹیشنز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ان کی خامیاں بھی بہ تدریج دور ہوتی چلی گئیں۔
٭اہم نکات:
تاجکستان کا Rogun Dam دنیا کا سب سے بلند ڈیم ہے جس کی بلندی 1,099 فٹ یا 335 میٹر ہے۔
ڈیمز اور ریزروائر کیا ہوتے ہیں؟ ڈیمز اور دیگر اسٹرکچرز جو دریاؤں پر تعمیر کیے جاتے ہیں، ان کا مقصد کی ایک یا زیادہ مقاصد کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنا ہوتا ہے یعنی ہائیڈرو الیکٹریسٹی جنریشن کے لیے۔
٭ریزروائر اصل میں ڈیمز کے پیچھے تعمیر کیے جاتے ہیں۔
ایک ریزروائر پانی کی ایک باڈی ہے جو خاص مقاصد کے لیے انسان کی کوششوں سے وجود میں آتی ہے۔ تاکہ انہیں ایک قابل اعتماد اور قابل کنٹرول ذریعہ مل سکے۔
٭گلینمور ریزروائر:گلینمور ریزروائر ڈیو کیچپ کے لائسنس کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔
٭ڈیمز اور ریزروائر کیا کام کرتے ہیں؟
ڈیمز اور ریزروائر بہت سے کاموں اور مقاصد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ مقصد ایک بھی ہوسکتا ہے اور متعدد بھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی آسکتی ہیں۔ویسے ڈیمز اور ریزروائر کے درج ذیل مقاصد ہوسکتے ہیں:
٭پانی کو ذخیرہ کرنا: یعنی ان کے ذریعے پانی کو میونسپل یعنی گھریلو مقاصد یا پھر کاشت کاری کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭بجلی کی پیداوار کے لیے:ڈیمز اور ریزروائر کو بجلی کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭تفریحی مقاصد کے لیے:ریزروائرز کو تفریحی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بوٹنگ اور فشنگ وغیرہ۔
٭سیلاب سے تحفظ: بعض ڈیمز اس انداز سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ خاص طور سے سیلاب سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ خاص قسم کے ڈیمز سیلاب سے تیس سے پچاس فی صد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پانی کے نچلے بہاؤ والے ایریاز کو بھی خالی کرانے میں مدد کرتے ہیں، جب کہ ایک ڈیم کا دوسرا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے سیلاب سے تحفظ فراہم کیا جائے۔اگر مناسب منصوبہ ڈیمی کی جائے تو ایک ریزروائر کی سطح نچلی کرکے سیلاب کے پانی کو روکا جاسکتا ہے۔
٭آلودگی کا کچرا:بعض اوقات ریزروائرز آلودگی اور کچرا روکنے کے لیے بھی تعمیر کیے جاتے ہیں۔
٭دنیا کے 10سب سے بڑے ڈیمز:
Longtan Dam: یہ ڈیم چین کے ہانگ شوئی دریا پر واقع ہے۔
Grand Coulee: یہ ڈیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے دریائے کولمبیا پر واقع ہے۔
Xiangjiaba: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔
Tucuruí: یہ ڈیم برازیل کے دریائے ٹوکنٹنز پر واقع ہے۔
Tucuruí: یہ ڈیم وینی زوئلا میں دریائے کیرونی پر واقع ہے۔
Xiluodu: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔
Itaipu Dam: یہ ڈیم برازیل اور پیراگوئے میں مشترکہ طور پر دریائے پارانا پر واقع ہے۔
٭ دنیا کا بلند ترین ڈیم:
دنیا کا سب سے بلند اور لمبا ڈیم Jinping-I Dam ہے جو ایک کمان کی صورت میں 305 m (1,001 ft) چین میں واقع ہے۔ دنیا کے سب سے بلند پشتے اور دوسرے سب سے بلند ڈیم 300 m (984 ft) کا نام Nurek Dam ہے جو تاجکستان میں واقع ہے۔ سب سے بلند کشش ثقل کا حامل ڈیم 285 m (935 ft) ہے جس کا نام Dixence Damہے اور جو سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے۔
٭ دنیا کا قدیم ترین ڈیم
دنیا کا قدیم ترین ڈیم Kallanai Dam جسے Anicut بھی کہا جاتا ہے، یہ تاریخ کا چوتھا قدیم ترین ڈیم ہے۔ یہ آج بھی انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کے لوگوں کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ڈیم دوسری صدی عیسوی میں چولا دور حکومت کے شاہ کاری کالا چولا نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ ڈیم دریائے کاویری پر واقع ہے جو Tiruchirapalli شہر سے لگ بھگ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
٭اسوان ڈیم: مصر میں واقع اہم تاریخی ذخیرۂ آب:
اسوان ڈیم مصر کے شہر اسوان کے قریب دریائے نیل پر بنایا گیا ایک عظیم ڈیم ہے۔ دراصل یہ دو ڈیم ہیں جن میں ایک جدید اور ایک قدیم ہے۔ جدید ڈیم کو عربی میں ''السد العالی'' جب کہ انگریزی میں Aswan High Dam کہتے ہیں۔ قدیم ڈیم کو Aswan Low Dam کہا جاتا ہے۔ قدیم اسوان ڈیم کی تعمیر برطانوی دور میں ہوئی جو 1899ء میں شروع ہوکر 1902ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 1900 میٹر طویل اور 54 میٹر بلند تھا۔ 1907ء سے 1912ء اور 1929ء سے 1933ء کے درمیان میں دو مراحل میں اس ڈیم کی بلندی میں اضافہ کیا گیا۔ 1946ء میں جب ایک مرتبہ پھر ڈیم میں پانی زیادہ ہو گیا تو اس دفعہ تیسری مرتبہ ڈیم کو بلند کرنے کے بجائے نئے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا جسے قدیم ڈیم سے 6 کلومیٹر دور تعمیر کیا گیا۔
1952ء میں جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں چیکوسلواکیہ سے خفیہ عسکری معاہدے اور عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے پر امریکا اور برطانیہ نے ڈیم کی تعمیر کے لیے 270 ملین ڈالر کا قرضہ دینے سے انکار کر دیا جس پر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے اس سے ہونے والی آمدنی سے ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے نے یورپ میں تہلکا مچادیا اور برطانیہ اور فرانس کی مدد سے اسرائیل نے مصر پر حملہ کرتے ہوئے نہر سوئز پر قبضہ جمالیا۔ یہ واقعہ سوئز بحران کہلاتا ہے۔
اقوام متحدہ، روس اور امریکا نے مداخلت کرتے ہوئے قابض افواج سے مصر نے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کر لیا گیا۔ سرد جنگ کے ان دنوں میں سوویت یونین نے افریقا میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے 1958ء میں مصر کو اسوان ڈیم کی تعمیر میں تعاون کی پیشکش کی اور بہ طور تحفہ ایک تہائی لاگت بھی دینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ تکنیکی ماہرین اور بھاری مشینری بھی مہیا کی۔ 1960ء میں ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا گیا اور ''السد العالی'' 21 جولائی 1970ء کو مکمل ہوا۔
٭ خصوصیات:
جدید اسوان ڈیم 3600 میٹر طویل، بنیادوں پر 980 میٹر اور ہلال پر 40 میٹر عریض اور 111 میٹر بلند ہے۔ ڈیم میں ہر سیکنڈ میں 11 ہزار مکعب میٹر پانی گزر سکتا ہے۔ اس عظیم ڈیم کی تعمیر سے بننے والی جھیل کو ''جھیل ناصر'' کا نام دیا گیا جو 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر عریض ہے۔ اس کا سطحی رقبہ 5250 مربع کلومیٹر ہے۔ ڈیم سے 175 میگا واٹ کے 12 جنریٹر چلتے ہیں جو 2.1 گیگا واٹ کی پن بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کا آغاز 1967ء میں ہوا۔