اقتدار کا ٹھیکہ
لازوال ادیب شفیق الرحمن کی تحریر کس نے نہیں پڑھی ہوگی؟ آئیے میں ان کی کتاب ’’حماقتیں‘‘ سے ایک اقتباس آپ کو یاد دلاتا۔۔
LONDON:
لازوال ادیب شفیق الرحمن کی تحریر کس نے نہیں پڑھی ہوگی؟ آئیے میں ان کی کتاب ''حماقتیں'' سے ایک اقتباس آپ کو یاد دلاتا ہوں۔ ایک کہانی میں ان کا مشہور کردار، شیطان ایک تعویذ لاکے امجد کو دیتا ہے کہ لو اسے بازو پر باندھ لو تمہارا کام بن جائے گا اور واقعی امجد کا کام ہوگیا۔ اس پر بڈی پوچھتا ہے کہ تعویذوں میں کیا لکھا ہوتا ہے؟ اسے بتایا جاتا کہ ان میں ایک خاص ترتیب سے مقدس الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ بڈی کو تجسس ہے کہ وہ الفاظ کیا ہوتے ہیں؟ کیوں نہ تعویذ کھول کر دیکھا جائے۔ اب آگے اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
''میں بھی سوچنے لگا کہ بھلا دیکھیں تو سہی وہ کون سے الفاظ ہیں جنہوں نے جادو کی طرح اثر دکھایا ہے۔ میں نے بھی بڈی کا ساتھ دیا۔ امجد کہنے لگا کہ کھولنے سے تعویذ کی تاثیر جاتی رہے گی۔ بڈی بولا، بھئی! سچ پوچھو تو اب اس تعویذ نے اپنا کام کردیا ہے۔ اب تمہیں کسی مزید تاثیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مسز امجد سے پوچھا۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ آخر امجد بھی مان گیا۔ اس شرط پر کہ اگر کوئی گناہ ہوا تو بڈی کے سر پر ہوگا۔
بڈی نے بڑی حفاظت سے خول کھولا اور تعویذ نکالا۔ پھر آہستہ آہستہ موم جامہ کھولنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے پہنچے ہوئے بزرگوں کے نورانی چہرے، فقیروں کے مزار، سبز غلاف، پھولوں کے ہار، جلتے ہوئے چراغ، مزاروں کے گنبد اور خانقاہیں پھرنے لگیں۔ جیسے عنبر اور لوبان کی خوشبو سے سب مہک اٹھا اور پاکیزہ روحیں ہمارے گرد منڈلانے لگیں۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ماحول کچھ ایسا مقدس سا ہوگیا تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا۔ ہونٹ خشک ہوگئے۔
بڈی نے تعویذ کھولا اور پڑھنے لگا۔ میں رہ نہ سکا۔ بڈی نے بے صبری سے کاغذ چھین لیا۔ کاغذ پر شیطان کی مخصوص طرز تحریر میں یہ مصرعہ لکھا تھا:
''آیا کرو ادھر بھی میری جاں کبھی کبھی''۔
اقتباس ختم ہوا لیکن یہاں سے اسلام آباد والے پیر محمد اعجاز کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ نیوز ایجنسی کی خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے کہ صدر مملکت کے پیر محمد اعجاز نے کہا ہے صدر زرداری کے ساتھ میرا ''ٹھیکہ'' 5 سال پورے کرانے کا تھا۔ کوئی بھی ان کو 5 سال میں ایوان صدر سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پیر اعجاز نے یہ بات وزیر اعظم نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے اس وقت سفید کرتا، دھوتی اور سر پر سفید صافہ باندھا ہوا تھا۔ بڑے بڑے سیاستدان، افسران اور سفارتکار ان سے بڑے احترام سے مل رہے تھے۔ پیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ صدر زرداری میرے مشورے پر الیکشن سے قبل سمندر کے قریب رہنے گئے تھے۔ نہ جاتے تو پھر سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنتی۔
لو ! ہم کچھ اور سمجھتے تھے لیکن معاملہ کچھ اور نکلا۔ سب کہتے تھے کہ ''زرداری سب پر بھاری''۔ سب ان کی سیاسی مہارت، سوجھ بوجھ اور حیلہ سازی کے معترف تھے۔ کہا گیا کہ وہ سیاست میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اپوزیشن منہ دھو کے رکھے۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو پہلے ان کی شاگردی اختیار کرے۔ پر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ تو کہانی ہی اور تھی۔ یہ تو پیر صاحب کا کمال نکلا۔ انہوں نے دھڑلے سے پانچ سال پورے کروانے کی گارنٹی دی اور پورے کرکے دکھادیئے۔ ایسی پکی گارنٹی تو قدرت بھی آسانی سے نہیں دیتی۔
قارئین! آج جب میں کالم لکھنے بیٹھا تو خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت پر اپنی بھلی بری رائے کا اظہار کروں گا۔ اس کی زبردست قوت برداشت کی داد دوں گا۔ ناقدین نے جس شدت سے ان کے لتے لیے اور جائز وناجائز ہر قسم کی مخالفت کی، وہ برف سے تراشیدہ کسی شخص میں بھی آگ لگادے ۔ پر یہ لوگ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ تلخ سے تلخ تر بات بھی ہنس کے سن لیتے تھے۔ اس کے علاوہ اس بات کا جائزہ لینے کا ارادہ بھی تھا کہ باقی پورے ملک میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ہے پر سندھ میں اس کی کامیابی کی وجہ کیا ہے۔
کچھ مشکوک باتوں کی میں نے فہرست بنا رکھی تھی۔ انہوں نے چپکے چپکے جو سرنگیں لگائی ہیں اور دوسروں کو بھی لگانے کی اجازت دی ہے اس پر بات کرنے کا بھی ارادہ تھا۔ بلاول بھٹو زرداری جیسے میزائل کے لیے کوئی مناسب لانچنگ پیڈ تیار نہ کرنے پر اظہار افسوس بھی کرنا تھا۔ میرا خیال تھا کہ صدر زرداری جو چھکا خود نہیں مار سکے تھے اس کے لیے بلاول کو استعمال کرتے تو یہ سیاسی جنگ پنجاب میں صرف دو جماعتوں کے درمیان نہ لڑی جاتی۔ پیپلز پارٹی بھی برابر کا فریق ہوتی۔
میں ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس ملک کے بیشتر مسائل کا حل آسان حل کالاباغ ڈیم ہے جو سیاسی تنازع کی نذر ہوگیا ہے۔ جن لوگوں نے اس کے خلاف آسمان سر پہ اٹھایا ہوا تھا انہیں خیبر پختونخوا اور سندھ، دونوں ہی صوبوں میں کوئی پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ ماہرین کا خیال یہی ہے کہ اگر مناسب گارنٹی اور ڈیزائن کی تبدیلی کے بعد اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے تو آج بھی ہماری اولین ترجیح یہی ڈیم ہونا چاہیے۔ اتفاق رائے پیدا کرنے اور لوگوں کو رام کرنے کی جو صلاحیت صدر زرداری میں موجود ہے اس کا ایک زمانہ معترف ہے۔۔۔۔۔اور میں تھوڑی بے تکلفی پر اتر آؤں تو یہ بھی عرض ہے کہ ان کے پاس تو پیر محمد اعجاز کا نسخہ بھی موجود ہے۔ اس ٹھیکے کی بھی ان سے بات کرلیں۔ دراصل یہ ڈیم ہی وہ لانچنگ پیڈ ہے جس کا میں نے بلاول کے حوالے سے اوپر ذکر کیا ہے۔ ذرا سوچیے! اگر بلاول بھٹو زرداری کالا باغ ڈیم کو تعمیر کرنے کے اعلان کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کرتے تو پنجاب میں کیسی دھماکہ خیز پذیرائی ہوتی۔
واپس پیر محمد اعجاز مدظلہ کے ذکر کی طرف لوٹتا ہوں۔ الیکشن سے قبل کتنے ہی پیر، فقیر، ستارہ شناس، نجومی اور کلین شیوڈ درویش تھے جو پیش گوئیاں کر کرکے ہانپنے لگے تھے۔ انہوں نے عوام کی نام میں دم کیا ہوا تھا لیکن ان میں سے ایک بھی درست نہیں نکلا۔ بازی پیر اعجاز نے مارلی اور اپنا ٹھیکہ پورا کردکھایا۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان نجومیوں کے ساتھ ساتھ تمام تجزیہ کار بھی غلط ثابت ہوگئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے ہارنے کی وجوہات وہ نہیں ہیں جو انہوں نے بتائی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پیر صاحب کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تھا۔
دنیاداروں کے راستے اور ہیں۔ حیلے بھی اور، بہانے بھی اور، وسیلے بھی اور۔۔۔۔۔لیکن قدرت کے فیصلے اپنے ہیں۔ کب، کہاں اور کیسے؟ یہ سب قدرت کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔''میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے ربّ کی، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والوں کے شر سے''۔۔۔۔۔حقیقت یہی ہے کہ تقدیر کے سارے ٹھیکے، سب گارنٹیاں قدرت کے ہاتھ میں ہیں۔ اختیار بھی اس کا اور کام بھی اس کا۔ باقی سب تماشا ہے۔ اور یہ تماشا تو شفیق الرحمن کی کہانی والے اس تعویذ نے بھی کردکھایا تھا جسے بڈی نے کھول کے دیکھا تھا۔
لازوال ادیب شفیق الرحمن کی تحریر کس نے نہیں پڑھی ہوگی؟ آئیے میں ان کی کتاب ''حماقتیں'' سے ایک اقتباس آپ کو یاد دلاتا ہوں۔ ایک کہانی میں ان کا مشہور کردار، شیطان ایک تعویذ لاکے امجد کو دیتا ہے کہ لو اسے بازو پر باندھ لو تمہارا کام بن جائے گا اور واقعی امجد کا کام ہوگیا۔ اس پر بڈی پوچھتا ہے کہ تعویذوں میں کیا لکھا ہوتا ہے؟ اسے بتایا جاتا کہ ان میں ایک خاص ترتیب سے مقدس الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ بڈی کو تجسس ہے کہ وہ الفاظ کیا ہوتے ہیں؟ کیوں نہ تعویذ کھول کر دیکھا جائے۔ اب آگے اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
''میں بھی سوچنے لگا کہ بھلا دیکھیں تو سہی وہ کون سے الفاظ ہیں جنہوں نے جادو کی طرح اثر دکھایا ہے۔ میں نے بھی بڈی کا ساتھ دیا۔ امجد کہنے لگا کہ کھولنے سے تعویذ کی تاثیر جاتی رہے گی۔ بڈی بولا، بھئی! سچ پوچھو تو اب اس تعویذ نے اپنا کام کردیا ہے۔ اب تمہیں کسی مزید تاثیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مسز امجد سے پوچھا۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ آخر امجد بھی مان گیا۔ اس شرط پر کہ اگر کوئی گناہ ہوا تو بڈی کے سر پر ہوگا۔
بڈی نے بڑی حفاظت سے خول کھولا اور تعویذ نکالا۔ پھر آہستہ آہستہ موم جامہ کھولنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے پہنچے ہوئے بزرگوں کے نورانی چہرے، فقیروں کے مزار، سبز غلاف، پھولوں کے ہار، جلتے ہوئے چراغ، مزاروں کے گنبد اور خانقاہیں پھرنے لگیں۔ جیسے عنبر اور لوبان کی خوشبو سے سب مہک اٹھا اور پاکیزہ روحیں ہمارے گرد منڈلانے لگیں۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ماحول کچھ ایسا مقدس سا ہوگیا تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا۔ ہونٹ خشک ہوگئے۔
بڈی نے تعویذ کھولا اور پڑھنے لگا۔ میں رہ نہ سکا۔ بڈی نے بے صبری سے کاغذ چھین لیا۔ کاغذ پر شیطان کی مخصوص طرز تحریر میں یہ مصرعہ لکھا تھا:
''آیا کرو ادھر بھی میری جاں کبھی کبھی''۔
اقتباس ختم ہوا لیکن یہاں سے اسلام آباد والے پیر محمد اعجاز کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ نیوز ایجنسی کی خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے کہ صدر مملکت کے پیر محمد اعجاز نے کہا ہے صدر زرداری کے ساتھ میرا ''ٹھیکہ'' 5 سال پورے کرانے کا تھا۔ کوئی بھی ان کو 5 سال میں ایوان صدر سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پیر اعجاز نے یہ بات وزیر اعظم نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے اس وقت سفید کرتا، دھوتی اور سر پر سفید صافہ باندھا ہوا تھا۔ بڑے بڑے سیاستدان، افسران اور سفارتکار ان سے بڑے احترام سے مل رہے تھے۔ پیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ صدر زرداری میرے مشورے پر الیکشن سے قبل سمندر کے قریب رہنے گئے تھے۔ نہ جاتے تو پھر سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنتی۔
لو ! ہم کچھ اور سمجھتے تھے لیکن معاملہ کچھ اور نکلا۔ سب کہتے تھے کہ ''زرداری سب پر بھاری''۔ سب ان کی سیاسی مہارت، سوجھ بوجھ اور حیلہ سازی کے معترف تھے۔ کہا گیا کہ وہ سیاست میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اپوزیشن منہ دھو کے رکھے۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو پہلے ان کی شاگردی اختیار کرے۔ پر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ تو کہانی ہی اور تھی۔ یہ تو پیر صاحب کا کمال نکلا۔ انہوں نے دھڑلے سے پانچ سال پورے کروانے کی گارنٹی دی اور پورے کرکے دکھادیئے۔ ایسی پکی گارنٹی تو قدرت بھی آسانی سے نہیں دیتی۔
قارئین! آج جب میں کالم لکھنے بیٹھا تو خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت پر اپنی بھلی بری رائے کا اظہار کروں گا۔ اس کی زبردست قوت برداشت کی داد دوں گا۔ ناقدین نے جس شدت سے ان کے لتے لیے اور جائز وناجائز ہر قسم کی مخالفت کی، وہ برف سے تراشیدہ کسی شخص میں بھی آگ لگادے ۔ پر یہ لوگ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ تلخ سے تلخ تر بات بھی ہنس کے سن لیتے تھے۔ اس کے علاوہ اس بات کا جائزہ لینے کا ارادہ بھی تھا کہ باقی پورے ملک میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ہے پر سندھ میں اس کی کامیابی کی وجہ کیا ہے۔
کچھ مشکوک باتوں کی میں نے فہرست بنا رکھی تھی۔ انہوں نے چپکے چپکے جو سرنگیں لگائی ہیں اور دوسروں کو بھی لگانے کی اجازت دی ہے اس پر بات کرنے کا بھی ارادہ تھا۔ بلاول بھٹو زرداری جیسے میزائل کے لیے کوئی مناسب لانچنگ پیڈ تیار نہ کرنے پر اظہار افسوس بھی کرنا تھا۔ میرا خیال تھا کہ صدر زرداری جو چھکا خود نہیں مار سکے تھے اس کے لیے بلاول کو استعمال کرتے تو یہ سیاسی جنگ پنجاب میں صرف دو جماعتوں کے درمیان نہ لڑی جاتی۔ پیپلز پارٹی بھی برابر کا فریق ہوتی۔
میں ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس ملک کے بیشتر مسائل کا حل آسان حل کالاباغ ڈیم ہے جو سیاسی تنازع کی نذر ہوگیا ہے۔ جن لوگوں نے اس کے خلاف آسمان سر پہ اٹھایا ہوا تھا انہیں خیبر پختونخوا اور سندھ، دونوں ہی صوبوں میں کوئی پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ ماہرین کا خیال یہی ہے کہ اگر مناسب گارنٹی اور ڈیزائن کی تبدیلی کے بعد اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے تو آج بھی ہماری اولین ترجیح یہی ڈیم ہونا چاہیے۔ اتفاق رائے پیدا کرنے اور لوگوں کو رام کرنے کی جو صلاحیت صدر زرداری میں موجود ہے اس کا ایک زمانہ معترف ہے۔۔۔۔۔اور میں تھوڑی بے تکلفی پر اتر آؤں تو یہ بھی عرض ہے کہ ان کے پاس تو پیر محمد اعجاز کا نسخہ بھی موجود ہے۔ اس ٹھیکے کی بھی ان سے بات کرلیں۔ دراصل یہ ڈیم ہی وہ لانچنگ پیڈ ہے جس کا میں نے بلاول کے حوالے سے اوپر ذکر کیا ہے۔ ذرا سوچیے! اگر بلاول بھٹو زرداری کالا باغ ڈیم کو تعمیر کرنے کے اعلان کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کرتے تو پنجاب میں کیسی دھماکہ خیز پذیرائی ہوتی۔
واپس پیر محمد اعجاز مدظلہ کے ذکر کی طرف لوٹتا ہوں۔ الیکشن سے قبل کتنے ہی پیر، فقیر، ستارہ شناس، نجومی اور کلین شیوڈ درویش تھے جو پیش گوئیاں کر کرکے ہانپنے لگے تھے۔ انہوں نے عوام کی نام میں دم کیا ہوا تھا لیکن ان میں سے ایک بھی درست نہیں نکلا۔ بازی پیر اعجاز نے مارلی اور اپنا ٹھیکہ پورا کردکھایا۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان نجومیوں کے ساتھ ساتھ تمام تجزیہ کار بھی غلط ثابت ہوگئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے ہارنے کی وجوہات وہ نہیں ہیں جو انہوں نے بتائی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پیر صاحب کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تھا۔
دنیاداروں کے راستے اور ہیں۔ حیلے بھی اور، بہانے بھی اور، وسیلے بھی اور۔۔۔۔۔لیکن قدرت کے فیصلے اپنے ہیں۔ کب، کہاں اور کیسے؟ یہ سب قدرت کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔''میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے ربّ کی، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والوں کے شر سے''۔۔۔۔۔حقیقت یہی ہے کہ تقدیر کے سارے ٹھیکے، سب گارنٹیاں قدرت کے ہاتھ میں ہیں۔ اختیار بھی اس کا اور کام بھی اس کا۔ باقی سب تماشا ہے۔ اور یہ تماشا تو شفیق الرحمن کی کہانی والے اس تعویذ نے بھی کردکھایا تھا جسے بڈی نے کھول کے دیکھا تھا۔