شام کا سنگین بحران

شام کے شمالی شہر قصائر پر دوبارہ سرکاری فوج کے قبضہ کے بعد اب باغیوں کے دیگر ٹھکانوں کو خالی کرانے کے لیے۔۔۔


Editorial June 08, 2013
لبنان میں حزب اللہ تحریک کے ٹی وی چینل ’’المنار‘‘ نے بھی ضابہ کا قبضہ شامی فوج کو واپس مل جانے کی خبر دی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے لبنانی دارالحکومت بیروت سے اطلاع دی ہے کہ شام کے شمالی شہر قصائر پر دوبارہ سرکاری فوج کے قبضہ کے بعد اب باغیوں کے دیگر ٹھکانوں کو خالی کرانے کے لیے مسلح کارروائی جاری ہے۔ واضح رہے قصائر شہر پر مزاحمت کاروں کا قبضہ تقریباً پورا ایک سال جاری رہا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صدر بشار الاسد شمالی صوبے الیپو کی طرف اپنی فوج کی مزید کمک بھجوا رہے ہیں جہاں پر اب بھی بڑے علاقے پر باغیوں کا قبضہ ہے جو گزشتہ کئی مہینے سے برقرار ہے۔ لبنانی سرحد کے قریب قصائر شہر کے نواحی گاؤں ضابہ میں اگلے روز سرکاری فوج اور باغیوں یمں زبردست لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ شام کے اندر ہونے والی کارروائیوں پر لندن میں قائم شامی باغیوں کا ایک گروپ بھی خصوصی نظر رکھے ہوئے ہے جب کہ امریکی اور مغربی ممالک بھی خانہ جنگی کے شکار اس ملک کو اپنی جولان گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ گاؤں ضابہ کے حوالے سے شام کے سرکاری میڈیا کا دعویٰ ہے اس پر اب فوج کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ تحریک کے ٹی وی چینل ''المنار'' نے بھی ضابہ کا قبضہ شامی فوج کو واپس مل جانے کی خبر دی ہے۔ مختلف ذرایع سے ملنے والی خبروں میں متعدد باغیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری فوجیں اب مرکزی شہر حمص پر چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہی ہیں جہاں باغیوں کی کافی تعداد جمع ہو چکی ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب بھی باغیوں کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔ شامی فوج یہاں بھی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ واضح رہے مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی اس خانہ جنگی میں 94000 سے زائد شامی ہلاکت کا شکار ہو چکے ہیں جب کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 60 لاکھ سے متجاوز ہے۔ دریں اثناء برطانوی اخبار گارجین نے اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا ہے کہ شام کے لیے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اس کے کسی مناسب حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

شام کی خانہ جنگی بند کرانے کے لیے جنیوا میں عالمی طاقتوں نے ایک اجلاس منقعد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ عالمی کانفرنس اس خانہ جنگی کو بند کرا سکے گی؟ گارجین کے مطابق شام سے بھاگ کر اس کے پڑوسی ملکوں یعنی ترکی' اردن یا لبنان میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے ، ان پناہ گزینوں نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمیشن میں اپنے ناموں کا اندراج بھی کرا دیا ہے جب کہ مزید لاکھوں افراد اندراج کرانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس صورتحال سے شام کے بحران کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شام کا شمار مشرق وسطیٰ کے خاصے پرامن ممالک میں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے عرب بہار کے عنوان سے مشرق وسطیٰ میں جس تبدیلی کا آغاز ہوا اس کے اثرات شام میں بھی پہنچے اور یہاں بھی مظاہرے شروع ہو گئے۔

جو بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے۔ یہ وہی طریقۂ کار تھا جو لیبیا میں اپنایا گیا۔ اس خانہ جنگی میں لیبیا کے سربراہ معمر القذافی مارے گئے۔ وہاں تو معاملہ باغیوں کی فتح پر ختم ہو گیا لیکن شام میں بشار الاسد کی حکومت نے شدید مزاحمت کی۔ ان کی حمایت میں روس اور ایران بھی سامنے آئے۔ یوں یہ بحران سنگین سے سنگین ہوتا چلا گیا اور فریقین میں سے کوئی بھی مکمل فتح حاصل نہ کر سکا۔ اس بحران کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اسرائیل اور شام کے درمیان تنازعات موجود ہیں لیکن اب شام خاصا کمزور ہو گیا ہے اور وہ اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے سب سے زیادہ متحرک کردار عرب لیگ اور عالم اسلام کو کرنا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے عالم اسلام اس بحران کا حل نہیں نکال سکاجب کہ امریکا ، یورپ، روس اور چین وغیرہ اس خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں ، اس رسہ کشی میں نقصان شام کے عوام کا ہورہا ہے۔ اب بھی عالم اسلام کو شام کا بحران حل کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تاکہ شام کے عوام کے مسائل ختم ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں