نفس کے عجائب
خالص نفسیاتی نقطہ نظر سے ہمزاد کا وجود صرف اتنا ہے کہ بعض اوقات جذباتی دبائو اور لاشعور (دل و دماغ) کی...
خالص نفسیاتی نقطہ نظر سے ہمزاد کا وجود صرف اتنا ہے کہ بعض اوقات جذباتی دبائو اور لاشعور (دل و دماغ) کی کشمکش کے سبب، انسان کی مرکزی شخصیت کا ایک حصہ مرکز سے باغی ہو کر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس افتراق شخصیت (ذہنی بٹوارے) کو نفسیات کی اصطلاح میں Schizophrenia کہتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ''شیزوفرینا'' کا مریض دو حصوں میں بٹ کر رہ جاتا ہے۔ شخصیت کا عقلی حصہ اور شخصیت کا جذباتی حصہ۔ بنیادی طور پر ان دونوں حصوں کا وجود ذہنی صحت مندی اور دماغی ترقی کے لیے مفید ہے۔ کیونکہ شخصیت کے ان دو حصوں کے ٹکرائو سے ہی انسانی شعور کو پختگی نصیب ہوتی ہے۔
انسانی شخصیت کا عقلی حصہ یعنی اس کا شعور، لاشعوری خواہشوں کے طوفان اور ہیجانوں پر غالب آنے کی کوشش میں مزید استحکام حاصل کرتا ہے۔ اس طرح نظر میں وسعت، فکر میں گہرائی اور ذہن میں بلوغ پیدا ہوتا ہے۔ اگر عقل و جذبات، دل و دماغ اور شعور کے اس تصادم کو ختم کر دیا جائے تو آدمی مشین بن کر رہ جائے، اس کی تمام تخلیقی صلاحیتیں ٹھٹھر جائیں، وہ حیوانی سطح کی طرف لوٹ جائے۔ قدیم علم النفس (جسے ہمارے حکماء اور دانشور حضرات ''علم الاخلاق'' بھی کہتے ہیں) میں، نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ناطقہ اور نفس مطمنۂ کا ذکر کیا گیا ہے۔ نفس امارہ، سر بہ سر حیوانی جبلتوں پر مشتمل ہے۔ اس کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے یعنی لذت کا حصول۔ اشتہا اور شہوت نفس امارہ کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
معدے کی بھوک ہو یا جنس کی بھوک، دونوں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح نفس امارہ زندگی کو قائم و برقرار رکھنے کی جدوجہد سے شہوت و اشتہا کی تکمیل کے ذریعے اہم حصہ لیتا ہے۔ جب تک نفس امارہ کی مانگ (لذت طلبی) اعتدال کی حد میں رہتی ہے، زندگی کو کوئی گزند نہیں پہنچتا، جب لذت طلبی یعنی معدے اور جنس کی خواہشیں حد سے گزر کر جسم و جان کے لیے خطرہ بننے لگتی ہیں تو ''نفس لوامہ'' حرکت میں آکر نفس امارہ کو اس کی لذت کوشیوں اور عشرت طلبیوں پر ملامت کرنے لگتا ہے۔ نفس لوامہ کہتے ہیں، ملامت کرنے والے اور روک ٹوک کرنے والے نفس کو...! ضمیر درحقیقت نفس لوامہ ہی کا ایک مظہر اور نمایندہ ہے۔ نفس لوامہ (ضمیر) نفس ناطقہ سے رونمائی حاصل کرتا ہے۔
نفس ناطقہ عقل و حکمت سے آراستہ ہے، یہ خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی یہ کام مفید ہے اور وہ مضر ہے، زندگی کا یہ رخ روشن ہے اور وہ تاریک، مزید برآں خیر و شر میں امتیاز کرنے اور نیکی بدی کو پرکھنے کی دلیلیں بھی نفس ناطقہ ہی فراہم کرتا ہے۔ نفس امارہ کی ناہنجاریوں کے خلاف نفس لوامہ کا ردعمل جتنا تیز اور شدید ہوگا، نفس ناطقہ کو اتنی ہی تقویت حاصل ہوگی۔ نفس امارہ ہر قیمت پر حیوانی تقاضوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ اگر زہر بھی لذیذ ہو تو وہ پی لے گا۔ نفس لوامہ ان مضرات رساں خواہش کے خلاف نکتہ چینی، ملامت اور روک ٹوک کی مہم جاری رکھتا ہے اور نفس ناطقہ عقل و حکمت کی روشنی میں نفس امارہ کی سرگرمیوں کی حدیں اور پیمانے مقرر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک شخص بے تحاشا عیاشی کرتا ہے، بے تحاشا عیاشی جسم و جان یعنی تندرستی اور من درستی کے لیے نقصان رساں ہے۔ نفس امارہ کو اپنی عیش کوشیوں اور سرمستیوں میں ان نقصانات کی پرواہ نہیں۔ لیکن نفس ناطقہ کی گرفت مضبوط ہے اور نفس لوامہ کی ملامت شدید! ظاہر ہے کہ ان حالات میں روک ٹوک کے سامنے نفس امارہ من مانی نہیں کرسکتا۔
نفس ناطقہ کی حقیقت اس شہسوار کی سی ہے جو سرکش گھوڑے پر نشست کرنے کے باوجود سواری پر گرفت مضبوط رکھنے اور جانور کو بے قابو نہ ہونے دے۔ جب نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس ناطقہ کے عمل میں توازن پیدا ہوجاتا ہے، یعنی انسان اپنی جبلی خواہشات میں اعتدال کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے تو ''نفس مطمئنہ'' وجود میں آتا ہے یعنی سکون قلب اور نشاط خاطر کی کیفیت! سکون قلب و نشاط خاطر اور اطمینان نفس کے لیے ضروری ہے کہ نفس امارہ کی خواہش صرف اسی حد تک پوری کی جائیں کہ زندگی گزند سے محفوظ رہ کر ترقی کرسکے۔ امارہ، لوامہ، ناطقہ اور مطمئنہ یہ سب انسانی انا کی مختلف شاخیں ہیں۔ انسانی انا (یعنی میں، میں ہوں) کیا ہے؟ اس گتھی کو اب تک کسی نے نہیں سلجھایا۔
نہیں معلوم کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا
گفتگو شروع ہوئی تھی افتراق شخصیت یعنی ذہنی بٹوارے سے اور سلسلہ گفتگو پھیلتے پھیلتے نفس امارہ سے نفس مطمئنہ تک دراز ہوگیا۔ خیر یہ بھی اچھا ہوا، نفس کے حالات مظاہر اور اس کے مختلف پہلوئوں پر جتنی بار گفتگو کی جائے مفید ہی ثابت ہوگی۔ عرض کرنا یہ ہے کہ جب انا سے اس کا ایک حصہ باغی اور سرکش ہوکر آزادی اور خودمختاری کا اعلان کردیتا ہے گویا اصل شخصیت کے درخت میں سے ایک نیا شخصی ٹہنا پھوٹ آتا ہے۔ نفسیات کی روشنی میں اس نئے شخصی ٹہنے کو ''ہمزاد'' کہتے ہیں۔ نفسیات نے ہمزاد کی جو تعریف کی ہے وہ ''سپر نارمل ازم'' (خارق العادات) کے طلبا کو مطمئن نہیں کرسکتی۔ سپر نارمل ازم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمزاد، انسانی شخصیت کا کوئی کٹا ہوا خودمختار حصہ نہیں، بلکہ ایک الگ مستقل وجود ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ سانس کی مشق کرنے والے بعض حضرات کو بھی کبھی ڈوب جانے کی حالت میں ''ہمزاد'' کی جھلک نظر آجاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذہنی بناوٹ، دماغی ساخت اور اندرونی صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اس راہ میں ہر شخص کا تجربہ الگ ہوتا ہے۔ روح کی حقیقت سے ہم لوگ اب تک بے خبر ہیں۔ اغلب یہ ہے کہ جب تک انسانی وجود پر جسم کا غلاف چڑھا ہوا ہے، روح کے رمز اور روحانیت کے اسرار نگاہوں سے اوجھل رہیں گے۔ البتہ نفس مطمئنہ کی حیثیت، نوعیت اور حالت علم میں آسکتی ہے۔ نفس مطمئنہ نفس انسانی کا سب سے افضل اور اعلیٰ حصہ ہے۔ جب نفس امارہ کی سرگرمیوں پر نفس ناطقہ پوری طرح غالب آجاتا ہے اور منفی جذبات و جبلت کی آندھیوں میں عقل کا چراغ بھرپور روشنی دینے لگتا ہے تو نفس پر اطمینان و سکون کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، دل کے دریچے روحانی دنیا کی طرف کھل جاتے ہیں۔
سانس کی مشقیں اس کیفیت کو بروئے کار لانے کے سلسلے میں بے حد معین اور مفید ہیں۔ کالم کے آخر میں قارئین کرام اور چاہنے والوں سے کچھ اپنے بارے میں! میرے کالموں کی ساخت سے آپ نے میرے بارے میں جو خاکہ تیار کیا ہے وہ چنداں درست نہیں۔ سب سے پہلے تو اقرار کروں گا کہ میں کوئی عامل کامل یا روحانی علوم کا ماہر نہیں بلکہ نفسیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں، ہاں پیراسائیکالوجی اور مائنڈ سائنسز کے حوالے سے مطالعے کا شیدا اور اساتذہ کے زیر سایہ رہا ہوں اور کالموں میں پیش کی جانے والی مشقیں خود آزما چکا ہوں۔ آپ کی بے پناہ محبتوں کا شکریہ لیکن گزارش ہے کہ اپنے ای میلز اور خطوط میں مجھ گناہگار انسان کے لیے پیرومرشد قسم کے القابات کا استعمال نہ کریں۔